متفرق مضامین

شادی۔ آپس کا حسن سلوک۔ جدائی۔ صبر (قسط دوم)

(امۃ الباری ناصر)

(گذشتہ سے پیوستہ)’’اس مختصر سی تمہید کے بعد میں اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں یہ واقعہ میرے بہت ہی بچپن سے تعلق رکھتا ہے میں بہت چھوٹی تھی اور نیا نیا سکول جانا شروع ہوئی تھی۔ ایک دن آدھی چھٹی کے وقت ہم سب لڑکیا ں باہر کھڑی تھیں وہ بہت ہی سستا زمانہ تھا۔ بہت سی بچیوں کے والدین اپنی بچیوں کو ہر روز خرچ کے لئے ایک پیسہ دو پیسے دیتے تھے۔ کئی لڑکیاں صبح ناشتہ کے بغیر ہی جلد ی میں سکول آجاتیں۔ اس طرح ایک لڑکی صبح ناشتہ کے بغیر ہی گھر سے سکول آ گئی اور پیسے لانا بھی شاید بھول گئی اُس کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی جوایک پیسے کے چنے خرید کر کھا رہی تھی اُس لڑکی کو ساتھ کی لڑکی نے کہا جو پیسے نہیں لائی تھی کہ تمہارے پاس دو پیسے تھے ایک پیسے کے تم نے چنے لے لئے ایک پیسہ جو تمہارے پاس ہے مجھے دے دو میں پیسے لانا بھول گئی ہوں۔ وہ انکار کر رہی تھی کہ میں نہیں دے سکتی وہ لڑکی منت کرنے لگی کہ میں ناشتہ بھی نہیں کر کے آئی مجھے بھوک لگ رہی ہے میں کل تمہیں یہ پیسہ لا کر دے دوں گی جب وہ کسی طرح بھی رضا مند نہ ہوئی تو اُس نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ سفارش کر دیں مجھے بھوک لگی ہے میں کل لا دوں گی مجھے اُس لڑکی پر ترس آ گیا میں نے کہا دے دو یہ کل لا دے گی۔ میرے کہنے پر اُس لڑکی نے اُسے پیسہ دے دیا۔ وہ لڑکی ہر روز ہی جب دوسری لڑکی سے اپنا پیسہ مانگتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی اس طرح ہفتوں گزر گئے۔ وہ لڑکی ہر روز مجھے بھی کہتی کہ آپ نے اس کی سفارش کی تھی۔ اُن دنوں ہم بچوں کو اتنی چھوٹی عمر میں ہاتھ میں سوائے عید وغیرہ کے پیسے نہیں ملتے تھے۔ جس چیز کی ہم خواہش کرتے وہ منگو ا دی جاتی تھی۔ آخر ایک دن اُس لڑکی نے مجھے کہا کہ اگر فلاں دن تک پیسہ نہ دیا تو میں حضور کو تمہاری شکایت کر دوں گی۔ میں سخت گھبرائی اور بے حد پریشان ہوئی کہ سیّدنا ابا جان کو معلوم ہو گیا تو آپ کو اس بات کی سخت تکلیف ہو گی کیونکہ میں جانتی تھی کہ سیّدنا ابا جان کو قرض لینا برداشت ہی نہیں اور قرض لینے سے سخت نفرت تھی۔ تو میں نے رو رو کرنماز میں دعائیں شروع کر دیں اور بہت پریشان رہنے لگی۔ آپا جان سیّدہ اُمِّ طاہر صاحبہ مجھے پریشان دیکھتیں اور نماز میں رو رو کر دعائیں کرتے دیکھ کر پریشان ہو جاتیں اور مجھ سے پوچھتیں کہ کیا تکلیف ہے مجھے بتاؤ لیکن مجھ پر اتنا خوف طاری تھا کہ میں اُن کو کبھی نہ بتاتی صرف اس لئے کہ اُن کو بھی بہت تکلیف ہو گی اس بات سے کہ اس نے اس لڑکی کو قرض کیوں دلوایا اور یہ ذمہ داری کیوں لی۔ اور اب تو وہ لڑکی جس نے بطور قرض کے پیسہ دیا تھا وہ مجھ سے کہنے لگی کہ اب تو میں ایک پیسہ نہیں لوں گی بلکہ چار آنے لوں گی اگرچار آنے نہیں دو گی تو میں حضور کو شکایت کر دوں گی۔ پھر تو کچھ نہ پوچھئے کہ میں نے کس طرح رو رو کر بلک بلک کر دعائیں کیں کہ یا اللہ تو میری مدد کرایک دن میں سکول جانے کے لئے اپنے کمرہ میں تیار ہو رہی تھی کہ بھائی عبدالرحیم صاحب درویش کی بیگم صاحبہ میرے کمرہ میں آئیں اور مجھے ایک چونی دینے لگیں میں نے انکار کیا کہ سیّدنا ابا جان نے ہمیں کسی سے بھی کوئی بھی چیز لینے سے سختی سے منع کیا ہو ا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگیں یہ میں نہیں دے رہی آپ کی امّی نے آپ کو بھیجی ہے۔

