خلفائے کرام کی اطاعت و ادب کی قابلِ تقلید مثالیں (قسط اوّل)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ۔(النساء:65)
اورہم نے کوئی رسُول نہیں بھیجامگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اوراگراس وقت جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا وہ تیرے پاس حاضر ہوتے اوراللہ سے بخشش طلب کرتے اوررسول بھی ان کے لئے بخشش مانگتا تو وہ ضروراللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بارباررحم کرنے والا پاتے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری امر ہے کہ سچی اطاعت ہے کیا؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اطاعت کے حقیقی مفہوم کو واضح کرتا ہے۔
’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کردیناضروری ہوتا ہے بدوںاس کے اطاعت ہو نہیں سکتی۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 246)
مندرجہ بالا حکم الٰہی اور تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اطاعت کی اہمیت تو اجاگر ہوتی ہے لیکن یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی رسول یا نبی کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ کی اطاعت بھی اسی طرح لازمی ہے ورنہ خلافت کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔اس سلسلے میں خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’بے شک مَیں نبی نہیں ہوں۔ لیکن مَیں نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے، وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہر ہوتا ہے۔…میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خداتعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری ہے۔‘‘
(الفضل 4؍ستمبر 1937ء)
آج ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ جس طرح احمدی اپنے خلیفۃ المسیح کی اطاعت کرتے ہیں اس کی کوئی مثال پوری دُنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی۔ اور یہ اطاعت کسی ڈر یا خوف سے نہیں بلکہ اس محبت کی وجہ سے ہے جو انسانوں کے دِل میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ڈال سکتا ہے۔ دُنیا کے ہر براعظم اور قوم میں ایسے ایسے مجاہد پائے جاتے ہیں جو خلیفۂ وقت کے اشارۂ ابرو پر اپنا مال، جان اور اولاد قربان کرنےکے لیے تیار رہتے ہیں اور کرتے ہیں۔
خلافتِ احمدیہ کی اس اطاعت کی سب سے اعلیٰ مثالیں خود ان خلفاء نے قائم کی ہیں۔ عبائے خلافت اوڑھنے سے پہلےان بزرگ وجودوں نے ایک عام احمدی خادم کی طرح، امامِ وقت کی اطاعت کے وہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے جو احمدیوں کے لیے مشعل راہ ہیں ۔ذیل میں چند ایسے واقعات پیشِ خدمت ہیں جو ہم غلاموں کے لیے اطاعت کے نئے پیمانے مقرر کرتے ہیں۔
حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
آپ نے 1977ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں زندگی وقف کرنے کی درخواست کی اور حضورؒنے اسی سال آپ کو گھانا بھجوادیا۔ جہاں آپ ایک لمبا عرصہ بغیر کسی دُنیاوی سہولتوں کے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہے۔ زمینوں پر اپنے ہاتھوں سے محنت اور مشقت کرتے رہے مگر وقف کی روح کے پیش نظر اطاعت کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے دربارَخلافت میں کبھی کوئی فرمائش تک نہ کی۔
ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پوری زندگی اطاعتِ خلافت سے پُر ہے۔ مسندِ خلافت پر بیٹھنے کے بعد بھی آپ ہمیشہ اپنے سے پہلے خلفاء کے احکامات، تحریکات اور ارشادات کو جماعت کے سامنے ایسے بھرپور طریق سے پیش کرتے ہیں کہ جیسے وہ آپ کے سامنے مجسم موجود ہوں۔
آصف محمود باسط صاحب اپنے ایک مضمون میں مندرجہ ذیل واقعہ تحریر کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضورِ انور کو پہلے خلفاء کا کتنا ادب اور احترام ہے:
’’…ابھی ایک قدم دفتر کے اندر اور ایک باہر ہی تھا کہ ارشاد ہوا:’’حضرت مصلح موعودؓکی جب اچھی کوالٹی کی تصویریں اور ویڈیوز ہیں تو اتنی کم کوالٹی کی تصویریں کیوں دکھاتے ہو؟‘‘ عرض کرنے کی مجال نہیں تھی کہ حضور مَیں تو دفترمیں بیٹھتا ہوں، یہ کام کسی اور شعبہ کا ہے۔ مگر شکر ہے کہ کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ساتھ ہی اگلا ارشاد ہوگیا ’’یہ ساری کم کوالٹی کی تصویریں روکنی ہیں اور ان سے کہو کہ ساری تصویریں اور ویڈیوز جوحضرت مصلح موعودؓ کی پڑی ہوئی ہیں مجھے دکھائیں، مَیں خود بتاؤں گا کہ کون سی دکھائی جائیں۔ حضرت مصلح موعودؓکی شخصیت تو بڑی شان و شوکت والی شخصیت تھی۔ تصویروں میں بھی وہ شان و شوکت نظر آنی چاہیے۔‘‘
عرض کی: ’’جی حضور‘‘
فرمایا:’’اور یہ فروری کا مہینہ ہے۔ چودھری محمد علی صاحب کے انٹرویو جن میں حضرت مصلح موعود ؓکا ذکر ہے وہ انٹرویو زیادہ چلانے ہیں آجکل۔ بتا دینا ‘‘۔
عرض کی’’جی حضور‘‘۔
مَیں مکمل بوکھلاہٹ میں تھا۔ جزاک اللہ کہہ کر باہر نکلنے والا ہی تھا کہ ارشاد ہوا
’’کیسے بتاؤ گے؟‘‘
عرض کی کہ حضور ، مجھے معلوم نہیں۔
مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کسی کو پہنچانے کا طریقِ کار کیا ہے۔
’’اب باہر جا کر میرے نام خط لکھو کہ میں نے بلاکر تمہیں یہ بتایا ہے۔ پھر میں اس کی توثیق کردوں گا۔ پھر وہ توثیق والا خط چیئرمین صاحب کو دے دینا‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ جماعتی خط وکتابت اور پھر اسے آگے پہنچانے کایہ پہلا سبق تھا۔پروگراموں کی ذمہ داری تو بہت بعد میں ملنی شروع ہوئی، مگر پروگراموں میں دکھائے جانے والے مواد کی حساسیت کا درس پہلی دفعہ اس ملاقات میں حاصل ہوا۔آج سوچتا ہوں تو اس سبق کی گہرائی اور بھی کھلتی جاتی ہے۔ ٹی وی کا تعلق صرف سماعت سے نہیں بلکہ بصارت سے بھی ہے۔ سو جوبات کہی جارہی ہے، اس کے ساتھ visuals اگر مناسبِ حال نہ ہوں تو بات کا اثر کم ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ اگر حضرت مسیح موعودؑیا خلفاء کی تصاویر کی بات ہو، تو اس میں باریکی سے احتیاط کی جائے کہ کہیں ہمارے ناقص انتخاب سے ان بزرگ ہستیوں کی شان میں گستاخی نہ ہو۔ پھر یہ کہ نئی نسل نے جن بزرگوں کو نہیں دیکھا، ان کے ذہن میں تو وہی تأثر بنے گا جو ہم ایم ٹی اے پر دکھائیں گے۔
بہت بعد میں ایک اور موقع پر بھی حضور نے اظہار فرمایا کہ ’’میں نے جب حضرت مصلح موعود ؓکوآخری مرتبہ دیکھا، اس وقت میری عمر کوئی پندرہ سولہ سال کی تھی۔ اور حضرت مصلح موعودؓ کی صحت بھی اچھی نہیں تھی۔ مگر اس وقت بھی جو بات ذہن پر نقش ہوگئی وہ آپ کی شخصیت کی شان و شوکت ہے۔ تصویروں اور ویڈیوز کا انتخاب احتیاط سے ہونا چاہئے۔‘‘
ایک مرتبہ حضور کی طرف سےایم ٹی اے(اور نشر و اشاعت کےدیگر اداروں ) کے لئے ہدایت آئی کہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کی تصاویر اور ویڈیوزمیں کسی بھی طرح کا ردّوبدل نہ کیا جائے۔ انگریزی الفاظ تھے
