متفرق مضامین

اطاعت، ادب اور حفظِ مراتب

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے‘‘

انسان اپنی فطرت میں اجتماعی زندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔چنانچہ آغاز سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے خاندان، شعوب، قبائل ، امت، مملکت وغیرہ مختلف اجتماعی نظاموں میں جمع کر کے اس کی راہ نمائی فرمائی اور اس کی ذہنی نشو نما کے ہر مرحلے پر وہ اصول و ضوابط انبیاء کے ذریعہ اس پر واضح کیے جن کے تحت بہترین انسانی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔کسی بھی نظام میں اطاعت بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ یا نظام نہیں چل سکتا۔ خاندان ہو، شہر ہو، ملک ہو، کوئی کمپنی ہو، کوئی اسکول ہو، کوئی یونی ورسٹی ہو غرض کسی قسم کا کوئی بھی دینی، دنیاوی، معاشرتی ، معاشی نظام ہو اس میں اطاعت ضروری ہے۔مثلاً کسی اسکول کے اساتذہ یا طلباء پرنسپل کی بات ماننے سے انکار کر دیں اور ہر کوئی اپنی مرضی کے وقت پر اپنی مرضی کا مضمون اپنی مرضی کے نصاب کے مطابق پڑھانے اور پڑھنے لگ جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسے اسکول کا کیا حال ہو گا؟اس مثال سے باقی سب امور کے متعلق بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اطاعت کے بغیر کوئی بھی نظام نہیں چل سکتا۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:

’’نظام کی کامیابی کا اور ترقی کا انحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتا ہے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۲؍اگست ۲۰۰۳ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍اکتوبر۲۰۰۳ءصفحہ۵)

دنیا کی بنیاد ہی اطاعت کے اصول پر قائم ہے۔ فرمایا:

ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ۔

(حٰم السجدۃ:۱۲)

پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں دھواں تھا اور اُس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یا مجبوراً چلے آؤ۔ اُن دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں۔

پس جب زمین و آسمان اطاعت کر رہے ہیں تو ان میں موجود سب کچھ بھی اطاعت کر رہا ہے، خواہ طوعاً خواہ مجبوراً۔ یہی اسکول والی مثال دیکھ لیں، استاد بھی اور طلباء بھی مجبور ہیں کہ پرنسپل کی بات مانیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسکول چھوڑ کر کسی اور جگہ چلا جائے۔ اور یہ امکان سب کے لیے موجود ہے کہ وہ خاندان، ملک،کمپنی وغیرہ کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ مگر جب تک کسی نظام کا حصہ ہیں، اس کی اطاعت کرنی ہو گی۔ تاہم اطاعت اور ادب انسانی معاشرہ کے لیے جتنے ضروری ہیں اتنا ہی ان کے متعلق سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں ۔

زمانےکی ترقی کے ساتھ انسان ہر بات کی تفصیل، اس کی وجوہات اور اس کا نفع و نقصان جاننے کا خواہشمند ہے اور بلاثبوت و بلا علم کسی بات پر عمل کرنے کو کم ہی تیار ہوتا ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ اطاعت و ادب کے متعلق سوالات کا بھی جواب دیا جائے۔اسلام صرف احکام کی آیات ہی نہیں سناتا بلکہ ساتھ ہی ان کی حکمتیں ، اوامر کے فوائد اور مناہی کے نقصانات بھی بتاتا ہے۔چنانچہ کچھ شک نہیں کہ قرآن کریم نے تفصیل سے اطاعت جیسے اہم موضوع پر بھی روشنی ڈالی ہے۔آنحضورؐ اور حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ ذیل کے مضمون میں ایسے سوالات مثلاً یہ کہ اطاعت کیوں کی جائے؟ اطاعت کا کیا فائدہ ہے؟ کس کی اطاعت کی جائے؟ کیا اطاعت آزادی ضمیر کے خلاف ہے؟ اسلام میں اختلاف رائے کی کیا گنجائش ہے؟ ادب اور حفظ مراتب کیوں ضروری ہیں؟ ادب کا صحیح طریق کیا ہے؟ پر قرآن کریم، احادیث نبویؐ اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔

اسلام اور اطاعت

قرآن کریم کے بتائے ہوئے معاشرتی اصولوں میں سب سے پہلا اور مقدم اصول اطاعت ہے۔ خود لفظ ’’اسلام‘‘، جس میں تسلیم و رضا کے معنی پائے جاتے ہیں ، سے ظاہر ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اطاعت کی کیا اہمیت ہے۔ قرآن کریم کے مطابق جیسے ہی انسان اس قابل ہوا کہ وہ خدائی احکامات سمجھے اور خدائی روح کو اپنے اندر جذب کر سکے اس کے سامنے اس اصول کا نمونہ رکھ دیا گیا۔

اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ۔فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ۔

(ص:۷۲تا۷۳)

جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا یقیناً میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔پس جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گِر پڑو۔