میں نے حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھا اور کہا

میری امّی نے؟ یہ کیاکہہ رہی ہیں؟ ؟

اس پر اُنہوں نے مجھے بتایا کہ آج رات میں نے خواب دیکھا کہ آپ کی امّی بی بی امۃ الحئی میرے پاس آئیں اور مجھے ایک چونی دے کر کہنے لگیں کہ یہ میری بیٹی امۃ الرشید کو دے دینا وہ بہت پریشان ہے۔ میں نے وہ چونی لے کر اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لی اور میری آنکھ کھل گئی مجھے یقین تھا سچ مُچ وہ چونی مجھے دے گئی ہیں۔ میں نے تکیہ دیکھا اپنا بستر جھاڑا لیکن وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر ہر روز کے معمول کے مطابق میں اپنے کمرہ میں جھاڑو دینے لگی اور دروازے کی دہلیز پر پہنچی تو وہاں پر ایک چونی پڑی تھی اور میں وہ لے کر اُسی وقت آپ کے پاس آ گئی ہوں کیونکہ یہ میری نہیں یقیناً یہ وہی چونّی ہے جو آپ کی امّی آپ کے لئے دے گئی تھیں۔ میں نے وہ چونّی لے لی اور اُس لڑکی کو جا کر دے دی اور اس طرح اپنی جان چھڑوائی۔

میراا یمان ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ مجھ میں دعاؤں کا ذوق پیدا ہو اور قبولیت دُعا پر میرا ایمان اور یقین ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے اور یہ کہ جو کچھ مانگنا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگو وہ ناممکن کو ممکن میں بدل دینے والا ہے۔

اس واقعہ کے چند دن بعد ہی ہمیں بھی روز کے دو پیسے اور جمعے کے دن ایک آنہ ملنے لگ گیا۔ بہت دن کے بعد یہ واقعہ میں نے آپا جان سیّدہ اُمِّ طاہر اور سیّدنا ابا جان کو بھی بتا دیا۔ وہ بھی اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ تم نے بہت اچھا کیا جو اپنے مولا سے مانگا اور بندوں کی طرف رجوع نہیں کیا۔ ‘‘

گھر کا ماحول آپس کی معاملہ فہمی سے بہت خوشگوار رہتا۔ پھوپھی جان صادقہ صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’’ہماری بھابی آمنہ بیگم، اللہ بخشے، بہت نیک مزاج، ملنسار اور سب کا دل خوش کرنے والی بھابی تھیں اماں جب بھی ا ن کے گھر جاتیں سب محبت سے بچھے جاتے، بچے بھی آکر لپٹ جاتے ہمارے لئے ایک دن بہت خوشی کا ہوتا جب عیدالفطر سے پہلے ایک دن بھائی بھابی بچوں کے ساتھ ہمارے گھر آتے اورسویاں بنتیں اُس زمانے میں بازار سے سوّیاں لینے کا رواج نہ تھا گھروں میں مشینوں پر بنائی جاتیں۔ بھائی پہلے بتا جاتے کہ ہم فلاں دن آئیں گے۔ پھر سارا دن کوئی میدہ گوندھتا کوئی مشین چلاتا کوئی ڈوریوں پر سویاں سوکھنے کے لئے ڈالتا ہم بچے کھیلتے رہتے۔ اگلے دن اماں ساری سو یاں بھون کر بھائی کے گھر دے آتیں بھابی کی خواہش ہوتی کہ عیدالفطر کی سویاں اور عیدی وغیرہ اور عیدالاضحی کی قربانی کا گوشت اماں ہی بانٹیں اکثر اماں کو لے جایا کرتے کبھی بھابی یا کوئی بچہ بیمار ہوا اماں کچھ دن وہیں رہتیں۔ بھائی اماں کے بہت فرماں بردار اور خدمت گزار تھے۔ اس بات کا اماں کو بھی احساس تھا سارا دکھ درد ا ن سے ہی کرتی تھیں۔ آخری بیماری اور وفات بھی بھائی کے گھر ہوئی

