تعلق باللہ
[نوٹ: صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب مرحوم پسر حضرت مصلح موعودؓ خاکسار کے سسر تھے۔ 1981ء میں آپ نےہمارے پاس گرمیوں میں یارکشائر میں قیام فرمایا۔ لندن میں جماعت کی پُر زور خواہش پر یہ تقریر تعلق باللہ پر فرمائی تھی۔ الحمد للہ خاکسار کے پاس اس کی کاپی محفوظ تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ افرادجماعت کو دعاؤں کی ا ہمیت کا احساس ہو جائے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ بزرگوارم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد مرحوم اور آپ کے تمام لواحقین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ ڈاکٹر حامداللہ خان، لندن]
اگر ہم انسان کی پیدائش پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آدم کی پیدائش سے لےکر یہی ہوتا آیا ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے کچھ بڑا ہوتا ہے تو تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے پھر تعلیم سے فارغ ہوتا ہے تو رزق کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے۔ کچھ لوگ صرف عام کام حاصل کرتے ہیں کچھ متوسط رزق حاصل کرتے ہیں اور کچھ دولت کے لیے بےحد کوشش کرتے ہیں اور اسے حاصل کر لیتے ہیں۔ پھر انسان بوڑھا ہوتا ہے اور پھر آخر ایک دن اس جہان سے رخصت ہو جاتا ہے مگر بالکل خالی ہاتھ ہوتا ہے سوائے ایک کفن کے جو اس کے اوپر ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کے ان حالات پر غور کرنے سے اور سوچنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زندگی تو بے حد محدود ہے۔ عقل مند انسان اس پر سوچتا ہے تو گھبرا جاتا ہے کہ ان چند سالوں کی زندگی کا کوئی صحیح نتیجہ نہیں نکلتا اور کوئی صحیح مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
مگر ہم احمدی اور حقیقی مسلمان ہیں، وہ جانتے ہیںاور اسی طرح اس دنیا میں جو انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار آئے ہیں ان کے ماننے والے اور سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے رب نے انسان کو جب پیدا کیا تو صرف اس لیے پیدا کیا کہ انسان اپنے حقیقی خالق سے سچا اور صدق و صفاء کا تعلق پیدا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔ (الذّٰریٰت: 57)
یعنی خالقِ حقیقی نے توصرف انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرے جس میں شرک کی کوئی ملونی نہ ہو۔ اور اسی سے حقیقی محبت کرے۔ ایسی محبت جو دنیا کی ہر چیز یعنی والدین بیوی بچوں اور مال و دولت کی محبت سے زیادہ ہو۔
پس ہمیں سوچنا پڑے گا کہ اپنے رب کی خالص محبت کس طرح حاصل کی جائے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کی کامل اتباع کو ضروری قرار دیا ہے اِسی لیے اُس نے آپﷺ سے اعلان کرایا:
اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)
یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ کی محبت حاصل کرو تو میری کامل اطاعت کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
حقیقی اسلام ہی ایک مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی محبت کا تعلق پیدا کرنے اور اس کی تمام صفات پر کامل یقین دلانے اور ان صفات کا جلوہ اپنے اندر پیدا کرنےکی طرف کامل ہدایت دیتا ہے۔
آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اس مقصد کے لیے پیدا کیا کہ حضورﷺ کو اپنی صفات کا مظہرِ اتم بنائے تاآپؐ کے ماننے والے آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی سنت پر پوری طرح عمل کر کے خود بھی ان صفات کا حسبِ استعداد مظہر بننے کی کوشش کریں اور پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے خالقِ حقیقی سے ذاتی محبت کا تعلق پیدا کریں۔ پس ہم میں سے ہر احمدی، جو خدام الاحمدیہ میں ہے یا انصار میں یا لجنہ میں ہے ہر ایک کو بہت سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ کیا ہم اپنی زندگیوں میں اپنے حقیقی مقصدِ حیات کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ اگر اس بات کا جواب ہمارا دل دیانت داری سے دے کہ کوشش کر رہے ہیں تو یہ خاص خدا کا فضل ہے لیکن اگر ہمارا دل جواب دے کہ نہیں تو پھر یہ ایک بہت بڑا مقامِ خوف ہے۔
