متفرق مضامین

خلفائے راشدین کی اطاعت و ادب کی قابل تقلید مثالیں (قسط اوّل)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

مالک ارض و سماء نے اس کائنات میں آدم علیہ السلام سے جس انسانی مخلوق کی بنیاد رکھی اُس میں جس انسان کو ازلی ابدی طور پر سید ِوُلد آدم کا دائمی مقام و مرتبہ نصیب ہوا ،وہ حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی ذات اقدس ہے۔

اوّل تا آخر کُل مخلوق میں وہ ایک ہی ہے جو اپنے خالق کا عبد کامل بھی تھا ۔امام المتقین ، امام الشافعین اور خاتم النبیین بھی۔ دین اسلام کی روشنی ا ُسی سراج منیر کے دم سے ہے۔ اور اُس انسان کامل کی قوتِ قدسی نے ابو بکرؓو عمر ؓاور عثمانؓ و علیؓ جیسے روشن ستاروں سے اِس دین کی مانگ میں چراغ بھرے۔

وہ نبی اکرم جو کُل جہاں کا معلم، مربی اور مزکی تھا اس نے اپنی عدیم النظیر تعلیم و تربیت سے اپنے دست پروردگان کی صلاحیتوں کو ایسی جِلا بخشی ، جس سے وہ شرفِ انسانیت کے پیکر بن گئے۔

احکم الحاکمین سےرَضِیَ اللّٰهُ عَنۡهُمْ کا اوراصدق الصادقین سے اس فانی دنیا میں

عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ

والی جنت کی خوشخبری پانے والے وجود،محبوب رسول یار غارحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ،شاہکار رسالت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، صاحب الحلم والحیاء ذو النورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابو تراب حضرت علی اسد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ان مقدس و مطہر وجودوں نے اتباع رسول میں اتنا کمال حاصل کیا ، اور اپنی رضا کو رضائے یار کے اس طرح تابع کیا کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر ملنا ناممکنات میں سےہے۔ رسول خدا ﷺ کی محبت اوراطاعت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والے اور درِیار پر سب کچھ نثار کرنے والے ان جاںنثاروں کو رب العرش نے اس طرح نوازا کہ ایک کے بعد دوسرااَپنے آقا و مولا کا روحانی جانشین بنا ، اور خلافت محمدی ﷺ کے عُلو اور عالی مرتبے پر فائز ہو کر تا ابد امر ہو گیا۔

اس مختصر مضمون میں ان چاروں عالی مرتبت اصحاب رسولﷺ کی اطاعت و ادب کی چند مثالیں پیش کرنا مقصود ہے، تاکہ آخرین کی یہ جماعت جو چودہ سو سال بعد پھر خلافت کی نعمت سے سرفراز ہے یہ پاک اُسوہ ہمارے لیے ازدیاد ایمان کا باعث بنے،اور ہم اپنی عملی زندگی میں ان راہوں پر کاربند ہو سکیں۔

پہلے ایک نظر اس لفظ پر کہ ’’اطاعت‘‘ہے کیا؟

امام راغب اصفہانی اپنی مشہور زمانہ کتاب المفردات میں بیان کرتے ہیں:

’’ اَلطَّوْعُ کے معنی بطیب خاطر تابعدار ہو جانا کے ہیں۔ عام طور پر طَاعَةٌ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے

وَيَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ (4۔82)

اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں۔

طَاعَ لَهُ،يَطُوْعُ وَاَطَاعَهُ یُطِیْعُهُ:

کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے :

وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ(60:4)

اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو۔

وَمَن يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ (4۔81)

جواِس رسول کی پیروی کرے تو اُس نے اللہ کی پیروی کی۔

(مفردات القرآن۔ از امام راغب اصفہانی ؒ،زیر لفظ:ط وع)

اردو کی سب سےضخیم لغت ’’اردو لغت تاریخی اصول پر‘‘ میں اس لفظ کا مطلب یوں بیان ہوا ہے:

’’اطاعَت‘‘تعمیل حکم، فرماں برداری ، کسی کی سربراہی کا اقرار، محکومی،خدائے تعالیٰ کی عبادات ، پرستش ، خدا کی بندگی۔تابع دار ، فرمانبرداری۔ گرویدگی۔