بھائی کی خدمت گزاری اور فرماں برداری کا نقش ابھی تک قائم ہے۔ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ بھابی نے بھی بہت خدمت کی، بعدمیں بھی بہت یاد کرتی تھیں کہ ہم ساس بہو سہیلیوں کی طرح رہتے تھے۔ ہر دکھ سکھ کر لیا کرتے تھے آج کل سگی اولاد اتنا نہیں کرتی مگر اماں کے حسنِ سلوک نے اپنا عزت قدر کا مقام بنا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔ ‘‘

خاکسار کا قادیان میں جو وقت گزرا اپنی کم سنی کی وجہ سے زیادہ یاد نہیں ایک نقشہ جو ذہن میں محفوظ ہے اس سے اباجان کا اپنے بیوی بچوں کو آرام دینے کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ ہم سردیوں میں ایک کمرے میں دیواروں سے لگی چارپائیوں پر سوتے صبح جب آنکھ کھلتی درمیان کی خالی جگہ پر پتھر کے کوئلوں کی دہکتی ہوئی انگیٹھی ہوتی جو اباجان نماز کے لیے جانے سے پہلے سلگا جاتے اور واپسی پر کمرے میں لے آتے۔ کمرہ گرم ہوجاتا پھر اسی کمرے میں سب بچے وضو کرکے نماز اور قرآن مجید پڑھتے اباجان درس دیتے، کوئی کتاب پڑھ کر سناتے۔ آخری کتاب جو ہجرت سے پہلے اباجان سنا رہے تھے وہ سیرت حضرت ام المؤمنینؓ تھی۔ پھر سب مل کر ناشتہ کرتے۔ اباجان کھانے کی بہت لذیذ چیزیں لے کر آتے تھے۔

تقسیم برّصغیر کے بعد

قادیان کے احمدیوں کے لیے تقسیم بر صغیر ایک بہت بڑا انقلاب لے کر آئی۔ قیامت جیسا ہوش رُبا، ہولناک وقت تھا۔ قادیان چھوڑنے کے فیصلے پر مجبور کرنے والے واقعات بہت دردناک تھے۔ قادیان کے اردگرد کے گاؤں دیہات سے ہزاروں افراد قادیان کو نسبتاً محفوظ سمجھتے ہوئے قادیان آگئے۔ کچھ خاندانوں نے بالکل ہمارے گھر کے سامنے ڈیرہ ڈال لیا۔ بالکل بے سروسامانی اور کسمپرسی کی حالت دیکھ کر ابا جان نے اُنہیں اجازت دے دی کہ ہمارے گھر آ کر روٹی پکا لیا کریں۔ گھر سے مربّہ اچار سالن وغیرہ مہیا کر دیا جاتا۔ ایک دن اُن خواتین کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی استفسار پر علم ہوا کہ اُن کی دو جوان لڑکیاں سکھ اُٹھا کر لے گئے ہیں۔ اس خبر کے بعد جان و آبرو بچانے کے لیے بیوی بچوں کو قادیان سے رُخصت کرنا ضروری ہوگیا۔ ابا جان کو خواب میں ایسا اشارہ بھی ملا تھا کہ ہجرت ہوگی۔ ایسے بے یقینی کے حالات میں آپ نے رضائے الٰہی کی خاطر قادیان میں ٹھہرنے کا اور اپنے بیوی بچوں کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا اس طرح ایک ہنستا بستا گھرانا دو لخت ہوگیا۔