……. should not be graphically tampered with
حضور کا انداز بات کو سمجھانے کا ہمیشہ یہی دیکھا۔ الفاظ کم مگر معانی کا ایک جہان۔ حضور کا ہر ارشاد ایسا ہے جیسے انسان آئینہ خانہ میں داخل ہو جائے اورہر طرف رنگارنگ نقش ونگار بنتے چلے جائیں۔یہاں بھی الفاظ اگرچہ کم تھے مگر ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق موجود تھا کہ ایم ٹی اے کے پاس جو بھی تصاویر اور وڈیوز موجود ہیں وہ جماعت کی امانت ہیں۔ انہیں جماعت تک پہنچانا ایم ٹی اے کی ذمہ داری قراردیا گیا ہے۔ انہیں پروگراموں میں دکھا کر صرف موجودہ نسلوں تک ہی نہیں پہنچانا بلکہ ان کو محفوظ کرنے کا بھی ایسا انتظام کرنا ہے کہ آئندہ نسلیں اس خزانہ کو بحفاظت حاصل کریں اور ان کی نشر و اشاعت کا کام جاری رہے۔ اگر آج ہم ان مقدس ہستیوں کی تصاویر کو گرافکس وغیرہ کے ذریعہ چھیڑنے کی کوشش کریں گےتو پھر حد کھینچنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر بات رنگ بھرنے اور نقش و نگار بنانے اور پھر خاکوں تک جا پہنچنے کا احتمال ہے۔ پھر یہ بھی کہ اللہ کی ان چنیدہ ہستیوں کے حُسن کو کسی اور زیب و زینت کی احتیاج نہیں۔ لوگ انہی چہروں پر اللہ کا نور دیکھتے رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔ انہیں دنیوی زیب و زینت کی ضرورت نہیں کہ ان چہروں کے نور کے آگے دنیا کی زیب و آرائش کے سب سامان ہیچ ہیں۔جنہیں خدا نے نور اور حسنِ صداقت سے مالامال کیا ہو، ان میں انسان کو دخل دینے کی کیا ضرورت؟‘‘
(الفضل انٹرنیشنل10؍مارچ2017ءصفحہ16)
حضرت سیدہ امۃالسبوح بیگم صاحبہ(حرم حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)اطاعت امام کے حوالے سے خلیفۃالمسیح الخامس کے بارے میں فرماتی ہیں :
’’خلفاءکے ساتھ اطاعت آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہمیشہ اشارہ سمجھ کر اطاعت کی ۔آپ ہر معاملہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کے ہر حکم کی پوری تعمیل کرتے۔انیس بیس کا فرق بھی نہ ہونے دیتے۔جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بیمار ہوئے آپ نے منع فرمایا تھا کہ کسی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن طبیعت کمزور تھی اور فکر مندی تھی۔انتہائی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر میاںسیفی (مرزا سفیر احمد صاحب )نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو فون کر دیا اور صورتِ حال بتا کر کہا کہ اگر آپ آجائیں تو اچھا ہے۔چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ لندن تشریف لے آئےاور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملاقات کے لیے گئے تو حضور ؒنے دریافت فرمایا ۔’’کیسے آئے ہو؟‘‘آپ نے جواب دیا کہ آپ کی طبیعت کی وجہ سے جماعت فکر مند ہے اس لیے پوچھنے کے لیے آیا ہوں تو حضور ؒنے فرمایا حالات ایسے ہیں کہ فوراً واپس چلے جاؤ۔چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ بہت بہتر۔میں فوراًواپسی کی سیٹ Bookکروا لیتا ہوں۔بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے میاں سیفی سے پوچھا کہ اس (حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ ) میں تو اتنی اطاعت ہے کہ یہ میرے کہے بغیر آہی نہیں سکتا۔یہ آیا کیسے؟تب میاں سیفی نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکو بتایا کہ ان کو تو میں نے فون پر آنے کو کہا تھا اس لیے آئے ہیں۔اس پر حضور رحمہ اللہ کو اطمینان ہوا کہ ان کی توقعات کے مطابق ان کے مجاہد بیٹے کی اطاعت اعلیٰ ترین معیار پر ہی تھی۔‘‘