خاکسار کچھ عرصے سے اس بارےمیں غور کر رہا ہے کہ جماعتِ احمدیہ کے افراد یعنی خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، لجنہ اماء اللہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تنظیمی لحاظ سے بہت ترقی ہوئی ہے اور وہ اپنے پیارے امام خلیفۃ المسیح ثالثؒ کی قیادت اور راہ نمائی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی اپنی تنظیموں میں پہلے سے زیادہ مستعد ہو گئے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت کم احباب اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
خلافتِ حقہ سے سچا اور خالص تعلق اور آپ کی قائم کردہ تنظیموں میں پورے خلوص سے کام کرنا تو پہلا زینہ ہے جو ایک حقیقی مسلمان یا احمدی کے لیے اشد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر اگلے زینے طے نہیں ہو سکتے۔ خلافت اور نظامِ خلافت تو ایک بنیاد ہے جس کا مضبوط ہونا از بس ضروری ہے۔ پھر اس زینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ذاتی محبت اور آپ کی تعلیم جو دراصل حقیقی اسلام کا چہرہ ہے اور اس کے بعد اپنے بے حد پیارے نبی خاتم الانبیاءﷺ کے ساتھ ذاتی عشق اور آپؐ کی تعلیم، آپؐ کے عمل اور آپؐ کے اسوہ کی کامل اطاعت ہے۔ ان زینوں کو طے کرنے کے بعد ایک احمدی مسلمان کے سامنے اپنی پیدائش کا حقیقی مقصود آجاتا ہے۔ یعنی اپنے پیدا کرنے والے اپنے بے حد پیار کرنے والے اللہ کے ساتھ ذاتی تعلق اور ذاتی عشق اور محبت ہوتی ہے جس کو اگر وہ احسن طریق پر حاصل کر لے تو اس کو مقصدِ حیات مل گیا اور پھر دنیا و ما فیہا کا کوئی ہم و غم اور حزن اس کو پریشان نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ اپنے مولیٰ کی محبت کی گود میں آجاتا ہے اور جو بے حد خوش قسمت انسان اپنے بے حد پیارے مولیٰ کی گود میں آجاتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کو کسی قسم کا کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔
پس ہم جو احمدی ہیں خواہ خدام الاحمدیہ کے رکن ہیں یا انصار اللہ کے رکن ہیں یا لجنہ اماء اللہ کی ممبرات ہیں ہمیں ہر وقت اپنے نفوس اور اپنے دلوں کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے مقصدِ حقیقی کو پا لینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں یا نہیں۔
اللہ تعالیٰ جو اپنے ماننے والوں کوبے حد پیار کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کریں۔ اس نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آنحضرتﷺ کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے جیسا کہ اس نے آپؐ سے یہ اعلان کروایا کہ
اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ۔ (آل عمران: 32)
لہٰذا ہمارے سامنے ایک واضح راہ عمل آگیا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کریں تو ہمیں کامل طور پر رسولِ پاکﷺ کے پیارے اسوہ پرعمل کرنا پڑے گا۔ آپﷺ کی ساری زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے آپﷺ کے اقوال، آپﷺ کا خلق عظیم ہمارے سامنے ایک کھلی ہوئی کتاب ہے اور آپﷺ کی زندگی تو قرآن کریم کے عین مطابق ہے جیسا کہ کسی نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ آپﷺ کے اخلاق کیا ہیں تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپؐ کے خلق اور آپ کی سب زندگی قرآنِ کریم ہی ہے۔
رسولِ کریمﷺ نے قرآنی تعلیم کے مطابق ہمیں دو موٹے اصول بتائے ہیں۔ اوّل یہ کہ حقوق اللہ ادا کرنا اور دوسرے یہ کہ حقوق العباد کا خیال رکھنا۔
