خلافتِ احمدیہ، محبتوں اور شفقتوں کا لا متناہی خزانہ
ہمارے سید و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے بہترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں تم ان کے لیے دعا کرتے ہو وہ تمہارے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ (مسلم کتاب الامارۃ) خلفائے احمدیت آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کی عملی تصویر ہیں۔خلفائے احمدیت کی افراد جماعت احمدیہ کے ساتھ اخلاص و محبت کی اس طویل داستان کے نظارے گذشتہ ایک صدی کی تاریخ کے ایک ایک ورق پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس بحر بے کنار میں سے چند مثالیں پیش ہیں۔
ساری رات دعا میں گزار دی
صحابی حضرت مسیح موعود ؑچوہدری حاکم دین صاحبؓ بورڈنگ کے ایک ملازم تھے ۔ ان کی بیوی ، پہلے بچے کی ولادت کے وقت بہت تکلیف میں تھی۔اس کر بناک حالت میںرات کے بارہ بجے وہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول ؓ کے دروازہ پر حاضر ہوئے۔دروازہ پر دستک دی۔ آواز سن کر پوچھا کون ہے؟ اجازت ملنے پر اندر جا کر زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا۔اوردعا کی درخواست کی۔حضور فوراًا ٹھے ، اند ر جا کر ایک کھجور لے کر آئے اور اُس پر دعا کر کے انہیں دی اور فرمایا؛
‘‘یہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں’’
چوہدری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں واپس آیا کھجور بیوی کو کھلا دی اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی کی ولادت ہوئی ۔رات بہت دیر ہو چکی تھی میں نے خیال کیا کہ اتنی رات گئے دوبار ہ حضور کو اس اطلاع کے لیے جگانا مناسب نہیں۔نمازفجر میںحاضر ہو کر میںنے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھجور کھلانے کے بعد بچی پیدا ہو گئی تھی۔اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الاول ؓنے فرمایا۔
‘‘میاں حاکم دین!تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلا دی اور تمہاری بچی پیدا ہو گئی۔اور پھر تم اور تمہاری بیوی آرام سے سو گئے۔ مجھے بھی اطلاع کر دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا۔میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لیے دعا کرتا رہا!’’
چوہدری حاکم دین صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا اور بے اختیار روپڑے اور کہنے لگے؛
‘‘کہاں چپڑ اسی حاکم دین اور کہاں نورالدین اعظم’’
(مبشر ین احمد صفحہ 38 نیز اصحاب احمد 8 صفحہ71۔72)
قوم کا احساس غالب رہا
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ 18 نومبر 1910ء بروز جمعہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ کی کوٹھی سے واپس آتے ہوئے گھوڑے سے گرنے کے نتیجہ میں زخمی ہو گئے۔یہ واقعہ پوری جماعت کے لیے ایک دل ہلا دینے والا حادثہ تھا جس نے سب ہی کو تڑپا دیا اور جوں جوں دوستوں کو یہ خبر پہنچی وہ دیوانہ وار اپنے محبوب آقا کی عیادت کے لیے کھنچے چلے آئے تو عورتوں اور مردوں کا اژدہام ہو گیا۔احباب جماعت کی پریشانی دیکھ کرحضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عورتوں کو پیغام بھجوایاکہ میں اچھا ہوں میں گھبراتا نہیں اور نہ میرا دل ڈرتا ہے۔ وہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اوراپنا نام لکھوادیں۔ میں ان کے لیے دعا کروں گا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایسی حالت میں بھی اپنی تکلیف اور دردکے بجائے اپنی قوم کے دکھ اور درد کا احساس غالب رہا۔
(الحکم 28 نومبر 1910 ء )
ایک بہت بڑا فرق
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں۔میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لو گوں کے لیے جو اخلاص اور محبت میرے دل میںمیرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اورنہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے۔ (الفضل4 اپریل1924ء صفحہ 7 )جب سعودی ،عراقی ،شامی اور لبنانی ،ترکی، مصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں میں ان کے لیے دعا کر رہا ہوتا ہوں۔(رپورٹ مجلس مشاروت 1955ء صفحہ 9)کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے۔ کوئی بھی فرق نہیں۔ لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے ۔مگران کے لیے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کا ایسا کوئی نہیں ہے ۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے ا نسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاںتمہارے لیے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔
(برکات خلافت انوار العلوم جلد دوم صفحہ158 )
واحد تمنا
حضرت مصلح موعودؓ نے15جولائی1924ءکو بمبئی سے لندن کے لیے روانہ ہوتے ہوئے احباب جماعت کے نام ایک پیغام میں فرمایاکہ: ‘‘تم انداز ہ بھی نہیں کر سکتے کہ مجھے کس قدر محبت تم سے ہے آپ لوگوں سے جدا ہونا میرے لیے کس قدردردناک تھا اور آپ لوگوں کو پیچھے چھوڑنا میرے لیے کس قدر صدمہ پہنچانے والا ہوا لیکن یہ جدا ئی صرف جسمانی ہے میری ر وح ہمیشہ تمہارے ساتھ تھی اور ہے اور رہے گی ۔میں زندگی میں یا موت میں تمہارا ہی ہوں۔تمہاری بہبود ی میرے دل کی عین خواہش ہے اور تمہارا دنیوی اور روحانی منزل مقصود تک پہنچنا میری واحد تمنا۔’’