(ماہنامہ تشحیذ الاذھان سیدنا مسرور ایدہ اللہ نمبر ستمبر،اکتوبر 2008ءصفحہ20تا21)
ایک بچے نے آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ کی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکے ساتھ دوستی تھی؟ حضورایّدہ اللہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔میری کیا مجال ،وہ میرے خلیفہ تھے۔میں ان کا دوست نہیں بلکہ میں ان کا ایک ادنیٰ غلام تھا۔
حضورِ انور نےحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے کامل محبت اور عزت پر بات کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:
’’میرا دل فی الحقیقت اس بات پر مضبوطی سے قائم تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو مَیں آپ کی ہر بات سنوں گا اور ہر اُس چیز کی کامل ترین فرمانبرداری کروں گا جو آپ مجھ سے چاہیں گے۔اور یہ کہ میں ہر وقت دوسروں سے زیادہ آپ کی عزت اور اطاعت کروں گا۔ میرے والدین نے میری تربیت اِس انداز میں کی تھی جس کا اثر پوری زندگی میرے اوپر رہا ہے۔‘‘
(عابد وحید خان صاحب کی ذاتی ڈائری اپریل -جون 2018ء)
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
اطاعتِ امام میں کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ چھوٹا یا بڑا ان معنوں میں کہ ایسا کام جس کو دُنیا کے لوگ حقیر جانیں یا جس کو دُنیا کے لوگ قابلِ ستائش سمجھیں۔
خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں واش رومز وغیرہ کی صفائی کرنے والوں کو نہایت حقیر سمجھا جاتا ہے۔ اور ان کی صفائی کرنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یا کھانا پینا حرام ہی سمجھا جاتا ہے اور ان کے برتن الگ بیرونی دروازے کے پاس رکھے جاتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کے محلے بھی شہر سے الگ ہوتے ہیں۔ سات دہائیاں قبل جب یہ واش رومز حقیقتاً گندگی کے ڈھیر ہوتے تھے ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی مثال بہت ہی کم مل سکے۔یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے:
’’… پارٹیشن کے بعد… جودھا مَل بلڈنگ کے میدان میں مہاجرین ٹینٹ وغیرہ لگا کر آباد ہوگئے تھے۔ ایک مرتبہ جمعداروں نے ہڑتال کردی کہ ہم نے گند نہیں اٹھانا۔ … حضرت مصلح موعودؓ نے حکم دیا کہ خدام الاحمدیہ والے خود جاکر صفائیاں کریں تاکہ ہیضہ اور بیماری وغیرہ نہ پھیلے۔ حضور (حضرت مرزا طاہر احمد) اس کام میں پیش پیش تھے۔ ہر قسم کا گند اُٹھاتے رہے۔ ایک مہاجر عورت کہنے لگی ’’بچے توں تے وڈے گھر دا لگ ریاں وے، تیرے اُتے کی آفت آئی اے۔‘‘(یعنی بچے تم کسی بڑے گھر کے لگ رہے ہو تم پر کیا آفت آئی ہے؟)
