برکات اسلام (مصنفہ حضرت سردار شیخ محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ) (قسط 12)
حضرت شیخ محمد یوسف صاحبؓ نے قادیان میں جماعت احمدیہ کے مرکزی جلسہ سالانہ کے موقع پر 26؍دسمبر 1926ء کو بعنوان’’ ہندو تمدن و تہذیب پر اسلام کا اثر‘‘ ایک تقریر کی تھی، جسے 1927ء میں دوستوں کے اصرار پر مناسب اصلاح اور اضافہ کے ساتھ کتابی شکل میں شیخ غلام یٰسین صاحب پرنٹر روز بازار، الیکٹرک پریس ہال بازار، امرتسر سے طبع کروایا تھا۔ تب اس کا نام ’’برکات اسلام‘‘ رکھا گیا۔
ٹائٹل اورچندصفحات کے اشتہارات کے علاوہ اس کتاب کامکمل متن کاتب کی لکھائی میں 64 صفحات پر محیط ہے۔ جس کی قیمت تب فی کاپی 6 آنے رکھی گئی تھی۔
تعارف مصنف
اس کتاب کے مولف و مرتب موصوف حضرت سردار شیخ محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ کی ولادت 1889ء کو ہوئی۔ آپ سکھوں سے احمدی ہوئے، 1905ء میں تحریری بیعت کی سعادت پائی اور پھر وسط 1906ء میں قادیان آکر حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔
آپ کا پیدائشی نام سورن سنگھ اور وطن امرتسر تھا۔ اور کوئٹہ، بلوچستان میں محکمہ بندو بست میں ملازم تھے۔ اور وہیں اسلام قبول کیا اور دین کے شوق میں کشاں کشاں قادیان پہنچے۔ قادیان آنے پر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے ان کوحضورؑ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضورؑ ان کے احمدی ہونے کے حالات سے بہت محظوظ ہوئے، اسی موقع پر شیخ صاحب نے گرنتھ وغیرہ سے اسلام کی تائید میں چند اقوال بھی پڑھ کر سنائےجن کو حضورؑ نے دلچسپی سے سنا اور فرمایا کہ ان کا لیکچر ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے 29؍جون 1906ء کو مسجد اقصیٰ میں لیکچر دیا۔
آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازم ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اپنی تصنیف ’’چشمۂ معرفت‘‘ میں سکھ مذہب کے لیے جو مواد مطلوب تھا وہ اکثر و بیشتر شیخ صاحبؓ ہی نے مہیا کیاجس پر حضورؑ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ حضورؑ نے اپنے ایک گرامی نامہ میں تحریر فرمایا کہ میں آپ کے کام پر بہت خوش ہوااور آپ کے لیے بہت دعائیں کیں۔
اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور مامور کی ان دعاؤں کا ہی اثر تھا کہ شیخ صاحبؓ کی پوری عمر سکھوں اور آریوں کو محبت و پیار سےتقریر و تحریر کے ذریعہ سے اسلام کی طرف بلاتے ہوئے گزری۔
آپؓ کی متفرق اور عظیم الشان اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ حضرت نظام حیدر آباد دکن، نواب صاحب بھوپال اور مہاراجہ صاحب پٹیالہ نے علمی منصوبوں میں امداد سے نوازا۔ مہاراجہ صاحب پٹیالہ جب قادیان آئے تو شیخ صاحب کے دفتر میں جا کر ان سے ملاقات کی۔