(الفضل 18 جولائی 1924ء )
میں اس کا باپ ہوں
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب حضرت مصلح موعودؓ کی افراد جماعت سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ‘‘دارمسیح ’’کے جس حصہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی رہائش تھی اس سے ملحق جو مکان کا حصہ تھا اس میں ہماری والدہ اور بچے رہتے تھے۔اس کے صحن میں بچے بعض گھریلو کھیلیں شام کوکھیلتے تھے۔اسی طرح کی ایک کھیل ہم شام کوکھیل رہے تھے ایک لڑکی جو میری ہم عمرتھی(اس وقت میری عمر آٹھ نو سال کی ہو گی)اس نے کوئی ایسی بات کی جس پر مجھے غصہ آگیا اور میں نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔عین اس وقت اباجان صحن میں داخل ہو رہے تھے۔انہوں نے مجھے طمانچہ مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔سیدھے میری طرف آئے۔ مجھے اپنے پاس بلا کر کھڑا کیا اور اس بچی کو بھی پاس بلایا اور اسے کہا کہ اس نے تمہیں مارا ہے تم بھی اس کے منہ پر طمانچہ مارو۔ لیکن پھر بھی اسے جرأت نہ ہوئی۔ اس کے بعد غصے میں اور جوش میں مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس کا باپ نہیں ہے اس لیے تم جو چاہو اس سے سلوک کر سکتے ہو تو اچھی طرح سن لو کہ میں اس کا باپ ہوں۔اور اب اگر تم نے اس پر انگلی بھی اٹھائی تو میں تمہیں سخت سزادوں گا۔ (مجھے بعد میں علم ہوا کہ یہ بچی ایک سید خاندان کی یتیم بچی تھی جو ابا جان نے اپنے زیرِسایہ لے لی تھی۔)
(یادوں کے دریچے ،مصنف صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۔صفحہ :15)
آئندہ نسل کی فکر
جماعت کے ایک دوست جن کا حضرت مصلح موعودؓ سے بہت پیار کا تعلق تھا۔ایک دن وہ اپنے بڑے لڑکے کو اپنے ساتھ قادیان لائے مغرب کی نماز کے بعد جب حضرت صاحب واپس گھر جانے لگے تو حسب معمول دوستوںنے گھر کے دروازے تک قطار بنالی یہ نوجوان بھی قطار میں کھڑا تھا۔ گزرتے گزرتے حضرت مصلح موعودؓ کی نظر اس کم عمر بچے پر پڑی توآپ رُک گئے اور اس کا نام لے کر پاس بلایا اور کہا تم مجھے کمزور لگے ہو۔ تمہارے اباتمہارے مناسب کھانے کا معلوم ہوتا ہے انتظام نہیں کرتے۔ان سے کہنا کہ کل صبح مجھے دفتر آکر ملیں۔ اگلے روز وہ دفتر میںحضرت مصلح موعودؓ سے ملے تو آپ نے ان کو فرمایاکہ مجھے بہت رنج ہواہے آ پ کے لڑکے کو دیکھ کر۔ صحت کمزور لگی ہے۔اب آپ نے اس کی غذا کا خاص خیال رکھنا ہے اور ایک ماہ کے بعد اس کو ساتھ لا کر مجھے ملانا ہے تا میری تسلی ہو جائے کہ بچے کی پرورش صحیح طریق پر کی جا رہی ہے۔یہ کہہ کر فرمایا کہ صرف آپ کا بچہ نہیں جماعت کاہر بچہ میرا بچہ ہے اور میںاپنی آئندہ نسل کو جسمانی لحاظ سے بھی کمزور نہیں دیکھ سکتا۔
(یادوں کے دریچے ،مصنف صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۔صفحہ :18)
غرباء سے محبت
حضرت مصلح موعودؓ نے یو۔پی کے ایک گاؤں سے جہاں قالین کھڈیوں پر بنائے جاتے تھے اور بہت معمولی قسم کے موٹی اور کھر دری اُون کے اور سستے ہوتے تھے۔ان قالینوں کے معمولی اور سستے ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فی قالین قیمت تقریباً چالیس روپے تھی منگوا کر سب گھروں میںایک ایک قالین دے دیا۔ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ قادیان کے پڑوس کے ایک گاؤں سے ایک احمدی معمر خاتون کھدّر میں ملبوس ننگے پاؤں مٹی سے لت پت، اباجان سے ملنے آئیں۔اس وقت حضرت مصلح موعود ؓ اس کمرہ میںہی بیٹھے تھے جہاں قالین بچھا ہواتھا۔وہ بے تکلف سیدھی کمرہ میں داخل ہوئیں۔اتنے میںگھر میںسے کسی نے اس کا برُا منایا کہ قالین پر مٹی سے بھرے ہوئے پاؤںلے کر آگئی ہیںمنہ سے کسی نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن حضرت مصلح موعود ؓ کی گہری نگاہیں فوراً تاڑ گئیں کہ اس حرکت کو برُا منایا گیا ہے۔ آپ اسے برداشت نہ کرسکے۔آپ نے ایک ملازمہ کو بلا کر کہا کہ یہ قالین فوراً یہاں سے لے جاکر باہر پھینک دو ۔اور فرمایا کہ جو قالین میرے اور میری جماعت کے غرباء کے راستے میں حائل ہے وہ میرے گھر میں نہیں بچھایا جاسکتا۔
(یادوں کے دریچے ،مصنف صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۔صفحہ :19)
میں نے پہچان لیا
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بیان کرتے ہیںکہ جلسہ سالانہ میں باہر سے آنے والے احباب کی ضلع وار جماعتوں سے ملاقات ہوتی تھی جو رات گئے تک جاری رہتی۔
حضرت مصلح موعود ؓکی بیماری کے آخری سالوں کا یہ واقعہ ہے آپ کی بیماری کے پیشِ نظر ملاقاتوں کا وقت کم کر دیا گیا تھا۔ میںَ حضور کے پہرے کا انچارج تھا۔آپ نے مجھے ہدایت کی کہ پہریداروں کو اچھی طرح ہدایت کر دو کہ وہ کسی شخص کو بھی جلدی جلدی آگے دھکیلنے کی کوشش نہ کریں ،میںاس کوپسند نہیں کرتا۔گوجرانوالہ کی جماعت کی ملاقات جاری تھی۔ایک غریب احمدی دھوتی اور کھدّر کی قمیص میںملبوس ضلع گوجرانوالہ کے کسی گاؤں کی جماعت کے فرد تھے۔انہوں نے حضرت اباجان سے مصافحہ کیا اور ہاتھ پکڑے رکھا۔تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے‘‘حضور مینوں پچھاتا نئیں’’ (حضور آپ نے مجھے پہچانا نہیں) حضرت مصلح موعود ؓنے فوری جواب دیا میں نے پہچان لیا ہے آپ فلاں گاؤں سے آئے ہیںاور گذشتہ تین سالوں سے آپ جلسہ پر نہیں آئے۔یہ سننا تھا کہ گھبراکر فرمایاکہ حضور ٹھیک فرمایا ہے ۔
(یادوں کے دریچے ،ازصاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۔صفحہ :85)
رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اﷲ تعالیٰ احباب جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔‘‘اے جان سے زیادہ عزیز بھائیو! میرا ذرہ ذرہ آپ پر قربان کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعتی اتحاد اور جماعتی استحکام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا کی کہ آسمان کے فرشتے آپ پر ناز کرتے ہیں۔ آسمانی ارواح کے سلام کا تحفہ قبول کرو۔ تاریخ کے اوراق آپ کے نام کو عزت کے ساتھ یاد کریں گے اور آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں گی کہ آپ نے محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور ناکارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر یہ عہد کیا ہے کہ قیام توحید اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لیے جو تحریک اور جو جدوجہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شروع کی تھی اور جسے حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے آرام کھو کر، اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کرکے اکناف عالم تک پھیلایا ہے آپ اس جدوجہد کو تیز سے تیز کرتے چلے جائیں گے۔میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں۔ میں نے آپ کے تسکین قلب کے لیے، آپ کے بار کو ہلکا کرنے کے لیے، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے، اپنے رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور مجھے پور ا یقین اور بھروسہ ہے اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رد نہیں کرے گا۔’’
(حیات ناصر صفحہ: 374 )
فرمایا:‘‘میں آپ میں سے آپ کی طرح کا ہی ایک انسان ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لیے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے بعض دفعہ سجدہ میں میں جماعت کے لیے اور جماعت کے افراد کے لیے یوں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! جو مجھے خط لکھنا چاہتے تھے لیکن کسی سستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے ان کی مرادیں پوری کردے۔اور اے خدا ! جنہوں نے مجھے خط لکھا اور نہ انہیں خیال آیا ہے کہ دعا کے لیے خط لکھیں اگر انہیں کوئی تکلیف ہے یا ان کی کوئی حاجت اور ضرورت ہے تو ان کی تکلیف کو دور کر دے اور حاجتیں بھی پوری کر دے’’۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 21 دسمبر 1922ء )
ایک ہی چیز کے دو نام
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: 1967ء میں ڈنمارک میں کوپن ہیگن کے مقام پر چند عیسائی پادری مجھ سے ملنے آئے ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا کیا مقام ہے میں نے اسے جواب دیا کہ میرے نزدیک آپ کا سوال درست نہیں ہے اس لیے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا امام اور جماعت احمدیہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی خلیفہء وقت اور جماعت دونوں مل کر ایک وجود بنتے ہیں اسی لیے خلافت کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ خلیفہ وقت آپ کے لیے دعا کریں خلیفہ وقت پر بعض دفعہ ایسے حالات بھی آتے ہیں کہ وہ ہفتوں ساری ساری رات آپ کے لیے دعائیں کر رہا ہو تا ہے جیسے1974ء کے حالات میں دعائیں کرنی پڑیں میرا خیال ہے کہ دو مہینے تک میں بالکل سو نہیں سکا تھا۔ کئی مہینے دعاؤں میں گزرے تھے۔پس خلیفہ وقت وہ وجود ہے جو آپ کے رنج میں شریک ہو۔ آپ کی خوشیوں میں شریک ہو۔
( الفضل21 مئی 1978ء )
نیز فرمایا: علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں۔ان دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لیے دعائیں کرتا رہا ہوں۔میں احباب سے یہ درخواست کر تا ہوں کہ وہ میرے لیے بھی دعائیں کریں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے صحت دے اور اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنے کی توفیق عطا کرے جو اس نے اس عاجز کے کندھوں پر ڈالی ہیں۔ میں اور احباب جماعت مل کر ان ذمہ داریوں کو پورا کریں کیونکہ میرے اور احباب کے وجود میں میرے نزدیک کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے۔ ہم دونوں ‘‘ امام جماعت اور جماعت’’ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ایک ہی چیز کے دو مختلف زاویے ہیں۔ پس ہمیں اپنی زندگیوں میں ان بشارتوں کے پورا ہونے کی جھلکیاں نظر آنے لگیں جو بشارتیں کہ مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین کے غلبہ کی ہمیں ملی ہیں۔ آمین۔
(روزنامہ الفضل مورخہ 17 اپریل 1976ء )
خدام سے ملنے کا شوق
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اﷲ تعالیٰ کو احباب کی معمولی سی تکلیف بھی بے چین کر دیا کرتی تھی۔ مئی 1971ء کی ایک تاریخ ملاقات کے لیے مقرر تھی۔ اس روز صبح سے ہی ملاقاتی دور و نزدیک سے جمع ہونے شروع ہوگئے۔ ملاقات کے لیے 11بجے کا وقت مقرر تھا۔ 10 بجے حضور کو شدید ضعف کا حملہ ہوا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب فوراً تشریف لائے اور ایک گھنٹہ تک دوائیاں وغیرہ دیتے رہے۔ 11 بجے جب ملاقات کا وقت ہوا تو مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے عرض کیا کہ حضور ؒکو مکمل آرام کرنا چاہیے حضورؒ نے فرمایا کہ ملاقاتی اتنی دور سے تشریف لائے ہیں یہ ناممکن ہے کہ میں ان کو ملاقات کا موقع دیئے بغیر رخصت کر دوں۔ اس لیے میں ملاقات ضرور کروں گا۔ اس پر مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے عرض کیا کہ حضور صرف مصافحہ فرماویںاور کسی قسم کی کوئی گفتگو نہ فرماویں۔ حضور نے ملاقات شروع کی سب سے مصافحہ کرنے کے بعد لمبی گفتگو فرمائی اور پورے پونے دو گھنٹے احباب میں رونق افروز رہے۔ چہرہ سے ضعف و اضمحلال کے آثار بالکل نمایاں تھے اور صاف دکھائی دیتا تھا کہ طبیعت ناساز ہے لیکن جب تک ملاقاتیوں کو شرفِ ملاقات نہ بخشا اندر تشریف نہ لے گئے۔
(ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر1983ء صفحہ 176)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اﷲ تعالیٰ مسندِخلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ1967ء میں کوپن ہیگن کی احمدیہ مسجدکے افتتاح کے لیے تشریف لائے۔ چند دن بعد حضور انگلستان تشریف لائے احباب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ لندن ایئر پورٹ پر استقبال کا انتظام کیا گیا تھا۔ ایک مختصر سا سٹیج بنایا گیا تھا جس پر مائیکروفون کا انتظام تھا۔ حضور اپنے خدام میں تشریف لائے۔ نعرہ ہائے تکبیر اور دیگر اسلامی نعروں سے لندن ایئر پورٹ کی کوئین بلڈنگ گونج اٹھی۔مکرم بشیر احمد رفیق صاحب بیان کرتے ہیںکہ میں نے عرض کیا کہ حضور جماعت سے خطاب فرماویں حضور نے فرمایا مجھے تو اپنے خدام سے ملنے کا شوق ہے اس لیے تقریر کی ضرورت نہیںمیں سب سے مصافحہ کروں گا۔ چونکہ مصافحہ کا پروگرام نہ تھا اس لیے انتظام کرنے میں مشکل پیش آئی لیکن آپ نے مصافحہ پر اصرار فرمایا۔ چنانچہ سینکڑوں احمدی جو وہاں موجود تھے حضور سے شرف مصافحہ اور بعض شرفِ معانقہ حاصل کر کے شاداں وفرحاں گھروں کو لوٹے۔ حضور کو مسلسل ایک ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے رہنا پڑا لیکن آپ کا چہرہ احباب کی ملاقات کی خوشی میں دمک رہا تھا۔
(ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر 1983ء صفحہ 170)
ایک ہی غم
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:میں تو ایک ہی غم میں گھل رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے یہ توفیق بخشے کہ اس عظیم جماعت کی جو مسیح موعودؑ کی میرے پاس امانت ہے اس کے حقوق ادا کر سکوں اور اس حال میں جان دوں کہ میرا اﷲ مجھے کہہ رہا ہو کہ ہاں تم نے حقوق ادا کر دیئے۔
(خطبات طاہر جلد سوم صفحہ 374, 373)
لطف واحسان کا جاری سلسلہ
مکرم منظور احمد سعید صاحب کارکن وقف جدید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ ناظم ارشاد وقف جدید تھے تو ایک دن شام کو آپ دفتر تشریف لائے۔میں بازار سے دودھ لے کر آرہا تھا۔پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے عرض کی کہ دودھ لے کر آرہا ہوں۔فرمایا:بازار سے اچھا دودھ مل جاتاہے؟ میں نے عرض کی بس جیسا بھی ہو ضرورت کے مطابق لینا ہی ہے۔فرمانے لگے کتنا دودھ لائے ہو میں نے کہا ایک کلو۔یہ پوچھ کرآپ خاموش ہوگئے۔ اگلے دن صبح دروازہ پر دستک ہوئی ۔میں نے جاکر دروازہ کھولا تو حضور ؒ کا باورچی دودھ لے کر کھڑا تھا۔اس نے کہا میاں صاحب نے دودھ بھیجا ہے۔چنانچہ میں نے رکھ لیا اور پھر باقاعدگی کے ساتھ روزانہ دودھ آنا شروع ہوگیا اور جب ایک مہینہ مکمل ہو ا تو میں بل بنا کر لے گیا اور دودھ کی رقم حضور ؒکو پیش کی حضور ؒ نے فرمایا یہ کیا ہے۔ میں نے کہا دودھ کے پیسے۔تو بڑے پیار سے فرمانے لگے ہم کوئی دودھ بیچتے ہیں؟ پیسے نہ لیے اور مسلسل دودھ بھجواتے رہے۔ایک دن باورچی نے کہا کہ کل میں کہیں جارہا ہوں اس لیے آپ خود ہی جاکر دودھ لے آئیں۔اگلا دن جمعہ کا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ دوپہر کو لے آئیں گے۔لیکن دس بجے کے قریب دروازہ کھٹکا ۔میں نے جا کر دیکھا تو حضورؒ کھڑے ہیں اور ہاتھ میں دودھ پکڑا ہوا ہے۔میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کیساعظیم آقا ہے کہ غلاموں کی خدمت کرتا پھرتا ہے۔مجھے دیکھ کر فرمانے لگے باورچی چھٹی پر تھا اس لیے میں نے کہا چلو خود ہی دے آتا ہوں ۔یقینا ًآپ کا وجودسید القوم خادمھم کی منہ بولتی تصویر تھا۔آپ کی اس شفقت جس کا ساری عمر بھی شکریہ ادا نہیں کیا جاسکتا،کا سلسلہ بدستور جاری تھا کہ ایک دن بیگم صاحبہ نے پیغام بھیجا کہ منظور صاحب گرمی کی وجہ سے دودھ بہت کم ہوگیا ہے۔اس لیے کل سے آپ اپنا انتظام کر لیں۔ لیکن اگلے دن باورچی پھر دودھ لے آیا میں نے کہا یہ کیا؟ کل تو تم نے خود ہی کہا تھا کہ اپنا انتظام کر لیں اور آج پھر لے آئے ہو؟ باورچی نے کہاکل اسی وجہ سے گھر میں بحث چلی کہ دودھ کم ہے اس لیے تم اپنا انتظام خود کر لو لیکن میاں صاحب نے فرمایا کہ منظور کو دودھ ضرور بھیجنا ہے خود بے شک بازار سے منگوانا پڑے۔چنانچہ یہ لطف و احسان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور تیس پینتیس سال ہوگئے ہیں یہ سلسلہ بلاناغہ جاری ہے۔اور مزید لطف یہ کہ حضور ؒکی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور روزانہ اسی طریق کے مطابق ایک کلو دودھ اس عاجز کو نصیب ہو رہا ہے۔
(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر2004 ء صفحہ 178)
آنکھوں کی ٹھنڈک دل کا سکون
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان سے لندن ہجرت سے ایک دن قبل 28 اپریل1984ء کو مسجد مبارک ربوہ میں ایک نماز کے بعد احباب جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔‘‘السلام علیکم ورحمۃ اﷲ۔ میں نے آپ کو یہاں اس لیے نہیں بٹھایا کہ میں نے کوئی تقریر کرنی ہے۔ میں نے آپ کو دیکھنے کے لیے بٹھایا ہے۔ میری آنکھیں آپ کو دیکھنے سے ٹھنڈک محسوس کرتی ہیں۔ میرے دل کو تسکین ملتی ہے۔ مجھے آپ سے پیار ہے، عشق ہے۔ خدا کی قسم کسی ماں کو بھی اس قدر پیار نہیں ہو سکتا’’۔
(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر2004ء صفحہ 36)
بہت بڑھ کر محبت اور پیار کرنے والا
مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن بیان کرتے ہیں کہ کینیڈا کے ایک احمدی دوست ایک غیر مسلم پروفیسرڈاکٹر Gualterکو حضور رحمہ اﷲ تعالیٰ سے ملانے کے لیے لندن لے کر آئے۔ ملاقات کے لیے جانے سے قبل وہ میرے دفتر میں تشریف لائے۔ احمدی دوست نے ان کا تعارف کروایا اور لندن آنے کا مقصد بیان کیا۔ ابتدائی تعارفی بات چیت کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہ پہلی بار حضور رحمہ اﷲ تعالیٰ سے ملنے کے لیے آئے ہیں اور انہیں ابھی حضور کے بلند مقام اور منصب کا علم نہیں ہو گا۔ اس لیے ان کو حضور رحمہ اﷲ تعالیٰ کی شخصیت کے بارہ میں کچھ بتا دینا چاہیے۔ چنانچہ میں نے چند باتوں کا ان سے ذکر کیاکہ ہر احمدی کے دل میں خلیفہ وقت کی محبت ہوتی ہے اور وہ جب بھی ذکر کرتا ہے تو خلیفہ وقت سے محبت کا یہ پہلو اس کی گفتگو میں نمایاں ہو تا ہے۔اس کے بعد وہ حضور رحمہ اﷲ تعالیٰ سے ملنے کے لیے گئے اور کافی دیر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ تفاصیل کا مجھے علم نہیں کہ کن موضوعات پر بات ہوئی لیکن یہ معلوم ہے کہ اس دانش مند پروفیسر نے اس کا کیا عمدہ خلاصہ بیان کیا۔ اس احمدی دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ پروفیسر صاحب جب حضور رحمہ اﷲ سے ملاقات کے بعد باہر آئے تو انہوں نے کہا کہ امام صاحب سے مل کر ان کی باتوں سے میں نے یہ تأثر لیا کہ احمدی حضرات اپنے روحانی سربراہ سے بہت محبت کرتے ہیں اور بعد میں جب میں نے احمدیوں کے روحانی راہنماسے گفتگوکی تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ احمدی ضرور اپنے روحانی سربراہ سے بھر پور محبت کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ان کا سربراہ احمدیوں سے ان سے بہت بڑھ کر محبت اور پیار کرنے والا ہے۔
(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004ء صفحہ 299 )
بے انتہا محبت
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ کو احباب جماعت سے بے انتہامحبت تھی اور خاص طور پر اہل پاکستان کے لیے جن کی جدائی کا غم ہر وقت آپ کو بے چین کیے رہتا تھا۔آپ رحمہ اللہ
فرماتے ہیں ۔
جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
شاید کہ یہ آغوشِ جدائی میں پَلا ہے
یادوں کے مسافر ہو تمناؤں کے پیکر
بھر دیتے ہو دل پھر بھی وہی ایک خلا ہے
سینے سے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی
پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سواء ہے
کچھ اشعار یوں ہیں:
دیار مغرب سے جانے والو دیار مشرق کے باسیوںکو
کسی غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا
الگ نہیں کو ئی ذات میری تمہی تو ہو کائنات میری
تمہاری یادوں سے ہی معنون ہے زیست کا انصرام کہنا
اے میرے سانسوں میں بسنے والو بھلاجداکب ہوئے تھے مجھ سے
خدا نے باندھا ہے جو تعلق رہے گا قائم مدام کہنا
تمہاری خاطر ہیں میرے نغمے میری دعائیں تمہاری دولت
تمہارے درد و الم سے تر ہیں مرے سجود قیام کہنا
پھر اپنےجذبات کا اظہار درج ذیل متفرق اشعار میں بھی فرماتے ہیں:
میری ایسی بھی ہے ایک روداد غم
دل کے پردے پہ ہے خون سے جو رقم
دل میں وہ بھی ہے اک گوشۂ محترم
وقف ہے جو غم دوستاں کے لیے
یاد آئی جب ان کی گھٹا کی طرح
ذکر ان کا چلا نم ہوا کی طرح
بجلیاں دل پہ کڑکیں بلا کی طرح
رت بنی خوب آہ و فغاں کے لیے
ہر طرف آپ کی یادوں پہ لگا کر پہرہ
جی کڑا کر کے بیٹھا تھا کہ مت یادآئے
ناگہاں اور کسی بات پہ دل ایسا دکھا
میں بہت رویا مجھے آپ بہت یاد آئے
اسیران راہ مولا سے اظہار محبت کرتے ہوئے فرمایا:
ہیں کس کے بدن دیس میں پابند سلاسل
پردیس میں اک روح گرفتار بلا ہے
کیا تم کو خبر ہے رہِ مولا کے اسیرو
تم سے مجھے اک رشتہ جاں سب سے سواء ہے
کس دن مجھے تم یاد نہیں آئے مگر آج
کیا روز قیامت ہے کہ اک حشر بپا ہے
خلیفہ کے دل میں ساری جماعت کے دل
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں احبابِ جماعت سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ آپ میں سے جو بھی تکلیف اٹھاتا ہے اس کی مجھے کتنی تکلیف پہنچتی ہے۔
یہی خلافت کا حقیقی مضمون ہے ایک خلیفہ کے دل میں ساری جماعت کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں اور ساری جماعت کی تکلیفیں اس کے دل کو تکلیف پہنچا رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح سب جماعت کی خوشیاں بھی اس کے دل میں اکٹھی ہوجاتی ہیں۔پس اﷲ کرے ہمیشہ آپ کی خوشیاں پہنچتی رہیں اور آپ کی تکلیف مجھے نصیب نہ ہو کیونکہ آپ کی تکلیف میری تکلیف ہے۔