(ماہنامہ مصباح دسمبر 2003ءصفحہ 58)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا انتخاب ہوا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جو دوست وہاں موجود تھے بلاتردد انہوں نے بیعت کی اور زبان سے ایک اقرار کیا اور یہ عہد باندھا کہ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس اقرار کے حقوق کی حفاظت کریں گے اور اس کے تقاضوں کو نباہتے رہیں گے۔ میں بھی ان میں شامل تھا ، اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے۔ لیکن گھر آکر جب میں نے غور کیا تو میں نے اپنے میں بہت سی پرانی مَیلیں دیکھیں، کئی غلط فہمیاں پائیں، کئی لحاظ سے میں نے دیکھا کہ یہ دِل ہدیتہ حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لائق نہیں ہے۔ پھر میں نے آنسوؤں سے اس کو دھویا، خداتعالیٰ کے حضور انکساری سے گرا، اس سے مدد طلب کی کہ میں نہیں جانتا کہ یہ دل تحفۃً پیش کرنے کے لائق ہے کہ نہیں، تُو توفیق عطا فرما کہ ایسا ہوجائے۔
اور پھر حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ میں نے عرض کیاکہ آج کے بعد میرا دل اور میری جان آپ کے قدموں پہ حاضر ہے اور میں اپنے ربّ سے امید رکھتا ہوں کہ مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے گا۔ آپ سے میری یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ ایک دُعا میرے لئے کریں کہ حضرت مصلح موعود کے سب بیٹوں میں سے زیادہ مجھے عاجزی اور انکساری سے آپ کی خدمت کی توفیق ملے اور ایسی محبت عطا ہو کہ اور کسی کو نہ ہو۔
بعد میں مَیں نے سوچا کہ بہت بڑی بات کی ہے۔ اور طبیعت میں شرمندگی بھی پیدا ہوئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور خیال بھی میرے دل میں آیا کہ زبان اور دل کی گواہی بھی کافی نہیں ہے۔ بسا اوقات انسان بڑے خلوص کے ساتھ اقرار کرتا ہے، ہدیے پیش کرتا ہے، زبان کے اور دل لیکن جب عملاً ابتلا کے دَور میں سے گزرتا ہے تو ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ بہت سے بڑے سچے خلوص سے وعدے کرنے والے میری نگاہوں میں پھر گئے اور اس وقت مجھے خیال آیا کہ
عٰلِمُ الْغیْبِ وَالشَّھَادَۃِ
کا مضمون ابھی جاری ہے۔جب تک عمل میں یہ شہادت نہ ڈھلے اس وقت تک یہ مضمون کامل نہ ہوگا۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ ایمان کی بھی تو یہی تین منازل بیان کی گئی ہیں:
زبان سے اقرار، دل سے گواہی اور عمل سے تصدیق۔ تو وہ جو دل میں ایک کیڑا سا پیدا ہوا کہ میں نے گویا بڑا تیر مارلیا ہے وہ سب کیڑا کچلا گیا
عٰلِمُ الْغیْبِ وَالشَّھَادَۃِ
کے مضمون کے پاؤں تلے اور اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ پھر ہمیشہ مختلف مواقع پر مجھے عملاً یہ غور کرنے کا موقع ملا کہ عمل کی دُنیا میں ان عہدوں کو سچا ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
کامل اطاعت کے باوجود ایک خلیفہ وقت سے خیالات میں، تصورات میں اختلاف ہو سکتے ہیں اور جائز ہے۔ اپنے خیالات پر تو بندے کا بس کوئی نہیں۔ وہ درست ہوں یا غلط، تقویٰ کا تقاضا ہے کہ جو ہیں ان سے انسان آگاہ ہو اور ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو ہرگز اس رنگ میں استعمال نہ ہونے دے جس سے سلسلے کے مفاد کو یا بیعتِ اطاعت کو کوئی گزند پہنچنے کا خدشہ ہو۔ اگر کوئی اس کے نتیجہ میں اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اس اقرار کو یاد رکھے اور تکلیف کو برداشت کرے، لیکن ہرگز اشارۃً یا کنایتہ اس کے منافی کوئی حرکت نہ کرے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جون 1982ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 1صفحہ13تا14)
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خلافت کا بے حد احترام فرماتے اور خلیفہ وقت کی بےمثال اطاعت کا مظاہرہ فرماتے۔ آپؒ نے ایک بار بیان فرمایا:
’’حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک کام میرے سپرد کیااورحکم دیا فوری طور پر مشرقی بنگال (اب بنگلہ دیش )چلے جاؤ۔میں نے پتہ کروایا تو ساری سیٹیں بُک تھیں ۔معلوم ہواکہ بیس آدمی چانس پر مجھ سے پہلے ہیں ۔میں نےکہا کوئی اورجائے نہ جائے،میں ضرور جاؤں گاکیونکہ مجھے حکم آگیا ہے۔ایئرپورٹ پر لمبی قطارتھی۔کچھ دیر بعد لوگوں کو کہا گیاکہ جہاز چل پڑا ہے ۔اس اعلان کے بعد سب چلے گئے لیکن میں وہاں کھڑاتھامجھے یقین تھاکہ میں ضرور جاؤ ں گا۔اچانک ڈیسک سے آواز آئی کہ ایک مسافر کی جگہ ہے،کسی کے پاس ٹکٹ ہے۔میں نے کہا: میرے پاس ہے ۔انہوں نے کہا:دوڑو،جہاز ایک مسافر کا انتظار کر رہا ہے۔‘‘
(سیدنا طاہر سوونیئر جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ نمبر58)
اطاعتِ امام میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے کبھی اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔اسی مناسبت سے آپ کی بیٹی بی بی فائزہ صاحبہ بیان کرتی ہیں:
’’1974ءمیں تمام ملک میں احمدیت کے خلاف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تو ان دنوں گوجرانوالہ اور اس کے گرد ونواح میں بہت دردناک واقعات کی خبریں ملیں۔بعض احمدیوں کو بہت دردناک طریقے سے شہید کردیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فوری طور پر حضورکو بلوایا اور فرمایا کہ تم اسی وقت جاکر موقع پر حالات کا جائزہ لو اور جو ممکن کوشش ان مظلوم احمدیوں کے لیے کی جاسکتی ہے کرو۔اس میں ذرا بھی دریغ نہ کرو۔حضور نے واپس آکر امی کو بتایا کہ میں اسی وقت گوجرانوالہ جارہا ہوں۔ تو امی قدرتی طور پر بہت گھبرا گئیں اورحضور ؒسے اس کا اظہار بھی کردیا۔ حضورؒنے ناراضگی سے فرمایا تمہیں تو اس وقت خوش ہونا چاہیے کہ خدا مجھے خدمت کا ایک موقع دے رہا ہے۔ اگر تم میری جان کے خوف سے گھبرا رہی ہو تو مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں ۔اگر خدا کی راہ میں میری جان جائے تو اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی ۔‘‘
(سیدنا طاہر سوونیئر جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ 164)
ڈاکٹرمسعود الحسن نوری حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اطاعت امام کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ’’حضرت منصورہ بیگم صاحبہ (حرم خلیفۃالمسیح الثالثؒ)کی آخری بیماری میں مَیں ربوہ حاضر تھا۔اُن دنوں اکثر حضورؒ فرماتے کہ مرزا طاہر احمد کو بلائیں ۔تو ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضورؒنے فرمایا ہو اور فوری طور پر مرزا طاہر احمد صاحب وہاں نہ پہنچے ہوں۔آپؒ فوراًوہاں آتے اور جس حالت میں بھی ہوتے اور جو وقت بھی ہوتا ،آجاتے۔اورباوجود یکہ کمرے میں تخت پوش اور کرسیاں موجود ہوتیں ،لیکن آپؒ حضورؒکے بالکل پاس آکر زمین پر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے۔نہایت ادب سے بیماری کی علامات حضورؒ سے پوچھ کر پھر دوا تجویز کرتے اور خود جاکر دوائی لاتے۔نہ یہ کہ کسی اور کو بھیجتے ۔نو دس دنو ں میں کوئی تیس چالیس مرتبہ آپؒ آئے اور ہر مرتبہ یہی طریقِ کار آپ کا ہوتا۔‘‘