سجدہ کرنا سے مراد کامل اطاعت ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’فرشتوں کو یہ حکم ہوتا ہے جو اس کے آگے سجدہ میں گریں یعنی کامل طور پر اس کی اطاعت کریں گویا وہ اس کو سجدہ کر رہے ہیں‘‘

(عصمت انبیاء، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۶۵۸)

یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات بے حکمت اور بے وجہ نہیں ہوتے بلکہ ان میں خود انسان کا اپنا ہی کوئی فائدہ مضمر ہوتا ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ اطاعت کا کیا فائدہ ہے؟

اطاعت کے فوائد

1۔ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (آل عمران: ۱۳۳)

رحم کیا جاتا ہے۔

2۔مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا (الاحزاب:۷۲)

کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

3۔ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا(النور:۵۵)

ہدایت ملتی ہے۔

4۔وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا(النساء:۷۰)

اعلیٰ روحانی انعامات حاصل ہوتے ہیں۔

5۔مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ (النساء:۱۴)۔

اطمینان کی حالت نصیب ہوتی ہے ( چونکہ جنت میں نفس مطمئنہ کے دخول کا بتایا گیا ہے(الفجر: ۳۰ تا ۳۱) اس لئے اس جگہ جنت کا ترجمہ باغ کی بجائے تشریحی ترجمہ اطمینان والی حالت کیا گیا ہے)۔

6۔ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ لَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَکُمۡ (محمد:۳۴)۔

اعمال ضائع نہیں ہوتے۔

7۔مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ (مومن: ۱۹)۔

مطاع کی شفاعت حاصل ہوتی ہے (اگر اسے شفاعت کا اذن ہو)۔

8۔اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ۔یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی(نوح:۴تا۵)۔

گناہ معاف ہوتے اور زندگی میں برکت دی جاتی ہے۔

9۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے‘‘

(تفسیر، زیر آیت النساء:۶۰)

10۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے‘‘

(تفسیر، زیر آیت النساء:۶۰)

11۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے‘‘

(تفسیر، زیر آیت النساء:۶۰)

12۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا‘‘

(تفسیر، زیر آیت النساء:۶۰)

عدم اطاعت کا نقصان

اللہ تعالیٰ کے احکامات انسان کے اپنے فائدہ کے لیے ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان پر عمل نہ کرنے سے نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ پانی پیو۔ تو یہ اس کے اپنے فائدہ کے لیے ہے۔ اگر وہ اس حکم پر عمل نہیں کرے گا تو ضرور اسے پیاس لگے گی جو کہ اس حکم پر عمل نہ کرنے کا طبعی نتیجہ ہے اور تنبیہ ہے۔ اگر اب بھی عمل نہیں کرے گا تو آخر مرے گا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظۡلِمُ النَّاسَ شَیۡئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ۔

(یونس:۴۵)

یقیناً اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔

چنانچہ اطاعت سے نکلنے والوں نے ان نعمتوں سے محروم تو رہنا ہی ہے جو اطاعت سے وابستہ ہیں اور جن میں سے چند اوپر بیان ہوئی ہیں، ان کو نقصان بھی ہونا ہے۔ وہ کیا؟ انکار کرنے والے کو کہا گیا :

قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ۔ وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ لَعۡنَتِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ۔

(ص:۷۸تا۷۹)

یعنی اس نے کہا پس یہاں سے نکل جا۔ تُو یقیناً دھتکارا ہوا ہے۔ اور یقیناً تجھ پر میری لعنت پڑے گی جزا سزا کے دن تک۔

پس اطاعت نہ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ انسان امن، سکون اور رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لعنت پڑتی ہے اور خدا سے دور ہو جاتا ہے۔

اس جگہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر اطاعت کی اتنی برکات ہیں اور مخالفت کے اتنے نقصانات تو پھر بعض نبی تو قتل ہوئے، بعض ہجرت پر مجبور ہوئے، بعض خلفاء بھی شہید ہوئے ، بعض کے مقابل پر مخالف حکومت پر چھا گئے تو کیا ان کے مخالف اور اطاعت سے نکلنے والے کامیاب نہیں ہو گئے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک انبیاء اور خلفاء کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا لیکن کامیاب پھر بھی وہی ہوتے ہیں ۔ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب پر کھینچا گیا، فلسطین سے نکلنا پڑا لیکن آپؑ ہی کی دینی تعلیم دنیا کے اکثر حصہ پر چھا گئی جس سے اربوں انسان آج تک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیاوی طور پر بھی ہزاروں بادشاہ مسیحؑ ہی کے نام پر تاج پہنتے اور ان کے سامنے احترام سے سر جھکاتے رہے ہیں۔ تو کامیاب حضرت عیسیٰؑ ہوئے یا آپؑ کے مخالف ؟ وقتی نقصان ہو سکتا ہے لیکن کامیابی بہر حال اطاعت سے مشروط ہے۔ گو دنیاوی کامیابی کوئی پیمانہ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس میں بھی فرق نہیں رکھتا اور دنیاوی کامیابی اور عزت بھی اسی کے مقدر میں لکھی جاتی ہے جو اطاعت کرتا ہے۔