حقوق العباد کو صحیح طریق پر یعنی اس طریق پر جس پر رسول پاکﷺ قائم تھے ادا کرنا یہ ہے کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر یہ خلق پیدا کرے کہ وہ کسی کی غیبت نہیں کرےگا۔ وہ فخر مباہ نہیں دکھائے گا۔ وہ تکبّر نہیں کرے گا۔ وہ حسد نہیں کرےگا وہ کینہ نہیں دکھائے گا۔ وہ اپنی قومی برتری نہیں جتائے گا۔ وہ کسی دوسرے انسان کو حقیر نہیں سمجھےگا وہ ہر انسان کے دکھ کو دور کرنےکی کوشش کرے گا۔ وہ ہر شخص سے خواہ وہ کتنا ہی غریب اور بے سایہ ہو حسنِ اخلاق سے پیش آئے گا اور وہ یہ سب صرف اس لیے کرے گا کہ اس کے رب کا حکم ہے کہ وہ ایساکرے کیونکہ ہمارے خدا کی صفتِ ربوبیت نے ہر جاندار اور ہر چیز کو جس کو اس نے پیدا کیا ڈھانک لیا ہے اور وہ اپنی سب مخلوق سے بہت پیار کرتا ہے اس لیے وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی صفتِ ربوبیت کے تحت اس کی ہر مخلوق سے محبت کریں۔
حقوق اللہ کو صحیح طریق پر ادا کرنے کے لیے رسولِ پاکﷺ کے اسوہ کے مطابق سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہر حقیقی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو احد یقین کرے اور اس کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔ اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کو حقیقی معنوں میں احد یقین کرنا ایک بہت ہی اہم اور نہایت مشکل امر ہے کیونکہ زبان سے تو ایک شخص خواہ مسلمان ہو یا نہ ہو کہہ دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے مگر اس کے حقیقی مفہوم سے اس کا دل واقف نہیں ہوتا اور اکثر مسلمان بھی صرف زبان سے کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے دل اس کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ رہے ہوتے۔ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہمارے دلوں میں ایک مضبوط کلّے کی طرح گڑ جانا چاہیے۔ اس طرح کہ دنیا کی کوئی طاقت دنیا کا کوئی خوف اس یقین کو متزلزل نہ کر سکے اور ہمارا دل ہر وقت اس خیال میں محو رہے کہ ہمارا اللہ جو جامع صفات اورصرف اور صرف وہی ہماری باتوں، ہماری عاجزانہ تضرعات، ہماری گریہ و زاری کو سنتا ہےاور اپنے خاص فضل سے ان کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے اور ہماری پریشانیوں کو اپنے فضل سے دور فرماتا ہے اور ہماری سب جائز ضروریات کو اپنے خاص فضل سے پوری فرماتا ہے۔ اگر ہمارے دل اس یقین سے لبریز رہتے ہیں اور ہماری توجہ ہر وقت اپنے خالق حقیقی کی طرف رہتی ہے تو پھر ہم حقیقی توحید پر قائم ہیں جس میں شرک کی کوئی ملونی نہیں۔
اس سلسلے میں اس عاجز کو اپنی ایک پُرانی خواب یاد آگئی ہے غالباً 1969ء کی بات ہے خاکسار سوات کی ریاست بغرض سیر مع اہل و عیال گیا ہوا تھا اور ایک ریسٹ ہاؤس میںقیام تھا ایک دن صبح تہجد کے قریب خاکسار نے خواب میں دیکھا کہ میری زبان پر یہ شعر آگئے ہیں
وہ رب ہے سارے جہانوں کا
اللہ ہے ماننے والوں کا
وہ ایک ہے ساجھی کوئی نہیں
اس کے بعد خاکسار کی آنکھ کھل گئی اور قرآن کریم کی یہ آیت خاکسار کی زبان پر آگئی کہ
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا۔ (حم السجدۃ: 31)
یعنی جو اللہ تعالیٰ کی کامل توحید پر قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس ایمان پر مضبوطی سے قائم ہوجاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کے ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان کو تسلی دیتے ہیں کہ وہ کسی چیز کا خوف دل میں نہ لائیں اور کوئی حزن دل میں نہ لائیں۔
اس خواب میں جو اشعار خاکسار کی زبان پر آئے ان سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارا پیارا خالق سب جہانوں کا رب ہے یعنی جو بھی مخلوق اس نے پید اکی اس کی ربوبیت وہ ضرور کرتا ہے وہ فرعون کا بھی رب تھا وہ ابو جہل کا بھی رب تھا۔ مگر وہ اللہ صرف ان کا ہے جو حقیقی طور پر اس پر کامل ایمان لاتے ہیں اور اس کی کل صفات پر کامل ایمان لاتے ہیں اور ان صفات میں وہ یکتا ہے اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ پس حقوق اللہ کی ادائیگی کی سب سے پہلی اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کلّے کی طرح گڑ جائے۔ اس کے بعد پھر وہ ضروری اسلامی ارکان ہیں جن کو پورے اخلاص اور توجہ سے ادا کرنےکا حکم ہے جن پر کامل و مکمل طریق پر عمل کر کے رسول کریمﷺ نے ہمارے لیے اسوہ قائم کیا ہے۔ ان ارکان میں سب سے اہم اور ضروری رکن نمازوں کو قائم کرنا ہے۔ نماز کو قائم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پنجوقتہ نماز تو ادا کریں مگر اس طرح ادا کریں جس طرح مرغی دانے پر جلدی جلدی چونچیں مار کر کھاتی ہے۔ (یہ حضرت مسیح موعودؑ کا قول ہے) رسو ل پاکﷺ سے بھی ثابت ہے اور حضرت مسیح موعودؑ نے بھی بار بار اپنی جماعت کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرو کیونکہ نماز کے وقت بندہ اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ یہ ایسا دربار ہے جس سے بڑا کوئی دربار نہیں۔ ہم جب سب جہانوں کے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہماری تمام تر توجہ اس کی طرف لگی رہے۔ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنی توجہ اپنے رب کی کل صفات پر اس طرح مرکوز کر کہ جیسا تو خدا کو دیکھ رہا ہے اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو کم از کم یہ کیفیت تیرے دل میں پیدا ہو کہ جیسے تیرا خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔ نماز میں مسنون آیات اور مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں دعائیں کر نےکی بھی ہمیں حضرت مسیح موعودؑ نے بہت تاکید کی ہے اور اس قدر زور اس پر دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہماری تو کوئی نماز ایسی نہیں جس میں ہم اپنی جماعت کے لوگوں اپنے عزیز اقارب حتّی کہ اپنے دشمنوں کے لیے دعا نہیں کرتے۔ جب ہمارے پیارے مسیح موعود علیہ السلام جن کے ذریعہ ہم نے اسلام کا صحیح چہرہ دیکھا۔ پیارے رسول پاکﷺ کا اعلیٰ اور ارفع مقام ہمارے سامنے آیا اور پیاری کتاب قرآن حکیم کا حقیقی مصفّٰی حسن ہمارے سامنے آیا اور سب سے بڑھ کر ہمارے بے حد پیارے اللہ کاکامل حسن اور کامل صفات ہمارے سامنے آئیں وہ اس بات پر بے حد زور دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی نمازوں کو بہت سنوار کر ادا کرنا چاہیے اور ہمیں ہر نماز میں نہایت توجہ سے اللہ تعالیٰ کی کامل صفات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حضور عاجزانہ طریق پر دعائیں کرنی چا ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کے حصول کے لیے ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے نہایت عجز و انکسار سے دعائیں کریں۔ نماز کو قائم کرنے کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر باجماعت ادا کریں سوائے اس کے کہ کسی کو کوئی جائز معذوری مثلاً بیماری یا دائمی بیماری یا سفر در پیش ہو۔
نماز با جماعت کے متعلق خاکسار ایک واقعہ حضرت مصلح موعودؓ کا بیان کرتا ہے۔ غالباً1934ء کا واقعہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ مع اہل و عیال و کارکنانِ دفتر دھرسالہ پہاڑ پر تشریف لے گئےتھے وہاں حضورؓ نے ایک بیرک نما کوٹھی کرایہ پر لی تھی جس میں ایک قطار میں کمرے تھے اور سامنے برآمدہ تھا۔ خاکسار کو وہاں کافی تیز ٹائفائیڈ بخار ہو گیا۔ حضورؓ نے ایک حصہ کوٹھی کا اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے مخصوص کر لیا تھا اور ایک طرف کا حصہ دفتر P.Sکے عملےکو دے دیا تھا۔ دفتر والے حصے کے ایک کمرے میں نماز باجماعت اداہوتی تھی۔ حضورؓ نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو راستے میں خاکسار کا کمرہ تھا جس میں خاکسار بیمار اور صاحبِ فراش تھا اور حضورؓ جب بھی نماز کے لیے تشریف لے جاتے واپسی پر خاکسار کو دیکھ کر جاتے۔ ایک دن حضور نمازِ ظہر کے لیے تشریف لے گئے اس وقت عزیزم نصر اللہ خاں جو مکرم محترم چودھری ظفر اللہ خاں صاحبؓ کے برادرِ نسبتی ہیں خاکسار کے پاس بیٹھے تھے۔ ان کی عمر اس وقت اندازاً بارہ سال کی ہو گی اور وہ قمیص اور نکر میں ملبوس تھے وہ نماز کے لیے نہیں گئے اور خاکسار کے پاس بیٹھے رہے۔ حضورؓ جب نماز پڑھا کر واپس تشریف لائے اور خاکسار کے کمرے میں آئے تو حضورؓ نے عزیزم نصر اللہ خاں کو وہاں دیکھ کر فرمایا کہ تم نماز با جماعت میں کیوں نہیں شامل ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور! میں نے نکر پہن رکھی ہے اور میری ٹانگیں ننگی ہیں۔ اس پر حضورؓ نے بہت ناراضگی کا اور افسوس کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ مسلمانوں پر تب سے ادبار آیا ہے جب سے انہو ں نے معمولی معمولی بہانوں پر نماز باجماعت کو ترک کر دیا ہے۔ نیز فرمایا کہ اگر نماز باجماعت کھڑی ہو جائے اور تمہارے کپڑے غلاظت سے بھی لت پت ہوں تب بھی تمہارا فرض ہے کہ اس حالت میں نماز باجماعت ادا کرو۔ پس حضرت مصلح موعودؓ کے اس واقعہ سے ان احمدیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں جو معمولی معمولی عذر کہ کپڑے پاک نہیں وغیرہ وغیرہ پر نماز باجماعت میں شامل نہیں ہوتے۔ نماز ایک وسیلہ ہے اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہونے اور اس کے حضور عاجزی اور انکساری سے گڑگڑا کر دعائیں کرنے کا تا وہ رحم فرمائے اور ہمارے تمام گناہوں کی ستاری اور پردہ پوشی فرمائے اور اپنے خاص فضل سے ہمارے گناہوں کو بخش دے اور آئندہ کے لیے ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے ہمیں بچا کر اپنی خاص حفاظت میں لے آئے۔
نماز ایک ذریعہ ہے جس کو صحیح طریق پر سوچ سمجھ کر صرف خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے سنوار کر پڑھنے سے ہمیں بالآخر اپنے رب کا سچا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ نمازوں میں جیسا کہ خاکسار پہلے عرض کر چکا ہے ہمیں نہایت عجز و انکساری کے ساتھ اپنے رب کی تمام صفات کو سامنے رکھتے ہوئے دعائیں اپنی زبان میں بھی کرنی چاہیں۔ دعا ایک ایسا عجیب حربہ ہے کہ اگر ایک حقیقی مسلمان یعنی سچا احمدی اس پر استقامت کے ساتھ ثابت قدم ہو جائے تو اس کو سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کسی سے کوئی خوف اورخطرہ نہیں رہتا۔ دعا بھی ایک بہت بڑی عبادت بلکہ تمام عبادتوں کا مغز ہے جیسا کہ رسولِ پاکﷺ نے فرمایا کہالدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ۔ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ ہم جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کر کے حقیقی اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ حقیقی اسلام کا روشن چمکتا منوّر چہرہ دیکھا وہ کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں دعا کا ایک عجیب حربہ مل گیا ہے۔ اگر ہم اس کی طرف کما حقّہ توجہ نہ دیں تو پھر ہم سے زیادہ بدقسمت انسان اور کوئی نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ہمیں تو دعا کا آسمانی حربہ ملا ہے۔ نیز اپنے اشعار میں فرماتے ہیں کہ
عدو جب بڑھ گیا شور و فُغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دعا کو اس کے پورے لوازمات کے ساتھ مانگیں۔ دعا کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے دل میں یہ یقین کامل ہو کہ اس کا خالقِ حقیقی ہر قسم کی قوتوں اور طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
اس یقین کے ساتھ پھر دعا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بے صبری نہ دکھائے اور پورے صبر و استقلال کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ۔ (البقرۃ: 46)
یعنی پورے صبر اور استقلال کے ساتھ دعاؤں میں لگے رہو۔
پھر دعا کے لیے ضروری ہے کہ انسان چند دن ہی دعا کر کے اس وجہ سے گھبرا نہ جائے کہ قبول نہیں ہوئی۔ ہمارا کام اپنے رب سے عاجزانہ دعائیں مانگنا اور مانگتے چلے جانا ہے کیونکہ دعا کو قبول کرنا ہمارے پید اکرنے والے کا کام ہے۔ وہ جب اور جس رنگ میں ہمارے لیے بہتر خیال کرتا ہے ہماری دعاؤں کو ضرور اور ضرور قبول فرماتا ہے خواہ اس قبولیتِ دعا میں عرصہ دراز کیوں نہ گزر جائے۔
لہٰذا ہمیں دعائیں مانگتے وقت کبھی بھی تھکنا نہیں چاہیے ہمارا خالق بے حد پیار کرنے والا ہے وہ بندوں کی دعائیں ضرور قبول فرماتا ہے بشرطیکہ اس کا بندہ دعا کی حقیقت کو سمجھ کر دعا کرے وہ فرماتا ہے:
ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ(المومن: 61)
کہ اے میرے بندو تم مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا اور تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔
نیز فرماتا ہے:
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرۃ: 187)
یعنی اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے بارہ میں سوال کریں تو تُو ان سے کہہ دے کہ میں ان کے بالکل قریب ہوں اور پکارنے والے کی دعا کو جبکہ وہ مجھے پکارتا ہے قبول کرتا ہوں۔
جب ہمارا پیارا رب ہم پر اس قدر مہربان ہے تو ہم کیوں اس کی طرف پورے انہماک اور نہایت عجز اور انکسار سے نہیں جھکتے۔
پس میرے پیارے عزیزو، بزرگو اور بہنوں!جب ہمارے سامنے اپنی اس دنیا کی حقیقت واضح ہو گئی اور ہمیں اس حیات فانی کا اصل مقصد سامنے آگیا۔ جب ہمارے سامنے زندہ خدا کا زندہ چہرہ تمام صفاتِ کاملہ لیے ہوئے اور زندہ رسول کی حیات بخش سیرت اور آپؐ کا کامل اسوۂ حسنہ سامنے آگیا اور زندہ کتاب کے زندہ نشانات سامنے آگئے اور ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ ہم اپنی اس زندگی کا حقیقی مقصود حاصل کرنے کے لیے کیا جدّ و جہد کریں تو پھر کتنے خوش قسمت ہیں وہ بندے جو اپنی تمام زندگی اس مقصد کے حصول کے لیے صرف کر دیتے ہیں اور کتنے بدقسمت ہیں وہ جو احمدی تو کہلواتے ہیں مگر اپنی زندگی کے حقیقی مقصود سے دور، دنیا کی آلائشوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ(الانشقاق: 7)
ترجمہ اے انسان تو اپنے رب کی طرف پورا زور لگا کر جانے والا ہے اور پھر اس سے ملنے والا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی زیارت عمر بھر محنت کر کے حاصل ہو سکتی ہے۔ (الا ان یشاء اللّٰہ) اللہ تعالیٰ کی زیارت، اس سے ذاتی محبّت اور ذاتی تعلق کے لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر وقت ہر گھڑی اور اپنی ساری زندگی اس کے حصول کے لیے صرف کردیں۔ ہمارا دل اس مقصود کو حاصل کرنے کے لیے ہر وقت تڑپتا رہے۔ ہمارے دل میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ رہے ہم ہر وقت اس کے حضورعاجزانہ دعاؤں میں لگے رہیں۔ ہم ہر وقت اس کا ذکر کرتے رہیں اس کی تسبیح وتحمید کرتے رہیں اس کے حضور عاجزانہ طور پر استغفار کرتے رہیں اس کے حبیب پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔ ہم جہاں بھی ہوں، گھر میں ہوں، گھر سے باہر ہوں، لیٹے ہوں، بیٹھے ہوں، کھڑے ہوں یا چل رہے ہوں، سفر میں ہوں یا حضر میں ہوں، اپنے دنیوی کام کر رہے ہوں یا دینی خدمت کر رہے ہوں، ہمارے دل میں صرف اور صرف اس نہایت پیارے عالمین کے خالق کا خیال ہو۔ ہمارا کامل بھروسہ اور کامل توکّل صرف اور صرف اس ذاتِ باری پر ہو۔ اس کے علاوہ ہم کسی بھی طرف کسی بھی خیر کے لیے نظر اٹھا کر نہ دیکھیں اور کسی طرف کسی بھی شر سے بچنے کی امید نہ رکھیں کہ صرف وہی خالقِ حقیقی، سب خیر کا سر چشمہ اور منبع ہے۔ اس کے سوا سب ہیچ اور بےحقیقت ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے اور ہم اس کیفیت پر استقلال سے قائم ہو جائیں اور کوئی چیز ہماری اس کیفیت کو بدل نہ سکے تو ہم نے اپنے مقصد حیات کو پا لیا۔ مگر یہ کام معمولی نہیں اس کے لیے تمام زندگی مجاہدہ کی ضرورت ہے اور پھر سب سے بڑھ کر اس مسلسل دعا کی ضرورت ہے کہ اے ہمارے مالک !ہم بے حد حقیر لاشے محض ذرّہ ناچیز ہیں۔ تُو ہی اپنے خاص فضل سے ہمیں اس مجاہدہ کو صحیح طور پر بجا لانے کی توفیق عطا فرما اور تو ہی اپنے خاص فضل سے اس مجاہدہ کے نتیجے میں ہمیں اپنا خاص قُرب اور اپنی خاص محبت اس دنیا میں عطا فرما اور آخرت میں بھی ہمیں اپنی خاص محبت اور اپنے خاص قرب میں جگہ عطا فرما۔