(سیدنا طاہر سوونیئر جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ59)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مواقع پر متعدد بار بجلی کی بچت کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو سخت ناپسند تھا کہ بغیر کسی ضرورت کے کسی کمرے میں پنکھا یا بلب جلتا چھوڑدیا جائے۔ وقفِ جدید میں ان کے ساتھ کام کرنے والے احباب بھی اس کی تائید کرتے تھے لیکن ایک استثنا کے ساتھ۔ احباب کہتے تھے کہ مرزا طاہر احمدصاحب کے کمرہ میں روشنی دیکھ کر یہ بات یقینی ہوتی تھی کہ وہ اپنے کمرے میں موجود ہیں اوراگر ان کے کمرے میں جائیں اور وہ موجود نہ ہوں تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو بلایا ہے۔ کیونکہ جب امامِ وقت، حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو بلاتے تھے تو وہ اتنا وقت بھی ضائع نہیں کرتے تھے کہ بلب یا پنکھا بند کردیں۔
ایک مرتبہ حضرت میاں طاہر احمد صاحب کراچی سے بذریعہ کار ربوہ تشریف لائے۔ گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے ابھی سامان اتار کر اندر جانے لگے تو ایک آدمی نے اندر آکر کہا میاں صاحب! آپ کو حضورنے یاد فرمایا ہے۔ آپ نے سامان وہیں رکھ دیا اور الٹے پاؤں حضوررحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضوررحمہ اللہ کے علم میں نہ تھا کہ آپ ابھی ابھی کراچی سے واپس آرہے ہیں۔لہٰذا حضور رحمہ اللہ نے اسلام آباد کے کچھ کام بتائے اور فرمایا کہ صبح روانہ ہوجانا۔ گھر پہنچ کر دل میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ صبح جانے سے شاید تاخیر ہوجائے یا سفر کی تھکان کے باعث کوئی سستی آن لے، اس لئے بہتر ہے کہ ابھی چلا جاؤں۔ چنانچہ اُسی وقت دوبارہ سفر پر روانہ ہوگئے اور حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں عرض تک نہ کیا کہ ابھی ابھی کراچی سے بذریعہ سڑک آرہا ہوں۔
اسی طرح 1972ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے ایک منظور کردہ پروگرام میں شرکت کےلیے ربوہ سے اندرون سندھ اور کراچی کے دورے کے لیے اپنی کار پر عازمِ سفر ہوئے۔ آپ کو اپنڈکس کی تکلیف ربوہ سے شروع ہوچکی تھی جو ابھی قدرے ہلکی تھی۔ لاہور میں آپ نے کوشش کی کوئی ہمسفر مل جائے لیکن کوئی نہ مل سکا۔ آپ مسلسل ہومیوپیتھک دوائی کھارہے تھے، لیکن کسی سے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی اس تکلیف کو خاطر میں لائے مبادا جماعتی کام میں رکاوٹ بنے۔ یوں صرف جماعتی خدمت کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ راستہ میں دعائیں کرتے ہوئے، اپنڈکس والی جگہ کو سہلاتے ہوئے اور ہومیو پیتھک ادویات کھاتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا۔ حیدرآباد کے قریب وہ اپنڈکس پھٹ گیا لیکن آپ نے پھر بھی وہ سفر جاری رکھا اور گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کراچی پہنچ گئے۔ کراچی پہنچتے ہی تکلیف میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا، ہسپتال جانے پر فوری طور پر اپنڈکس کا آپریشن ہوا۔ ہسپتال کے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کسی معجزہ سے کم نہیں کہ کسی شخص کا اپنڈکس اتنے گھنٹے پہلے پھٹ جائے اور پھر بھی زندہ بچ جائے۔
اسی پر بس نہیں بلکہ آپریشن کے زخم ابھی پوری طرح مندمل نہیں ہوئے تھی کہ کار پر ہی کراچی سے ربوہ جانے کا پروگرام بنالیا وہ تو بھلا ہو مکرم مبارک احمد کھوکھر صاحب کا جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو خبر کردی اور حضور نے آپ کو حکماً جہاز پر واپس آنے کا فرمایا۔
(روایت مکرم ہادی علی چودھری صاحب)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