امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ فن لینڈ کےواقفین نو اور واقفات نو کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 18؍ دسمبر 2021ء کو 10سال اور اس سے زائد عمر کےواقفین نو اور واقفات نو فن لینڈ سے آن لائن ملاقات فرمائی ۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ واقفین نو اور واقفا ت نو نے اس آن لائن ملاقات میں احمدیہ مشن ہاؤس Helsinki، فن لینڈ سے شرکت کی۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہواجس کے بعد جملہ شاملین ملاقات کو حضور انور سے اپنے عقائد اور دیگر عصر حاضر کے مسائل کی بابت سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک ممبر وقف نو نے عرض کیا کہ ایسے واقفین نو جو پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں یا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور وقف کے حوالے سے جماعت کو بتاتے ہی نہیں۔ پیارے حضور ایسے واقفین کے لیے آپ کیا نصیحت فرمائیں گے۔
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ والدین نے جب وقف کیا بچوں کو تو ان کے کانوں میں یہ ڈالیں کہ جب تم نے پندرہ سال کا ہونا ہے تو پھر تم نے خود جماعت کو بتانا ہے اپنا بونڈ renew کرنا ہے کہ میں پندرہ سال کا ہو گیا ہوں اور پڑھائی کر رہا ہوں اور پڑھائی مکمل کر کے تو مَیں اپنے آپ کو جماعت کے لیے پیش کر دوں گا وقف کے لیے۔ پھر اکیس سال کی عمر میں جاکے دوبارہ جب پڑھائی مکمل کر لیں اکیس بائیس تیئس سال کی عمر میں یونیورسٹی کی پڑھائی مکمل کرلیں پھر بتائیں کہ میں نے پڑھائی مکمل کر لی ہے۔ یہ یہ میں نے کام کر لیا ہے اب بتائیں کہ میں کیا کروں۔ تو اصولی طور پہ تو یہ ایک وعدہ ہے جو bondہے جو ماں باپ نے اپنے بچے کے بارے میں جماعت سے کیا اور اس کو پورا کرنا ایک عہد ہے اس کو پورا کرنا ہے۔ اس کے بعد بچوں نے اس کو پورا کرنا ہے اور اگر چاہتے ہیں بچے کہ نہ کام کریں، خدمت نہیں کرنا چاہتے تو پھر لکھ کے سیدھا دے دیں کہ ہمارے ماں باپ نے وقف کیا تھا لیکن ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے۔ تو اصولی طور پر تو ایمانداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب پڑھ لکھ کے کچھ بن جائیں تو اپنے کام کرنے کے لیے اجازت لے لیں، مرکز سے پوچھ لیں کہ ہم نے یہ پڑھائی کر لی ہے آیا ہم اپنا کام کریں یا مرکز ہمارے سے کوئی خدمت لینا چاہتا ہے۔ تو مرکز اکثر لوگوں کو تو یہی کہہ دیتا ہے کہ تم اپنا کام کرو اور جو لوگ پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں بیچ میں، نکمے ہوتے ہیں ان کو تو ویسے ہی وقف چھوڑ دینا چاہیے بتا دینا چاہیے۔ بتا دینا چاہیےکہ ہم نے پڑھائی کوئی نہیں کی۔ اب ہمیں بتائیں ہم کیا کریں کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہمیں چاہئیں وقف نو میں اَن پڑھ تو نہیں چاہئیں۔ تویہ ایمانداری کا تقاضا ہے ان کو بتائیں کہ ایمانداری یہی ہے کہ جو تمہارے ماں باپ نے عہد کیا تھا اس عہد کو پورا کرنے کے لیے تم اپنے bond کو renew کیا کرو پندرہ سال کی عمر میں اور پھر اکیس سال کی عمر میںا ور پھر اس پہ پابند بھی رہو۔