حضرت علیؓ کا نام آج ہر مسلمان ، خواہ شیعہ ہو یا سنی، عزت سے لیتا اور آپؓ کے لیے دعا کرتا ہے۔روحانی طور پر بھی تمام عالم اسلام میں آپؓ کو عزت حاصل ہے اور دنیاوی طور پر بھی سنی ہوں یا شیعہ ہزاروں مسلمان بادشاہ آپؓ کو اپنا سردار مانتے اور آپ کا خادم کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ شیعہ اور علوی وغیرہ متعدد مسلمان فرقے حضرت علیؓ کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ سو دینی و دنیاوی ، دونوں لحاظ سے آپؓ ہی کامیاب ہوئے۔جبکہ آپؓ کے مخالفین کا آج کون نام لیوا ہے؟

کس کی اطاعت ؟

اگلا سوال طبعاً یہ ہے کہ اطاعت کس کی کرنی ہے؟

قرآن کریم اس کا یہ جواب دیتا ہے کہ مطاع حقیقی اللہ تعالیٰ ہے جو کہ تمام مخلوقات کا خالق اور مالک ہے۔ چنانچہ سب سے اول اطاعت اللہ کی ہے اور اللہ ہی کے حکم پر پھر باقی سب صاحبِ امر لوگوں کی اطاعت کی جاتی ہے۔ ان میں سب سے اول رسول ہیں جن کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے اذن سے کی جاتی ہے:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ(النساء:۶۵)

رسولوں میں سب سے بڑھ کر آنجنابؐ ہیں جن کی اطاعت عین اللہ تعالیٰ کی اطاعت قرار دی گئی ہے:

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ(النساء:۸۱)

آگے آپؐ نے وضاحت فرمائی ہے کہ خلفاء کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح خود آپؐ کی اطاعت:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ

(ابو داؤد، سنن، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ، ترمذی، سنن، کتاب العلم، باب ما جاء فی الخذ بالسنۃ)

اس سے آگے اسی زمرہ میں امراء بھی شامل ہیں جنہیں آپؐ یا آپؐ کے بعد خلفاء نے مقرر کیا ہوتا ہے:

من أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني

(بخاری، صحیح، کتاب الاحکام، باب قول اللّٰہ تعالیٰ: اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم)

پس اللہ کی اطاعت درجہ بدرجہ حسب مراتب اللہ ہی کے حکم سے نیچے اترتی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پھر نظامِ جماعت ہے۔اس میں چھوٹے سے چھوٹے عہدیدار سے لے کر خلیفۂ وقت تک کی اطاعت ہے۔اور اصل میں تو یہ تسلسل ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کا‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۲؍اپریل ۲۰۱۱ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍مئی ۲۰۱۱ءصفحہ۷)

چونکہ انسانی معاشرہ میں مذہب ہی کی طرح دنیاوی نظام حکومت بھی ضروری ہے اس لئے قرآن کریم کے مطابق اس دنیاوی نظام میں بھی اطاعت کا اصول جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ حکم ارشاد فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ

(النساء:۶۰)

یعنی اطاعت کے حکم میں اللہ اور رسول کے علاوہ اولی الامر بھی شامل ہیں۔ اولی الامر کون ہیں؟ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے‘‘

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳،صفحہ ۴۹۳)

اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ کا مسئلہ

اس آیت میں ’’مِنْکُمْ‘‘کے لفظ سے بعض علماء یہ مراد لیتے ہیں کہ صرف مسلمان حکمران کی اطاعت فرض ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ مِنْکُمْ سے مراد اس نوع میں سے ہونا ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اہل جہنم کو کہا جائے گا:

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ (الزمر:۷۲)۔

اس جگہ مِنْکُمْ سے مراد بالبداہت بنی نوع انسان ہے۔ اسی طرح اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ میں بھی مِنْکُمْ سے مراد بنی نوع انسانی ہے (حقائق الفرقان، زیر آیت النساء:۶۰)۔ یعنی مومن و کافر کی کوئی شرط نہیں ۔

پس انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ، خواہ دینی ہو یا دنیاوی، جو بھی نظام موجود ہے اس میں ایک اولی الامر بھی موجود ہے۔ دنیاوی طور پر وہ کسی حکومتی محکمہ کا افسر ، کسی گھر کا سربراہ، کسی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ دینی طور پر خلیفہ وقت، امیر، صدر، قائد ، زعیم وغیرہ ۔ اپنے اپنے مقام پر تمام اولی الامر کی اطاعت حسب مراتب فرض ہے۔