جماعت کے لیے قربانی اور جدائی کو قبول کرنے والے کوئی الگ مخلوق نہیں ہوتے جذبات میں اٹھنے والے منہ زور طوفانوں کو خدا کی طرف رخ پھیر کر آنسوؤں سے ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے۔ جدائی اور صبر کا جو سفر شروع ہوا تھا اس کی طوالت اور سختیوں کا اندازہ نہیں تھا۔

اس وقت امی جان کی عمرصرف پینتیس سال تھی گھر سے باہر کے کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ پانچ بیٹیاں اور دو بیٹےتھے تیسرا بیٹا کوکھ میں تھا سب سے بڑی بچی بیس سال کی اور چھوٹی تین سال کی تھی۔ گھر کا ماحول ایسا تھا کہ لڑکیوں کا ماں باپ کی نگرانی کے بغیر زیادہ باہر نکلنا نہیں ہوتا تھا۔ مگر ایسی مجبوری آن پڑی کہ اللہ سے فریاد کر رہے تھے کہ کسی طرح کوئی بیوی بچوں کو لے جائے۔ ابھی بھی دھندلی سی یاد ہے۔ امی صبح سویرے ہمیں لے کر ایک سڑک کے کنارے بیٹھی ہوئی تھیں کہ کوئی سواری مل جائے۔ خوش قسمتی سے مکرم کیپٹن عمر حیات صاحب اور مکرم اشرف نسیم صاحب نے ٹرک کا انتظام کیا ہوا تھا ٹرک آیا اس پر انسان اور سامان کی گٹھڑیاں بری طرح لدی ہوئی تھیں۔ منتظمین انسانوں کو زیادہ سے زیادہ سوار کرنے کے لیے جگہ بنانے کی کوشش میں تھے اسی تگ و دَو میں یکے بعد دیگرے ہم کسی نہ کسی طرح سوار ہوگئے بچوں کو کسی نے نیچے سے اُچھالا اور اوپر کسی نے دبوچ لیا۔ بھائی جان عبدالباسط کو ڈرائیور کی سیٹ کے ساتھ پائدان پر کھڑے ہونے کی جگہ ملی۔ جگہ کی تنگی کا یہ عالم تھا کہ جو جہاں تھا وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک بہن تو سامان میں اس طرح دب گئی کہ صرف بال نظر آرہے تھے۔ ٹرک چلنا شروع ہوا تو اباجان ابراہیمی دعائیں پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ جان سے عزیز بیوی بچوں کو انتہائی مخدوش حالات میں رخصت کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک چارپائی اٹھائے ہوئے کچھ لوگ گزرے جس سے کسی زخمی یا شہید کا خون ٹپک رہا تھا۔ سب کی آنکھوں میں آنسو تھے ٹرک کی رفتار قدرے تیز ہوئی اباجان ان آنسوؤں کی دھند میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔

اباجان پہ کیا گزری

بعد میں پتا چلا کہ اسی دن قادیان پر حملہ ہوا تھا۔ اباجان اور بڑے بھائی گولیوں کی زد سے بال بال بچے تھے گھر کا سامان لُوٹ لیا گیا تھا۔ اباجان نے لکھا: ’’بیوی بچوں کو بھیج کرگھر واپس آئے تو عجیب وحشت پھیلی ہوئی تھی۔ میرا بڑا بیٹا عبدالمجید نیاز میرے ساتھ تھا۔ خالی گھر میں سامان بکھرا پڑا تھا۔ چاہت سے خریدا ہوا لکڑی کا فرنیچر جس میں اخروٹ کی لکڑی کی چیزیں بھی شامل تھیں توڑ توڑ کر پناہ گزینوں کو چولہا جلانے کے لئے دے رہے تھے۔ باہر کرفیو لگا ہوا تھا۔ دارالفتوح کے جس مکان میں ہم رہتے تھے۔ اُس کے نیچے کی دو دُکانیں باٹا شو اسٹور والوں نے کرایہ پرلے رکھی تھیں۔ شام کے وقت ملٹر ی کے سپاہی آئے گھر کے ارد گرد پہرہ لگا دیا۔ دو آدمی باٹا شوز اسٹور کھول کراندرآ گئے اور اندر سے کنڈی لگا کر اپنی پسند کے جوتے بوریوں میں بھرنے لگے۔ مجید کو میں نے اندر سے دروازہ بند کرنے کو کہا اور خود چھت کے اوپر ممٹی پر جا کر جائزہ لیا کہ کیا ہو سکتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک کیپٹن اور تھانیدار ہزارہ سنگھ قریباً چالیس ملٹری کے آدمیوں کے ساتھ کالج کی طرف جا رہے ہیں میں نے اُن کو آواز دی کہ یہ کیسی ہماری حفاظت ہے کہ باہر آپ نے کرفیو لگایا ہوا ہے اندر اپنے آدمی نقب زنی اور لوٹ مار پر لگا رکھے ہیں۔ کیپٹن انگریز تھا اُس نے پوچھا کہ یہ آدمی کیا کہتا ہے جب اُسے بتایا گیا تو اس نے مجھے نیچے بُلایا اور ساری بات پوچھی وہ ایمان دار تھا اُس نے زبردستی باٹا شوز اسٹور کا دروازہ کھلوایا۔ اپنے سارے آدمیوں کو قطار میں کھڑا کرکے پوچھا کہ ان میں سے پہچانیں آپ کی چوری کس نے کی تھی۔ دو آدمی پہنچانے گئے اُس نے تھانیدار کو کہا کہ ان سے رائفلیں لے لیں اور پیٹیاں اُتار لیں اور مجھے کہا کہ آپ کے کسی ذمہ دار آدمی کے سامنے ہم ان کو سزا سنا دیں گے۔ چنانچہ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر محترم مرزا عبدالحق صاحب کو بُلوا کر ان چوروں کے خلاف فرد جرم لگائی اور پندرہ پندرہ دن کی سزا سنائی۔ اس بات سے اُس علاقے کے ملٹری والے میرے خون کے پیاسے ہو گئے جو گزرتا چوبارے کی طرف ضرور فائر کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حفاظت سے مجھے ان کے حملوں سے محفوظ رکھا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ یہ واقعہ بہت مشہور ہوا بہت احباب میری خیریت پوچھتے اور دعا کرتے حتّٰی کے حضرت اماں جانؓ بھی میرے لئے دعا کرتیں۔ ‘‘

6؍ نومبر 1947ء کے مکتوب میں تحریر کیا: ’’محلہ وار قتل و غارت اور لُوٹ مار کے بعد بورڈنگ کو خالی کرالیا گیا۔ اور قریباً تین من گندم پر ناجائز قبضہ کرکے ہم درویشوں کو اس سے محروم کر دیا یہ تو خدا کا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبو ب کو ایک نان دکھا کر فرمایا کہ یہ تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے کہ اب تک خدا تعالیٰ اس دکھائے ہوئے نان سے وافر حصہ درویشوں کو عطا کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا اور اپنی رضا کی چادر میں چھپاتا رہے گا۔ ان شاء اللہ

دلخراش حالات ہیں۔ یہاں کے کتے بھی بھوکے روتے ہیں اور ان کو دے کر خود کھانے والوں کو یاد کرتے ہیں دل بھر آتا ہے جب خوب صورت بلیا ں میاؤں میاؤں کرتی روتی پھرتی ہیں وہ جو گوشت کھانے کی عادی تھیں اب درویشوں کی سوکھی روٹی پر گزارا کرتی ہوئی کمزور اور بیمار ہو گئی ہیں۔ ان کو کہاں سے دیں بہت ترس آتا ہے ہماری بلی کیٹی پتا نہیں کہاں ہوگی اس کی بھوک کا سوچتا ہوں آبدیدہ ہوجاتا ہوں ہمیں نہ پاکر پریشان ہوگی اس طرف جاسکتا تو اس کا حال پوچھتا۔ مگر یہ مشکل ہے کچھ خدام دار الانوار کی طرف گئے تھے ان کو پولیس نے بہت مارا پیٹا ایک کی حالت زیادہ خراب ہے۔