معروف آن لائن لغت ’’المعانی‘‘میں لکھا ہے:

’’طاعت: نیاز مندی، فرمانبرداری،تابع ہونا۔

طَاعَت : كلمة أصلها الفعل (طَاعَ) في صيغة الماضي المعلوم منسوب لضمير المفرد المؤنث (هي) وجذره (طوع) وجذعه (طاع) وتحليلها (طاع + ت)

طَاوَعَهُ فيه وعلَيه مُطاوِعَةً وطَوَاعِيَةً

(فعل) کسی بات میں کسی کا ہم نوا ہونا، ساتھ دینا، کسی شے کا دوسری کے موافق ہونا، اثر قبول کرنا، ( غیر ذوی العقول کے لیے بمنزلہ اطاعت )

طَاعَ فُلانٌ طَوْعًا

(فعل) تابعدار ہونا، فرماں بردار ہونا، اشارہ پر چلنا ۔

https://www.almaany.com/ur/dict/ar-ur/%D8%B7%D8%A7%D8%B9%D8%AA

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حسب ونسب میں قریش کے بہترین شخص ،صفات حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کے پیکر ،نرم خُو،دانش و تدبر کا مرقع، مسلّمہ طور پر مقدم اور سابق بالایمان’’عبد اللہ ‘‘ نامی شخص جب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی اطاعت میں آئے تو ’’صدیق اکبر‘‘ کہلائے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قابل رشک زندگی کے چند واقعات درج ذیل ہیں۔

قبول اسلام

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا حقیقی اور عملی ثبوت آپ کا حلقہ بگوش اسلام ہونا ہے۔ آقا دو جہاں ﷺ کے یہ الفاظ تا ابد آپؓ کی اس عظمت کے گواہ رہیں گے:

’’میں نے جس کسی کو اسلام کی طرف بلایا ، اس نے کچھ نہ کچھ تردد اور ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ،سوائے ابو بکر بن ابی قحافہ کے۔ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تامل کے فورا ًمیری آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا۔‘‘

(الصدیق ابو بکر از محمد حسین ہیکل ، اردو ترجمہ شیخ احمد پانی پتی۔ صفحہ44۔ناشراسلامی کتب خانہ لاہور)

دعا سکھانے کی درخواست

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے محبوبﷺ سے ایک بار خود یہ عرض کی کہ مجھے کوئی خاص دعا سکھائیں،جسے مانگنے پر میں دوام اختیار کروں ۔ امام بخاریؒ نے اس واقعہ کو یوں درج کیا ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو

’’اللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيْمُ‘‘

اے اللہ! میں نے اپنی جان پر (گناہ کر کے) بہت زیادہ ظلم کیا پس گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھرپور مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحم کر کہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا بیشک وشبہ تو ہی ہے۔

(صحيح البخاري،أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ، بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ۔ حدیث نمبر: 834)

مالی قربانی

غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مالی قربانی رہتی دنیا تک ہر مسلمان کے لیے ایک سنہری قابل تقلید مثال کے طور پر زندہ و تابندہ رہے گی۔ نیز یہ واقعہ پاک سیرت اور پاک صورت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پاکیزہ باہمی مسابقت فی الخیرات کی انتہائی روشن مثال ہے۔

حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ایک دن ہمیں رسول ﷺ نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی، میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جا سکوں گا تو آج کا دن ہو گا، چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟‘‘، میں نے کہا: اسی قدر یعنی آدھا مال، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ’’اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟‘‘، انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں تب میں نے دل میں کہا: میں آپ سے کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں بڑھ سکوں گا۔

(سنن ابي داؤد،كِتَاب الزَّكَاةِ،باب فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ۔حدیث نمبر 1678)

ادب رسولﷺ

سیدنا صدیق اکبر ؓکو رسول خدا ﷺ سے کس قدر محبت و عقیدت تھی ، اور آپ کے مقام و مرتبے کا کس قدر احسا س تھا اس کاروح پرور نظارہ درج ذیل روایات میں ملتا ہے۔

