خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ دسمبر 2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ
٭… ہجرت مدینہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کا نصیب ہونا حضرت ابوبکر ؓ کے لیے بہت بڑی سعادت تھی
٭… خدا تعالیٰ سے سفر ہجرت کی اجازت ملنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے
٭… حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اپنی فراست سے سفر ہجرت کے لیے انتظامات کی ذمہ داریاں مختلف لوگوں کے سپرد کی ہوئی تھیں
٭… سفر ہجرت میں حضرت ابوبکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےآگے پیچھے دائیں بائیں چلتے تاکہ آپؐ ہر طرف سے محفوظ و مامون رہیں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ دسمبر 2021ء بمطابق 24؍فتح1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 24؍ دسمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروزعالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ میں حضرت ابوبکرؓکی مصاحبت کابھی ذکر ہے۔ مکہ میں مقیم مسلمانوں پر جب کفار مکہ کا ظلم و ستم مسلسل بڑھاتو اِسی دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خواب میں دو مسلمانوں کو شور زمین والی کھجوروں میں گھِرا مقام ہجرت دکھایا گیا۔ اُس کا جغرافیہ اور نقشہ دیکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد فرمایا کہ یہ جگہ یمامہ یا ہجر ہے۔ کچھ عرصہ بعدجب مدینہ کے سعادتمند انصار نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو القائے ربّانی سے آپؐ پر منکشف ہوا کہ وہ یثرب کی سرزمین ہے جو بعدازاں مدینہ کے نام سے مشہور ہونے والی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بعد مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی جس میں بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد اور بھی تیزی آ گئی۔ مکہ کے ظالم سردار غصہ سے تلملاکر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نت نئے طریقے استعمال کرنے لگے لیکن صبر و شکر کرنے والے مو منوں کی جماعت میں سے جوہجرت کر سکتے تھےمدینہ کی طرف مسلسل ہجرت کرتے چلے گئےجبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اِذن خداوندی کا انتظار فرما رہے تھے۔حضرت ابوبکر ؓنے جب ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپؐ نےفرمایا کہ
عَلَی رِسْلِکَ فَاِنِّیْ اَرْجُوْا اَنْ یَّؤْذَنَ لِیْ
یعنی ذرا ٹھہر جائیں کیونکہ میں بھی امید کرتا ہوں کہ مجھے بھی اجازت دی جائے۔آخر مکہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ ، حضرت علیؓ اور چند غلام رہ گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ کو جب یہ خدشہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ نہ چلے جائیں تو وہ آپؐ کے خلاف خفیہ مشورہ کرنے کے لیے قصی بن کلاب کے گھر دارلندوہ میں جمع ہوئے۔یہ دن یوم الزحمہ کہلاتا ہے۔ اس مشورہ میں قریش کے نامی گرامی سرداران کی ایک بڑی جماعت کے علاوہ بعض ایسے سردار بھی شامل تھے جن کا شمار قریش سے نہیں ہوتاتھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مختلف تجاویز زیر غورآتی رہیں جیسے یا تو ایک ہی جگہ پابند کردیا جائے یا پھروطن سے نکال دیا جائےلیکن ابو جہل کی رائے تھی کہ قریش کے ہر قبیلے سے مضبوط اور حسب و نسب والا جوان چنا جائے اور وہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دیں۔اس طرح آپؐ کا خون سارے قبائل میں منقسم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کر سکیں گے اور دیت دینے پر راضی ہوجائیں گے۔ اس پر ایک چادر اوڑھے ہوئے بوڑھے ، عمر رسیدہ، ابلیس صفت انسان جسے کوئی نہ جانتا تھا کہنے لگا میں اہل نجد میں سے ہوں اور تمہاری بھلائی کے لیے آیا ہوں۔اُس نے ابوجہل کی رائے کی بھرپور تائید کی جس پر سب نے اتفاق کرلیا۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے جبرئیل کے ذریعہ ہجرت کی اجازت دی اور ساتھ ہی بفتح و نصرت واپس مکہ آنے کی بشارت بھی دی۔
ہجرت کی اجازت ملنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شدید گرمی کے موسم میں دوپہر کے وقت پوری احتیاط کے ساتھ چادر اوڑھے تاکہ کسی کو آپؐ کا علم بھی نہ ہو حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو بتایا کہ مجھےاللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! کیا مجھے بھی ساتھ لے چلیں گے؟آپؐ نے فرمایا: ہاں۔سفر ہجرت سے متعلق چونکہ پہلےہی اشارہ ہوچکا تھا اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے اپنی فراست سے دو اُونٹنیاں پہلے سے ہی آٹھ سو درہم میں خرید کر تیار کرلی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصرار کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ سے ایک اونٹنی چار سو درہم اور ایک روایت کے مطابق آٹھ سو درہم میں خرید لی۔
