نظامِ خلافت کی اطاعت
ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے
’’اللہ تعالیٰ نےاپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا ہے خلیفہ بنا دیا جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے فرشتے بن کر اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو ابلیس نہ بنو۔‘‘
(بدر 4؍جولائی 1912ءجلد 12نمبر 1صفحہ7)
مبارک وہ حقیقت جان لی جس نے خلافت کی
مبارک وہ جو پیوستہ خلافت کے سحر سے ہے
مبارک وہ قیادت مان لی جس نے خلافت کی
کہ وہ محفوظ ہر خوف و خطرہ، ہر فتنہ گر سے ہے
(مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری)
(کتاب وفا کے قرینے مرتبہ لجنہ اماء اللہ پاکستان)
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ۔(النساء:60)
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو۔ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں (اولوالامرسے ) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر( فی الحقیقت )تم اللہ پر اور یوم آخرپر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
حدیث نبویؐ میں ارشاد ہوتا ہے :
مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْاَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ یَعْصِیْنِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَ مَنْ یُّطِعِ الْامِیْرَفَقَدْاَطَاعَنِی وَ مَنْ یَّعْصِ الْامِیْرَفَقَدْ عَصَانِی۔
(مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ)
جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نا فر مانی کی۔ جس نے حاکم وقت کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جو حاکم وقت کا نافرمان ہے وہ میرا نا فرمان ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اطاعت کے نظام کو اس طرح یکجا کیا ہے کہ امیر سے لے کر اپنے وجودِباجود تک اطاعت کو خدا تعالیٰ کی اطاعت سے باندھ دیا ہے۔ اگر امیر کی نافرمانی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی قرارپاتی ہے تو اس مذکورہ بالا حدیثِ رسولؐ اور قرآنِ کریم کے مطابق آپؐ کی نافرمانی موجبِ معصیتِ الٰہی ہے۔
آج ساری امت مسلمہ غیر معمولی افتراق، انتشار اورغربت وافلاس اور ذہنی وفکری پسماندگی کا شکار ہے۔ اس افتراق اور زبوں حالی کو دور کرنے کے لیے اور اتحاد واتفاق اور اجتماعیت کی فضا پیدا کرنے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں لیکن آخر وہی ہوتا رہا جس کی نشان دہی قرآن میں آئی ہے کہ بظاہر یہ ایک ہیں مگر ان کے دل انتشار کا شکار ہیں۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کے اختلاف کو دور کرنے کے لیے جو بھی تحریک اٹھی اس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں۔ اوراسلام کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور تائید کو جذب کرنے کے اس کے قہر کا مورد کیوں بن رہی ہیں۔ کیوں مسلمانوں کی ایسی کس مپرسی کی حالت میں قرون اولیٰ میں تو خدا کی رحمت جوش میں آجاتی تھی اور اب نہیں آرہی؟ اس امر پر غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور قرآن کریم اور احادیث کے مضمون کے مطالعے کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کی اصل بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے اس نعمت خداوندی سے محروم ہو چکے ہیں جو ان کو متحد کرنے کی ضامن تھی جس کا وعدہ ان سے خدا تعالیٰ نے سورۃ النور کی آیت استخلاف میں ان الفاظ میں دیا تھا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(النور:56)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :
’’اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیںہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کردینا ضروری ہوتا ہے، بدوں اس کے اطاعت نہیں ہو سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔ یہ سچ بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیںکہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے…اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سِر ہے۔ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں بھی صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے، خدا نے ان کی بناوٹ ہی ایسی رکھی تھی، وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخرجب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓاور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا اپنی تمام آ رائوں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا…نا سمجھ مخا لفوںنے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا گیا مگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ دل کی نا لیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہہ نکلی تھیں۔ یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا…تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ایسی ہو، باہم محبت اور اخوت ہو تو ایسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔‘‘
( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 3صفحہ317تا319)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓفرماتے ہیں :
’’…اور یہ وصیّت کر تا ہوں کہ تمہارا اِعتِصام حَبْل اللّٰہ کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دَستورُ العمل ہو۔ با ہم کوئی تنازع نہ ہوکیونکہ تناز ع فیضانِ الٰہی کو روکتا ہے…چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے اِمام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غَسّال کے ہاتھ میں ہو تی ہے تمہارے تمام اِرادے اورخواہشیں مُردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو اِمام کے ساتھ ایسا وابَستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ اِستِغفار کثرت سے کرو اور دعائوں میں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش مُعاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر اِزدِیادِنعمت ہوتاہے۔‘‘
(خطباتِ نور صفحہ131)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓفرماتے ہیں :
’’یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حق دار کو نہیں پہنچی رافضیوں کا عقیدہ ہے۔ اس سے توبہ کر لو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا ہے خلیفہ بنا دیا جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے فرشتے بن کر اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو ابلیس نہ بنو۔‘‘
(بدر 4؍جولائی 1912ءجلد 12نمبر 1صفحہ7)
اطاعت کے معا نی
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’پھر یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لفظ اَلطَّا عَۃُ کے معنی محض فرمانبرداری کے نہیں بلکہ ایسی فرمانبرداری کے ہیں جو بشاشتِ قلب کے ساتھ کی جائے اور اس میں نفس کی مرضی اور پسندیدگی بھی پائی جاتی ہو…طَوْ ع کے مقابل پر کَرْ ہ کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی ہیں
مَا اَکْرَھْتَ نَفْسَکَ عَلَیْہِ ( اقرب)
کہ انسان کوئی کام دل سے نہیں کرنا چاہتا بلکہ بیرونی دبائو کی وجہ سے اسے سرانجام دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ صاف ظاہر ہے کہ ایسے کام میں بشاشت پیدا نہ ہو گی…الغرض اَلطَّا عَۃُ کے معنی وضع لغت کے لحاظ سے خالی فرمانبرداری کے نہیں بلکہ اس فرمانبرداری کے ہیں جو پسندیدگی اور خوشی سے ہو نہ کہ جبر اور اکراہ سے…پس اطاعت کے اس مفہوم کے لحاظ سے
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ لِیَ دِیْن
کے معنی یہ ہوں گے کہ اے منکرو تمہارا اطاعت کا مفہوم اور ہے اور میرا اور ہے یعنی تم صرف ظاہری آداب بجا لانے کو اطاعت سمجھ رہے ہو اور میں اطاعت صرف اسے کہتا ہوں کہ بشاشتِ قلب سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائے جائیں اور ان کو بجا لاتے ہوئے انسان کو لذت اور سرور محسوس ہو۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 10صفحہ421تا422)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا:
’’اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرے کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے، اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوئوں کو اس کی آرزوئوں کے تابع کرتا ہے، اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتاہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍اگست1937ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 18صفحہ 367)
ا طاعتِ رسول بھی صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’پس درحقیقت اقامتِ صلوٰۃ بھی بغیر خلیفہ کے نہیں ہو سکتی اسی طرح اطاعت رسول بھی جس کا
اَطِیْعُوااللّٰہ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ
کے الفاظ میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرویا جائے۔ یوں تو صحابہؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں، صحابہؓ بھی روزے رکھتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں، صحابہؓ بھی حج کرتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں۔ پھر صحابہؓ اور آجکل کے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ یہی فرق ہے کہ وہ اس وقت نمازیں پڑھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب نماز کا وقت آگیا ہے، وہ اس وقت روزے رکھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب روزوں کا وقت آگیا ہے اور وہ اُس وقت حج کرتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب حج کا وقت آگیا ہے اور گو وہ نماز اور روزہ اور حج وغیرہ عبادات میں حصہ لےکر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے مگر ان کے ہر عمل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی روح بھی جھلکتی تھی جس کا یہ فائدہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے، صحابہؓ اُسی وقت اس پر عمل کرنے کےلئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ لیکن یہ اطاعت کی روح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں۔ مسلمان نماز بھی پڑھیں گے، مسلمان روزے بھی رکھیں گے۔ مسلمان حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہو گا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظامِ خلافت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس جب بھی خلافت ہو گی اطاعت رسول بھی ہو گی۔ کیونکہ اطاعت یہ نہیں کہ نمازیں پڑھویا روزے رکھو یا حج کرو یہ تو خدا کے حکم کی اطاعت ہے۔ اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ نماز پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کردیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوٰۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوٰۃ اور چندوں پر زوردینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کےلئے کھڑے ہو جائیں۔ غرض یہ تینوں باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم وملزوم ہیں۔ اگر خلافت نہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی، تمہاری زکوٰتیں بھی جاتی رہیں گی، اور تمہارے دل سے اطاعت رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا۔
ہماری جماعت کو چونکہ ایک نظام کے تحت رہنے کی عادت ہے اور اس کے افراد اطاعت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اس لئے اگر ہماری جماعت کے افراد کو آج اُٹھا کرمحمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رکھ دیا جائے تو وہ اسی طرح اطاعت کرنے لگ جائیں جس طرح صحابہؓ اطاعت کیا کرتے تھے لیکن اگر کسی غیر احمدی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے تم اس زمانہ میں لے جاؤ تو تمہیں قدم قدم پر وہ ٹھوکریں کھاتا دکھائی دے گا اور وہ کہے گا کہ ذرا ٹھہر جائیں مجھے فلاں حکم کی سمجھ نہیں آئی بلکہ جس طرح ایک پٹھان کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کہہ دیا تھا ’’اخومحمدؐ صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ قدوری میں لکھا ہے کہ حرکتِ صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح وہ بعض باتوں کا انکار کرنے لگ جائے گا۔ لیکن اگر ایک احمدی کو لے جاؤ تو اس کو پتہ نہیں لگے گا کہ وہ کسی غیر مانوس جگہ میں آگیا ہے بلکہ جس طرح مشین کا پُر زہ فوراً اپنی جگہ فِٹ آجاتا ہے اسی طرح وہ وہاں پر فِٹ آجائے گا اور جاتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی بن جائے گا۔‘‘
(خلافت علیٰ منہاج النبوۃ جلد2صفحہ 140تا141)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جھکا دیں۔ میں کیونکر تمہاری خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو رد کروں مجھے اُس نے اُسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا تھا… اُس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس کرتہ کو مجھ سے نہیں اتار سکتا جو اُس نے مجھے پہنایا ہے۔ یہ خدا کی دین ہے اورکون سا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے خدا تعالیٰ میرا مدد گار ہو گا۔ میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے، میں کمزور ہوں مگر میرا ٓقا بڑا توانا ہے، میں بلا اسباب ہوں لیکن میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے میں بے مدد گار ہوں لیکن میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائے گا۔‘‘
( کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے، انوار العلوم جلد 2صفحہ15)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے بھی جو آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے…ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا ہوں، ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں، خدا کے حضور اس کے ان دعوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہو گی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا۔‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 25اکتوبر1946ء مطبوعہ الفضل 15؍نومبر1946ء صفحہ6)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’… خلافت کے تو معنی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کو ئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں …اگر خلافت کے کوئی معنی ہیں تو پھر خلیفہ ہی ایک ایسا وجود ہے جو ساری جماعت میں ہونا چاہئے اور اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے وہی ساری جماعت کے خیال اور اَفکار پر حاوی ہونا چاہئے، وہی اوڑھنا، وہی بچھونا ہونا چاہئے، وہی تمہارا ناک، کان، آنکھ اور زبان ہونا چاہئے۔ ہاں تمہیں حق ہے کہ اگر کسی بات میں تم خلیفۂ وقت سے اختلاف رکھتے ہو تو اسے پیش کرو۔ پھر اگر خلیفہ تمہاری بات مان لے تو وہ اپنی تجویزواپس لے لے گا اور اگر نہ مانے تو پھر تمہارا فرض ہے کہ اس کی کامل اطاعت کرو ویسی ہی اطاعت جیسے دماغ کی اطاعت اُنگلیاں کرتی ہیں۔ دماغ کہتا ہے فلاں چیزکو پکڑو اور اُنگلیاں جھٹ اُسے پکڑ لیتی ہیں۔ لیکن اگر دماغ کہے اور اُنگلیاں نہ پکڑیں تو پھرماننا پڑے گا کہ ہاتھ مفلوج اور اُنگلیاں رعشہ زدہ ہیں کیونکہ رعشہ کے مریض کی یہ حالت ہواکرتی ہے کہ وہ چاہتا ہے ایک چیز کو پکڑے مگر اس کی انگلیاں اسے نہیں پکڑ سکتیں۔ پس خلیفہ ایک حکم دیتا ہے مگر لوگ اُس کی تعمیل نہیں کرتے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ رعشہ زدہ وجود ہیں۔ لیکن کیا رعشہ والے وجود بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتے ہیں؟‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍جنوی 1936ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 17صفحہ71تا72)
آپ ؓ مزید فرماتے ہیں :
’’… حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے پھر تمام انبیاء مامور بھی ہوتے ہیں اور خدا کے قائم کردہ خلیفہ بھی۔ جس طرح ہر انسان ایک طور پر خلیفہ ہے اسی طرح انبیاء بھی خلیفہ ہوتے ہیں مگر ایک و ہ خلیفہ ہوتے ہیں جو کبھی مأمور نہیں ہوتے۔ گو اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی ضروری ہوتی ہے ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبردار ی اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الٰہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ وحی الٰہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی الٰہی اور تمام نظام کا مرکز ہے۔ اسی لئے واقف اور اہلِ علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کو عصمتِ کُبریٰ حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمتِ صغریٰ۔ اِسی مسجد میں اسی منبر پر جمعہ کے ہی دن حضرت خلیفہ اوّل سے میں نے سنا آپ فرماتے تھے کہ تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اِس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے جو خدا نے تم پر عائد کی ہے کیونکہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ اور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے اس لئے میری فرمانبرداری ضروری اور لازمی ہے۔ تو انبیاء کے متعلق جہاں الٰہی سنت یہ ہے کہ سوائے بشری کمزوریوں کے جس میں توحید اور رسالت میں فرق ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ دخل نہیں دیتا اور اس لئے بھی کہ وہ اُمت کی تربیت کےلئے ضروری ہوتی ہیں(جیسے سجدہ سہو کہ وہ بھول کے نتیجہ میں ہوتا ہے مگر اس کی ایک غرض اُمت کو سہو کے احکام کی عملی تعلیم دینا تھی) ان کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں وہاں خلفاء کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ ان کے وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوںگے جو نظام سلسلہ کی ترقی کے لئےان سے سرزد ہو ںگے اور کبھی بھی وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی اور اسلام کی فتح کو اس کی شکست سے بدل دینے والی ہو۔ وہ جو کام بھی نظام کی مضبو طی اور اسلام کے کمال کے لئے کریں گے خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے ساتھ ہوگی اور اگر وہ کبھی غلطی بھی کریں تو خدا اس کی اصلاح کاخود ذمہ دار ہو گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍فروری 1935ءمطبوعہ خطبات محمود جلد16صفحہ97تا98)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’پس تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا، وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہو گا لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابلہ میں با لکل ناکام و نا مراد رہے گی جیسا کہ مشہور ہے اسفندیار ایسا تھا کہ اس پر تیر اثر نہیں کرتا تھا۔ تمہارے لئے ایسی حالت خلافت کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔ جب تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پر اثر نہ کر سکے گی بیشک افراد مریں گے، مشکلات آئیں گی، تکا لیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہ ہو گی بلکہ دن بدن بڑھے گی اور اس وقت تم میں سے کسی کا دشمنوں کے ہاتھوں مرنا ایسا ہو گا جیسا کہ مشہور ہے اگر ایک دیو کٹتا ہے تو ہزاروں پیدا ہو جاتے ہیں تم میں سے اگر ایک مارا جائے تو اس کی بجائے ہزاروں اس کے خون کے پیاسے قطروںسے پیدا ہو جائیں گے۔‘‘
( حقائق القرآن مجموعہ القرآن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ النور زیرِ آیت استخلاف۔ صفحہ 73)
26؍فروری 1920ء کو جماعتِ احمدیہ لاہور سے خطاب کرتے ہوئے حضور ؓنے فرمایا:
’’یہ جو امارت اورخلافت کی اطاعت کرنے پر اس قدر زور دیا گیا ہے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امیر یا خلیفہ کا ہر ایک معاملہ میں فیصلہ صحیح ہوتا ہے۔ کئی دفعہ کسی معاملہ میں وہ غلطی کر جاتے ہیں مگر باوجود اس کے ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اسی لئے حکم دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر انتظام قائم نہیں رہ سکتا۔ تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں بھی غلطی کر سکتا ہوں تو پھر خلیفہ یا امیر کی کیا طاقت ہے کہ کہے میں کبھی کسی امر میں غلطی نہیں کر سکتا۔ خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے، لیکن باوجود اِس کے اُس کی اطاعت کرنی لازمی ہے ورنہ سخت فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ وفد بھیجنا ہے خلیفہ کہتاہے کہ ضروری ہے لیکن ایک شخص کے نزدیک ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فی الواقع ضروری نہ ہو لیکن اگر اُس کو اجازت ہو کہ وہ خلیفہ کی رائے نہ مانے تواِس طرح انتظام ٹوٹ جائے گاجس کا نتیجہ بہت بڑا فتنہ ہو گا۔ تو انتظام کے قیام اور درستی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی رائے پر زور نہ دیا جائے۔ جہاں کی جماعت کا کوئی امیر ہو وہ اگر دوسروں کی رائے کو مفید نہیں سمجھتا تو انہیں چاہئے کہ اپنی رائے کو چھوڑ دیں۔ اسی طرح جہاں انجمن ہو وہاں کے لوگوں کو سیکرٹری کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر ہی اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تک ہو سکے سیکرٹری یا امیر کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسے سمجھانا چاہئے لیکن اگر وہ اپنی رائے پر قائم رہے تو دوسروں کو اپنی رائے چھوڑ دینی چاہئے۔ کیونکہ رائے کا چھوڑ دینا فتنہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں بہت ضروری ہے۔‘‘
(انوارالعلوم جلد 5صفحہ89)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ترجمہ : یعنی جتنا ہو سکے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اور اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہویہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہے اور جو لوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں… کہ جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقویٰ یہ ہے کہ
وَا سْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا ( بخاری کتاب الجھاد البر باب السمع و الطاعۃ )
کہ اللہ تعالیٰ کی آواز سنو اور لبیک کہتے ہوئے اس کی اطاعت کرو اگر تم تقویٰ کی راہوں پر چل کر سَمْعًا وَّ طَا عَۃً کا نمونہ پیش کرو گے تو تمہیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے گا کہ تم اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں سب کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائو اس طرح تمہیں دل کے بخل سے محفوظ کر لیا جائے گا یہی کامیابی کا راز ہے۔‘‘