اطاعت، آزادی ضمیر اور اختلاف رائے

ایک سوال جو خصوصیت سے اس زمانے میں پوچھا جاتا ہے اور کئی لوگوں کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے ،اطاعت اور آزادی ضمیر و اختلاف رائے کے دائرہ کار کا ہے۔ کیا اطاعت کے مندرجہ بالا حکم ، جو کہ ہر شعبہ زندگی پر حاوی ہے، کا یہ مطلب ہے کہ اسلام میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں؟ اگر کسی امر کے متعلق اختلاف رائے ہو تو کیا انسان اطاعت سے آزاد ہو جاتا ہے؟ اگر اختلاف رائے ہو تو اسے حل کرنے کا طریق کیا ہے؟

قرآن کریم نے اس مسئلہ کا جو حل پیش کیا ہے تفصیل میں جانے سے پہلے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق اختلاف رائے ایک فطری چیز ہے جو کہ ناقص علم کا قدرتی نتیجہ ہے۔چنانچہ مختلف لوگوں کی رائے میں اختلاف ہو جانا کوئی انوکھی بات نہیں۔البتہ جب مختلف آرا پرکھنے کے بعد فیصلہ کر لیا جائے تو پھر اس فیصلہ کی اطاعت سب پر لازم ہو جاتی ہے ۔ پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میری رائے مختلف تھی اس لیے میں اس فیصلےپر عمل کا پابند نہیں ہوں۔ اس کی تفصیل اور اس میں موجود استثنائی صورتیں بھی قرآن کریم نے واضح کی ہیں۔

موجودہ دنیاوی جمہوری نظام نے بھی صدیوں کے تجربے کے بعد بالآخر یہی طریق اپنا لیا ہے جو کہ اسلامی تعلیم کے انسانی فطرت کے مطابق ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ چنانچہ مقننہ یعنی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد جب کوئی قانون بن جاتا ہے تو پھر اس پر عمل سب کے لیے لازم ہو جاتا ہے ۔ اس قانون کے مخالف بھی پھر اس پر عمل سے انکار نہیں کر سکتے۔

اختلاف رائے کیوں ہوتا ہے؟

قرآن کریم فرماتا ہے کہ اختلاف رائے ایک فطری چیز ہے جس کی وجہ ناقص علم ہے۔ انسان تو انسان فرشتوں کے متعلق بھی بتایا گیا ہے کہ جب انہیں آدم کی نیابت کے متعلق خبر دی گئی تو انہوں نے اس پر اپنی مختلف رائے پیش کی:

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ(البقرۃ: ۳۱)۔

اس کی وجہ ان کا ناقص علم تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ فرشتوں کو ’’یہ خیال گزرا کہ اب پیدائش آدم کی زحل کے وقت میں ہو گی اس کی سرشت میں زُحلی تاثیریں جو قہر اور عذاب وغیرہ ہے رکھی جائیں گی اِس لئے اس کا وجود بڑے فتنوں کا موجب ہو گا ۔ سو بنا اعتراض کی ایک ظنّی امر تھا نہ یقینی۔اس لئے ظنّی پیرایہ میں انہوں نے انکار کیا اور عرض کیا کہ کیا تُو ایسے شخص کو پیدا کرتا ہے جو مفسد اور خونریز ہو گا اور خیال کیا کہ ہم زاہد اور عابد اور تقدیس کرنے والے اور ہر ایک بدی سے پاک ہیں اور نیز ہماری پیدائش مشتری کے وقت میں ہے جو سعد اکبر ہے تب ان کو جواب ملا کہ

اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ(البقرۃ: ۳۲)

یعنی تمہیں خبر نہیں کہ مَیں آدم کو کس وقت بناؤں گا۔ میں مشتری کے وقت کے اُس حصے میں اس کو بناؤں گا جو اُس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۲۸۰ حاشیہ)

تمام انسانی اختلافات بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارا علم ناقص ہے۔ چنانچہ ہر شخص اپنے علم اور اپنی سمجھ کے مطابق ایک بات کو زیادہ اور دوسری بات کو کم اہمیت دے رہا ہوتا ہے یا ایک بات کا ایک نتیجہ سمجھتا ہے اور دوسرا اسی بات کا کچھ اور نتیجہ سمجھتا ہے ۔ اسی طرح بات کا کچھ حصہ ہمارے علم میں ہوتا ہے اور باقی اندازہ ۔اگر سب انسانوں کا علم کامل ہوتا تو اختلاف رائے بھی نہ ہوتا۔

مشورہ، فیصلہ اور اطاعت

اسی لیے قرآن کریم نے ہر اہم معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے مشاورت کا حکم دیا ہے:

شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ (آل عمران:۱۶۰)