ایک اَور ممبر وقف نو نے سوا ل کیا کہ کچھ واقفین جن کے پاس temporary visaیاwork visaپر رہ رہے ہوتے ہیں اور ان ممالک میں رہنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے تو وہ کس طرح وقف پیش کر سکتے ہیں اور جماعت کی خدمت کر سکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ کام کرنے والے کوئی چوبیس گھنٹے تونہیں کام کرتے۔ کوئی نہ کوئی وقت تو ملتا ہے ناں weekend میں ملتا ہی ہے ناں۔ ان ممالک میں دو دن weekend میں چھٹی بھی تو ہوتی ہے۔ تو over time لگا کے اس weekend کی چھٹی کو بھی تم اپنے پیسے کمانے پہ لگادو اگر تو اس کا فائدہ کوئی نہیں ہے۔ تو اسے چاہیے کہ کم از کم ہفتے میں ایک دن تو جماعت کو دیں، کہ اچھا اگر ہم نے ایک دن over time لگانا ہے کام کرنے کے لیے تو ایک دن ہم جماعت کو دیتے ہیں جماعت نے جو بھی خدمت تمہارے سے لینی ہے لے تو حق تو یہی ہے۔ یہاں آپ آئے تھے کس طرح آئے تھے سٹوڈنٹ ویزے پہ آئے تھے؟ (انہوں نے بتایا کہ جی حضور)۔ حضور انور نے فرمایا کہ سٹوڈنٹ ویزے پہ آئے تھے وہاں سے پاکستان سے اس لیے چھوڑ کے آئے تھے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں یا اس لیے آئے تھے کہ وہاں تعلیم کے موقعے نہیں تھے آپ کے لیے ۔ اس لیے آئے تھے ناں۔ تعلیم کا موقع کیوں نہیں تھا؟ (انہوں نے بتایا کہ جس طرح یہاں پہ ہمیں آزادی سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے وہ وہاں پہ نہیں مل پاتا۔) حضور انور نے فرمایا کہ آزادی کے ساتھ اپنے آپ کو احمدی ظاہر کر کے وہاں چھپ چھپ کے ڈر ڈر کے رہتے تھے ۔ اس کا مطلب ہے احمدیت کی وجہ تو کہیں نہ کہیں چاہے اسائلم کیا ہو کسی نے یا تعلیم کی غرض سے آیا ہو اس کے پیچھے یہی ایک بات ہوتی ہے کہ پاکستان میں آزادی مذہب نہیں تھی تو اس لیے ہم یہاں آ گئے۔ تو پھر جس مذہب کے نام پہ آئے تھے اس کا بھی تو حق ادا کریں ۔ہفتے میں سات دن میں ایک دن تو دے دیا کریں ناں اس کو۔ ایمانداری کا اور اچھے اخلاق کا تقاضا تو یہی ہے۔ باقی آپ کی جو مرضی ہےکریں۔
ایک دوسرے ممبر وقف نو نے سوال کیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم صرف صاف بات کرتے ہیں چاہے کسی کو بری لگے یا نہیں اور کئی دفعہ ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے دوسرے کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حضور کیا یہ طریقہ درست ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ صاف بات کہنا تو کوئی کمال نہیں ہے جو عرب کے بدو تھے وہ بھی صاف بات کرتے تھے ان کوکیا کہتے ہیں ہم ؟بدو ہی کہتے ہیں ناں۔ ان کو پڑھا لکھا تو نہیں کہتے۔ وہ بدو جو حضرت عمرکا کپڑا آ کے کھینچ لیتا تھا اس کو یہ تو نہیں کہتے کہ وہ بڑا عظیم صحابی ہے۔ اس کو یہی کہتے ہیں ناں جاہل اور پاگل آدمی ہے جس نے اس طرح حرکت کی ہے۔ یہ تو حضرت عمر کا حوصلہ ہے یا نیک لوگوں کا حوصلہ ہے جو اس قسم کی حرکتیں برداشت کر لیتے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چادر ڈال کے کھینچنے لگ گیا تو اس نے یہ کوئی عقل والی بات کی تھی؟ پاگل والی بات ہی کی تھی ناں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے برداشت کیا۔ تو اس لیے کہ وہ جاہل اور جہالت والی بات ہے اور جاہلوں کی باتوں کو برداشت کر لینا چاہیے۔ باقی جہاں تک ان کا سوال ہے ان میں وہ عقل ہی نہیں کہ وہ صحیح طرح بات کر سکتے۔ کسی بڑے آدمی سے عزت سے بات کریں عزت سے اس کی بات کا جواب دیں اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر سمجھانے کے لیے کرتے ہیں کوئی بڑا اپنے آپ کو سمجھتا ہے اور چھوٹے کو سمجھاتا ہے تب بھی اعلیٰ اخلاق یہی ہیں کہ سمجھانے کی اگر نیت ہے تو پھر نیک نیتی سے سمجھانا چاہیے پھر ایسے موقع پر سمجھاؤ جہاں اگلے کو سمجھ آئے ناں کہ وہ reactکرے۔ اب بعض نوجوانوں کو بعض بڑے اپنی طرف سے بڑا کھل کے مجلس میں کہتے ہیں۔ او تو بھیڑیا تو اے کی کیتا فلاں کی کیتا۔ پنجابی میں تمہارے لوگوں کو کہتے رہتے ہیں ناں یہاں یا تم نے یہ کیوں کیا، فلاں کیا تم نے، بڑی فضول باتیں کرتے ہو،تم لوگ یہ کیوں کر رہے ہو ڈانٹ دیا کسی بات پر بھی تو اس کا اس نوجوان پہ برا اثر ہی پڑتا ہے وہ کہتا ہے مجھے شرمندہ کیا لوگوں کے سامنے، مَیں نہیں مانتا اس کی بات۔ اگر کسی عہدیدار نے کیا تو میں مسجد میں ہی نہیں آتا۔ تو یہ تو دور بھگانے والی باتیں ہیں جہالت کی باتیں ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اگر سمجھانا بھی ہے تو نیک نیتی سے سمجھانا چاہیے جس طرح اپنے بچوں کو انسان سمجھاتا ہے ناں علیحدگی میں جا کے۔ بچے یہ بری بات کی ہے الا ماشاء اللہ لوگ عموماً اپنے بچوں کا لحاظ رکھتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بچوں کو بھی جھاڑ دیتے ہیں لوگوں کے سامنے۔ اپنے بچوں کو بھی۔ لیکن اپنے بچوں کے ساتھ اور ٹریٹمنٹ (treatment)ہوتی ہے، دوسروں کے ساتھ اور۔ وہ غلط ہے۔ اگر کسی نوجوان کو سمجھانا ہے کسی بڑے نے اس کو بھی چاہیے کہ اس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس کو سمجھائے اور اگر چھوٹے نے کسی بڑے سے بات کرنی ہے اس کو بھی چاہیے کہ ادب اور لحاظ کا حفظ مراتب کا خیال رکھ کے بات کرے نہ یہ کہ جاہلوں کی طرح جو منہ میں آیا بکتے چلے گئے اور اگلے کی بات ہی نہ سنی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھے اخلاق بنیادی چیز ہیں۔ نرمی سے ایک دوسرے سے پیش آنا چاہیے اور اچھے اخلاق سے بات کرنی چاہیے نہ یہ کہ بدوؤں کی طرح جاہلوں کی طرح جو منہ میں آئے بول دیا۔
اس کے بعد واقفات نو نے اپنےسوالات کیے۔ایک ممبر واقفات نو نے سوال کیا کہ سکول میں ہماری جو کلاس فیلوز ہوتی ہیں ان کا کلچر ہم سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ ہم ان سے کس حد تک دوستی کر سکتی ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کلچر ان کا مختلف ہے۔ سکول میں تو آپ لوگ ایک یونیفارم میں ہوتے ہیں اس لیے لباس کے لحاظ سے تو آپ لوگ تقریباً ایک ہی ہیں ناں۔ باقی رہ گیا ان کو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تو آپ ان کو بتائیں کہ میں احمدی مسلمان ہوں اور احمدی مسلمان کیا ہوتے ہیں۔ اچھے اخلاق سے پیش آؤ ان سے دوستی کرو تو وہ خود ہی پوچھیں گی کہ تم کون ہو اور پھر وہ تمہارے اگر گھر آ کے تمہیں ملنا چاہیں تو وہ گھر بھی آ کے مل سکتی ہیں۔ تم نے لوگوں کے گھروں میں نہیں جانا نہ نائٹ سپینڈ کرنے جانا ہے۔ Night stayکہیں نہیں ہونا چاہیے نہ لڑکوں کا نہ لڑکیوں کا کسی کے گھر میں۔ لیکن اس کے بعد اگر وہ تمہیں کبھی بلائیں دعوت پہ تو ایک دو گھنٹے کے لیے چلے جاؤ لیکن وہاں جا کے احتیاط کرو کہ تم نے اچھے اخلاق دکھانے ہیں ہمیشہ ایک احمدی کے اخلاق دکھانے ہیں اگر وہاں کھیل کے دوران نماز کا وقت ہو گیا تو کہہ دو کہ میری نماز کا وقت ہو گیا مجھے نماز پڑھنے کے لیے جگہ بتا دو میں نماز پڑھ لوں۔ اس سے ان پہ اچھا اثر پڑے گا۔ وہ تمہارے گھر آتی ہیں، کھیلتی ہیں تو کھیلنے کے دوران ان کو بھی اسی طرح اگر نماز کا وقت ہو گیا بتاؤ، اچھی باتیں ان سے کرو اگر کوئی غلط بات کرنے لگے تو کہہ دو یہ ایسی باتیں ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہیں۔ ہمیں اچھی اچھی باتیں کرنی چاہئیں۔ علم بڑھانے کے لیے باتیں کرنی چاہئیں تو کلچر تو ہر ایک کا اپنا اپنا ہے لیکن اسی طرح ہم تعلق بڑھائیں گے اور ان کو قریب لائیںگے اور اپنے اچھے اخلاق ان کو دکھائیں گے تو وہ پھر قریب ہو کے احمدیت کے متعلق سوچیں گی بات کریں گی اور پھر اس طرح تبلیغ کے رستے بھی کھلیں گے۔ تو بعض چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے عمل سے اپنی باتوں سے اپنی دوستیوں سے تبلیغ کرنی شروع کر دیتے ہیں اپنی عمر کے بچوں کو اور پندرہ سولہ سال میں بعض دفعہ بعض لڑکیاں احمدی بھی ہو جاتی ہیں اپنی دوستوں کی باتیں سن کے۔ اس لیے صرف اس بات سے دور ہٹ جانا کہ جی ان کا کلچر اور ہے آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں تو بعض باتیں تو ان کی اچھی ہیں ان کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو ان کی غلط باتیں ہیں ان کو بالکل اختیار نہیں کرنا۔
ایک دوسری ممبر واقفات نو نے سوال کیا کہ حضور دوران تبلیغ جب ہم دوستوں کو کہتی ہیں کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے تو وہ ہمیں کہتی ہیں کہ اگر یہ درست ہے تویہ باتیں ہمیں بتانے کی بجائے مسلمان ملکوں میں جا کر بتاؤ ہم تو پہلے سے ہی پرامن رہنے والے لوگ ہیں۔ حضور اس بارہ میں ہماری راہنمائی فرما دیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ بات تو وہ ٹھیک کہتی ہیں۔ ان سے کہو تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے اور ہمیں یہی کرنا چاہیے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم جب امن کی بات کرنے والے ہیں ہم احمدی ہیں اور ہم نے اس شخص کو مانا ہے جس نے امن پھیلانے کے لیے آنا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اور ہماری مخالفت یہ لوگ کرتے ہیں اس لیے ہماری جہاں تک کوشش ہوتی ہے ہم ان کو بھی بتاتے ہیں لیکن ہم تمہارے سے بات تو صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ تمہیں یہ بتائیں اگر تمہارے دماغ میں کوئی شکوک ہیں اسلام کے بارے میں کہ اسلام پرامن مذہب نہیں ہے تو وہ دور ہو جائے تمہیں ہم قائل کرنے کے لیے نہیں بتا رہے کہ تم اسلام لے آؤ۔ اسلام لانا مذہب بدلنا ہر ایک کا اپنے دل کا معاملہ ہے۔ آپ لوگوں کے اچھے اخلاق ہوں گے تو وہ لوگ خود ہی آپ لوگوں کےقریب آئیں گے۔ ہاں ان کو کہیں ہم تو صرف تمہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تمہارے دل میں کیونکہ شکوک ہیں اسلام کے بارے میں تم لوگ سمجھتے ہو کہ اسلام بڑا بُرا مذہب ہے اور شدت پسند مذہب ہے اور ظلم کرنے والا مذہب ہے تو اس لیے ہم بات کر رہے ہیں کہ اسلام کی اصل تعلیم یہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں کہ تمہیں ہم ضرور کہیں کہ تم مسلمان ہو جاؤ۔ نہ اس طرح مسلمان ہونے کے لیے کہنا چاہیے کسی کو۔ جب آ پ مستقل باتیں کریں گی اور آپ کے عمل وہ دیکھیں گی آپ کے قریب آئیں گی آپ کی دوست بنیں گی تو خود ہی جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے پھیرنا ہو گا اسلام اور احمدیت کی طرف وہ اللہ تعالیٰ خود ہی پھیر دے گا۔آپ لوگ براہ راست کہیں گی نہ دیکھو اسلام پر امن مذہب ہے اس لیے تم قبول کر لو۔ تو وہ کہے گا جاؤ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو مجھے کیا سمجھا رہی ہو۔
ایک اور واقفہ نو نے عرض کیا کہ جب کالج میں میری کچھ سہیلیوں سے اللہ تعالیٰ کے متعلق بات ہوتی ہے تو وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ جب ہمارے پاس ایک اچھا ملک ہے پر امن ملک ہے ایک اچھا گھر بار بھی ہے تو اگر ہم اللہ تعالیٰ کو مان لیں گے تو ہمیں مزید کیا حاصل ہو گا؟ پیارے حضور اس بارے میں ہماری راہنمائی فرما دیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ ان سے کہنا کہ یہ دنیا جو ہے ختم ہوجائے گی یہاں سے انسان جائے گا۔ ہمارا یہ تصور ہے اسلام کا یہ concept ہے کہ اس کے بعد بھی ایک دنیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہم مان لیں گے تو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ اس بات پہ اور ہمیں مرنے کے بعد بھی rewardہے اس کا۔ اور یہ دنیا تو عارضی ہے مستقل دنیا اس کے بعد ہے ۔ تو اگر تم اللہ کو مانو تو وہ جو مستقل جو دنیا ہے مرنے کے بعد کی اس میں اللہ تعالیٰ نوازتا ہے اور ہاں اس دنیا میں جو اللہ تعالیٰ کو ماننے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اس کی عبادت کرنے والے ہیں ان سے بعض دفعہ ایسا سلوک بھی کر دیتا ہے کہ بعض ایسی باتیں ہو جاتی ہیں جو انسان expect نہیں کر رہا ہوتاکہ وہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کا ان کا اس دنیامیں بھی سلوک مختلف ہوتا ہے دوسرں سے جو دہریہ ہے یا اللہ کو نہیں مانتے۔ ہم تو اس لیے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ دنیا صرف دنیا نہیں ہے بلکہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جس میں مرنے کے بعد انسان جائے گا اور یہی سارے مذاہب نے پیش کیا اور یہ جب ہوتا ہے تو پھر ہم نیک کام بھی کرتے ہیں۔ اسے کہو مان لیا یہ سب کچھ ہے دنیا بھی تمہیں مل گئی اور تمہیں آسانیاں بھی مل گئیں اچھا گھر بھی مل گیا لیکن باوجود اس میں بہت ساری ایسی برائیاں آگئی ہیں جو اخلاقی طور پہ اچھی نہیں ہیں۔ تم ان کو سمجھتے ہو یہ کوئی چیز نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اخلاق برائیاں ہیں آجکل جو بہت ساری موومنٹس چل گئی ہیں اس قسم کی باتیں پیدا ہونے لگ گئی ہیں تو وہ ساری باتیں جو ہیں اس سے کہو یہ ایسی باتیں ہیں جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ اچھے اخلاق میں شامل نہیں ہیں اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر یہ بھی جتنے atheist ہیں خدا کو نہ ماننے والے وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو اچھے اخلاق تھے دنیا میں جو آئے ہیں جو انسان پہلے caveمیں رہتا تھا پھر جنگل میں رہنا شروع ہوا پھر باہر نکلا اور ایک سوسائٹی بننی شروع ہوئی اور پھیلنی شروع ہوئی ان میں جو اچھے اخلاق پیدا ہوئے وہ نبیوں کے ذریعہ سے آئے اور دنیا میں جتنے بھی مذہب آئے سب کی بنیادی تعلیم یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کو مانو اور آپس میں اچھے اخلاق ایک دوسرے سے دکھاؤ۔ اور مذہب میں بھی دیکھ لوکہ یہ باتیں مختلف نہیں ہیں ایک ہی چیز ہے۔ ہر مذہب جو ہے ایک بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کو مانو اور اچھے اخلاق دکھاؤ۔ ایک دوسرے کا خیال رکھو۔ بعد میں بگاڑ پید اکر لیا مذہب کے ماننے والوں نے اس میں لیکن بنیادی تعلیم ہر مذہب کی ایک ہے اور یہ atheistبھی مانتے ہیں کہ جو بنیادی تعلیم اخلاق کی ہے وہ نبی لے کے آئے۔ جب نبی لے کے آئے تو نبی کہتے ہیں ہم اللہ کی طرف سے آئے۔ اگر ایک بات پر انہوں نے سچ بولا اور اچھائی پیدا کر دی دنیا میں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی باقی باتیں بھی سچی ہیں۔ اس لیے ہمیں اللہ کو بھی ماننا چاہیے اور اللہ کی عبادت بھی کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کے حق بھی ادا کرنے چاہئیں اور یہی مقصد لے کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آئے تھے کہ اس دنیا میں اس زمانے میں لوگ جو ہیں خدا تعالیٰ کو بھول رہے ہیں اور اچھے اخلاق جو ہیں وہ ختم ہو رہے ہیں اس لیے میں آیا ہوں تا کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب کروں ان کو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا بناؤں اور ایک دوسرے کا، انسان انسان کا بھی حق ادا کرنے والا بنے تا کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہاں اس دنیا میں بھی reward ملے اور امن سے اور محبت اور پیار سے رہے اور مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ اس کو جزا دے اور انعام دے اس لیے ہم مانتے ہیں اللہ کو۔
ایک ممبر واقفات نو نے سوال کیا کہ کیا آپ اپنی یونیورسٹی لائف کا کوئی واقعہ سنا سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ کیا سناؤں۔ مجھے تو کوئی یاد نہیں۔ ہاں جب 74ء کے فساد ہوئے ہیں اس وقت ہمارے سامان جلا دیے تھے۔ ہمارے کمرے کا سامان نکال کے باہر جلا دیا تھا ہم جب گئے تھے ہمیں یونیورسٹی آنے سے منع کر دیا تھا اور ہمارے ایک دو لڑکوں کو پکڑ کے مارا بھی تھا۔ تو ایک term ہماری یونیورسٹی کی ضائع بھی ہو گئی اس وجہ سے۔ اور بس یہ ظلم ہوتے تھے۔ باقی ہم اکٹھے رہتے تھے احمدی لڑکے اور بڑا اچھا ماحول تھا۔ نمازیں ہم اکٹھے پڑھا کرتے تھے اور مل جل کے رہتے تھے دوستوں کی طرح۔
اچھا اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم