صدقہ اور دُعا اور خوف اور خشوع سے وہ بلا جو خدا کے علم میں ہے جو کسی شخص پر آئے گی وہ ردّ ہو سکتی ہے
ماسوا اسکے اس جگہ مجھے افسوس آتا ہے کہ ہمارے مخالف مسلمان توکہلاتے ہیں لیکن اسلام کے اُصول سے بےخبر ہیں۔ اسلام میں یہ مسلّم امر ہے کہ جو پیشگوئی وعید کے متعلق ہو اس کی نسبت ضروری نہیں کہ خدا اس کو پورا کرے یعنی جس پیشگوئی کا یہ مضمون ہو کہ کسی شخص یا گروہ پر کوئی بلا پڑے گی۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس بلا کوٹال دے جیسا کہ یونس کی پیشگوئی کو جو چالیس دن تک محدود تھی ٹال دیا۔ لیکن جس پیشگوئی میں وعدہ ہو یعنی کسی انعام اکرام کی نسبت پیشگوئی ہو۔ وہ کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (آل عمران:10)
مگر کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْوَعِیْد۔
پس اِس میں راز یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئی خوف اور دُعا اور صدقہ خیرات سے ٹل سکتی ہے۔ تمام پیغمبروں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ اور دُعا اور خوف اور خشوع سے وہ بلا جو خدا کے علم میں ہے جو کسی شخص پر آئے گی وہ ردّ ہو سکتی ہے۔ اب سوچ لو کہ ہر ایک بلا جو خدا کے علم میں ہے اگر کسی نبی یاولی کو اس کی اطلاع دی جائے تو اس کا نام اُس وقت پیشگوئی ہوگا جب وہ نبی یا ولی دوسروں کو اُس بلا سے اطلاع دے اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ بلا ٹل سکتی ہے۔ پس ضرورتاً یہ نتیجہ نکلا کہ ایسی پیشگوئی کے ظہور میں تاخیر ہو سکتی ہے جو کسی بلا کی پیش خبری کرے۔
پھر ہم اپنے پہلے کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب جب قادیان میں آئے تو صرف ان کو یہی فائدہ نہ ہوا کہ انہوں نے مفصل طور پر میرے دعوے کے دلائل سُنے بلکہ اُن چند مہینوں کے عرصہ میں جووہ قادیان میرے پاس رہے اور ایک سفر جہلم تک بھی میرے ساتھ کیا۔ بعض آسمانی نشان بھی میری تائید میں انہوں نے مشاہدہ کئے۔ ان تمام براہین اور انوار اور خوارق کے دیکھنے کی وجہ سے وہ فوق العادت یقین سے بھرگئے۔ اور طاقت بالا اُن کو کھینچ کرلے گئی۔ مَیں نے ایک موقعہ پر ایک اعتراض کا جواب بھی اُن کو سمجھایا تھا جس سے وہ بہت خوش ہوئے تھے۔ اور وہ یہ کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں۔ اور آپ کے خلفاء مثیل انبیاء بنی اسرائیل ہیں تو پھر کیا وجہ کہ مسیح موعود کا نام احادیث میں نبی کر کے پکارا گیا ہے مگر دوسرے تمام خلفاء کو یہ نام نہیں دیا گیا۔ سو مَیں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا۔ اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جاتا اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتاکیونکہ موسیٰؑ کے خلفاء نبی ہیں۔ اس لئے حکمت الٰہی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور اُن کا نام نبی نہ رکھا جائےاور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے تاختم نبوت پر یہ نشان ہو۔ پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جائے۔ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ44تا 45)