تاکہ مختلف لوگوں کے مشورے سے کسی معاملے کے مختلف پہلو سامنے آ جائیں۔ آنحضورؐ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف معاملات میں مختلف لوگوں سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ بدر کے موقع پر آپؐ نے جب مشورہ طلب فرمایا اور مہاجرین نے رائے پیش کر دی تو آپؐ نےاس کے باوجود فرمایا لوگو مشورہ دو! اس لیے کہ آپؐ انصار کی رائے بھی دریافت فرمانا چاہتے تھے(ابن ہشام، سیرۃ، استشارہ الانصار)۔کس سے کب، کیا مشورہ لینا ہے یہ کام صاحب امر کا ہے۔ مذہبی دائرے میں خلیفہ وقت نے یہ فیصلہ کرنا ہے اور دنیاوی دائرے میں حکومت نے ۔ چنانچہ مختلف ممالک کی حکومتوں نے مختلف طریق کار مقرر کر رکھے ہیں کہ فلاں قسم کے معاملات پارلیمنٹ میں طے ہوں گے، فلاں قسم پر الیکشن یا ریفرنڈم ہو گا، اور فلاں قسم حکومت خود طے کرے گی۔ اسی طرح پارلیمانی کمیٹیاں ہوتی ہیں، مختلف وزارتوں کی کمیٹیاں ہوتی ہیں، کابینہ ہے وغیرہ۔ مذہبی طور پر ایک تو وہ عمومی طریق ہے جسے ہمارے ہاں مجلس مشاورت کہتے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف معاملات پر کبھی کسی فرد کبھی کسی کمیٹی سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ مشورے کے متعلق فرماتے ہیں:

’’شَاوِرۡہُمۡ میں سوال پیدا ہوتا ہے کن سے؟؟؟تو اس میں بھی ھُمْ کے فیصلہ کرنے کا حق خلیفہ وقت کو نبی اکرم کی نیابت میں ہے۔ اور کن سے مشورہ کرنا ہے اور جن سے مشورہ کرنا ہے اگر ان کا انتخاب ہونا ہو تو کس طریق سے ان کا انتخاب ہو گا یہ فیصلہ بھی خلیفہ وقت نے ہی کرنا ہے ‘‘

(تفسیر، زیر آیت آل عمران : ۱۶۰)

ضروری نہیں کہ فیصلہ ہمیشہ کثرت رائے سے ہو۔ دنیاوی حکومتیں بھی بعض فیصلے عوام کی اکثریت کی رائے کے خلاف کرتی ہیں۔ اسی طرح مذہبی طور پرخلفاء بھی بعض فیصلے اکثریت کی رائے کے خلاف کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ حکومت بعض فیصلوں میں کثرت رائے کی پابند ہوتی ہے۔ جبکہ نظام خلافت کے الٰہی نظام ہونے اور خلفاء کے اللہ تعالیٰ سے براہ راست راہ نمائی پانے کی وجہ سے خلفاء کسی بھی معاملہ میں کثرت رائے کے پابند نہیں ہوتے۔ جب فیصلہ ہو جائے تو پھر اس پر عمل کیا جاتا ہے:

فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ(آل عمران: ۱۶۰)۔

اس کے بعد اختلاف رائے کا باب بند ہو جاتا ہے۔ یہ اصول بھی دنیاوی اور دینی دونوں دائروں پر محیط ہے۔

ایک دفعہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بات کے متعلق کچھ دریافت فرمایا۔ حضور اس معاملے پر پہلے کچھ اظہار خیال فرما چکے تھے اور صاف معلوم ہو رہا تھا کہ حضور کی کیا رائے ہے۔ تاہم ایک نوجوان نے اس کے برخلاف رائے دی۔اس پر حضور نے کچھ تبصرہ فرمایا، جس سے اور بھی واضح ہو گیا کہ حضور کی رائے کیا ہے۔ پھر حضور نے مزید رائے دریافت فرمائی۔اس پر ایک اور نوجوان نے رائے بیان کی اور وہ بھی حضور کی رائے سے مختلف تھی۔اس پر حضور نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے، ابھی میں نے فیصلہ نہیں کیا۔جب تک فیصلہ نہ ہو جائے رائے دے سکتے ہیں۔یہ اسی اصول کا اظہار تھا۔ ضمناً یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ جنہوں نے مختلف رائے دی تھی انہوں نے اخلاص سے ایسا کیا تھا اور ہمیشہ اطاعت اختیار کی ۔ متعدد ملاقاتوں میں حضور کا ان کے ساتھ سلوک مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ راقم کے خیال میں حضور ان سے خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔

قرآن کریم کے مطابق وہ فیصلے جن میں مشورہ نہ کیا گیا ہو، ان میں فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی بعض استثنائی صورتوں میں اپنی رائے براہ راست متعلقہ اولو الامر کو پیش کرنے کی اجازت ہے۔ آدم ہی کے قصہ میں دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنے اس فیصلےکی خبر دی تھی کہ میں خلیفہ مقرر کرنے لگا ہوں ، ان کی رائے نہیں پوچھی تھی۔ تاہم انہوں نے اس کے باوجود اپنی رائے پیش کی ۔صحابہؓ کا بھی یہی طریق تھا۔ آنحضورؐ نے جب بدر کے موقع پر ایک جگہ نزول کا حکم دیا تو حضرت حبابؓ بن منذر نے اس علاقے سے واقف ہونے کی بنا پر اس جگہ کی بجائے پانی کے پاس اترنے کا صائب مشورہ دیا جو آپؐ نے قبول فرمایا (ابن ہشام، سیرۃ، قریش تنزل بالعدوۃ و المسلمون بالبدر)۔ البتہ جب کسی فیصلےپر عمل در آمد شروع ہو جائے تو پھر اس بات کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔

تاہم قرآن کریم خبردار فرماتا ہے کہ اس گنجائش کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر چھوٹی بڑی بات میں اپنی رائے پیش کر کے منوانے کی کوشش کی جائے۔

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ (الحجرات: ۸)۔

یعنی اگر اللہ کا رسول اکثر باتوں میں تمہاری رائے ماننے لگ جائے تو یہ امر آخر کار خود تمہارے لئے مشکل کا باعث ہو جائے گا۔ پس اپنی اختلافی رائے، قرآن کریم اور سیرۃ النبیؐ کی روشنی میں اس وقت پیش کرنی چاہیے جب اس کے نتیجے میں یا تو کوئی بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو یا پھر کسی بڑے اور اہم فائدہ کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہو۔ ہر بات میں اختلاف رائے کا اظہار ادب کے خلاف ہے۔چنانچہ قرآن کریم کے مطابق مومنین کا عام طریق یہ ہے کہ

وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا(البقرۃ: ۲۸۶)

ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اپنی رائے پیش کرنے کا درمیان میں کوئی ذکر نہیں۔ نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہر آدمی ہر بات پر اپنی رائے پیش کرتا رہے۔ اگر ایسا ہو تو سارا وقت تو آراء سننے اور فیصلہ کرنے میں ہی لگ جانا ہے پھر عمل کس وقت ہو گا؟

ادب

ہر زمانےمیں ایک طبقہ ایسا پایا جاتا ہے کہ جو شخصی حریت اور اختلاف رائے کے اظہار میں غلو کو آزادی کی علامت سمجھتا ہے اور ادب، انکساری اور حفظ مراتب کی بجائے تضحیک اور اعتراض کو آزادی ضمیر قرار دیتا ہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ پھر عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں :

ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمۡ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوۡا وَ اتَّخَذُوۡۤا اٰیٰتِیۡ وَ رُسُلِیۡ ہُزُوًا (الکہف: ۱۰۷)۔

حضرت مسیح موعودؑ نے اس بات کو بہت وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ استہزا اور گستاخی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہی پکڑ کرتا ہے۔ فرمایا:’’نری تکذیب کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی۔اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس نے ایک اَور عالم عذاب کے لئے رکھا ہے۔ عذاب جو آتے ہیں وہ تکذیب کو ایذا کے درجے تک پہنچانے سے آتے ہیں۔ اور تکذیب کو استہزاء اور ٹھٹھے کے رنگ میں کر دینے سے آتے ہیں‘‘(ملفوظات، جلد ۳صفحہ ۱۱۹)۔ حضورؑ نے بار بار اس طرف توجہ دلائی اور فرمایا گر حفظ مراتب نہ کنی، زندیقی! یعنی اگر مختلف امور کی درجہ بندی اور تقدیم و تاخیر کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ بات انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے!

پس اختلاف رائے ہو، کوئی تجویز ہو، کوئی بات سمجھ نہ آئے،کسی بات پر سوال پیدا ہو، اگر وہ اہم ہے تو اسے ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے حصول علم و رفع شک کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔اسلام ہرگز آزادی ضمیر کا مخالف نہیں۔ البتہ ہر بات کو بعض حدود و قیود کے اندر رہ کر کرنے اور تہذیب کے دائرےکو ملحوظ رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ادب کا طریق کیا ہے؟

ادب کے طریق

1۔لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ(الحجرات: ۳)۔

زیادہ اونچی آواز میں بات نہ کرو۔

2۔فَاِنِ اتَّبَعۡتَنِیۡ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِیۡ عَنۡ شَیۡءٍ حَتّٰۤی اُحۡدِثَ لَکَ مِنۡہُ ذِکۡرًا (الکہف:۷۱)۔

جب تک خود نہ بتایا جائے اس وقت تک سوال کر کے مت پوچھو۔ صحابہؓ اس پر بہت عمل کرتے تھے اور انتظار کرتے رہتے تھے کہ کوئی بدو آ کر سوال کرے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا بھی یہی طریق تھا (حقائق الفرقان،الکہف:۷۱)۔

3۔لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ (الحجرات:۳)۔

اس طرح کھل کر بات نہ کرو جیسے عام ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ کر لیتے ہو۔

