اطاعت امام باعث سعادت ہے
خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کی برکات بیان کرتے ہوئے فرمایا
وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَہُمْ (النور :56)
یعنی! خداتعالیٰ خلافت کی برکت کے نتیجہ میں دین کے لحاظ سے تمکنت عطا کرے گا۔جب ہم لفظ ’’دین‘‘ پر غور کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سمندر کوکوزے میں بند کردیا گیا ہے کیونکہ لفظ دین کے بہت سے معانی ہیں ان میں سے ایک معنی اَلْاِطَاعَةُ بھی ہے یعنی خداتعالیٰ اطاعت کے لحاظ سے بھی تمکنت عطا کرے گا۔ کیونکہ کسی بھی قوم یا جماعت کی ترقی اور زندگی کا راز اور دارومدار اطاعت میں مضمر ہے۔ خلافتِ راشدہ کے قیام کے دوران بھی مسلمانوں کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی کامل جذبۂ اطاعت تھا۔حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے زمانہ کے بہت بڑے جرنیل تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے سپہ سالار اور بہادر جب ان کا نام سنتے تو ان کے جسموں پر کپکپاہٹ طاری ہوجاتی۔انہوں نے ایک سو سے زائد لڑائیوں میں حصہ لیا اور ہر میدان میں دشمن کو مات دی۔ ان کے جسم پر ایک انچ جگہ بھی ایسی نہ تھی جس پر تلوار یا تیر کے زخم کانشان نہ ہو۔ بہادر ہونے کے علاوہ آپؓ بے حد متقی اور پرہیز گار تھے۔(سوانح عمری خالد بن ولیدؓ صفحہ 184)جب آپؓ شام کے علاقے میں اسلامی افواج کے کمانڈر انچیف تھےتو حضرت عمر ؓنے آپ کو معزول کر کے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو کمانڈر انچیف مقرر فرمایا۔جب یہ اطلاع حضرت خالد بن ولیدؓ کو ملی تو آپؓ فوری طور پر خلیفہ وقت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے عہدے سے الگ ہو گئے اور اطاعت خلافت کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے خودلوگوں کو خطاب کے ذریعے بتایا کہ لوگو اب خلیفة الرسول کی طرف سے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ(امین الامت ) سپہ سالار مقرر ہوئے ہیں ان کی اطاعت کرو۔آپؓ خود چل کر حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے پاس گئے اور انہیں سپہ سالاری سونپ دی۔
(بحوالہ سیرت صحابہ رسول ﷺ صفحہ 145)
گیلے کپڑے پہن کر ساتھ چل پڑے
حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓ کی ابتدائی زندگی میں تنگدستی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے پاس صرف ایک جوڑا کپڑوں کا ہوا کرتا تھا۔ آپ ہر جمعہ کی رات وہ جوڑادھو لیتے اور جمعہ کی صبح کو پہن لیتے تھے۔ ایک رات سردیوں کے موسم میں وہ جوڑاآپ نے دھویا ہوا تھا کہ رات کو حضرت مسیح موعود ؑکی طرف سے پیغام آیا کہ گورداسپور کرم دین والے مقدمے کی پیشی کے لیے ابھی روانہ ہونا ہے آپ بھی آجائیں۔حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓکی اطاعت و فرمانبرداری کا نمونہ دیکھیے کہ آپ نے وہی کپڑے گیلے ہی پہن لئے اور سردی سے بچاؤ کے لیے اوپر سے لحاف لے لیا اور فوراً حضورؑ کے ساتھ چل پڑے۔
(تنویر القلوب جلد1صفحہ 117)
اطاعت اور فرمانبرداری اس کو کہتے ہیں۔نہ کوئی معذرت نہ کوئی عذر اور نہ ہی کوئی وضاحت یاتاخیر ۔ارشاد سنا اور اس کی تعمیل کو سعادت جانا۔
ایک مخلص وفادار جماعت
حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لیے میں ان کو بلاتا ہوں ۔نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لیے تیار۔حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی۔جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لیے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو۔‘‘
(ملفوطات جلد1صفحہ223تا224)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لئے ہمارے آدمی گئے۔انہوں نے جلسہ کیا اور تحریک کی کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں۔…
اسی طرح ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ایک اور عورت کہ وہ بھی زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ ان لوگوں میں سے تھی جنہیں زمیندار حقارت کے ساتھ ’’کمیں‘‘ کہا کرتے ہیں اُس نے بھی اپنی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ دکھایا۔اُس کے دو بیٹے اور دو پوتے تھے،جب ہمارے آدمی گئے اور انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے فوج میں بھرتی ہونا چاہیے تم بھی اپنی اولاد میں سے کسی کو پیش کرو تاکہ اسے فوج میں بھجوایا جائے تو اُس وقت باہر کھڑی کام کر رہی تھی۔اُس نے وہیں سے کھڑے کھڑے اپنے چاروں لڑکوں اور پوتوں کو آواز دی اور ہمارے مبلغ سے کہا یہ میرے دو لڑکے اور دو پوتے ہیں اِن چاروں کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔پھر اس نے اپنے لڑکوں اور پوتوں سے کہا ۔دیکھو! میں گھر میں نہیں گھسوں گی جب تک تم یہاں سے چلے نہ جاؤ۔جب ہمارے آدمی نے کہا کہ اِس وقت میں چاروں کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک نوجوان چاہیے۔تو اس نے کہا میں تو چاروں بھجوانے کیلئے تیار ہوں۔آخر اصرار کر کے اُس نے کہا ۔دو تو لے جاؤ ۔چنانچہ ایک کی بجائے اُس نے دو نوجوان پیش کئے اور وہ خوشی خوشی چلے گئے۔یہ وہ روح تھی جو حقیقی روح ہوتی ہے اور جس کے ذریعہ دنیا میں قومیں بڑھا کرتی ہیں۔‘‘
(انوارالعلوم جلد 21 صفحہ159تا160)
کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :
’’اے دوستو! بیدارہو اور اپنے مقام کو سمجھو اور اُس اطاعت کا نمونہ دکھاؤ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر کسی اور جگہ پر نہ ملتی ہو اور کم سے کم آئندہ کے لئے کوشش کرو کہ سَو(100) میں سے سَو ہی کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں اور اُس ڈھال سے باہر کسی کا جسم نہ ہو جسے خدا تعالیٰ نے تمہاری حفاظت کےلئے مقرر کیا ہے اور
اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ یُقَاتَلُ مِن وَّرَائِہٖ
پر ایسا عمل کرو کہ محمدرسول اللہﷺ کی روح تم سے خوش ہوجائے۔‘‘
(انوارالعلوم جلد 14صفحہ525)
کھڑی فصل اور ٹھیکہ کی رقم لیے بغیر واپس آگئے
1974ءکے حالات میں مخالفین نے مکرم مہر مختار احمد آف باگڑ سرگانہ ناظم انصار اللہ ضلع خانیوال کاعرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ برادری نے بھی سخت مخالفت کی اور مکمل بائیکاٹ کیا۔توآپ نے بچوں کے حصول تعلیم اور پاکیزہ ماحول میں پرورش دینے کے لیے رقبہ فروخت کر کے ربوہ کے ماحول میں رقبہ ٹھیکہ پر لے کر فصل کاشت کر لی۔جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے ملاقات کی اور بتایا کہ باگڑ سرگانہ سے زمین فروخت کر کے ربوہ کے جوار میں ٹھیکہ لے کر فصل کاشت کر لی ہے تو حضور ؒنےاس فیصلہ کو ناپسند فرمایاکہ علاقے کوخالی نہیں چھوڑنا تھا۔اس پر آپ نے فوراً تعمیل کی۔مالک رقبہ سے ٹھیکے کی رقم واپس طلب کی۔ان کے انکار پر آپ کھڑی فصل اور ٹھیکہ کی رقم لیے بغیر واپس اپنے وطن باگڑ سرگانہ آگئے اور کوشش کر کے اپنی فروخت شدہ زمین مہنگے داموں خرید کی اور حضور ؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضور ؒ کے ارشاد کی تعمیل کر لی ہے۔اس پر حضور ؒ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔مہر صاحب حضور ؒ کے اس اظہار خوشی کو سنا کر بڑے محظوظ ہوا کرتے تھے۔
