سیرت خلفائے کراممتفرق مضامین

خلفائے کرام کی اطاعت و ادب کی قابلِ تقلید مثالیں (قسط دوم۔ آخری)

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

جنتوں میں رہنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اُس کی کُنجی اللہ تعالیٰ نے اطاعت بیان فرمائی ہے۔

اطاعت خلافت، خلیفۃ المسیح، اسلامی خلافت

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سچا خادم اور غلام صرف ان احکامات کی اطاعت بجالائے جو اس کو براہ راست دیے جائیں بلکہ ایک سچا خادم اور غلام اپنے آقا کا اتنا مزاج شناس ہوتا ہے کہ اس کے اشارہ، اس کے جذبات اور بالواسطہ الفاظ کو بھی اپنے لیے حرفِ آخر سمجھتا ہے۔

1927ءکے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جو اطاعت کا نمونہ قائم کیا اس کی تفصیل آپ کے اپنے الفاظ میں یوں ہے ۔

’’ایک دفعہ جلسہ گاہ چھوٹی اور تنگ ہوگئی اور حضرت مصلح موعود ؓشدید ناراض ہوئے تھے۔ لوگ جلسہ گاہ میں سما نہیں سکتے تھے۔قادیان میں جلسہ گاہ کے چاروں طرف گیلریاں بنی ہوتی تھیں اُن پر لوگ بیٹھتے تھے۔ اینٹوں کی سیڑھیاں سی بنا کر اُن پر لکڑی کی شہتیریاں رکھی جاتی تھیں۔ بہرحال اُس سال جلسہ گاہ چھوٹی ہوگئی تھی اور حضرت مصلح موعودؓ بہت ناراض ہوئے۔ تمام کارکن بڑے شرمندہ، پریشان اور تکلیف میں تھے۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر ہم ہمت کریں تو اِس جلسہ گاہ کو راتوں رات بڑھا سکتے ہیں۔ لیکن میری عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے مَیں نے خیال کیا کہ میری اِس رائے میں کوئی وزن نہیں ہوگا۔ ہمارے ماموں سیّد محمود اللہ شاہ صاحبؓ بھی دفتر میں کام کرتے تھے، مَیں نے اُنہیں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم رات رات میں جلسہ گاہ کو بڑھا دیں گے۔ آپ ماموں جان (حضرت میرمحمد اسحاق صاحبؓ افسر جلسہ سالانہ) کے سامنے یہ تجویز پیش کریں۔ وہ کہنے لگے یہ خیال تمہیں آیا ہے اس لئے تم ہی یہ بات پیش کرو۔مجھے یاد ہے کہ میری طبیعت میں یہ احساس تھا کہ چھوٹی عمر کی وجہ سے میری رائے کا وزن نہیں ہوگا لیکن یہ کام کرنا ضرور چاہئے۔ماموں جان سیّد محمود اللہ شاہ صاحبؓ کو خیال تھا کہ چونکہ یہ خیال مجھے نہیں آیا اِس کو آیا ہے اِس لئے اس کا کریڈٹ مَیں کیوں لوں۔ لیکن مَیں نے کہا مَیں نے یہ بات پیش نہیں کرنی، آپ ہی کریں اور ضرور کریں۔ مَیں نے کچھ لاڈ اور پیار سے اُن کو منالیا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی۔ حضرت ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) نے دوستوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور بالآخر یہ رائے پاس ہوگئی اور سارا دن کام کرنے کے بعد سینکڑوں رضاکاروں نے ساری رات کام کیا۔ ریتی چھلہ سے شہتیریاں اُٹھا کر جلسہ گاہ میں لے گئے جو ہمارے کالج کی عمارت (جس میں پہلے ہائی سکول ہوتا تھا) کے پاس تھی۔ ایک طرف کی ساری سیڑھیاں جو اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں توڑی گئیں اور دوسری سیڑھیاں بنائی گئیں۔ رضاکار مزدوروں کی طرح کام کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت جلسہ گاہ بڑی بنائی جاچکی تھی، بس آخری شہتیری رکھی جارہی تھی تو ہمارے کانوں میں صبح کی اذان کے پہلے اللہ اکبر کی آواز آئی( وہ آواز اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے) صبح کی اذان کے وقت وہ کام ختم ہؤا۔ اورجب حضرت مصلح موعود ؓتشریف لائے تو آپ جلسہ گاہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ سارے لوگ جلسہ گاہ میں سما گئے اور جتنی ضرورت تھی اس کے مطابق جلسہ گاہ بڑھ گئی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍دسمبر1968ءمطبوعہ الفضل 14؍فروری 1969ءصفحہ4تا5)