ہمیں ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے کہ ہماری ذرا سی غفلت کوتاہی کی وجہ سے ہمارا اللہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔ ہماری زندگیاں صرف اور صرف اس کوشش میں گزریں کہ ہمارا سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو جیسا کہ رسولِ پاکﷺ کی زندگی کا نقشہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کھینچا ہے اور فرمایا ہے:
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ(الانعام: 163)
یعنی اے رسول تو لوگوں سے کہہ دے کہ میری نماز میری عبادتیں میری زندگی اور میری موت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو عالمین کا رب ہے۔
ہم جو حقیقی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب: 22)
کہ اے مومنوں تمہارے لیے اس پیارے رسول کا اسوۂ حسنہ موجود ہے تم اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارو اور جس طرح اس پاک رسول نے فرمایا ہے تمہارا عمل بھی پکار پکار کریہ گواہی دے کہ
اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔
آج کل دنیا جن گندے اور مادیت اور دہریت کے حالات سے گزر رہی ہے احمدیہ جماعت کے ہر فرد کے لیے یہ لمحۂ فکر ہے اور بہت خوف کے مقام پر ہم کھڑے ہیں۔ شیطان اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اپنے تمام حربوں کے ساتھ میدانِ عمل میں اتر آیا ہے تا وہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ دینِ اسلام کو مٹا دے۔ ہم احمدی نو جوانوں، بڑوں اور عورتوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم شیطان کے مقابل الٰہی حربوں سے لیس ہو کر آجائیں اور اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالیں کہ ہمارے اوپر اسلام کا صحیح رنگ چڑھ جائے ہمارا کوئی عمل کوئی فعل اسلام کی تعلیم کے خلاف نہ ہو۔ ہمارے اوپر مغربیت اور دہریت کا کوئی سایہ نہ پڑنے پائے۔ ہم میں سے ہر ایک اسلام کی پیش کردہ پاکیزہ تعلیم کو اپنے قول و فعل سے ثابت کرنےکی کوشش کرے۔ ہمارے اوپر توحید کامل کا سایہ ہمیشہ پڑتا رہے تا وہ جو غیر مسلم ہیں یا نام کےمسلمان ہیں ہمارے عملی اور فعلی نمونہ کو دیکھ کر حقیقی اسلام میں داخل ہو جائیں۔ خصوصاً ہمارے وہ احمدی جو بیرونی ممالک میں وصول رزق کے لیے رہائش رکھتے ہیں وہ گناہوں اور تاریکیوں اور دہریت کی ایک گھناؤنی دلدل کے درمیان زندگیاں گزار رہے ہیں ان پر بہت ذمہ داری ہے کہ وہ اس گند سے اپنے دامن کو بچائیں اور اپنے اندر صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق نیک تبدیلیاں پیدا کریں اور اس نمونہ کو پیش کر کے وہ اس ماحول میں نمایاں نظر آئیں تاکہ غیروں کی انگلیاں ان کی طرف بے اختیار اٹھیں اور وہ کہیں کہ یہ مخلوق اپنے اعمال، اپنے اخلاق، اپنے کردار میں نمایاں ہے۔
افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے وہ لوگ جو مغربی ممالک میں حصولِ رزق کے لیے رہائش رکھتے ہیں وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اسلام کی صحیح تعلیم پر عمل کریں گے مثلاً اگر ہم قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق اپنی بیویوں بہنوں کو پردہ کرائیں گے تو غیروں کی انگلیاں ان کی طرف اٹھتی ہیں کہ یہ مارڈن نہیں۔ میرے عزیزو بھائیو اور بہنو !کیا آپ لوگ صرف اس لیے بے پردہ ہو جاتی ہیں کہ غیر لوگ غیر مہذب کیا کہیں گے اور آپ نہیں سوچتے کہ آپ جب اسلام کے اس حکم کی واضح خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ کی لعنت کی انگلی آپ کی طرف نہیں اٹھتی۔ اس طرح بعض احمدی دوست جو ہوٹلوں کا کاروبار کر رہے ہیں وہ اپنے ریسٹورانٹوں میں سؤر کا گوشت بیچتے ہیں یا شراب فروخت کرتے ہیں ان کو بھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ صرف خلافِ شریعت حرکت اس لیے کرتے ہیں کہ ان کا ہوٹل یا ریسٹورانٹ میں زیادہ بِکری ہو۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو رازق نہیں سمجھتے اور اس دنیا کو اپنا رازق سمجھتے ہیں۔ پس ہمارے ان مغربی ممالک میں بسنے والے احمدی، عورتوں اور مردوں کے لیے ہر وقت ہر آن ایک ابتلا موجود ہے اگر ہم اس ابتلا میں ٹھوکر کھا جاتے ہیں تو ہمارے اللہ کو ہماری کوئی پروا نہیں لیکن جو احمدی اس مسموم فضا میں بھی اپنے دامن کو بچاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ا ن کی زندگی کا مقصود ہوتی ہے وہ کامیاب و بامراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا کی حسنات اور آخری زندگی کی حسنات اپنے خاص فضل سے عطا فرماتا ہے اور ان کی عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔
پس اے میرے پیارے عزیزو، بھائیو، بزرگو اور بہنو!یہ زندگی دار الامتحان ہے اور اس بہت تھوڑی زندگی میں ہمیں اپنی طرف سے انتہائی کوششوں میںلگے رہنا چاہیے کہ ہم رسولِ پاکﷺ کے اسوہ پر پوری طرح عملِ پیہم کرتے چلے جائیں تا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہم اپنے حقیقی مقصود یعنی اللہ تعالیٰ کا لقا اس کی محبت اور اس سے ذاتی تعلق پیدا کر سکیں۔ اس کے لیے ایک مسلسل جد و جہد مسلسل کوشش کی ضرورت ہے ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے کبھی غافل نہ ہوں۔ ہم ہر وقت اپنی زندگی خوف میں گزاریں کہ ہمارے کسی قول یا کسی فعل سے ہمارا پیارا خدا ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔ اس کی ناراضگی کے خوف سے ہمارے دل لرزاں رہیں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (رحمٰن: 47)
کہ جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کے مقام اور اس کی ناراضگی کا خوف ہر وقت رہتا ہے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ دو جنتیں عطا فرمائے گا۔ یعنی یہ دنیا بھی اس کے لیے جنت بنا دےگا اور آخرت میں بھی اس کو اپنی رضاکی جنتوں میں داخل کرےگا۔
اے ہمارے پیارے خدا!اے ہمارے بے حد پیارے آقا!ہمیں اس دنیا میں جو کچھ ملا جو جو نعمتیں عطا ہوئیں وہ صرف اور صرف تیری رحمتوں اور فضلوں کے نتیجے میں حاصل ہوئیں مگر ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ تو خود ہمیں مل جائے۔ تیری رضا ہمیں حاصل ہو۔ تیری ذاتی محبت کو ہم پالیں کہ یہی ہماری سب سے بڑی جنّت ہے۔ مگر اے ہمارے قادر و توانا خدا!تُو جانتا ہے کہ ہم بالکل حقیر بے بس لاشےمحض نہایت ہی حقیر ذرۂ ناچیز ہیں۔ تُو ہی اپنے خاص فضل سے ہمیں ان راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرما جو تیرے قرب کی راہیں، جو تیری محبت کی راہیں ہیں۔ تُو اپنے خاص فضل سے ہمیں شیطانِ لعین کے ہر حربے سے اپنی خاص حفاظت میں رکھ، تُو ہمارے حقیر عملوں میں بھی بے حد برکت ڈال دے۔ تُو ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم ہر گھڑی، ہر آن سوتے جاگتے تیرے حضور عاجزانہ دعاؤں اور ذکر میں لگے رہیں۔ ہمارا کوئی لمحہ تیرے پیارے خیال سے غافل نہ ہو کیونکہ جو دم غافل سودمِ کافر۔ ہماری شام گواہی دے کہ ہمارا دن تیری یاد میں گزرا۔ ہماری صبح گواہی دے کہ ہماری رات تیری یاد میں گزری۔ ہم بے حد کمزور بے بس بے طاقت ہیں ہم اپنی طاقت اور قوّت کے ساتھ تیری رضا کی راہوں پر نہیں چل سکتے۔ اے قادر و توانا خدا !ہم نہیں چل سکتے تو اپنے خاص فضل سے ہمیں قوّت اور طاقت دے کہ ہم تیری رضاکی راہوں پر چلنے والے ہوں۔ ہمارے دل تیرے پیار، تیری محبت میں مگن رہیں۔ تیرے رسول پاک کی محبت میں سرشار رہیں۔ تیری پیاری کتاب قرآن کریم کی محبت میں محو رہیں۔ ہمارا توکّل صرف اور صرف تجھ پر ہو۔ تیرے غیر سے ہم بکلّی پاک ہو جائیں اور جب بھی ہمیں کوئی پریشانی یا تکلیف ہو تو ہمارے دل پکار پکار کر یہ دعائیں کریں:
حَسْبِيَ اللّٰهُ نِعْمَ الْوَكِيْل نِعْمَ الْمَوْلَا نِعْمَ النَّصِيْر۔
یعنی تو اور صرف تو ہمارے لیے کافی ہے تو بہترین کارساز ہے تو بہترین مولیٰ ہے اور تو بہترین مددگار ہے۔ اے ہمارے بے حد پیارے آقا تو ہماری عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرما کہ تیرے سوا ہمارا اور کوئی نہیں۔ آمین
٭…٭…٭