(روزنامہ الفضل 10؍مئی 2010ءصفحہ5)
کامل فرمانبردار دل
اپنی اس فرمانبردار جماعت پر بجاطور پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے 12؍مارچ 1944ءکو ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’خد ا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں ۔میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں ،میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں ،میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کُود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے تنوروں میں کُود کر دکھا دیں ۔اگر خودکشی حرام نہ ہوتی ،اگر خودکشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھاکہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جا نے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتے۔‘‘
(انوارالعلوم جلد17صفحہ241تا242)
ملبہ اٹھوا لیا اور زمین حوالے کر دی
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒفرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو محض اپنے فضل کے ساتھ اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللّٰہِ کے مقام پر بڑی مضبوطی سے قائم کیا ہوا ہے اور یہ اس کی دین اور فضل ہے کہ خلیفہ وقت کا فیصلہ بشاشت سے قبول کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک قصبہ ہے۔ وہاں جماعت کی کچھ زمین تھی۔ وہاں ایک مسجد تعمیر ہوئی مگر ایک حصہ زمین تعمیر مسجد سے باہر رہ گیا جو چند مرلوں کا تھا اسے وہاں کی مقامی جماعت نے باقاعدہ ریزولیوشن کرکے ایک شخص کے پاس ساٹھ ستر روپے میں فروخت کر دیا۔ اس واقعہ کو دس بارہ سال ہو چکے تھے۔ چند ماہ ہوئے مجھے اس بات کا علم ہوا۔ میں نے اس شخص کو جس کے پاس یہ حصہ زمین فروخت کیا گیا تھا کہ نہ بیچنے والے کو بیچنے کا حق اور نہ خریدنے والے کو خریدنے کا حق۔ جو پیسے تم نے دئیے تھے وہ واپس لے لو اور زمین خالی کر دو کہ یہ تمہاری زمین نہیں ہے۔ کہنے لگا بارہ سال ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ بارہ صدیاں ہو جائیں، کیا فرق پڑتا ہے؟وقت گزرنے کے ساتھ غیر حق حق تو نہیں بن جاتاکہنے لگا میں نے وہاں کمرہ بنایا ہوا ہے جس پر چارسَو روپیہ خرچ ہوا ہے۔ میں نے کہا تم بلا اجازت کسی کی زمین پر مکان بنا لو تو اس کا میں ذمہ دار ہوں؟ تم ملبہ اٹھوا لو۔ خیر وہ وہاں سے گیا۔ دو چار روز تک اس کے دل میں انقباض رہا لیکن جب میں نے اسے دوبارہ کہلا کے بھیجا تو اس نے ملبہ اٹھوا لیا اور زمین ہمارے حوالے کرکے اپنے پیسے وصول کر لئے میری نیت پہلے ہی تھی کہ اس کا نقصان ذاتی طور پر پورا کر دوں گا۔ لیکن میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ نظام کی پابندی کرتا ہے یا نہیں۔ خلیفۂ وقت کا کہنا مانتا ہے یا نہیں اور اس کا ایمان کس حد تک مضبوط ہے۔ پس نیت تو پہلے ہی تھی کہ جو اس کا نقصان ہے وہ میں اس کو دے دوں گا اس لئے میں نے اسے خط لکھا کہ میری نیت تو یہ تھی لیکن میں تمہیں ثواب سے محروم نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے پہلے اس کا اظہار نہ کیا تھا۔ اب تم مجھے لکھو کہ تمہارا کتنا نقصان ہوا ہے۔ کچھ توتم نے ملبہ کی صورت میں اٹھا لیا ہے باقی جو تمہارا روپیہ رہ گیا ہے وہ میں تمہیں بھیج دیتا ہوں۔ لیکن اس کے اندر ایمان کا جذبہ تھا وہ جوش میں آیا اور اس نے مجھے لکھا کہ میں آپ سے روپیہ کیوں لوں؟ میں نے خدا کی خاطر ملبہ اٹھایا ہے ۔بے شک بعض منافق بھی ہوتے ہیں اور بعض کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ جماعت بڑی عجیب ہے!!! میں ذاتی طور پر اس کا تجربہ رکھتا ہوں۔ بڑی قربانیاں دینے والی، بڑا کام کرنے والی جماعت ہے اور جتنا آپ اےمیرے بھائیو! پیار کرتے ہیں اور کہا مانتے ہیں اسے دیکھ کر میرے جیسا انسان تو انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے دل چاہتا ہے کہ انسان سجدہ میں ہی پڑا رہے۔ یہی ایک جماعت ہے جس نے دنیا میں انقلاب عظیم برپا کرنا ہے۔ ‘‘
(خطبات ناصر جلد 1صفحہ506تا507)
ہم ایک ہی روٹی کھائیں گے
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
’’جن دنوں نانبائی تنوروں میں روٹی پکایا کرتے تھے اس زمانہ میں ایک دفعہ وہ آپس میں لڑپڑے اور ان کے دودھڑے بن گئے اور لڑائی کی وجہ سے انہوں نے سٹرائیک کردی اور کچھ عرصہ کے لئے روٹی نہیں پکائی۔صبح کی نماز سے پہلے افسر جلسہ سالانہ نے مجھے اس کی اطلاع کردی۔ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ خلیفۂ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دونام ہیں۔ چنانچہ میں نے فجر کی نماز پر دوستوں سے کہا کہ یہ واقعہ ہوگیا ہے اور آج جلسہ ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک کی بجائے دوروٹیاں کھانے کی خاطر جلسہ کے اوقات بدل دیں یا آج کا جلسہ ملتوی کردیں بلکہ ہم سب ایک ایک روٹی کھائیں گے۔ جن کے گھروں میں روٹی پکتی ہے وہ بھی ایک روٹی کھائیں گے اور جن کو لنگر سے ملتی ہے وہ بھی ایک روٹی کھائیں گے اور میں نے کہا کہ گھروں میں جو روٹیاں بچیں وہ لنگر کو بھیج دو۔ خدا کی عجیب شان اس جماعت میں نظر آتی ہے سب نے ایک ایک روٹی کھائی۔ وہ وقت گزرگیا لیکن مجھے پتا لگا کہ ہزاروں آدمیوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہو کہ کھانے کی کمی کے نتیجہ میں جلسہ میں کوئی بدنظمی پیدا ہوگی تو یہ تو نہیں ہوسکتا مگر اب ہم پریکٹس کرتے ہیں اور سارے جلسہ کے دوران ہی ہم ایک ایک روٹی کھائیں گے۔ چنانچہ پھر روٹی پکنی شروع ہوگئی لیکن بہتوں نے کہا کہ ہم ایک ہی روٹی کھائیں گے اور بہت سے گھروالوں نے کہا کہ گو اب ضرورت تو نہیں ہے مگر ہم ثواب سے کیوں محروم رہیں ہم اب بھی روٹیاں پکا کر انتظامِ جلسہ کو بھیجیں گے۔‘‘
(خطبات ناصر جلد 7صفحہ303تا304)
اب مولوی ہی کھیتی کاٹیں گے
حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :
’’الور یا بھرت پور کی ریاست میں ایک عورت تھی جس کے سارے بیٹے آریہ ہوگئے مگر وہ اسلام پر قائم رہی۔ مائی جمیا اس کانام تھا۔…. جب فصل کٹنے کا وقت آیاتو چونکہ سب گاؤں جو بڑا بھاری تھاآریہ ہوچکا تھا اور اس کے اپنے بیٹے بھی اسلام چھوڑ چکے تھے اور وہ عورت اکیلی اسلام پر قائم تھی۔ اس لئے کوئی شخص اس کی کھیتی کاٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ انہوں نے اسے طعنہ دیا اور کہا مائی تیری کھیتی تو اب مولوی ہی کاٹیں گے۔احمدیوں کو دیہات میں مولوی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن اور حدیث کی باتیں کرتے ہیں….