حدیبیہ کے مقام پر قبیلہ ثقیف کا ایک بااثر رئیس عروہ بن مسعود سفارت کاری کے لیے دربار نبوی ﷺ میں حاضر ہوا۔ دوران گفتگو اس نے انتہائی جسارت کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ’’ اے محمد ﷺ اگر جنگ ہوئی اور قریش کو غلبہ ہو گیا تو خدا کی قسم مجھے آپ کے اردگرد ایسے منہ نظر آرہے ہیںکہ انہیں بھاگتے ہوئے دیر نہیں لگے گی اور یہ سب لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔‘‘حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پاس ہی بیٹھے تھے یہ الفاظ سن کر غصے سے بھر گئے اور فرمانے لگے:’’جاؤ جاؤ اور لات کی شرمگاہ کو چومتے پھرو۔کیا ہم خدا کے رسول ﷺ کو چھوڑ جائیں گے۔‘‘عروہ نے طیش میں آکر پوچھا یہ کون شخص ہے جو اس طرح میری بات کاٹتا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ ابو بکر ہیں۔ ابو بکر کا نام سن کر عروہ کی آنکھیں شرم سے نیچی ہو گئیں۔

(سیرت خاتم النّبیّینﷺ،صفحہ 756تا757،ایڈیشن 2004ء)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو (شدت گریہ کی وجہ سے) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ ﷺ کے پاؤں زمین پرگھسٹ رہے تھے، اس طرح چل کر آپﷺ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ ﷺ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ سے روکا ،پھر نبی کریم ﷺ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی اقتداکر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا۔

(صحيح البخاري،كِتَاب الْأَذَانِ،بَابُ الرَّجُلُ يَأْتَمُّ بِالإِمَامِ وَيَأْتَمُّ النَّاسُ بِالْمَأْمُومِ۔حدیث نمبر: 713)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پیر کے دن مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک نبی کریم ﷺ نظر آئے۔ آپ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کا پردہ اٹھا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ رہے تھے۔ صحابہ رضی للہ عنہم نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ دیکھ کر ہنس پڑے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تاکہ صف میں آجائیں۔ آپ نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، قریب تھا کہ مسلمان اس خوشی کی وجہ سے جو نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر انہیں ہوئی اپنی نماز ہی توڑ دیتے، لیکن آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو، پھر آپ حجرہ کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ ڈال لیا۔

(صحيح البخاري،كِتَاب الْمَغَازِي، بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ۔حدیث نمبر: 4448)

کبھی سوال نہ کرنا

مسند احمدبن حنبل کی درج ذیل روایت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کامل اطاعت کی واضح جھلک موجود ہے:

حضرت ابن ابی ملکیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعض اوقات اونٹنی پر سوار ہوتے اور اگر اونٹنی کی لگام ہاتھ سے چھوٹ کر گرجاتی ،تو آپ اپنی اونٹنی کی اگلی ٹانگ پر ہاتھ مارتے۔ وہ بیٹھ جاتی تو آپ خود نیچے اتر کر اپنے ہاتھ سے لگام اٹھا لیتے۔ ہم عرض کرتے کہ آپ ہمیں کیوں نہیں حکم دیتے کہ ہم آپ کو پکڑادیں۔ فرماتے میرے محبوبﷺ نے مجھے اس بات کا حکم دیا تھا کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔

(مُسند امام احمد بن حنبل ،مُسند ابی بکرالصّدیق۔حدیث نمبر 65)

