اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
دسمبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
آدھی رات کے قریب پولیس کے ایک دستے نے گاؤں کا دورہ کیااور مسجدکے چھوٹے مینار کے ساتھ ساتھ پولیس نے احمدیوں کی قبروں سے چالیس کتبے بھی اتار لیے
پولیس کی جانب سے احمدیوں کی مسجداور چالیس قبروں کی بے حرمتی !
شاہ مسکین والا، ضلع ننکانہ صاحب(28-30؍دسمبر 2020ء): شاہ مسکین والا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں سات احمدی خاندان مقیم ہیں۔
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے ایک ملا نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ننکانہ کو درخواست دی کہ شاہ مسکین والا کے قادیانیوں نے اپنے مرحومین کی مقبروں پر قرآنی آیات اور کلمہ وغیرہ لکھا ہے۔ انہوں نے توہینِ رسالت کے قانون (تعزیراتِ پاکستان دفعہ 295-C) کے تحت گرفتاری کے لیے تین احمدیوں سید انیس احمد (مقامی صدرجماعت)، سید سعادت احمد اور بشارت احمد کو پولیس کےسامنے نامزد کیا۔ واضح رہے کہ اس قانون کے تحت ملزمان کو سزائے موت سنائی جاسکتی ہے۔
28؍دسمبر 2020ء کو تین پولیس والے تین ملا ؤں کے ساتھ احمدیوں کی مسجدپر آئے۔اس وقت کوئی احمدی وہاں موجودنہیں تھا۔ انہوں نے وہاں سے ایک پمفلٹ اتارا جس کا عنوان تھا ’کرنے کی باتیں‘۔ اس مسجدکے ساتھ ہی ایک مشترکہ قبرستان ہے۔یہ افراد وہاں بھی گئے۔اس جگہ موقع پر موجود ایک خاتون نے بتایا کہ یہ قبرستان عام ہے اور غیر احمدیوں کی قبروں پر بھی آیات لکھی ہوئی ہیں۔بعد ازاں مقامی احمدیہ صدر کو فیض آباد تھانے سے فون آیا کہ ان کے خلاف درخواست دی گئی ہے اورپولیس نے تینوں احمدیوں کو طلب کرلیا۔
29؍دسمبر کو احمدیوں کا ایک وفد تھانے گیاجہاں پولیس نے ملاؤں کو بھی بلوا رکھا تھا۔ پانچ گھنٹے کی طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرے گی بلکہ خلافِ آئین لکھی گئی تحریر کے خلاف کارروائی کرے گی۔ اس ساری کارروائی کے بعد احمدی حضرات رات گیارہ بجے گھروں کو لوٹے ۔
آدھی رات کے قریب پولیس کے ایک دستے نے گاؤں کا دورہ کیااور مسجدکے چھوٹے مینار کے ساتھ ساتھ پولیس نے احمدیوں کی قبروں سے چالیس کتبے بھی اتار لیے۔
احمدی کا گھر رشتہ داروں نے مسمار کر دیا
احمد پور شرقیہ( دسمبر 2020ء): محمد عارف تین سال پہلے احمدی ہوئے تھے اور گاؤں میں انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے چچا نے انہیں کہا کہ وہ مرتد ہو چکا ہے اور جب تک وہ مسلمان نہیں ہو جاتا، وہ وہاں نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس نے عارف کے گھر پر قبضہ کر لیا۔
ان حالات میں محمد عارف کو ملک چھوڑنا پڑا۔ اب عارف کے چچا نے اپنی بہن کو بلوا بھیجا اور کہا کہ ہم نے تین سال انتظار کیا لیکن تمہارا بھائی مسلمان نہیں ہوا اس لیے ہم نے اس کا گھر گرا کر اس کی جگہ مدرسہ بنایا ہے، تم اس کے گھر کا ملبہ چاہو تو لے جاؤ۔
ضمانت پر رہائی میں مشکلات کا سامنا
لاہور( دسمبر 2020ء): ملک ظہیر احمد، دوست کی حیثیت سے روحان احمد اور جماعت کے سینئر عہدیداروں کے خلاف بے بنیاد طور پر درج فوجداری مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے جب ستمبر میں ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 295-B, 298-C, 109, PECA11 کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تعزیرِاتِ پاکستان کی دفعہ 295-B کے تحت عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
ملک ظہیر کی درخواست ضمانت ایڈیشنل سیشن جج لاہور حامد حسین نے 26؍نومبر 2020ء کو مسترد کر دی۔
اس درخواست کے مسترد ہونے پر نظرِثانی کی درخواست ضمانت لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔ جسٹس عالیہ نیلم نے 21؍دسمبر 2020ء کو اس کی سماعت کرنی تھی۔ اس تاریخ کو ملّا نے کیس کی پیروی کے لیے اپنا ایک وکیل تجویز کیا۔ اس پر وکیلِ صفائی نے استدعا کی کہ چونکہ ریاست اس کیس میں درخواست گزار ہے، اس لیے کسی نجی وکیل کی مداخلت کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم جج نے پرائیویٹ وکیل کو اس ریمارکس کے ساتھ اجازت دی کہ جو کوئی بھی اس مقدمے میں اعتراض اٹھاتا ہے وہ اٹارنی داخل کر سکتا ہے۔
سماعت کی اگلی تاریخ 5؍جنوری 2021ءتھی۔اس وقت تک ملزم کے دوست ملک ظہیر 3 ماہ جیل میں گزار چکے تھے۔
فرقہ وارانہ انصاف!