4۔لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا(البقرۃ:۱۰۵)۔

ایسے الفاظ استعمال نہ کرو جو ذو معنی ہوں یا جن سے تخفیف یا برابری ظاہر ہو۔

5۔اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ (الجرات: ۵)۔

اوٹ سے بات نہ کرو۔ کچھ عرض کرنا ہو تو سامنے حاضر ہو کر کرو۔

6۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی (الاحزاب:۷۰)

۔تکلیف مت دو۔ بعض بے شرم نبیوں پر بھی الزامات لگانے یا طعن زنی سے باز نہیں آتے۔اس آیت سے اس غلط طریق کا بھی رد ہو جاتا ہے جو حضرت عمرؓ کے متعلق لمبی چادر کا اعتراض کرنے والی عورت یا بدو نے اپنایا۔

7۔فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ(الحجرات: ۸)۔ا

پنی رائے پر اصرار مت کرو ۔ اگر اکثر امور میں ہماری مانی جائے تو بالآخر خود ہمارے لیے ہی مشکل ہو جائے گی۔ رائے پر اصرار تو دور، زیادہ سوال کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور وہاں بھی یہی حکمت بیان کی گئی ہے کہ پھر خود تمہارے لیے مشکل ہو جائے گی :

لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ(المائدہ:۱۰۲)۔

اسی لیے صحابہؓ کا عمومی طریق خاموشی کا تھا۔ صرف ان مواقع پر ، جب کسی بڑے نقصان کے ہونے یا کسی بڑے فائدہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا اپنی رائے عرض کرتے ورنہ صرف اسی وقت جب آپؐ رائے طلب فرماتے۔

8۔لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ(الحجرات:۲)۔

اللہ اور رسولؐ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔نہ تو ان کے فیصلے پر کچھ زیادہ کرنا چاہیے نہ ہی ان کے فیصلے کے آنے سے پہلے۔

9۔اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَاۚاِنَّہٗ قَدۡ جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ(ھود:۷۷)۔

جب کسی فیصلہ پر عمل در آمد شروع ہو جائے پھر اس بارہ میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔

10۔فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ(ھود: ۴۷)۔

جب فیصلےپر عمل در آمد شروع ہو چکا ہو تو اس کے متعلق سوال بھی نہیں کرنا چاہیے۔اس آیت اور اوپر والی آیت میں فیصلے کامل علم والی ذات یعنی اللہ کے تھے۔جو فیصلے انسان کرتے ہیں ان میں سوال کرنے کی استثنائی گنجائش باقی رہتی ہے جس کا ذکر گزر چکا ہے۔

11۔وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ(الشعراء:۸۱)۔

نقصان اپنی طرف جبکہ نعمت اللہ کی طرف منسوب کی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر نقصان انسان کی اپنی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ ہر رحمت اور نعمت اللہ کی طرف سے آتی ہے۔

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ۫وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ(النساء:۸۱)۔

پس نقصان کو خدا تعالیٰ یا بزرگان یا نظام جماعت کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے۔

12۔حفظ مراتب۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ نے ہمارے تمام اقوال و افعال بلکہ دنیا کی تمام اشیاء میں مراتب رکھے ہیں۔ مراتب کو نگاہ رکھنا بڑا ضروری ہے۔‘‘ (تفسیر، التوبہ: ۲۱)۔ یعنی ہر بات، ہر شخص کا ایک مقام ہے اس کے مطابق اس کا ادب کرنا ضروری ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب انسان برابر ہیں اس لیے کسی کا ادب کیوں کیا جائے؟ جب اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایک منصب پر فائز کیا ہے تو اس کے مطابق اس کا ادب کرنا بھی فرض قرار دیا ہے۔

فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ(ص: ۷۳)

حکم ہے۔جس نے یہ حکم نہیں مانا اور برابری بلکہ فوقیت کا حوالہ دیا اس کا انجام بھی بتا دیا گیا ہے۔

اطاعت اور فتنہ انگیزی

جس بات سے اسلام میں منع کیا گیا ہے وہ فتنہ اور فساد پھیلانا ہے۔ یعنی پہلے اپنے اعتراضات اور تجاویز لوگوں میں بیان کرنا اور کہنا یہ کہ ہم تو بہتری چاہتے ہیں

اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ(البقرۃ:۱۲)

اور اس کے لیے ہمارے پاس بڑی اچھی تجاویز ہیں۔ لیکن اگر وہ تجاویز رد کر دی جائیں تو پھر رونا دھونا کہ ہماری بات نہیں سنی جاتی

یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ(آل عمران:۱۵۵) ۔

یعنی درحقیقت یہ اصرار ہوتا ہے کہ جیسے ہم کہہ رہے ہیں ضرور ویسے ہی کیا جائے۔ایسے میں اگر کوئی نقصان ہو جائے، خواہ اس کی کوئی اور ہی وجہ ہو، تو پھر کہتے ہیں کہ دیکھا! ہماری بات نہیں سنی تھی اور ہماری تجاویز پر عمل نہیں کیا تھا ناں ،اسی لیے نقصان ہوا ہے۔

یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا(آل عمران:۱۵۵)۔

اگر وہ درحقیقت اصلاح چاہتے، تو متعلقہ اولی الامر کے سامنے اپنی رائے اور تجاویز پیش کرتے۔ اور اگر ان کی تجاویز رد کر دی جائیں تو خاموشی اختیار کرتے نہ کہ اپنی بات پر اصرار۔

بعض لوگ حضرت عمرؓ کے متعلق ایک مشہور واقعہ پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت یا ایک بدو نے سب کے سامنے خلیفہ وقت پر اعتراض کیا اور پوچھا کہ آپ کے پاس ایک چادر سے زیادہ لمبائی کا کرتہ کہاں سے آ گیا جبکہ ہر شخص کو ایک چادر دی گئی تھی؟ اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں ہر چھوٹے بڑے پر کھلے عام اعتراض کرنے اور اولی الامر سے سرِ بازار باز پرس کرنے کی اجازت ہے۔ یہ جہالت ہے ، اسلام میں ایسا ہرگز نہیں ۔صحابہؓ جنہوں نے آنحضورؐ سے تعلیم حاصل کی تھی نے کبھی ایسی حرکت نہیں کی۔یہ طریق بالکل بھی جائز نہیں اور ادب کے خلاف ہے۔

ادب اور چاپلوسی میں فرق

ادب اور حفظ مراتب کا مطلب ہاں میں ہاں ملانا نہیں۔ بعض لوگ ہر وقت یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کیا جواب پسند کیا جائے گا تاکہ اس کے مطابق جواب دیں۔یہ طریق درست نہیں۔ انبیاء اور خلفاء کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ کوئی ان کی تائید کر رہا ہے یا نہیں۔انہوں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے وہی فیصلہ کرنا ہے جو وہ بہتر سمجھتے ہیں خواہ سب کی رائے اس کے خلاف ہو۔

فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ(آل عمران: ۱۶۰)۔

چنانچہ ان کے لیے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ طلب کرنے پر رائے دینے والے دیانتداری اور تقویٰ سے درست رائے دیں۔ خواہ وہ موافق ہو یا مخالف، خواہ وہ درست ہو یا غلط۔ اگر وہ مناسب نہیں ہو گی تو اسے رد کر دیں گے۔اس خوف سے رائے بدل لینا کہ وہ رد نہ ہو جائے جائز نہیں۔

درحقیقت مخالف رائے بھی فائدہ مند ہوتی ہے کیونکہ اس میں سے بھی بعض پہلو فائدے کے نکل آتے ہیں۔ کم از کم یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں نقطہ نظر بھی موجود ہے اس کا جواب دینا چاہیے۔اس لیے جو شخص اپنی رائے سچائی اور دیانت داری کے ساتھ بیان کرتا ہے، خواہ اس کی رائے غلط ہی ہو، اس سے بہتر ہے جو محض ہاں میں ہاں ملانے کے لیے بلا سوچے سمجھے یا منافقانہ طریق پر تائید کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارا مذہب تو یہ ہے اور یہی مومن کا طریق ہونا چاہیئے کہ بات کرے تو پُوری کرے۔ورنہ چُپ رہے۔‘‘

(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۴۹)

آنحضورؐ کے وقت میں حضرت عمرؓ کی رائے اکثر سختی اور سزا دینے کی ہوتی تھی۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں جو کہ حربی قیدیوں سے سلوک سے لے کر مختلف منافقین کو سزا، عبد اللہ بن ابی کے جنازے، صلح حدیبیہ، متعدد صحابہ کی غلطیوں پر ان کو سخت سزا دینے کی تجاویز تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر کم و بیش ہر جگہ رحمۃ للعالمینؐ نے نرمی اور عفو کا فیصلہ کیا۔ تاہم آخر تک حضرت عمرؓ جس رائے کو دیانت داری کے ساتھ درست سمجھتے تھے ہمیشہ وہی عرض کرتے۔آپؓ نے اپنی رائے رد ہونے کے خوف سے کبھی نہیں بدلی۔یہی تقویٰ ہے۔جب آنحضورؐ فیصلہ فرما دیتے تو پھر آپؓ پورے دل و جان کے ساتھ اس پر عمل کرتے۔

چاپلوسی یا منافقت سے تائید کرنے کا فائدہ بالآخر کچھ نہیں ہوتا! یہ لوگوں کی خام خیالی ہے کہ وہ یوں نبی یا خلیفہ کی رضا حاصل کر لیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ انبیاء اور خلفاء کا یہ طریق نہیں کہ کسی کی پردہ دری کریں جب تک کہ اللہ تعالیٰ خود ظاہر نہ فرما دے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button