خلافت اولیٰ کے عہد میں آپ نے سکھوں میں دعوت الی اللہ اور سکھ مسلم اتحاد کی غرض سے ایک اخبار ’’نور‘‘ شروع کیا جو تقسیم ملک کے بعد کےابتدائی برسوں تک آپ کی ادارت میں باقاعدہ جاری رہا۔ قادیان سے آپ ہجرت کرکے گوجرانوالہ میں پناہ گزین ہوئے اور ابھی اخبار کے دوبارہ اجرا پر تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ 6؍مئی 1952ء کو بعمر 64سال آپ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے خصوصی ارشاد پر آپ بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص کے پہلو میں سپردخاک ہوئے۔
آپؓ نے ہندی اور گورمکھی دونوں زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم اور رسول مقبولﷺ کی سیرت مقدسہ ’’جیون پوتر‘‘ کے نام سے شائع کی جو بہت مقبول ہوئی۔
علاوہ ازیں دو درجن کے قریب کتب بھی لکھیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں: سوانح عمری باوا نانک رحمۃ اللہ علیہ۔ باوا نانک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب۔ گوروکی بانی۔ مسلمانوں کے احسان سکھوں پر۔ پروفیسر رام دیو کے 6سوالوں کا جواب۔ فتح مبین۔ قرآن مجید اور وید۔ رد تناسخ۔ سکھ مسلم اتحاد۔ ہندو دھرم و سوراج۔ سومنگلا ناول۔ آریہ دھرم کا پول، ست آپریشن۔ وید و قربانی۔ قدیم ہندوستان کی روحانی تعلیم۔ آریہ مذہب کی حقیقت۔ آریہ دھرم کا فوٹو۔ ہندو دھرم کی حقیقت۔ سکھ اور مسلمان۔ وغیرہ وغیرہ
ان قابل قدر تحقیقی تصنیفات پر معاصر ہندو و سکھ دوستوں نے اپنے خطوط میں حضرت شیخ صاحبؓ کو مبارک دی اور آپؓ کی تحریر سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا۔
آپؓ اسلام کے کامیاب مبلغ ومناظر بھی تھے۔ ہندوستان کی متعدد اسلامی انجمنوں نے آپ کو اپنے جلسوں میں تقریر کے لیے خاص طور پر مدعو کیا۔ شمالی ہند میں مسلمانوں کی قدیم انجمن’’ انجمن حمایت اسلام‘‘کے پلیٹ فارم پر آپ کی کئی تقریریں ہوئیں اور بہت پسند کی گئیں۔ ملک میں آپ کے کئی زبانی اور تحریری مناظرے ہندوؤں اور سکھوں سے ہوئے۔ آپ اپنی شیریں بیانی سے مخالفین اسلام تک کے دلوں کو موہ لیتے تھے۔
باوجودیکہ آپ سکھوں سے مسلمان ہوئے اور تمام عمر سکھوں کو اسلام کی طرف بلاتے رہے۔ سکھ حلقوں میں بھی آپ کو خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور سکھ ودانوں نے آپ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا۔ چنانچہ اخبار ’’آشا‘‘ جلندھر نے 10؍مئی 1952ء کی اشاعت میں لکھا: ’’آپ نے قرآن شریف کا پنجابی میں ترجمہ کیا اور متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ اس سے بڑھ کر قابل تعریف کام انہوں نے سکھ مسلم اتحاد کے لئے کیا۔ ‘‘
سردار جنگ بہادر صاحب ایڈیٹر اخبار ’’شیر پنجاب‘‘ دہلی۔ مورخہ 22؍جون 1952ء نے لکھا کہ’’ وہ اپنے اخبار نور کے ہر پرچہ میں سکھوں سے انس اور محبت کرتے رہے اور انہیں سکھ حلقوں میں محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ احمدیت کے وہ ایک عظیم الشان مبلغ اور پیروکار تھے… آپ نے قرآن کا پنجابی اور ہندی میں ترجمہ کیا اور بہت قابل اور دوست نواز انسان تھے۔ ان کا انتقال جماعت احمدیہ اور ان کے دوستوں کے لئے ایک افسوسناک سانحہ ہے۔ ‘‘