صدیق اکبر کاآہنی عزم

رسول خدا ﷺ رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہونے سے پہلے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر کی روانگی کا حکم صادر فرما چکے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد تمام عرب میں خواہ کوئی عام آدمی تھا یا خاص تقریباً ہر قبیلے میں فتنۂ ارتداد پھیل چکا تھا اور ان میں نفاق ظاہر ہو گیا تھا۔ اس وقت یہود و نصاریٰ نے اپنی آنکھیں پھیلائیں اور بڑے خوش تھے کہ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے اور بدلے لینے کی تیاریاں بھی کر رہے تھے اور نبی کریم ﷺ کی وفات اور مسلمانوں کی کمی تعداد کے باعث ان مسلمانوں کی حالت ایک طوفانی رات میں بکرے کی مانند تھی۔ ان مشکل حالات میں بڑے بڑے صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر فی الحال لشکر اسامہ کی روانگی متاخر کر دیں۔ آہنی عزم کے مالک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابو قحافہ کا پہلا حکم محمد رسول اللہ ﷺ کے آخری حکم کے خلاف ہو ۔ اور فرمایا کہ اگر درندے مجھے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں اس لشکر کو رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق بھجوا کر رہوں گا اور میں رسول اللہ ﷺ کا جاری فرمودہ فیصلہ نافذ کر کے رہوں گا۔ اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی نہ رہے تو بھی میں اس فیصلے کو نافذ کروں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو پہلے اسامہ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہﷺ نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا وہ ہرگز پیچھے نہ رہے اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا۔ اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا۔ بہرحال لشکر ایک بار پھر تیار ہو گیا۔ بعض صحابہ نے حالات کی نزاکت کے باعث پھر مشورہ دیا کہ فی الحال اس لشکر کو روک لیا جائے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپؓ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر ان سے کہیں کہ وہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کر دیں تا کہ ہم مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہوں اور خلیفۂ رسول اور حرم رسول اور مسلمانوں کو مشرکین کے حملے سے محفوظ رکھیں۔ اس کے علاوہ بعض انصار صحابہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ خلیفہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر اگر لشکر کو روانہ کرنے پر ہی مصر ہیں اگر یہی اصرار ہے تو ان سے یہ درخواست کریں کہ وہ کسی ایسے شخص کو لشکر کا سردار مقرر کر دیں جو عمر میں اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑا ہو۔حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کی یہ رائے لے کر حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی بھرپور عزم کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اگر جنگل کے درندے مدینہ میں داخل ہو کر مجھے اٹھا لے جائیں تو بھی وہ کام کرنے سے باز نہیں آؤں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض انصار کا پیغام دیا تو وہ سنتے ہی حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلال سے فرمایا کہ اسامہ کو رسول اللہ ﷺ نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں اسے اس عہدے سےہٹا دوں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حتمی فیصلہ سننے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غیر متزلزل عزم کو دیکھنے کے بعد حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر والوں کے پاس پہنچے۔جب لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے غصہ سے کہا کہ میرے پاس سے فوراً چلے جاؤ۔ محض تم لوگوں کی وجہ سے مجھے آج خلیفۂ رسول ﷺسے ڈانٹ کھانی پڑی ہے۔

(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 145 تا 147 سریہ اسامہ بن زید مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

نظام کی اطاعت

منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نظام کی اطاعت اور اس کے نفاذ کی فقید المثال روایت قائم فرمائی:

’’حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کی روانگی کے وقت حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نےسنت رسول ﷺ کے مطابق حضرت اسامہ کو بعض ہدایات فرمائیں۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار تھے اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درخواست کی کہ آپ سوار ہوں وگرنہ مَیں بھی سواری سے اتر جاؤں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ تم نہ اترو اور اللہ کی قسم ! مَیں سوار نہیں ہوں گا۔ فرمایا: ’’ مجھے کیا ہوا ہے کہ مَیں اپنے پاؤں کو کچھ دیر اللہ کے راستے میں غبار آلود نہ کروں کیونکہ غازی کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتا ہے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ سات سو درجات بلند ہوتے ہیں اور اس کی سات سو خطائیں معاف کی جاتی ہیں۔‘‘ ہدایات دینے کے بعد حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : اگر تم مناسب سمجھو تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرےپاس رہنے دو۔ یعنی حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس روکنے کی اجازت چاہی، کیونکہ آنحضرت ﷺ نےحضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لشکر میں شامل فرمایا تھا۔ تو حضرت اسامہ نے آپ کو اس کی اجازت دے دی۔‘‘

(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 246 ، ذکر أول أمر أبی بکر فی خلافتہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

’کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی‘

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ محمد عربی ﷺ کے روحانی جانشین اور خلیفہ ہوئے، اور یہ منصب آپ کو اس قدر عزیز تھا کہ ایک بار کسی نے آپ کو ’’یا خلیفة الله‘‘کہہ کر پکارا، تو آپ نے فرمایا :’’میں خلیفۃ اللہ نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کا خلیفہ ہوں ، اور اسی درجے پر راضی ہوں۔‘‘