( خطبہ جمعہ 6؍مئی 1966ءمطبوعہ خطبات ناصرجلد 1صفحہ244تا245)
حضرت خلیفۃ المسیح الرا بع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’عہدیداران کے اپنے کچھ فرائض ہیں۔ ان کا ان لوگوں سے شفقت کا سلوک ہونا چاہئے جن پر وہ نظام کو چلانے کے لئے مقرر ہوئے ہیں۔ لوگوں کو امیر کی اطاعت اس کی ذاتی استعداد کی بجائے محض اللہ کی خاطر کرنی چاہئے۔ اور صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اور اس لئے کہ انہیں خلیفۃ المسیح نے مقرر فرمایا ہے۔ کسی اور وجہ سے نہیں۔ وہ تمام نظام کی اس لئے پیروی کریں کہ یہ نظام خلیفۃ المسیح کا مقرر فرمودہ ہے۔ انہوں نے ہر احمدی کی بیعت نہیں کی صرف خلیفۃ المسیح کی بیعت کی ہے۔ چنانچہ ہر امر اس کے ہاتھ سے نکلتا ہے اور احمدی اس لئے پیروی کرتے ہیں کہ وہ ان کے ایمان کا حصہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے…چنانچہ انہیں خلیفۃ المسیح نے ذمہ داری سونپی ہے۔ اس لئے اس طاقت کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے…میں کسی ایسے امیر کو جو لوگوں کاہمدرد نہیں مقرر کرنا بالکل پسند نہیں کرتا۔ کیونکہ خلیفہ کا سب احمدیوں سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور انہیں اس لئے اس کی اطاعت کے لئے نہیں کہا جاتا کہ وہ اس سے کمتر ہیں۔ بلکہ صرف نظم وضبط قائم رکھنے کے لئے اطاعت کے لئے کہا جاتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے مگر نظم وضبط کا مطلب سختی اور غیر ہمدردانہ رویہ نہیں ہے…یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ آپ کو اس اعتماد پر جو آپ پر کیا گیا ہے پورا اترنا چاہئے۔ اور اس طرح سلوک کرنا چاہئے جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ ؓسے تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اس دنیا میں کسی شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا…اسلام کی روح سے کسی مقتدر ہستی کی جتنی زیادہ طاقت یا قوت بڑھتی جائے گی اتنا زیادہ خوف بڑھتا جائے گا۔ کیونکہ بالآخر سب اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہیں۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طاقت کو نہایت عاجزانہ طور پر استعمال فرمایا اور اتنے خوبصورت اور عمدہ انداز سے کہ آپؐ کی تمام زندگی پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا کہ کسی بھی موقع پر آمریت کا کوئی شائبہ بھی پیدا ہوا ہو۔ آپؐ نے نہایت دانشمندی اور حکمت سے حکومت کی۔ آپؐ نے محبت سے حکومت کی اور اگر یہ تین پہلو موجود ہوں تو پھر آمریت کا سر اٹھانا ناممکن ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍اکتوبر 1982ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ 192، 193، 194)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یومِ خلافت کے حوالے سے جماعتِ احمدیہ راولپنڈی کے نام پیغام میں فرمایا :
’’آپ میں ہر ایک کا فرض ہے کہ دعائوں پر بہت زور دے اور اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھے اور یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھے کہ اس کی ساری ترقیات اور کامیابیوں کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی ہے۔ وہی شخص سلسلہ کا مفید وجود بن سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ دنیا بھرکے علوم جانتا ہو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں۔ جب تک آپ کی عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت رہیں گی اور آپ اپنے امام کے پیچھے پیچھے اس کے اشاروں پر چلتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت آپ کو حاصل رہے گی۔‘‘
(روزنامہ الفضل 30؍مئی 2003ء صفحہ 2)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے11؍مئی 2003ء کو احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں فرمایا:
’’پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص و محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیںاور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہرقسم کے فتنوں اور ابتلائوں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ‘‘جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے اگر کوئی شخص اپنے آپ کو امام کے ساتھ وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا‘‘
پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔
(الفضل انٹرنیشنل23؍مئی 2003ء صفحہ1)
میرے آقا کی محبت ہو مری روح کی راحت
اس کی شفقت بھری نظروں کی عطا ہو دولت