سردار رویل سنگھ صاحب گیانی ہیڈ ماسٹر پرائمری سکول موضع رتن گڑھ ضلع انبالہ نے سکھ لٹریچر کے ممتاز سکالر گیانی عباداللہ صاحب کو اپنی چٹھی مورخہ 14؍مئی 1952ء میں تحریر کیا: ’’سردار صاحب موصوف بہت بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ میں ان کا دیدار نہ کرسکا لیکن ان کے مضامین سے ان کی کی روح کا بخوبی پتہ چل جاتا تھا۔ سکھ مسلم ایکتا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ نہ صرف اخبار نویس وفات پاگیاہے بلکہ سکھ مسلم ایکتا کا بڑا حامی اس دنیا سے کوچ کرگیا ہے اور اس سے صحافت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے…۔
…سردار صاحب موصوف اخبار نور کے متعدد پرچے ہندوستانی سکھوں میں مفت تقسیم کرتے تھے، ان کا مقصد سکھ مسلم اتحاد تھا۔ انہوں نے اسلام کی خوبیاں شائع کرکے غیر مسلموں، خاص کر سکھوں میں اسلام کی بہت عزت بڑھائی ہے اس طرح انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور جہاں وہ اسلام کے بڑے خدمتگار تھے وہاں سکھ مسلم اتحاد کے بھی بڑے حامی تھے۔ قرآن شریف کا پنجابی ترجمہ کرکے انہوں نے قوم کی بڑی خدمت کی ہے۔ ‘‘
مضامین کا خلاصہ
عنوان میں مذکور اس زیر نظر کتاب کےآغاز میں ’’اسلام کا نورانی چہرہ‘‘ کے عنوان سے مصنف نے لکھا کہ
’’آج وطنی دوستوں کی طرف سے اسلام پر جو گھناؤنے اور دلخراش الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اسے پڑھ اور سن کر ہر ایک بہی خواہ اسلام کا جگر پاش پاش ہوجاتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہماری اسلام کے ساتھ کوئی اندھی محبت ہے بلکہ اس لئے کہ درحقیقت اسلام ہر دو جہان کے لئے چشمہ رحمت و برکت ہے۔ کیونکہ اسلام نے دنیا کی کایا پلٹ دی۔ اور لوگوں کو حیوان سے انسان اور انسان سے باخدا انسان بنا دیا۔
لہٰذا آپ اس مختصر رسالہ میں ملاحظہ فرمائیں گے کہ اور تو اور مخالفوں کے دلوں میں بھی اسلام کی خوبیاں گھر کرگئیں۔ اگر زبان سے نہیں مگر عمل سے انہوں نے بھی اسلام کے سامنے اپنے سر جھکادیئے۔ ایسے رسالوں کی جس قدر بھی اشاعت ہو اتنا ہی زیادہ اسلام کا بول بالا ہوگا۔ اس موقع پر ان دوستوں کا شکریہ ادانہ کرنا ایک صریح ناسپاسی ہوگی۔ جن احباب نے پیشگی درخواستیں بھیج کر اس مفید رسالہ کے چھپوانے کے لئے میری عملی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ایسے سب دوستوں کو دین ودنیا کے حسنات سے مالامال فرمادے۔ آمین ثم آمین۔ خاکسارمحمد یوسف ایڈیٹر اخبار نورقادیان ضلع گورداسپور‘‘
کتاب کے ابتدائی صفحات میں ہندوؤں کے قدیمی اور معاصر فرقوں اور گروہوں کا فردا ًفرداًجائزہ لےکر توحیدباری تعالیٰ اور شادی بیاہ کے حوالے سے اسلامی تعلیم کی برتری اور ان مذاہب پر اسلامی تعلیم کے اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اور اپنے نکتہ نظر کےبیان اور تائید میں ان دیگر مذاہب کے اصل تاریخی اور مذہبی ماخذوں کو بنیاد بنایاگیا ہے۔