سارے مکان خالی کرالئے ہیں سامان توڑ پھوڑ دیا ہے برتن ٹوٹے ہوئے کتابیں بکھری ہوئی ہیں جہاں دفتر الفضل تھا وہاں ہم رہتے ہیں بہشتی مقبرہ جا سکتے ہیں۔ امیر صاحب نے قریباً سَو آدمیوں کا قادیان ٹھہرنا منظور کیا ہے جن میں میرا نام بھی ہے ایک تحریر پر دستخط لئے ہیں جس کی رُو سے اخیر دسمبر تک قادیان میں رہنا ہوگا وعدہ لیا ہے۔

’امن صلح اور افسروں کی اطاعت اور ساتھیوں کو آرام پہنچاؤں گا وغیرہ وغیرہ‘

کھانے کے لئے دونوں وقت پرچی کی تصدیق ہوکر پاس دکھا کر ایک قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں آدھا گھنٹہ کٹورا ہاتھ میں لئے آہستہ آہستہ قطار میں آگے بڑھ کر منزل پر پہنچتے ہیں دال کے ساتھ کبھی ایک کبھی ڈیڑھ اور کبھی دو روٹیاں مل جاتی ہیں جس میں پسائی کا درست انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مٹی ضرور ہوتی ہے۔ یہ محض خدا کا فضل ہے کہ صحت بحال ہے ورنہ ایسی روٹی کھا کر بیمار ہوجاتے۔ دال جب پیٹ میں کرتب دکھانے لگتی ہے تو فروٹ سالٹ پی کر اسے بہلاتا ہوں۔ گھر میں دال پکتی تو آپ میرے چہرے کی شکنیں گننے لگتیں اور میں بہانہ کردیتا کہ مجھے بھوک نہیں ہے اب چار ماہ سے دال ہی دال کھا رہا ہوں۔

سَو آدمیوں کے جن کا قادیان میں ٹھہرنا منظور ہوا ہے دس دس کے گروپ بنائے ہیں ان میں سے دو گروپ پندرہ بیس بوریاں سروں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں ہندو چوک میں آٹا پیسنے کی مشین ہے اس میں ڈال دیتے ہیں رات کو دوسرے دو گروپ اسی طرح سروں پر اٹھا کر آٹا لے آتے ہیں الحمدللہ بڑا سرور آتا ہے۔ اس بستی کی دیواروں کو مینار، مسجد مبارک، دارِ مسیح مقدس اور محبوب جگہوں کی اینٹوں کو آنسوؤں سے تر بوسہ دیتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں اس بستی میں رہنے نہیں دیتے اللہ تعالیٰ سے شکایت نہیں اپنے اعمال اس قابل نہ ہوں گے۔ الٰہی جماعتوں کے ایسے حالات کھاد کا کام کرتے ہیں یہی سنّت الٰہی ہے ان شاء اللہ آپ کی جلد واپسی ہوگی یہ آسمان پر مقدر ہے روح القدس کو مدد کے لئے مقرر کردیا گیا ہے۔ یہاں حالات بہت دردناک ہیں کہیں مری ہوئی ماں سے بچہ چمٹا ہوا ہے کہیں بد قماش لوگ باپ بھائی کے سامنے عورتوں کو بےعزت کررہے ہیں کہیں کسی کی بیوی بیٹی بہن کو اٹھا کر لے جاتے ہیں کچھ عورتیں بھاگ کر واپس بھی آرہی ہیں۔ میں ایک بوری کندھوں پر ڈال کر نکلتا ہوں اُجڑے گھروں سے قرآن پاک کے اوراق جمع کرتا ہوں لا کر ترتیب دے کر جلد کرتا ہوں۔ آپ بھی کچھ کام کرکے اپنے پاس اتنے پیسے جمع کرلو کہ حضور پر بوجھ نہ ہو۔ اپنا خرچ ان پر نہ ڈالو۔ جانے سے پہلے میں آپ کو سیرت ام المؤمنینؓ پڑھ کر سنا رہا تھا جو درمیان میں رہ گئی آپ خود پڑھ لیں …