(مشعل راہ جلد سوم صفحہ 687)
میں تو ‘ مَلا ’ جا چکا
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک ہمارے بہت ہی دلچسپ اور پیار کرنے والے دوست ہیں ان کا خط آیا ہے کہ مجھے تو یہ فکر ہے ہی نہیں نہ ہوئی تھی کبھی کہ انگلستان کے لوگ خیال نہیں رکھیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کریں گے مجھے تو ایک فکر کھا رہا ہے اور پنجابی میں انہوں نے اس فکرکا اظہار کیا کہ کہیں آپ کو ‘ مَل ہی نہ لیں’… یہ بہت ہی پیارا اظہار انہوں نے کیا کہ مجھے تو فکر یہ ہے کہ آپ کو کہیں انگلستان کی جماعت مَل ہی نہ لے۔
تو میں ان کو بھی بتاتا ہوں اور تمام اہلِ پاکستان کو بھی بتاتا ہوں کہ میں تو ‘ مَلا’ جا چکا ہوں۔ میری زندگی میرا اٹھنا بیٹھنا میرا جینا اور میرا مرنا آپ کے ساتھ ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ میں خدا کی راہ کے درویشوں کی محبت کو کبھی بھلا سکوں کوئی دنیا کی طاقت اس محبت کو میرے دل سے نوچ کر باہر نہیں پھینک سکتی۔ کوئی دنیا کی کشش، کوئی دنیا کی نعمت میری نگاہوں کو آپ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف منتقل نہیں کر سکتی۔ لا کھوں خدا کے پیارے ہیں جو مجھے بھی بہت پیارے ہیں، لاکھوں پیارے ہیں جو آپ کی طرح اپنے امام سے اور مجھ سے محبت کرتے ہیں صرف اس لیے کہ خدا کی طرف سے میں اس مقام پر فائز کیا گیا ہوں لیکن وہ سب محبتیں اپنی جگہ…اے خدا کے در کے فقیرو! جو خداکی خاطر دکھ دیئے جارہے ہو تمہاری محبت کا ایک الگ مقام ہے، اس کی ایک عجیب شان ہے، اس کا کوئی دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔
(خطبات طاہر جلد سوم صفحہ532, 531)
چہرہ مبارک خوشی سے تمتما اٹھا
مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر بیان کرتے ہیں:جب لائبیریا کے حالات خراب ہوئے اور وہاں باغیوں نے بعض علاقوں پر بھر پور حملہ کرکے ان پر قبضہ کر لیا تو اس وقت ہمارے مشنری مکرم شیخ محمد یونس صاحب جس علاقہ میں تھے وہ بھی باغیوں کے قبضہ میں آگیا اور وہاں بہت قتل وغارت ہوئی۔ رابطے بالکل کٹ گئے۔ انتہائی پریشان کن صورتحال تھی۔ حضور رحمہ اﷲ بہت فکر مند تھے اور بار بار دریافت فرماتے تھے کہ کوئی اطلاع آئی ہے۔ خاکسار عرض کرتاکہ کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہو رہا اور کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ حضورِ انورؒ نے اسی وقت صدقہ کے لیے رقم نکال کر دی اور فرمایا:ہارون جالو صاحب کے لیے بھی صدقہ نکالا تھا اور وہ مل گئے تھے۔ اب اﷲ کے فضل سے یہ بھی انشاء اﷲ مل جائیں گے۔ چنانچہ قریباً دو ہفتہ بعد سیرالیون سے اطلاع ملی کہ مکرم شیخ یونس صاحب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں لائبیریا کا بارڈر پار کرکے سیرا لیون پہنچ گئے ہیں اور خیریت سے ہیں۔جب حضورِ انور رحمہ اﷲ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچائی گئی تو آپ ؒ کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتما اٹھا اور فرمایا!الحمدﷲ، ماشاء اﷲ مبارک ہو۔
(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004ء صفحہ 99)
خوش نصیب بیٹا
مکرم محمد اقبال صاحب آف کنری ضلع عمر کوٹ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کا بیٹا عزیزم محمود احمد انجم جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیر تعلیم تھا اور پڑھائی میں کمزور تھا۔ ایک بار خاکسار اپنے بیٹے کو لے کر محترم ناظر صاحب اعلیٰ کے دفتر میاں صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے بیٹے کو سمجھائیں کہ یہ واقف زندگی ہے اس نے خود زندگی وقف کی ہے یہ پڑھائی میں کمزور ہے۔ آپ اس کے لیے دعا کریں۔ خاکسار اس بچے کو آپ کے سپرد کرتا ہے آپ اس کی تعلیم کی نگرانی فرمائیں ، یہ مجھ پر احسان عظیم ہوگا۔ آپ نے عزیزم محمود احمد انجم کو کہا کہ آئندہ آپ نے مجھ سے ملتے رہنا ہے اور ہر ماہ اپنی تعلیم کی رپورٹ دینی ہے۔ دو تین ماہ بعد خاکسار جب دوبارہ ربوہ گیا اور اپنے بیٹے کو کہا کہ جب آپ میاں صاحب سے ملتے ہیں تو میاں صاحب کیا فرماتے ہیں؟ بیٹے نے مجھے کہا کہ میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ روزانہ کم از کم دو نفل ضرور پڑھا کرو اور روحانی خزائن کا مطالعہ سونے سے پہلے کیا کرو۔ ہر ماہ کوشش کر کے جیب خرچ سے ایک کتاب خریدا کرو۔ جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء میں خاکسار کو شمولیت کا موقع ملا۔ خاکسار نماز پڑھنے بیت الفضل کی طرف جا رہا تھا کہ راستہ میں مکرم سید میر محمود احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ ملے۔ خاکسار نے سلام عرض کیا۔ مصافحہ اور معانقہ کیا… آپ نے فرمایا آپ کا بیٹا محمود احمد انجم بڑا خوش نصیب ہے جس کی نگرانی پیارے آقا خلافت سے پہلے کیاکرتے تھے اور مجھ سے رپورٹ لیتے رہتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں سے ہی جامعہ میں کامیاب جا رہا ہے۔ میں اور میرا بیٹا کس قدرخوش نصیب ہیں کہ پیارے آقا کی خلافت سے پہلے اوربعدکی دعائیں ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے حضور کو صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔
(ماہنامہ تشخیذالاذہان سیدنا مسرور نمبر2008ء صفحہ37.38 )
شفقت اور فراست
مکرم ریاض احمد بلوچ صاحب آف ربوہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والدین نے مجھے کہا کہ اب تم شادی کر لو۔ میں نے آپ(حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)سے بات کی۔ آپ نے فرمایا جیسے تمہارے والدین کہتے ہیں کر لو۔ میں نے شادی کے انتظامات خود کرنے تھے اور اس سلسلہ میں میں نے والدین کو بھی کچھ نہیں کہا سارا کام خود ہی کر رہا تھا۔ ڈی۔ جی خان میری شادی ہوئی۔ میری بارات ربوہ سے گئی۔ آپ نے مجھے دو گاڑیاں دیں۔ جب ہم وہاں چلے گئے تو بارات کی واپسی پر کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا میرے ذہن میں نہ رہا اور میں وہاں سے فون وغیرہ بھی نہ کر سکا۔ ایک دن چھوڑ کر ولیمہ تھا۔ میں نے سوچا میں ولیمہ کا سارا انتظام آکر کرلوں گا لیکن میں یہ بھول گیا کہ جو لوگ بارات کے ساتھ تھے ان کو ربوہ پہنچ کر کھانا وغیرہ دینا تھا یہ میرے ذہن میں نہیں تھا۔ میں نے انتظامات کے لیے گھر میں ایک آدمی چھوڑا تھا ۔ اس آدمی کو حضرت میاں صاحب نے فون کیا کہ کوئی مسئلہ وغیرہ تو نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بہرحال جب میں واپس آیا ابھی میں جھنگ کے قریب تھا تو میاں صاحب کا فون آگیاکہ خیریت سے ہو میں نے خیر خبر بتائی۔ جب میں گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں 3دیگیں تیار تھیں اور بارات کے کھانے کامکمل انتظام تھا۔ یہ انتظام آپ نے کروایا تھا اور مجھے بھی نہیں بتایا تاکہ مجھے شرمندگی نہ ہو۔ بہر حال آپ کی شفقت اور فراست ہی تھی جس کی وجہ سے میری بہت بڑی پریشانی وقت آنے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔اس وقت آپ ناظراعلیٰ تھے اور آپ میرے ولیمہ میں بھی شریک ہوئے۔
(ماہنامہ تشخیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر2008ء صفحہ170۔171)
شفقتیں ہی شفقتیں
مکرم عبدالغنی جہانگیرصاحب آف لندن حضور کی شفقت اور راہنمائی کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک شام حضور ایدہ اللہ اس باغ میں رونق افروزہوئے جس کی نگہبانی میرے سپرد تھی۔ میں نے حضور ایدہ اللہ سے عرض کی کہ حضور! یہاںCherry(چیری)کے دودرخت ایسے ہیں جو ہمیشہ ہی کمزور حالت میں رہے ہیں اور کبھی اچھا پھل نہیں دیا۔اس پر حضورایدہ اللہ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے ان کے لیے کبھی کوئی کھاد وغیرہ استعمال کی ۔میں نے عرض کی جی حضور! لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تب حضورِ انورنے فرمایا کہ آپ dripzone میں درخت کے ار دگرد جہاں جہاں تک اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں اس مکسچر کو استعمال کریں تو ضرور فائدہ ہوگا۔آپ زمین کے اندر6انچ چوڑی اور ایک فٹ گہری سرنگ نالی درخت کے dripzone میں کھودیں اور اس کو اس مکسچرسے بھردیں۔ میں نے حضور ایدہ اللہ کی ہدایت کے مطابق ایسا ہی کیا۔خدا کے فضل سے اس سال ان درختوں نے بھرپور پھل دیا اور الحمدللہ آج تک وہ اچھا پھل دے رہے ہیں۔
ایک رات میں نے خواب دیکھی کہ میں رات کی نمازبیت الفضل میں ادا کرنے کے بعد باہر نکل رہا تھا تو اس جگہ پہنچنے پر جہاں میں نے اپنے جوتے اتارے ہوئے تھے کیادیکھا کہ حضور اس جگہ میرے سامنے کھڑے ہیں۔ میرے غور کرنے پر مجھے یوں لگا کہ اس جگہ (جو جوتے اتارنے کی جگہ تھی) ایک طرف سے زمین کا فرش پھٹا ہوا اور پتھریلا سا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بالکل ٹھیک اور ہموار ہے۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ حضور ایدہ اللہ اس ناہموار جگہ پر کھڑے ہیں تو میں نے کوشش کی کہ میں خود وہاں کھڑا ہوجاؤں اور حضور ایدہ اللہ ہموار فرش پر آرام سے کھڑے ہوجائیں مگر حضور ایدہ اللہ نے بڑے آرام سے میرا بازو پکڑا اور فرمایا کہ تم اُسی جگہ کھڑے رہو پریشان مت ہو۔ میں یہاں اسی لیے ہوں کہ تم لوگوں کی تمام مشکلات خودلے لوں اور حضور اُسی ناہموار جگہ پرکھڑے رہے۔
خدا گواہ ہے میں سچ کہتا ہوں کہ ہمارے پیارے امام نے ہمیشہ تمام احمدیوں کی مشکلات اپنے ذمہ لی ہیں اور خدا کی مخلوق کے لیے جتنی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی جاسکتی ہیں کی ہیں۔ مزید یہ کہ حضور ہماری زندگیوں اور کاموں میں جتنی آسانی پیدا کرسکتے ہیں ، کرتے ہیں۔
(ماہنامہ تشخیذالاذہان سیدنا مسرور نمبر2008ء صفحہ123-124)
بارش میں کھڑے رہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی احباب جماعت سے شفقت اور محبت کا ایک واقعہ منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ یوں بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ جلسہ لندن کے موقع پر شام کے وقت بارش شروع ہوگئی قافلے جلسہ گاہ سے واپس اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف روانہ ہو رہے تھے کہ بارش کی وجہ سے رش پڑ گیاحضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوا تو آپ اپنی تمام مصروفیت کو چھوڑ کرخود وہاں تشریف لے آئے اور احباب جماعت کے پاس اس وقت تک وہیں بارش میں کھڑے رہے اور افراد جماعت کے حوصلے بڑھاتے رہے جب تک کے تمام مہمان بسوں میں بیٹھ کر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ نہ ہو گئے۔