جتوئی، ضلع مظفر گڑھ (دسمبر 2020ء): ایک احمدی، احسان احمد نے ایک پلاٹ خریدا جس پر دو عدد دکانیں پہلے سے تعمیر شدہ تھیں۔ اس کے غیر احمدی کزن نے پلاٹ پر قبضہ کیا۔ احسان احمد اپنی درخواست عدالت میں لے گئے، لیکن فریقِ مخالف نے اس مقدمہ کو مذہبی رنگ دے دیا اور احسان احمد کو دھمکیاں دیں۔
احسان احمد شہر جتوئی سے باہر تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر 5 مرلہ پلاٹ کے مالک تھے۔ اس کے پھوپھی زادغیر احمدی بھائی نے اپنی والدہ کے ذریعے اس پلاٹ پر دعویٰ دائر کر دیا۔اس قانونی چارہ جوئی میں اس کی مدد ایک شخص عبدالغفور کرتا ہے۔ انہوں نے علاقے کےچیئرمین سے رابطہ کیا جنہوں نے دونوں پارٹیوں کو بلوا بھیجا اور دستاویزات کا جائزہ لیا۔ چیئرمین نے پھر کسی کو ٹیلی فون کیا اور ایک فتویٰ (مسئلہ) دریافت کرتے ہوئے کہا: ’’مقدمے میں ایک فریق قادیانی ہے لیکن حق رکھتا ہے، جبکہ دوسرا فریق مسلمان ہے اور غلط ہے۔ کیا کرنا ہے؟‘‘ اس پر چیئرمین نے اپنا فیصلہ روک لیا۔
مخالف نے اپنے وکیل کو بتایا ہے کہ ایک مثال موجود ہے کہ جس وکیل نے ممتاز قادری کا دفاع کیا (جس نے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیا) نے کوئی فیس نہیں لی۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی کسی مسلمان کی بلا معاوضہ مدد کی جانی چاہیے۔ سرِ دست یہ مقدمہ عدالت میں ہے۔
درخواست ضمانت مسترد
گوٹ مونگارہیو،کومباسر،نگرپارکر،سندھ(دسمبر 2020ء): کومباسر، مٹھی میں واقع احمدیہ سنٹر کے ایک ملا اور ایک ملوک دال نے مرکز کا دورہ کیا اور احمدی استاد پر قرآن پاک کو جلانے کا جھوٹا الزام لگایا۔ وہ اپنے ساتھ چند جلے ہوئے کاغذات لے کر گئے۔ اس کے بعد وہ پولیس اسٹیشن گئے اور 25؍نومبر 2020ء کو نگرپارکر میں دو احمدی مذہبی اساتذہ طارق اے طاہر اور صفوان احمد کے خلاف توہین مذہب کی شق PPC 295-B کے تحت FIR 83/2020 میں مقدمہ درج کرایا ۔ بعد میں طاہر کو گرفتار کر لیا گیا۔
دونوں ملزمان کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج نصیرالدین پٹھان کی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی، اے ایس جے نے 23؍دسمبر 2020ء کو درخواستیں مسترد کر دیں۔
جماعت احمدیہ کے خلاف سازش
گرین ٹاؤن، لاہور(4؍دسمبر 2020ء): اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے قاسم نامی شخص پر قرآن مجید کا نسخہ جلا کر گٹر میں پھینکنے کا الزام ہے۔ اس کے خلاف دفعہ 295-B کے تحت پولیس مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا۔
تفتیش کے دوران اس شخص نے جرم کا اعتراف کیا اور مبینہ طور پر احمدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ تاہم اس کا یہ دعویٰ سراسر غلط ثابت ہوا کیونکہ احمدیہ جماعت کی تجنید کے مطابق ایسا کوئی شخص اوکاڑہ اور لاہور کی جماعت میں نہیں پایا جاتا۔
اس کے دعوے کے بعد متعدد احمدیہ مخالف جلوس نکالے گئے، پولیس اسٹیشن کا محاصرہ کیا گیا اور مظاہرین نے پولیس پر احمدیوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈالا۔ یہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ مخالفین نے اس من گھڑت سازش کے ذریعے احمدیہ دشمنی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔
ضمانت مسترد!
ننکانہ صاحب( دسمبر 2020ء): تین احمدی شرافت احمد، اکبر علی اور طاہر نقاش، کو 2؍مئی 2020ء تھانہ مانگٹانوالہ، ضلع ننکانہ صاحب میں احمدی مخالف دفعات 298-B اور 298-C کے تحت ایک پولیس کیس میں پھنسایا گیا۔تینوں حضرات جماعت احمدیہ کے عہدیداران ہیں۔
اس مقدمے کے اندراج کی پیروی میں ضمانت کی درخواستیں دائر کی گئیں جو مسترد کر دی گئیں اور تینوں ملزمان کو گرفتار کر کے شیخوپورہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
گرفتاری کے بعد عادل ریاض، مجسٹریٹ نے 23؍ اکتوبر 2020ء کو ان کی بعد از گرفتاری ضمانت مسترد کر دی، جبکہ اس ضمانت کے مسترد ہونے کے خلاف اپیل سہیل انجم نے 8؍دسمبر 2020ء کو خارچ کر دی۔
اب تین ماہ ہو چکے ہیں کہ یہ تین احمدی اپنے عقیدے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، جبکہ اب تک ان تینوں افراد پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