آپ سب کے لئے دعا کرتا ہوں آپ کو یوسف کی طرح نکالا گیا اللہ ہی حافظ ہے۔ وہ ساری دنیا آپ کے قدموں میں ڈال دے گا۔ اگر کوئی مشکل یا مصیبت یا ابتلا آبھی جائے تو صبر کرنا اور اگر دل قابو سے باہر ہو اپنے امام کی طرف دیکھنا روحانی لحاظ سے خلیفہ اور بادشاہ ہے لیکن ملک بدر ہے اور صرف اپنا نہیں لاکھوں آدمیوں بلکہ ساری دنیا کا اس کو غم ہے۔ اس وقت کو غنیمت جانو شکر، صبرورضا اور نماز سے مدد طلب کرو دین کی محبت تو آپ کی فطرت میں شامل ہے۔ باوجود مہاجر ہونے کے انصار کا جذبہ اور ایثار دکھاؤ یہ خدا کے فضل کو جذب کرنے کے دن ہیں اور فضل کی فصل پک کر تیار ہے اب دن رات لگا کر اس کو کاٹ کر جمع کرلو بیماروں کی تیمارداری کرو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ محتاجوں کو بستر فراہم کرو اس سے دین اور دنیا سنور جائے گی۔ میں نے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا۔ ‘‘

1948ء ہی کی بات ہے ایک سکھ بھگت سنگھ اباجان کے پاس کچھ کتابیں فروخت کرنے کے لیے لایا۔ ان میں ایک حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ والا قرآن کریم تھا۔ اباجان لکھتے ہیں ’’جب میں نے ہاتھ میں لیا تو شدتِ جذبات سےمیرے اوپر لرزہ طاری ہو گیا۔ یہ قرآن میری پیاری بیوی آمنہ کا تھا۔ جس پر وہ ہر روز میرے سامنے بیٹھ کر تلاوت کیا کرتی تھی۔ میری حالت اُس سے چھپی نہ رہی وہ بڑا گھاک کاروباری آدمی تھا امرتسر میں کتابوں کی بڑی دکان تھی اس نے بہت زیادہ قیمت بتائی میں نے اس کی منہ مانگی رقم ادا کر کے قرآن پاک لے لیا اور پھر اُسے بذریعہ ڈاک ملے جلے جذبات کے ساتھ روانہ کر دیا۔ یہ سوچتا رہا کہ اپنا قرآنِ پاک اور میرے بھجوانے کے جذبہ سے متاثر ہو کر وہ نہ معلوم کتنی دفعہ سربسجود ہو کر مجھ گنہگار کے حق میں بخشش کی دعائیں کرے گی۔ ‘‘

امی جان پر کیا گزری

29؍ستمبر 1947ء کو قادیان اور اباجان کو پیچھے چھوڑکر ہجر نصیبوں کا یہ قافلہ سارا راستہ موت کے خطرے سے دوچار، سڑک کے دونوں طرف دردناک مناظردیکھتے ہوئے۔ دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے سارے دن کا بھوکا پیاسا شام کے وقت رتن باغ لاہور پہنچا۔ ٹرک رکا تو اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی ڈال کر خواتین کا استقبال کرنے والی مادر مہربان حضرت سیدہ چھوٹی آپا تھیں۔ آپ نے ایک بر آمدے میں ٹھہرانے کا انتظام فرمایا اور آپالطیف کو خواتین کے قیام و طعام کی منتظم مقرر کردیا۔ سب بالکل خالی ہاتھ آئے تھے یہ سلسلہ کی برکت اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا حسن تدبر تھا کہ تنظیم کے ساتھ سب کو سنبھال لیا۔ ایک ایک روٹی فی کس لنگر خانے سے دی جانے لگی امی بتاتی ہیں کہ شروع میں کسی کے پاس ایک سے دوسرا جوڑا نہیں تھا۔ بچوں کو نہلا کر اپنے برقع میں لپیٹ لیتیں اور کپڑے دھو کر ڈال دیتیں۔ بچیوں کی تعلیم بھی بغیر وقت ضائع کیے شروع ہوگئی۔ یکم دسمبر کو چھوٹا بھائی عبد السلام پیدا ہوا۔ جماعت کی طرف سے ہر زچہ کو ایک پاؤ گھی اور کچھ چینی ملتی تھی۔ آپا منتظم تھیں بتاتی ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے کمرے میں سامان تھا اس میں سے تول کر حصہ دیا کرتے تھے۔ بچے کے لیے حضرت صاحبزادی امۃ العزیز صاحبہ نے ازراہ شفقت کچھ کپڑے تحفہ دیے۔