(ڈاکومنٹری جلسہ سالانہ میں حضور کی مصروفیت انٹر ویومنیر احمد جاوید صاحب)
اکیلے بچے کی آمین
جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2013ء کے اگلے دن حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ پر واپس تشریف لے جارہے تھے ۔کہ اچانک ایک احمدی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے سامنے آگیااور درخواست کی کہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان کے بیٹے کی آمین کروائیں۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اس احمدی کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایاکہ آج شام کو جو تقریب آمین ہونی ہے اس تقریب میں اپنے بیٹے کو بھی لے آنا۔اس پر اس احمدی نے کہا کہ حضور آج شام واپس جا رہا ہوں اور مجھے ائیر پورٹ کے لیے شام 6بجے نکلنا ہے۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ہمراہ جو سیکورٹی اور سٹاف پر معمور افرادتھے اس قسم کی درخواست پر حیران ہو گے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اس احمدی کی درخواست آرام سے سنی اور فرمایا اپنے بیٹے کو لے آؤ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزگھر تشریف لے گئے اور کچھ منٹ کے بعد واپس آئے اور اپنی رہائش گاہ کے سامنے اس بچے کی آمین کی تقریب کی۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مصروفیت کے باوجود اس احمدی کی ہمدردی کے لیے اور اس کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے پہلے سے طے شدہ آمین کی اجتماعی تقریب سے پہلے اسی وقت اس بچے کی اکیلے آمین کروا دی۔
(تیسرے دن کی تقریر جلسہ سالانہ قادیان 2015ء مقرر مرزا شیراز احمد صاحب)
احمدی بھائیوں کوسلام
مراکش کے ایک مخلص احمدی کا بیان ہے کہ جب میں دوسری بار 2006ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملا تو حضورِ انور نے فرمایا کہ جب میں 2005ء میں سپین گیا تو جبرالٹر کے پہاڑوں کی سیرکے دوران میں نے وہاں سے اپنے مراکشی احمدی بھائیوں کوالسلام علیکم کہا تھا۔میرے بھائیو! جبرالٹر کے پہاڑوں کی سیر کرنے والوںمیں سے بعض سمندر کی وسعتوں کا نقشہ کھینچتے ہیں تو بعض ان پہاڑوں کی خوبصورتی اور دلکشی کا تصورپیش کرتے ہیں۔ جبکہ بعض وہاں کے قدرتی حسن اور دلفریب نظاروں کی بات کرتے ہیںلیکن ذرا غور تو فرمائیںکہ جب جبرالٹر کے پہاڑوں سے میرے آقا کی نظرمراکش کے شہروں اور آبادیوں پر پڑی تو آپ کو وہاں پر بسنے والے خدام یاد آ گئے اور ان کی محبت نے اس قدر جوش ماراکہ بے اختیار آپ کے دل سے ان کے لیے سلامتی کی دعائیں نکلنے لگیں۔
(تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2011ء مقرر منیر احمد جاویدصاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضورِ انور)
سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں : جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکرخلیفٔہ وقت کو رہتی ہے۔…کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہویا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفٔہ وقت کی نظر نہ ہو۔اور اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو ۔اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو…دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں ،میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو ۔
(روزنامہ الفضل یکم اگست 2014ء)
خلافتِ احمدیہ انسانیت کی بقا
میرے بھائیو ،عز یز اور بزرگو!دیکھو اور سنوکہ آج بھی خدائے رحمٰن نے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العریزکی ذات میں ایسا مہربان آقا عطا فرمایا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اس محبت سے گلے لگاتا ہے کہ غم بھول جاتا ہے اور دل کی پا تال تک خوشی ومسرت کا بسیرا ہو جاتا ہے۔خدائے ذوالمنن کاا حسان ہے کہ اس نے ایسا خلیفہ ہمیں عطافرمایا ہے جو محبت بھری دعاؤں کاکبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔اس کا محبت بھرا سلوک دلوں کو لوٹتا جاتا ہے۔خلفائے احمدیت کی محبت وشفقت اوردعاؤں کے فیض کا سلسلہ اتنا وسیع اور اتنا دلگداز ہے کہ بیان کا یارانہیں ۔ کاش میرے لیے ممکن ہوتا تو میں دنیا کو بتاتا کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے سایہ میں کس جنت میں دن رات بسر کررہے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ یہ کیفیت لفظوں میں بیان کرنے والی نہیں بلکہ ذاتی تحربہ کی روشنی میں محسوس کرنے اور جاننے والی عظیم دولت ہے اور میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ آج ایک ایک فردجماعت اور اکناف عالم میں بسنے والے کروڑوں عشاق احمدیت اس بات پر زندہ گواہ ہیں ۔
(نظام خلافت صفحہ 74-75)
پس اے میرے پیار واور میرے پیاروں کے پیارو! اٹھو۔ آج اس انعام کی حفاظت کے لیے عزم اور ہمت سے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گرتے ہوئے ،اس سے مدد مانگتے ہوئے میدان میںکود پڑو کہ اسی میں تمہاری بقا ہے۔ اسی میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے۔ اوراسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی تو فیق دے۔اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔
(خطاب 27مئی 2008ء Excelسینٹرصفحہ61)
٭…٭…٭