(مُسند امام احمد بن حنبل ،مُسند ابی بکرالصّدیق۔حدیث نمبر 59)

جمع قرآن کا مشورہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور خلافت میں جنگِ یمامہ میں ستّر حفاظِ قرآن شہید ہوئے تو اس تکلیف دہ موقع پر حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عمر! مَیں ایسی بات کیسے کروں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی؟ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم !آپؓ کا یہ کام اچھا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے اس کے لیےآ پؓ کا سینہ کھول دیا اور آپ نے بھی وہی مناسب سمجھا جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مناسب سمجھا۔ پھر آپؓ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ قرآن جہاں جہاں ہوتلاش کرو اور اس کو لے کر ایک جگہ جمع کر دو۔پھر روایت ہے کہ وہ ورق جس پر قرآن مجید جمع کیا گیا تھا وہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی۔ پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کو وفات دے دی۔ پھر حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ عنہاکے پاس رہے۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنے دَور خلافت میں ان سے لے لیے۔

(صحیح البخاری کتاب التفسیرباب قولہ لقد جاء کم رسول من انفسکم حدیث4679)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

توانا جسم،اعلیٰ علمی اور فنی صلاحیتوں سے مرصع،ماہر شہسوار،ماہر شمشیر زن، جرأت اور بے باکی کی علامت، دریائے محبت کے غریق ، سرہنگ اہل ایمان سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آغوش رسالت میں آئے تو ’’فاروق‘‘کہلائے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پرشوکت زندگی کے چند واقعات درج ذیل ہیں۔

عمر کی نظر میں آقا کا مقام

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس طرح اپنے آقا کی محبت میں فنا ہوئے ، اور کس طرح آپ کے آقا نے آپ کے اخلاص کی قدردانی فرمائی اس کا نمونہ درج ذیل روایت میں موجود ہے۔

حضرت عبداللہ بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریمؐ کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپؐ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ حضرت عمرنے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان والنذور باب کیف کانت یمین النبیﷺ۔ حدیث 6632)

اسلام کا پہلا وقف

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اطاعت کا ایک نادر نمونہ اس تاریخی روایت میں موجود ہے کہ کس طرح آپ اپنی پسندیدہ چیز درِیار پر قربان کرنے کے لیے حاضر ہوئے، اور دربار نبوی سے جو ارشاد صادر ہوا اُس کی تعمیل کر کے اسلام میں وقف جائیداد کی بنیاد رکھی۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مشورہ کےلیے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے ، میرے نزدیک اس سے بہتر مجھے کوئی جائیداد نہیں ملی۔ آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم چاہوتو اُسے اِس طرح وقف کر دو کہ اصل محفوظ رہے، اور اُس کی آمد اور پیداوار بطور صدقہ غرباء پر خرچ ہو ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کر دیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ کسی کو ہبہ کی جائے ،نہ ورثہ میں تقسیم کی جائے۔اسے آپ نے محتاجوں ، رشتہ داروں ، غلام آزاد کرانے، اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت اور مہمانوں کےلیے صدقہ (وقف) کر دیا ۔اور جو زمین کا نگران ہو وہ اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق وصول کر لے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں، مگر وہ مال جمع کرنے والا نہ ہو۔

(صحيح البخاري۔ كِتَاب الشُّرُوطِ۔ بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْوَقْفِ۔حدیث نمبر:2737)

ہر حال میں کامل اطاعت

بدر کے میدان میں حق و باطل کے پہلے معرکے کے بعد جنگی قیدیوں کے حوالے سے رسول رحمت ﷺ کا اپنے اصحاب سے مشورہ لینا اور حضرت عمرؓ کے مشورے کے بر عکس فیصلہ فرمانا ،اور حضرت عمر ؓکا صدق دل سے اطاعت رسولؐ کا دم بھرناآپ کی سعادت مندی کی نشانی ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان فرماتے ہیں:

’’مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کو انہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں مگر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کا کوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اور یہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہو چکے ہیں۔ پس میری رائے میں ان سب کو قتل کر دینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کو قتل کریں۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا اور قتل کے خلاف فیصلہ کیا اور حکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کر دیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ﷺصفحہ367تا368،ایڈیشن 2004ء)

