صلوٰۃ التسبیح پڑھنے سے متعلق حضورِ انور کی رہنمائی
سوال: مکرم انچارج صاحب عربک ڈیسک یوکے کے ایک استفسار بابت صلاۃ التسبیح کے متعلق راہنمائی کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 19؍ جولائی 2020ءمیں ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: علمائے سلف میں صلاۃ التسبیح کےمتعلق مروی احادیث پر دونوں قسم کی آراء موجودہ ہیں، کچھ نے ان احادیث کو قابل قبول قرار دیا ہے اور کچھ نے ان احادیث کی اسناد پر جرح کرتے ہوئے انہیں موضوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ائمہ اربعہ میں بھی اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ اس نماز کو مستحب کا درجہ بھی نہیں دیتے جبکہ دیگر فقہاء اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کی فضیلت کے بھی قائل ہیں۔
صلاۃ التسبیح کی بابت مروی احادیث سے یہ بات تو قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ حضورﷺ نے خود اس نماز کو کبھی ادا نہیں کیا اور نہ ہی خلفائے راشدین سے اس نماز کے پڑھنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔اسی طرح اسلام کی نشاۃٔ ثانیہ کےلیے مبعوث ہونے والے حضور ﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس نماز کے پڑھنے کی کوئی روایت ہمیں نہیں ملتی۔
لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص یہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنا چاہیےجسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص ایک ایسے وقت میں نماز پڑھ رہا تھا جس وقت نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اس کی شکایت حضرت علیؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا۔
اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی۔عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی۔
یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے۔
باقی جہاں تک فقہ احمدیہ کی عبارت کا تعلق ہے تو فقہ احمدیہ میں کئی ایسی باتیں شامل ہو گئی ہیں جن کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ اسی لیے فقہ احمدیہ کی نظر ثانی کروائی جا رہی ہے۔ جب فقہ احمدیہ کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع ہو گا تو انشاء اللہ اس عبارت کو بھی ٹھیک کر دیا جائے گا۔