اس کتاب میں مزید آگے بڑھتےہوئے صفحہ 21 پر ذات پات کے اساسی عقیدےکی قلعی کھولی گئی ہے۔ آرین کتب میں شدھی کا دروازہ بند ہونے اور اچھوت ہندوؤں کی کانفرنس فروری 1927ء منعقدہ الٰہ آباد کا احوال درج کرکے اپنے نکتہ نظر کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ اچھوتوں پر نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کے مظالم کا احوال لکھ کر کتاب میں صفحہ 36 پر ’’عورتیں اور ویدک دھرم‘‘ کا عنوان شروع کیا گیا ہے۔ دختر کشی اوراس صنف نازک اور تصویر کائنات کے خوش رنگ وجود پر دیگر انسانیت سوز مظالم کا اصل تعلیمات سے ریکارڈ پیش کرکے صفحہ 42 پر اسلام اور عورت کا عنوان باندھا گیا ہے۔ جس میں آیات قرآنی درج کرکے قوانین شادی اور اسلامی تہذیب کا تذکرہ مستند حوالہ جات سے کیا گیا ہے۔ ملک کی نصف آبادی کے لیے اسلام کی پیش کردہ تعلیمات اور عطا کردہ آزادیاں اور حقوق کا تذکرہ کرکے کتاب میں صفحہ 45 پرایک اور گہرے معاشرتی اور معاشی سقم یعنی جوئے کی لت کا بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ قبیح رواج زمانہ قدیم سے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر رہا تھا۔
کتاب میں آگے چل کر فن تعمیر اور کپڑا بننے اور سینے میں ہندورہن سہن پر اسلامی اثرات کا بتایا گیا ہے۔
پروفیسر بابو ایشوری پرشاد صاحب کی کتاب ’’تاریخ ہند اور قرون وسطیٰ‘‘ کے حوالے سے لکھا کہ’’ مسلمانوں نے شاندار اور خوبصورت عمارات تعمیر کرکے ہندوستان کے فن تعمیرات میں ایک انقلاب پیدا کردیا ہے۔ ‘‘
نیز دیگر مستند مصنفین کی کتب سے حوالہ جات نقل کرکے آخر پر لکھا کہ ’’ آج کل ہندوستان میں اعلیٰ طبقہ کے لوگ جو پوشاک پہنتے ہیں۔ وہ بیرون ہندکی ہے۔ یہ یونانی، فارسی مسلمانوں اور انگریز لوگوں سے لی گئی ہے۔ خاص کر مسلمانوں کی نقل ہے۔ ‘‘
کتا ب کے صفحہ 50 پر ثابت کیا گیا ہے کہ اہل ہند کو جوتے پہننے میں بھی مسلمانوں کا مرہون منت ہونا پڑا۔ الغرض اسلام جہاں اور بہت سی عمدہ عمدہ خوبیاں اپنے ساتھ لایا، جس نے ہند کی مذہبی، مجلسی اور تمدنی حالت کی کایا پلٹ دی، وہاں وہ بقائے انسانی کی اس ضروری صنعت کو بھی ساتھ لایا جس سے سب اہل ہند یکساں مستفید ہورہے ہیں۔ اور ملک میں عام بردہ گری اور بردہ فروشی کی برائیوں کا احوال لکھا گیا ہے۔ عام روزمرہ زبان و بیان اور عمومی رواداری کا احسان بھی اسلام اور اہل اسلام کی طرف ملک کی مقامی آبادی کے لیے قیمتی اور ضروری تحفہ تھا۔
مختلف ضروری بحثوں سے فراغت پاکر مصنف نے صفحہ 58 پر اسلام کی صداقت اور غیر مسلم محققین کی شہادت کا عنوان باندھا ہے۔ یہاں بعض مفید مطلب باحوالہ آراء درج کرکے آخری صفحہ پر لکھا کہ’’اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتاہوں کہ جہاں ہمارے ہندو بھائیوں نے اسلامی وحدانیت، تہذیب اور تمدن سے مستفیض ہونےکی کوشش کی ہے، خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو بھی اسلام کے لئے فراخ کردے۔ تاکہ یہ تمام سدود کو عبور کرکے حقیقی معنوں میں اسلام کے نور سے منور ہوکر دین و دنیا کی حسنات کے وارث بن سکیں۔ آمین یا رب العالمین‘‘
٭…٭…٭