اسی طرح غزوہ احد کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں بھی حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم رسول کی حقیقی اطاعت کی مثال قائم کی۔ سیرت کی کتب نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:

’’جب رسول اللہ ﷺ غزوۂ احد کے بعد مدینہ پہنچےتو منافقین اور یہود خوشیاں منانے لگے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے کہ محمد ﷺبادشاہت کے طلبگار ہیں اور آج تک کسی نبی نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا انہوں نے اٹھایا۔ خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے اصحاب بھی زخمی ہوئے۔ اور یہ کہتے تھے کہ اگر تمہارے وہ لوگ جو قتل ہوئے ہمارے ساتھ رہتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ان منافقین کے قتل کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’کیا وہ اس شہادت کا اظہار نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں‘‘۔ اس پر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، کیوں نہیں۔ یہ تو کہتے ہیں، مگر تلوار کے خوف سے اور ساتھ منافقانہ باتیں بھی کر رہے ہیں۔اب جب ان کے دل کی باتیں نکل گئی ہیں اور اللہ نے ان کے کینوں کو ظاہر کر دیا ہے تو پھر ان کو سزا دینی چاہیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اُس کے قتل سے منع کیا گیا ہے جو اس شہادت کا اظہار کرے۔اس ارشاد کے بعد آپ نے کامل اطاعت اور ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فیصلہ کو قبول کیا۔‘‘

(السیرة الحلبیة باب ذکر مغازیہ غزوہ احد،جلد2صفحہ348دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2002ء)

سرکارِدوجہاںﷺ کی دُوررَس نگاہ

تاریخ اسلام ایسے بے شمارخوبصورت واقعات سے مزین ہے جو النَّبِيّ الْأُمِّي حضرت محمد ﷺ کی دوربین نگاہ، اپنے جاںنثاروں کو بر موقع نصائح،پھر ان کی والہانہ اطاعت اور اس کے مثبت نتائج ظاہر کرتے ہیں۔

حضرت جابر بن عبدا للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ (بنومصطلق)میں تھے کہ مہاجروں میں سے کسی آدمی نے انصار کے کسی آدمی کی پیٹھ پر مارا۔ انصاری نے کہا اے انصار! اور مہاجر نے کہا اے مہاجرو! یعنی دونوں نے مدد کے لیے اپنے اپنے لوگوں کو بلایا۔آنحضرت ﷺ تک یہ معاملہ پہنچا اور جب آپؐ نے یہ شور سنا تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جاہلیت کی آوازیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! مہاجروں میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کی پیٹھ پر مارا ہے۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا اس بات کو چھوڑ دو۔ یہ گندی بات ہے۔ جب عبداللہ بن اُبی نے یہ سنا، تو اس نے کہا کہ یہاں تو انہوں نے ایسا کر لیا کہ ایک مہاجر نے انصار کی کمر پر مارا ، لیکن اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ کی طرف لَوٹے تو ضرور معزز ترین شخص (نعوذ باللہ) ذلیل ترین شخص کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔یہ جسارت دیکھ کر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! مجھے اجازت دیجیے کہ مَیں اس منافق کی گردن مار دوں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ جانے دو۔ لوگ یہ باتیں نہ کرنے لگیں کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔

(صحیح مسلم، كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ ، باب نَصْرِ الأَخِ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا ۔حدیث نمبر: 6583)

پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول خود اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں بےعزت ہونے لگا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کے حالات کا علم ہوا تو آپ ﷺنے حضرت عمر بن خطابؓ سے فرمایا کہ اے عمر! جس دن تم نے مجھ سے اس کے قتل کرانے کے واسطے اجازت مانگی تھی ، اگر مَیں اس دن اُسے قتل کرا دیتا تو لوگ ناک منہ چڑھاتے اور یہی لوگ جو ناک منہ چڑھانے والے تھے، اب اگر انہی لوگوں کو مَیں اس کے قتل کا حکم کروں تو وہ خود اس کو قتل کر دیں گے۔ دیکھو ہمارے صبر کی وجہ سے اور حالات کی وجہ سے وہی لوگ جو اس کے حمایتی تھے آج اس کے خلاف ہو گئے ہیں اور یہ اس کو قتل بھی کر سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !مَیں نے جان لیا کہ بےشک رسول اللہ ﷺ کی بات برکت کے لحاظ سے میری بات سے بہت عظیم تھی۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 672دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2001ء)

