خلافت سلور جوبلی
سارے افراد قادیان کی گلی گلی اور کوچہ کوچہ اور رات دن کے اجلاسوں اور دیگر عمومی امور کے لطیف تذکرے کیا کرتے تھے
ماہنامہ احمدیہ گزٹ کینیڈامئی 2019ء کے سر ورق پر خلافت سلور جوبلی 1358ہجری شمسی بمطابق 1939ء میں خلافت سلور جوبلی کی تقریبات کے موقع پر بنائی گئی ایک یادگار پِن (بیج، ٹیگ) دیکھ کر میرے ذہن میں مستحضر ہوا کہ ہمارے بزرگ کہاکرتے تھے کہ 1939ء میں سلور جوبلی کی تقریب میں بڑی بڑی احمدی جماعتوں نے قادیان میں جلوس نکالے تھے۔ اس موقع پر حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓنے اپنے گاؤں ، ادرحماں،کی لوائے احمدیت کی قیادت کی تھی۔ جماعت سے عقیدت کے اظہار میں جو روایات قائم کی ہیں، چھوٹی عمر میں بزرگوں کی مجالس میں میرے کانوں نے جوباتیں سنی ہیں، جب ان کا تصور ذہن میں بیدار ہوتا ہے تو بہت لطف آتا ہے۔ رسالہ مذکورہ بالا کا سر ورق دیکھ کر میں نے اپنے بیٹے، حافظ انیس الرحمان صاحب، سے ذکر کیا کہ اس تقریب میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓنے جماعت احمدیہ ادرحماں ضلع سرگودھا (پاکستان)کی قیادت کی تھی تو عزیز موصوف نے فرمائش کی کہ اس پر کوئی مضمون لکھیں۔ اپنے ذہن پر زور دے کر جو کچھ مستحضر ہو رہا ہے، سپرد قلم کر رہا ہوں،ممکن ہے من و عن نہ بیان کر سکوں مگرباتیں سچی ضرور ہیں۔
1۔ خلافت سلور جوبلی کے جلوس میں قیادت کرنے کا اوپر تحریر کر چکا ہوں۔
2۔ اس زمانے میں افراد جماعت جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے قادیان جایا کرتے تو گاؤں سے باہر نکل کر اکٹھے ہوتے تھے۔بزرگ ذکر کرتے تھے کہ ایک بار جلسہ سالانہ کے لیے جانے والے باہر جمع ہو رہے تھے، مکرم حسن محمد صاحب ؓ سے کسی نے کہا کہ’’آپ کی اہلیہ کو درد زہ شروع ہو چکا ہے، آپ واپس گھر جائیں۔‘‘ اس پر موصوف نے کہا : ’’وہ اللہ کے سپرد ہے، میں جلسہ سالانہ کے لیے جانے سے رک نہیں سکتا۔‘‘اس زمانے میں آج کل کی طرح میڈیکل (طبی) سہولیات اور زنانہ سروسز مہیا نہیں ہوا کرتی تھیں، غالباً خاوند ہی اپنی اہلیہ کے اس مرحلہ میں کام آ سکتا ہوگا اور مدد کرتا ہوگا۔ چنانچہ موصوف قادیان چلے گئے اور یہ مشکل وقت خیریت سے انجام تک پہنچا۔ اس زمانے میں ٹریفک آج کل کی طرح نہ ہوتی تھی۔ گاؤں سے پیدل چل کر پچیس میل دور طالب والا پتن ، سیال چوک سے دریائے چناب میں کشتیاں جوڑ کر بنائے گئے پل پر سے دریا پار کر کے آگے جاتے تھے۔دریا پا رکرکے پنڈی بھٹیاں سے کسی بیل گاڑی ،ریڑھہ یاٹانگہ پر سوار ہو کر سکھیکی ریلوے سٹیشن سے ٹرین میں بیٹھ کر لاہور اور وہاں سے ٹرین میں ہی بٹالہ جا اترتے اور آگے پیدل قادیان پہنچ کر جاتے ہی خوشی خوشی حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے گھر پہنچ جاتے اور اس کوٹھا میں جا ڈیرہ لگاتے جو آپؓ نے ادرحماں کے مہمانوں کی خاطر بنوایا ہوا تھا(یہ کوٹھادروازہ سے اندرداخل ہو کر ڈیوڑھی کے ساتھ ملحق تھا)۔
دوسرا راستہ قادیان جانے کا اس طرح تھا کہ کچھ افراد گاؤں سے پیدل چل کر دریائے چناب سے پار ٹھٹھہ شیخ موسیٰ میں رات ٹھہر کر اگلے دن مومن ریلوے سٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوکر لاہور اور بٹالہ جانے کا تھا۔