جب یہ خط مجھے ملا تو میں نے کہا کہ اب اسلام کی عزت تقاضا کرتی ہے کہ مولوی ہی اس کی کھیتی کاٹیں چنانچہ جتنے گریجوایٹ اور بیرسٹر اور وکیل اور ڈاکٹر وہاں تھے میں نے ان سے کہا کہ وہ سب کے سب جمع ہوں اور اس عورت کی کھیتی اپنے ہاتھ سے جاکر کاٹیں چنانچہ درجن یا دو درجن کے قریب آدمی جمع ہوئے جن میں وکلاءبھی تھے، ڈاکٹر بھی تھے ، گریجوایٹس بھی تھے ، علماءبھی تھے اور انہوں نے کھیتی کاٹنی شروع کر دی۔ لوگ ان کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے اور تمام علاقہ میں ایک شور مچ گیا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں، یہ جج صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں، یہ وکیل صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں۔اُنہوں نے چونکہ یہ کام کبھی نہیں کیا تھا اس لئے ان کے ہاتھوں میں خون بہنے لگا مگر وہ اس وقت تک نہیں ہٹے جب تک اس کی تمام کھیتی انہوں نے کاٹ نہ لی۔یوپی کے اضلاع میں یہ بات خوب پھیلی اور کئی رئیس مجھے متواتر دلی میں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو اس دن سے احمدیت کی قدر کرتے ہیں جب ہم نے یہ نظارہ دیکھا تھا کہ ایک مسلمان عورت کے لئے آپ کی جماعت نے یہ غیرت دکھائی کہ جب لوگوں نے اسے کہا کہ اب مولوی ہی آکر تیری کھیتی کاٹیں گے تو آپ نے کہا کہ اب دکھاوے کامولوی نہیں سچ مچ کا مولوی جائے گا اور اس کی کھیتی کاٹے گا۔‘‘
(انوارالعلوم جلد24صفحہ427تا428)
عدالت خاں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
’’1934ءمیں جب میں نے یہ تحریک کی اور اعلان کیا کہ نوجوانوں کو غیرممالک میں نکل جانا چاہئے تو یہ نوجوان جو غالباً دینیات کی متفرق کلاس میں پڑھتا تھا اور عدالت خان اِس کا نام تھا، تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور کا رہنے والا تھا، میری اِس تحریک پر بغیر اطلاع دیئے کہیں چلا گیا۔ قادیان کے لوگوں نے خیال کر لیا کہ جس طرح طالب علم بعض دفعہ پڑھائی سے دل برداشتہ ہو کر بھاگ جایا کرتے ہیں اِسی طرح وہ بھی بھاگ گیا ہے۔ مگر دراصل وہ میری اِس تحریک پر ہی باہر گیا تھا مگر اس کا اس نے کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چونکہ ہمارے ہاں عام طور پر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید اور دوسرے شہداءکا ذکر ہوتا رہتا ہے اِس لئے اُسے یہی خیال آیا کہ میں بھی افغانستان جاؤں اور لوگوں کو تبلیغ کروں۔ اُسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیر ملک میں جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اُسے پاسپورٹ مہیا کرنے کے ذرائع کا علم تھا۔ وہ بغیر پاسپورٹ لئے نکل کھڑا ہوا اور افغانستان کی طرف چل پڑا۔ جب افغانستان میں داخل ہوا تو چونکہ وہ بغیر پاسپورٹ کے تھا اس لئے حکومت نے اُسے گرفتار کر لیا اور پوچھا کہ پاسپورٹ کہاں ہے؟ اُس نے کہا کہ پاسپورٹ تو میرے پاس کوئی نہیں۔ انہوں نے اسے قید کر دیا مگر جیل خانہ میں بھی اُس نے قیدیوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ کوئی مہینہ بھر ہی وہاں رہا ہوگا کہ افسروں نے رپورٹ کی کہ اسے رہا کر دینا چاہئے ورنہ یہ قیدیوں کو احمدی بنا لے گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کو ہندوستان کی سرحد پر لاکر چھوڑ دیا۔ جب وہ واپس آیا تو اُس نے مجھے اطلاع دی کہ میں آپ کی تحریک پر افغانستان گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ اب آپ بتائیں کہ مَیں کیا کروں؟ میں نے اُسے کہا کہ تم چین میں چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ چین گیا اور چلتے وقت اُس نے ایک اَور لڑکے کو بھی جس کانام محمدرفیق ہے اور ضلع ہوشیارپور کا رہنے والا ہے تحریک کی کہ وہ ساتھ چلے۔ چنانچہ وہ بھی ساتھ تیار ہو گیا۔ اُس کے چونکہ رشتہ دار موجود تھے اور بعض ذرائع بھی اسے میسر تھے اِس لئے اُس نے کوشش کی اور اسے پاسپورٹ مل گیا۔ جس وقت یہ دونوں کشمیر پہنچے تو محمد رفیق تو آگے چلا گیا مگر عدالت خاں کو پاسپورٹ کی وجہ سے روک لیا گیا اور بعد میں گاؤں والوں کی مخالفت اور راہ داری کی تصدیق نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ کشمیر میں ہی رہ گیا اور وہاں اِس انتظار میں بیٹھ رہا کہ اگرمجھے موقع ملے تو میں نظر بچا کر چین چلا جاؤں گا مگر چونکہ سردیوں کا موسم تھا اور سامان اُس کے پاس بہت کم تھا اِس لئے کشمیر میں اسے ڈبل نمونیہ ہو گیا اور دو دن بعد فوت ہوگیا۔ ابھی کشمیر سے چند دوست آئے ہوئے تھے اُنہوں نے عدالت خاں کا ایک عجیب واقعہ سنایا جسے سن کر رشک پیدا ہوتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کے متعلق اسے کتنا یقین اور وثوق تھا۔ وہ ایک گاؤں میں بیمار ہوا تھا جہاں کوئی علاج میسر نہ تھا۔ جب اس کی حالت بالکل خراب ہو گئی تو اُن دوستوں نے سنایا کہ وہ ہمیں کہنے لگا کسی غیر احمدی کو تیار کرو جو احمدیت کی صداقت کے متعلق مجھ سے مباہلہ کر لے۔ اگر کوئی ایسا غیر احمدی تمہیں مل گیا تو مَیں بچ جاؤں گا اور اُسے تبلیغ بھی ہو جائے گی ورنہ میرے بچنے کی اور کوئی صورت نہیں۔ شدید بیماری کی حالت میں یہ یقین اور وثوق بہت ہی کم لوگوں کو میسر ہوتا ہے کیونکہ ننانوے فیصدی اِس بیماری سے مر جاتے ہیں اور بعض تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وفات پاجاتے ہیں۔ ہماری مسجد مبارک کا ہی ایک مؤذن تھا وہ عصر کے وقت بیمار ہوا اور شام کے وقت فوت ہوگیا۔ ایسی خطرناک حالت میں جبکہ اُس کی موتِ یقینی کا ننانوے فیصدی یقین کیا جاسکتا تھا اُس نے اپنا علاج یہی سمجھا کہ کسی غیر احمدی سے مباہلہ ہو جائے اور اُس نے کہا کہ اگر مباہلہ ہو گیا تو یقیناً خدا مجھے شفا دے دے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اِس مرض سے مر جاؤں۔ بہرحال اِس واقعہ سے اُس کا اخلاص ظاہر ہے۔ اِسی طرح اُس کی دوراندیشی بھی ثابت ہے کیونکہ اُس نے ایک اَور نوجوان کو خود ہی تحریک کی کہ میرے ساتھ چلو اور وہ تیار ہو گیا۔ اِس طرح گو عدالت خاں فوت ہو گیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے بیج کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کر آگے بڑھنا شروع کر دیا اور مشرقی شہر کاشغر میں پہنچ گیا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی۔ حاجی جنود اللہ صاحب اُن کا نام ہے۔ وہ اِسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور تحقیق کرکے احمدیت میں شامل ہوگئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئیں اور اب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں۔ تو عدالت خاں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقہ میں پھیلانے کاموجب بن گئی۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں احمدیت کی اشاعت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے ایسے خطرناک اور دشوار گزار رستے ہیں کہ اُن کو عبور کرنا ہی بڑی ہمت کا کام ہے۔ حاجی جنوداللہ صاحب کی والدہ نے بتایا کہ رستہ میں ایک مقام پر وہ تین دن تک برف پر گھٹنوں کے بل چلتی رہیں۔ ایسے سخت رستوں کو عبور کرکے ہماری جماعت کے ایک نوجوان کا اُس علاقہ میں پہنچنا اور لوگوں کو تبلیغ کرنا بہت بڑی خوشی کی بات ہے…اللہ تعالیٰ نے عدالت خاں کو پہلے یہ توفیق دی کہ وہ افغانستان جائے چنانچہ وہ افغانستان میں کچھ عرصہ رہا اور جب وہ واپس آیا تو میری تحریک پر وہ چین کے لئے روانہ ہوگیا اور خود ہی ایک اور نوجوان کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ راستہ میں عدالت خاں کو خداتعالیٰ نے شہادت کی موت دے دی مگر اُس کے دوسرے ساتھی کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آگے بڑھے اور مشرقی ترکستان میں جماعت احمدیہ قائم کر دے۔‘‘
(خطبات شوریٰ جلد 2صفحہ367تا369)
یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں ہر احمدی اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے اور اپنے امام کے ایک اشارہ پر جان تک نچھاور کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کی و جہ محض یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے تمکنت اطاعت کا وعدہ فرمایا تھا۔
خلیفہ ٔوقت کا حکم سب پر حاوی ہے
مکرم ظہور احمد باجوہ صاحب جب تک انگلستان میں(امام مسجد فضل )رہے آپ کو دمہ کی شکایت رہی ۔ آپ اِس کا علاج کر وارہے تھے کہ ایک دن آپ کو وکالت تبشیر سے حکم موصول ہوا کہ حضور نے آپ کی واپسی کے احکامات جاری کیے ہیں اس لیے آپ فوراًپاکستان کےلیے روانہ ہو جائیں۔محترم باجوہ صاحب نے اُس خط کا ذکر کسی سے نہیں کیااور سیدھے تھامس کُک( Thomas Cook )کے دفتر میں پہنچ کر اپنی سیٹیں بک کروالیں ۔ اُس شام کو محترم عبد العزیز صاحب مشن میں حضرت باجوہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو باجوہ صاحب نے اُن کو تبشیر سے آمدہ حکم کے بارے میں اور سیٹیں بک کروانے کا ذکر کیا۔ جناب عبد العزیز صاحب نے کہا ، باجوہ صاحب ! آپ کوجانے کی اتنی جلدی کیاتھی؟آپ کاعلاج ہو رہا ہے ،آپ کے بال بچے بھی آپ کے پاس ہیں، بچوں کو مڈٹرم میں سکول سے اُٹھانابھی مناسب نہیں۔ آپ تبشیر سے کچھ عرصہ کی مہلت بھی تو لے سکتے تھے ، آپ نے کیوں اتنی جلدی کی؟حضرت باجوہ صاحب نے فرمایا،عزیز صاحب!جب حضور نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ فوراً واپس آجاؤتو اِس میں کسی قسم کی چون و چراں کی گنجائش کہاں ہے اور میں نے تو اپنی سیٹیں بک کروانے میں جلدی اس لیے کی ہے تا کہ مجھے جماعت کے دوست غلط مشورے دے کر میرے عزم کو متزلزل نہ کریں۔ خلیفہ ٔوقت کا حکم باقی سب پر حاوی ہے ، بھلا میں ایک واقف زندگی ہو کر اُن کے حکم سے سرتابی کیسے کر سکتا ہوں۔
(چودھری ظہور احمد باجوہ صفحہ227)
خدا کرے کہ ہم ہمیشہ اپنے امام کے مطیع اور فرمانبردار رہیں۔آپ جان مانگیں تو جان وار دیں۔مال کا تقاضاہو تو مال حاضر کر دیں۔وقت اور عزت کی قربانی کا مطالبہ ہوتو وہ پیش کر دیں۔آئیے اپنے امام کی اطاعت کا عہد پھر سے تازہ کریں۔ اپنےپیارے امام کو اپنے دلوں میں بسا لیں۔دماغ ہمارے ہوں ،حکمرانی آپ کی ہو۔زبانیں ہماری ہوں۔ترجمانی آپ کی ہو۔اور دل ہمارے ہوں راجدھانی آپ کی ہو۔
اے شہسوار حسن! یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سر زمیں ہے ۔ قدم نازسے اٹھا
٭…٭…٭