منصوبے کے مطابق پہلی منزل غار ثور طے کی گئی جہاں تین دن قیام کرنا تھا۔ مکہ کےاطراف تمام صحرائی راستوں سے واقف ایک مشرک لیکن شریف النفس شخص عبداللہ بن اریقط کے حوالے تین اونٹنیاں کی گئیں کہ وہ تین دن بعد غار ثور پر علی الصبح لے کر آجائے۔ یہ شخص بعد ازاں مسلمان ہوگیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ کے سپرد یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ روزانہ مکہ کے حالات رات کو غار ثور رپورٹ کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کے ایک دانا اور ذمہ دار غلام عامر بن فہیرہ کو یہ ڈیوٹی دی گئی کہ وہ اپنی بکریاں غارثور کے گرد ہی چَرائے گا اور رات کے وقت دودھ دینے والی بکریوں کا تازہ دودھ فراہم کرے گا۔حضرت علی ؓ کے سپرد یہ کام ہوا کہ وہ رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پرآپؐ کی سبز یا ایک روایت کے مطابق سُرخ رنگ کی حضرمی چادر اوڑھ کر سوئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لوگوں کو امانتیں واپس کرکے تین دن بعد مدینہ پہنچ جائیں گے۔
سفر ہجرت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے نکلنےکے معین وقت کے بارہ میں مختلف روایات ہیں۔بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق آپؐ صبح کے وقت گھر سے نکلے اورکسی مخالف نے آپؐ کو نہیں دیکھا جبکہ مخالفین نے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔خدا تعالیٰ نے سورة یٰسین میں ذکر کیا ہے کہ ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلنے کے بعدکس طرف تشریف لے گئے اس بارہ میں بھی زیادہ درست اور قرین قیاس یہی ہے کہ ا ٓپؐ اپنے گھر سے نکل کر سیدھے حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے اُن کے ساتھ غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے۔سفرِہجرت میں زادِ راہ کے لیے حضرت عائشہؓ نے کمال ذہانت سے دونوں افراد کے لیے کچھ سامان ایک تھیلے میں ڈال دیا۔تھیلے کا منہ بند کرنے کے لیے حضرت اسماءؓ نے اپنا نطاق یعنی کمر بند سے ایک ٹکڑا پھاڑکراُس سے تھیلے کا منہ بند کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اسماءؓ !اللہ تمہارے اس نطاق کے بدلے میں تمہیں جنت میں دو نطاق عطا کرے گا۔ اس کے بعد حضرت اسماءؓ کا نام ہمیشہ کے لیے ذات النطاق پڑ گیا۔
سفر ہجرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیر لب اس آیت کا ورد فرماتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔
’’وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا۔ (بنی اسرائیل:17)
اور تُو کہہ اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لیے طاقتور مددگار عطا کر۔‘‘ جبکہ شرح زرقانی میں ایک دعا کا بھی ذکرملتا ہے۔خانہ کعبہ کے پیچھے سے گزرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی طرف اپنا رُخِ مبارک کرکے فرمایا کہ بخدا اے مکہ تو اللہ کی زمین میں سے مجھے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر تیرے باشندے مجھے زبردستی نہ نکالتے تو میں کبھی بھی نہ نکلتا۔
امام بیہقی نے لکھا ہے کہ غارِثور کے سفر کے دوران حضرت ابوبکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر آپؐ کے آگے پیچھے دائیں بائیں چلتے تاکہ آپؐ ہر طرف سے محفوظ و مامون رہیں۔ایک روایت کے مطابق اس پہاڑی سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاؤں مبارک بھی زخمی ہو گئے تھے۔غارِ ثور پہنچنے پر حضرت ابوبکرؓ کسی بھی خطرے کے پیش نظرپہلے خود اندر گئے اور غار کی صفائی ستھرائی بھی کی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر آنے کی دعوت دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر ؓکی ران پر سر رکھ کر لیٹ گئے۔حضرت ابوبکرؓ نے اپناپاؤں ایک سوراخ پر رکھ دیا جس سے کوئی بچھو یا سانپ وغیرہ ڈستا رہا لیکن آپؓ نے ذرا جنبش نہ فرمائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ کھولنے پر حضرت ابوبکر ؓکے چہرے کی بدلی ہوئی رنگت دیکھ کر ماجرا پوچھا اور اپنا لعاب مبارک وہاں لگایا جس کے بعد اُن کا پاؤں ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
قریش مکہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علیؓ کے سونے کا علم ہوا تو آپؓ کوزدوکوب کرکے چھوڑ دیا۔پھر حضرت اسماءؓسے باز پُرس کے دوران ابوجہل نےزور سے اُن کے منہ پر طمانچہ مارا جس سے اُن کے کان کی بالی ٹوٹ گئی۔آخر کار رئیسِ مکہ امیہ بن خلف خود ایک ماہر کھوجی علقمہ بن کرز کو لے کر اپنے ساتھیوں سمیت عین غار ثور کے دہانے تک جا پہنچا۔حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اُن کے پاؤں دیکھ رہا تھا اور کوئی ایک بھی اندر جھانک لیتا تو ہم پکڑے جاتے۔لیکن خطرے کی اس گھڑی میں معجزانہ قدرت الٰہی سےایک مکڑے نے غار کے منہ پر جالہ بُن دیا اور کبوتروں کے ایک جوڑےنے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے۔اس کے بعدکا ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