قادیان میں قریباً سبھی افراد حضرت مولوی صاحب ؓ موصوف کے گھر اسی کوٹھامیں ٹھہرناپسند کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ حضرت مولوی صاحبؓ کا بڑا کوٹھا ادرحماں والوں سے ہی پُر ہو جایا کرتا تھا۔ جلسے کے اختتام پر واپسی اجتماعی ممکن نہ تھی، ہر کوئی مناسب موقع پا کر اور اپنے حالات کے مطابق نکل جایا کرتے تھے۔ گاؤں میں سب سے پہلے پہنچنے والا میاں عیسیٰ کی ڈیوڑھی میں آ گ تاپنے آ بیٹھتا اور سب حاضرین سے جلسہ سالانہ کی کارگذاری اور شمولیت ذوق و شوق سے بیان کرتا تھا۔ ان مجالس میں سنے ہوئے اذکار میرا سرمایہ زیست ہیں، اللہ اللہ کیسی مجالس تھیں۔ سارے افراد قادیان کی گلی گلی اور کوچہ کوچہ اور رات دن کے اجلاسوں اور دیگر عمومی امور کے لطیف تذکرے کیا کرتے تھے، جب یہ تصور میں آتے ہیں تو دلی مسرت نصیب ہوتی ہے۔
چار سال کی عمر میں مجھے بھی ایک جلسہ سالانہ میںتایاجی، مکرم عبدالرحمٰن صاحب مرحوم ساتھ لے گئے تھے۔ جلسہ سالانہ کے بعض نقوش اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات کے دھندلے سے اثرات اب بھی دماغ میں موجود ہیں۔ الحمدللہ۔
اس ضمن میں ایک دو واقعات ذہن میں مستحضر ہوئے ہیں،جن کو لکھ رہا ہوں۔ بزرگ سنایا کرتے تھے کہ ایک سال جلسہ سالانہ رمضان المبارک کے آخری دنوں میں منعقد ہوا اور عید الفطر ہم سب نے قادیان میں گذاری۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے ہمارے گاؤں کی روایت کے پیش نظر حلوہ بنوایا اور حلوہ والا کڑاہ (بڑا سا برتن)ہمارے کوٹھا کے سامنے رکھ کر خود اپنے ہاتھ سے حلوہ برتن میں ڈال ڈال کر ہم میں سے ہر ایک کو کھلایا تھا اور فرماتے تھے کہ چونکہ گاؤں میں عید کے روز حلوہ کھایا جاتا تھامیں نے سوچا کہ اپنے عزیزوں کو حلوہ پیش کروں۔سبحان اللہ۔
ایک بار جلسہ سالانہ کے موقع پر رات کے وقت ایک غریب سا آدمی، علی موچی، رات کے وقت بازار چلا گیا۔ واپس آ رہا تھا کہ بزرگ بیان کرتے ہیں کہ اتفاق سے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ غالباً کسی میٹنگ میں شمولیت کے بعد واپس آ رہے تھے تو علی مذکور سے پیچھے سے آملے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرفرمایا : ’’علی! تم اس وقت کہاں پھر رہے ہو؟‘‘ اس نے عرض کی کہ میرا جی چائے پینے کوچاہا، بازار آیا تو کوئی چائے کی دکان کھلی نہ تھی، اب واپس جارہا ہوں۔ حضرت مولوی صاحبؓ اسے اس کوٹھا میں چھوڑ کر خود اندر جا کر چائے پکوا کر لائے اور چائے کا برتن اٹھا کرمہمان خانہ کے دروازہ پر رکھا اور علی موچی کو آواز دی کہ آؤ ، چائے پی لو اور فرمایا کہ جس جس نے چائے پینی ہے آؤ ۔اورخود پیالوں میں گرم چائے ڈال کر ہمیں بھی پلائی۔ کیاعمدہ اخلاق و اطوار تھے، ان بزرگوں کے اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی ایسے عمدہ اور اعلیٰ اخلاق عطا فرمائے۔آمین
خلافت سلورجوبلی 1939ء اور یادگار پن ٹیگ سے متاثر ہو کر یہ مضمون تیار کیا گیا ہے۔ الحمدللہ۔
٭…٭…٭