دربارِ نبویؐ میں مشورہ

صلح حدیبیہ سے قبل آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر بن الخطاب ؓسے فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ آپ مکہ میں جائیں اور مسلمانوں کی طرف سے سفارت کا فرض سرانجام دیں۔ حضرت عمر ؓنے عرض کیا یارسول اللہ ؐ! آپ جانتے ہیں کہ مکہ کے لوگ میرے سخت دشمن ہورہے ہیں اور اس وقت مکّہ میں میرے قبیلہ کا کوئی بااثر آدمی موجود نہیں جس کا اہل ِمکّہ پر دباؤ ہو۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ کامیابی کارستہ آسان کرنے کے لیے اس خدمت کے لیے عثمان بن عَفَّانؓ کوچنا جائے جن کا قبیلہ بنو امیہ اس وقت بہت بااثر ہے اور مکہ والے عثمان کے خلاف شرارت کی جرأت نہیں کر سکتے اور اگر حضرت عثمانؓ کو بھیجا جائے تو کامیابی کی زیادہ امید ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور حضرت عثمان ؓسے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اور قریش کو مسلمانوں کے پُرامن ارادوں اور عمرہ کی نیت سے آگاہ کریں اور آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو اپنی طرف سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی جو رؤسائے قریش کے نام تھی۔

(سیرت خاتم النّبیّینﷺ،صفحہ760،ایڈیشن 2004ء)

خلیفہ وقت کی اطاعت

حضرت عمر بن خطاب ؓنے خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکر صدیق ؓکو ہمیشہ اپنی سوچ کے مطابق بروقت مشورے دیے، مگر دربار خلافت سے مشورہ رد ہونے کے باوجود ہمیشہ کامل اطاعت کی۔درج ذیل دو روایات آپ کی سیرت کے اس پہلو کو نمایاں کرتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہو گئے (اور کچھ نے زکوٰۃ سے انکار کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کر سکتے ہیں ’’مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا إلٰه إلا اللّٰه کی شہادت نہ دےدیں اور جو شخص اس کی شہادت دےدے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا۔ سوا اُسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا۔‘‘اس پر ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا۔یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰۃ کے لیے انکار کر دے ،کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی بکری کے بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ عمر ؓنے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں مَیں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔

(صحيح البخاري۔كِتَاب الزَّكَاة۔بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی، آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے اور عربوں میں سے جن کو کافر ہونا تھا کافر ہو گئے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ لوگوں سے کیوں کر لڑیں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا إلٰه إلا اللّٰهکہیں، لہٰذا جس نے لا إلٰه إلا اللّٰه کہا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کر لی سوائے حق اسلام کے اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے؟‘‘، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کرے گا، اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی، یہ لوگ جس قدر رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے اگر اس میں سے اونٹ کے پاؤں باندھنے کی ایک رسی بھی نہیں دی تو میں ان سے جنگ کروں گا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ جنگ کے لیے کھول دیا ہے اور اس وقت میں نے جانا کہ یہی حق ہے۔

(سنن ابي داؤد۔كِتَاب الزَّكَاةِ، باب وُجُوبِ الزَّكَاةِ)

حضرت علی المرتضیٰؓ کی گواہی

سیدنا حضرت علیؓ نے آپ کے اوصاف حمیدہ کی گواہی ان الفاظ میں دی:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب عمرؓ کو (شہادت کے بعد) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے اللہ سے دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علیؓ تھے، پھر انہوں نے عمر ؓکے لیے دعا ئےرحمت کی اور ان کی نعش کو مخاطب کر کے کہا:آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو پہلے سے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ ﷺ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ مَیں، ابوبکر اور عمر گئے۔ مَیں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ مَیں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔

(صحيح البخاري، كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة۔بَابُ مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ۔حدیث نمبر: 3685)

٭…٭ …(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button