ان کسمپرسی کے حالات میں بھی امی جان کا حوصلہ قائم تھا بلکہ اباجان کی ہمت بندھاتی تھیں۔ تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ21پر چند احمدی خواتین کے پُر از ایمان خطوط قادیان میں مقیم بہادر نوجوانوں کے نام، کے تحت آپ کا خط بھی شامل ہے۔ جو آپ نے اپنے محترم شوہر کو لکھا: ’’استقلال اور ہمت سے ڈٹے رہیں۔ اور (قادیان) کو فتح کرنا آپ کا فرض ہے بہر حال جب تک حضور کا حکم نہ ہو آپ قادیان چھوڑ کر یہاں بالکل نہ آئیں۔ ‘‘

بیوی بچوں کی جدائی پر صبر

اباجان کے خطوط میں سے کچھ اقتباس حاضر ہیں جن پرکچھ اضافہ کرنا آسان نہیں:

٭…11؍ پریل 1948ء

’’اب قادیان کی ویرانی اور سنسانی سوہان روح ہو کے رہ جاتی ہے۔ دور اوّل کے صحابہ کرامؓ کی قربانیاں یاد آتی ہیں۔ بدری صحابہؓ کا نمونہ سامنے رکھتے ہیں۔ خود کو کاموں میں مصروف رکھتا ہوں ہمارے نگران کہتے ہیں جس کام کے لئے اس کو بلاتے ہیں اس کے شایان شان نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ یہ ہر کام میں فٹ ہوجاتا ہے۔ خدمت کا آغاز کردیا ہے انجام خدا جانے۔ میرے لئے دعا کریں فکر نہ کریں مجھ میں اللہ کے فضل سے فکر، رنج، مصیبت، ابتلا کے برداشت کی صلاحیت ہے۔ ‘‘

٭…12؍نومبر1948ء

’’میری پاک دامن مقدس بیوی! میری عفیفہ رفیقۂ حیات۔

میں مانتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے اور میری تحریر اور خیر خیریت آپ کے لئے باعث صد مسرت ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر کسی وقت کسی مجبوری کی بناء پر میں آپ کو نہ لکھ سکوں تو میری معذوری خیال کر کے درگزر ہی بہتر ہے۔ ہو سکتا ہے کسی وقت جیب ہی خالی ہو۔ ڈاکخانہ جانا ہی محال ہو۔ طبیعت ہی گری ہو۔ آپ کا تصور ہی پریشان کر رہا ہو فرصت نہ ہو۔ یا کوئی دوسرا اہم کام آ پڑا ہو۔ دوسرے اب ہم کو آپ سے کیا نسبت؟ اگر مولا کو منظور ہوا تو ملاقات نصیب ہو جائے گی۔ جس کے بھروسے سے یہ قربانی کی ہے اُسی سے راہ ربط رکھیں گے۔ اُم سلام آپ پر سلام، ہزار سلام۔ آپ نے میری غمگساری کی۔ میری دینی و دنیاوی حالت کو چار چاند لگا دیئے۔ مجھےآپ سے ہمیشہ راحت و آرام ملا۔ آپ نے مجھے ہر لغزش کے وقت تھام لیا۔ تیمارداری کی تو جان پر کھیل گئیں میرے لواحقین اور دوستوں سے جو حسنِ سلوک کیا تا زیست نہ بھولے گا آپ کے لطف و کرم اور پاک دامنی کی چادر نے میری پردہ پوشی کی۔

کیا فائدہ اب ایسی باتوں سے کچھ آپ پریشان ہوں گی کچھ میں آنسوؤں سے لاچار ہوں گا۔ میرا قرض اُتر گیا ہے۔ ایک کھدر کی قمیض چھ آنے سلائی دے کر سلوائی ہے ایک ملیشیا سفید ٹاٹا کا جو مضبوط اور موٹا ہوتا ہے سلنے کو دے رکھا ہے۔ سردی لگتی تھی۔ کافی سردی ہے۔ آج صبح دُم دار ستارا نکلا تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی خدمت میں میرا سلام اور درخواستِ دعا پہنچا دیں۔ ‘‘

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button