اس حوالےسے توسیع جلسہ گاہ کے موقع پر صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحبؒ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر جو اطاعت کا مظاہرہ کیا اس کا مزیدحال مولوی محمد صدیق امرتسری یوں بیان کرتے ہیں:

’’ مجھے اب بھی یاد ہے اور وہ نظارہ میرے سامنے ہے جب کہ گیس لیمپوں کی روشنی میں ہمارے ٹروپ(troop) لیڈر اور قائد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بڑی تیزی اور تن دہی سے اپنے جملہ ساتھی سکاؤٹس کے ساتھ شہتیریاں اٹھااٹھا کر اپنے جگہ پر رکھ رہے تھے اور کبھی گارا اپنے کندھے پر اٹھا کر لاتے اور خالی کرکے دوبارہ لانے کے لیے لے جاتے تھے ۔ اور یوں یہ سلسلہ تمام رات جاری رہا یہاں تک کہ محض اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے صبح کی اذان تک جلسہ گاہ ہر طرف سے سیدناحضرت مصلح موعود ؓکی خواہش کے مطابق وسیع کر کے سب گیلریاں دوبارہ صحیح طور پر بنا دی گئیں۔‘‘

(ماہنامہ خالد ۔سیدنا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ءصفحہ298)

حضرت مصلح موعود ؓکی طرف سے جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کےلیے مسلم اکثریتی علاقوں کا ریکارڈ تیار کرنے کے لیے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو مقر ر کیاگیا تو آپ نے خلیفہ وقت کی ہدایت پر لبیک کہتےہوئےنہایت محنت سے کام کیاجس کا نقشہ مکرم صوفی بشارت الرحمان نے بیان کیا ہے۔

’’حضور رحمہ اللہ تعالیٰ (مراد حضرت مرزا ناصر احمدصاحب)کےکیریکٹر کا نمایاں وصف اطاعت امام میں فنا کا مقام تھا۔ 1947ءکےپُر آشوب زمانہ میں خلیفہ وقت کی طرف سے حفاظت مرکز کا کام آپ کے سپرد ہوا تو آپ نے نہایت بہادری اور جواں مردی سے اپنی جان کو خطرات کے سامنے پیش کرتے ہوئے سر انجام دیا۔ باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمان اکثریت والے ضلعوں اور تحصیلوں کے نقشے پیش کرنے کا کام تھا ۔ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے کالج کے پروفیسروں اور طلبہ کو رات دن اسی کام پر لگا دیا۔ خاکسار کو یاد ہے کہ کالج کے طلبہ کی ٹیمیں لےکر خاکسار قادیان سے سول سیکرٹریٹ میں آیا کرتا تھا اور خواجہ عبدالرحیم صاحب جو کمشنر تھے ان کی مدد سے ہم سیکرٹریٹ کے ریکارڈ سے قصبات اور دیہات کی مسلم اور غیر مسلم یعنی ہندو اور سکھ آبادی کو نوٹ کیا کرتے تھے ۔اور پھر اس کے مطابق تھانہ وائز ، تحصیل وائزاور ضلع وائز مسلم اکثریت رکھنے والے علاقوں کے نقشے تیار کیا کرتے تھے۔‘‘

( ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ءصفحہ235)

محترم ثاقب زیروی صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا اطاعت خلافت کا ایک ناقابل فراموش واقعہ بیان کرتے ہیں:

’’1947ء میں خاکسارصاحبزادہ مرزا ناصر صاحب کےساتھ فرقان فورس کے رضاکاروں سے ملنے کشمیر کے محاذپر گیا۔اور مسلسل کئی دن جاگتے ہوئے گزرے۔ایک دن نماز مغرب سے چند منٹ پہلے اپنے Base Campمیں پہنچ گئے ۔وضو کیا۔حضرت صاحبزادہ صاحب نے نماز پڑھائی۔جونہی سنن سے فارغ ہوئے ۔کیمپ کے انچارج نے حضرت صاحبزادہ کو ایک طرف لے جاکر حضرت مصلح موعودؓ کا کوئی ضروری پیغام پہنچایا جسے سنتے ہی آپ نے وہیں سے مجھے آواز دی ۔ثاقب!آؤ گاڑی میں بیٹھو،لاہور چلیں۔

مجھے چونکہ ارشادِ خلافت اور اس کی اہمیت کا کچھ علم نہ تھا میں نے بڑی بے تکلفی سے عرض کیا ’’حضرت میاں صاحب!جسم تھکے ہوئے ہیں رات بھر جاگتے رہے ہیں۔اس سے پہلی ساری رات پیدل سفر میں گزری ہے۔کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ چند گھنٹے آرام کر لیں پھر چل پڑیں گے۔ساری رات اپنی ہی تو ہے۔

آپ نے سنتے ہی فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ جونہی واپس پہنچیں فوراًلاہور کے لیے روانہ ہو پڑیں ۔بتاؤاس فوری حکم کے بعد کسی قسم کے توقف کی کیا گنجائش ہے،ہم چند ہی منٹوں میں لاہور کے لیے روانہ ہو پڑے۔پھر فرمایا ۔ثاقب نظم سنانا شروع کرو تاکہ میں گاڑی چلا سکوں اور اس پر میں نے تعمیلِ ارشاد کی یہاں تک کہ میں سو گیا۔اور آپ بھی گاڑی چلاتے چلاتے سو گئے…جب ہماری آنکھ کھلی ۔اس وقت ایک بہت بڑا درخت صرف چند گز کے فاصلے پر تھا۔اور ہماری کار سیدھی اس طرف جا رہی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں حادثے سے محفوظ رکھااس پر میں نے پھر لجاجت سے عرض کیا کہ مجھے تو چھوڑیں ،آپ کا وجود از حد قیمتی ہے۔پھر آپ کو گاڑی بھی چلانی ہے اس لیے بہتر ہو کہ ہم کچھ دیر گاڑی میں ہی آرام کر لیں تاکہ باقی سفر بخیریت گزرے۔اس دفعہ میری درخواست قبول کرلی گئی ۔ لیکن فرمایا کہ ہم زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے لیے رکیں گے، میں اس قدر تھک گیا تھا اور میری آنکھیں نیند سے اس قدر بھری ہوئی تھیں کہ میں سرگریبان میں جھکاتے ہی سو گیا لیکن نہیں کہہ سکتا کہ اس عرصہ میں آپ سوئے یا نہیں کیونکہ ٹھیک انسٹھویں منٹ پر آپ نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا اور سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا پڑھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی…حتیٰ کہ ہم کوئی رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب لاہور کی مال روڈ پر تھے۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر 12؍مارچ 1983ءصفحہ 66تا 67)

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت مرزا بشیرالدین محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافتِ اولیٰ کے دَور میں جس غیرت اور جرأت کے ساتھ خلافت کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے اس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ آپ نے ہر طرح کے اندرونی اور بیرونی مخالفوں کا سامنا کیا اور بڑی حکمت اور جرأت سے سب دشمنوں کے دانت کھٹے کیے۔

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحبؓ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی اطاعتِ امام کا واقعہ بیان کرتے ہو ئےکہتے ہیں:

’’ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مخاطب کر کے کہا:میاں ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے جس کا تدارک اب سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ڈھنگ سے خلیفہ کے اختیارات کو محدود کر دیں۔ وہ بیعت لے لیا کریں۔ نماز پڑھا دیا کریں۔ خطبہ نکاح پڑھ کر ایجاب و قبول اور اعلان نکاح فرمادیا کریں یا جنازہ پڑھا دیا کریں اور بس۔

خواجہ صاحب کی بات سن کر جو جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے دیا اسے ہم حضور ہی کے الفاظ میں درج کرتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں:

’’میں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفۂ اولؓ نے صاف صاف کہہ دیا (تھا)کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی اور اس تقریر کو سن کر ہم نے بیعت کی۔ تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے؟‘‘

(حیات نورمرتبہ شیخ عبدالقادر صاحب صفحہ 365)

محترم مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا ا ٓپؓ کے متعلق خلیفہ اول ؓکی فرمانبرداری کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ

’’حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے مکان کی بیٹھک میں بعد نماز فجر حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کو روزانہ قرآن شریف کے دو تین رکوع ترجمہ کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔ جن کو سننے کے لیے کافی لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے۔عاجز بھی ان دنوں مدرسہ احمدیہ کا طالب علم تھا اور درس سننے کے لیے جایا کرتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف لاتے اور لوگوں کے پیچھے بیٹھ جاتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح جب آپ کو دیکھتے تو جس گدیلے پر آپ بیٹھے ہوتے۔ اس میں سے آدھا خالی کرکے فرماتے میاں آگے تشریف لایئے۔ اس پر حضرت میاں صاحب آپ کے ارشاد کی تعمیل میں آپ کے پاس بیٹھ جاتے۔ آپ کے دوسری طرف حضرت میاں بشیر احمد صاحب بیٹھا کرتے تھے۔‘‘

(حیات نور صفحہ 600تا 601)

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ حضرت مولوی صاحب کی سیرت کے واقعات تو لکھے جاسکتے ہیں مگر ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دِلی عقیدت، وارفتگی، اطاعت اور دِلی جذبات بیان کرنے کے لیے ہر سیرت نگار کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوجاتا ہے۔ ان کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر ہی بیان ہوسکتا ہے:

چہ خوش بودے اگر ہر یک زِامت نور دیں بودے!

ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نورِ یقیں بودے

اطاعت امام کے حوالے سے حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ ملتا ہے جو آپؓ کے اپنے الفاظ درجِ ذیل ہے:

’’(تحصیل علم کے بعد)بھیرہ میں پہنچ کر میرا ارادہ ہوا کہ میں ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفا خانہ کھولوں اور ایک عالی شان مکان بنالوں۔وہاں میں نے ایک مکان بنایا۔ابھی وہ ناتمام ہی تھا۔اور غالباً سات ہزار روپیہ اس پر خرچ ہونے پایا تھا کہ میں کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا۔اور میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں۔اس واسطے میں قادیان آیا۔ چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا۔ اس لیے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا۔ یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لیکر رخصت ہوں۔آپ نے اثنائے گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے۔ میں نے کہا ہاں اب تو میں فارغ ہی ہوں۔ یکہ والے سے میں نے کہہ دیا کہ اب تم چلے جائو۔آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے کل پرسوں اجازت لیں گے۔اگلے روز آپؑ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی۔ آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں۔ میں نے حسب الارشاد بیوی کے بلانے کے لیے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لیے عمارت کا کام بند کردیں۔جب میری بیوی آگئی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہٰذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب خانہ منگوا لیں۔تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے آپ اس کو ضرور بلالیں۔لیکن مولوی عبدالکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو نورالدین کے متعلق الہام ہوا ہے۔ اور وہ شعر حریری میں موجود ہے

ا تَصْبَوُنَّ اِلَی الْوَطَنِ فِیْہِ تُھَانُ وَ تُمْتَحَنُ

خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میری واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے وطن کا خیال نہ آیا۔پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے۔

(مرقات الیقین فی حیات نور الدین ،صفحہ 191تا192)

حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ کا بیان ہے کہ

’’ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے۔ ازراہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں۔ آپ نے فرمایا۔ حضرت مرزا صاحب سے اجازت حاصل کرو۔ اس نے حضرت کی خدمت میں درخواست کی۔حضور نے اجازت دی۔ بعد نماز عصر جب حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ’ امید ہے آپ آج ہی واپس آ جائیں گے‘۔ عرض کی، بہت اچھا۔ بٹالہ پہنچے۔ مریضہ کو دیکھا۔ واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت! راستے میں چوروں اور ڈاکوئوں کا بھی خطرہ ہے۔ پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے کئی مقامات پر پیدل پانی میں سے گزرنا پڑے گا۔ مگر آپ نے فرمایا خواہ کچھ ہو۔ سواری کا انتظام بھی ہو یا نہ ہو۔ میں پیدل چل کر بھی قادیان ضرور پہنچوں گا کیونکہ میرے آقا کا ارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے۔ خیر یکہ کا انتظام ہو گیا اور آپ چل پڑے۔ مگربارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہو چکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا۔ کانٹوں سے آپ کے پائوں زخمی ہو گئے مگر قادیان پہنچ گئے۔ اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضر ہو گئے۔ حضرت اقدس نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے۔ قبل اس کے کوئی اَور جواب دیتا آپ فوراً آگے بڑھے اور عرض کی حضور! میں واپس آ گیا تھا۔ یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور! رات شدت کی بارش تھی، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں زخمی ہو چکے ہیں اور میں سخت تکلیف اُٹھا کر واپس پہنچا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا۔‘‘

(حیات نورمرتبہ شیخ عبدالقادر صاحب صفحہ189)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ

’’جن دنوں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کو اس کے دیکھنے کے لیے گھر میں بلایا۔ اس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا۔ مولوی صاحب آتے ہی آپ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے۔ حضرت نے فرمایا۔ مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھیں۔ مولوی صاحب نے عرض کیا۔ حضور! میں بیٹھا ہوں اور کچھ اُونچے ہو گئے اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا مگر حضرت صاحب نے جب دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اُٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اُوپر بیٹھ گئے۔‘‘

اس روایت کے نیچے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کا نوٹ بایں الفاظ درج ہے کہ

’’مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول صفحہ نمبر57روایت نمبر78)

جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کو پہلی بار دیکھا تو حضور علیہ السلام کے دل سے یہ صدا نکلی:

ھٰذَا دُعَائِیْ

یعنی یہ مردِ مومن میری دعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ ہے۔

کیا آج اگست 2021ءمیں ہم اپنا جائزہ لے کر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم خلافتِ احمدیہ کی اطاعت اسی طرح کرتے ہیں جو اس کا حق ہے؟ کیا ہم اطاعت کی ایسی مثالیں قائم کررہے ہیں جن پر ہماری نسلیں فخر کرسکیں؟ کیا ہم اطاعتِ خلافت کے ایسے واقعات کا حصہ بن رہے ہیں جن کے بارے میں اگست 2121ء میں اس وقت کے اسکالرز مضامین لکھ رہے ہوں گے؟ کیا ہم ایسی اطاعت کا نمونہ دکھا رہے ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ نےقرآنِ کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے:

تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔(النساء:14)

ترجمہ: یہ اللہ کی (قائم کردہ) حدود ہیں۔ اورجو اللہ کی اطاعت کرے اور اس کے رسول کی تو وہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

یعنی جنتوں میں رہنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اُس کی کُنجی اللہ تعالیٰ نے اطاعت بیان فرمائی ہے۔ یہ ہماری نہایت ہی خوش بختی اور خوشی قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظامِ خلافت عطا فرما کر یہ کُنجی حاصل کرنے کا موقع مرحمت فرمایا ہے۔بےشمار لوگ اس موقع کے انتظار میں دُنیا سے گزر گئے اور بے شمار لوگ اپنی بدقسمتی سے اس نظام کو سمجھ ہی نہ سکے۔ مسلمانوں کے لیے یہ نظامِ خلافت اور اطاعتِ خلافت رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے اور اُس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے پھل حاصل کرنے کا بہترین اور بیش قیمت موقع ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button