چودھری مظفر احمد صاحب
میرے دادا جی چودھری مظفر احمدصاحب پیدائشی احمدی تھے۔ احمدیت کا پودا ان کے خاندان میں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ وا لسلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر بیعت کرکے لگا۔
پاکستان بننے کے بعد1947ء میں ہی میرے دادا کا خاندان انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچا۔ راستے میں انہوں نے جو تکا لیف اور صعو بتیں برداشت کیں وہ ایک علیحدہ طویل اور صبر آزما کہانی ہے۔چنانچہ سب چک جھمرہ ضلع فیصل آباد میں آکر آباد ہوئےاور سب احمدیوں نے مل کر ایک چھوٹی سی جماعت بنائی۔میرے نانا کا خاندان، دادا جی کے بھائی کا خاندان، دادا کا اپنا خاندان اور چند اَور لوگ اس جماعت میں شامل تھے۔ اس جماعت کے صدر میرے دادا چودھری مظفر صاحب منتخب ہوئے۔ اس طرح اللہ کے فضل و کرم سے احمدیت کا یہ قافلہ آگے بڑھنے لگا۔
آپ ایک زیرک انسان تھے۔ خوش اخلاقی اور عاجزی و انکسار کا نمونہ تھے۔ اسی لیے آپ کے اردگرد لوگوں کا مجمع لگا رہتا۔ پورا شہر آپ کی شخصیت کا گرویدہ تھا۔
آپ 1950ءمیں جھمرہ شہر کےمیو نسپل کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے کچھ مخالفین آپ سے خار کھاتے تھے لیکن دادا جی نے اس کی کبھی پرواہ نہ کی بلکہ تبلیغی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ یہ وہ وقت تھا جب احمدیت کی مخالفت اپنے زوروں پر تھی۔
1974ء میں جھمرہ شہر میں بھی احمدیت کے خلاف انتشار پھیل رہا تھا۔ مخالفین احمدیت کو ختم کرنے کے در پےتھی لیکن خدا کی مدد ہمیشہ سے اپنے نیک بندوں اور اپنی جماعت کے ساتھ تھی اور ہے۔ایک دن صبح سویرے ہی داداجی کے گھر کے نیچے مخالفین جمع ہو گئے اور لاؤڈ سپیکر پر دھمکیاں دینے لگے کہ باہر آکر احمدیت سے انکار کر دو یا پھر مرنے کےلیے تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ مخالفین نے گھر میں آکر ساراسازوسامان باہر پھینکنا شروع کردیا اور آگ لگادی۔ یہ دنیاوی سامان احمدیت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس وقت گھر میں چھوٹے بچے اور خواتین بھی تھیں لیکن دادا جی کو اپنی جان کی پرواہ نہیں تھی۔
آپ چونکہ بہت نڈر اور بہادر انسان تھے اس لیے ہمت نہ ہاری۔ میرے دادا اور پھوپھیوں نے بندوق اٹھائی اور چھت پر چڑھ کر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی لیکن نیچے تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ نعرہ بازی کررہے تھے اور آگ بھڑک رہی تھی۔ اس وقت جوش کی بجائے سمجھ بوجھ سے کام لینے کی ضرورت تھی۔ میرے دادا جان ہمت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا ئیں کرتے رہے اور سب گھر والوں کو بھی صبر کی تلقین کرتے اور کہتے خدا کی مدد ہمارے ساتھ ہے۔ مخا لفین احمدیت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میرے والد صاحب فوج میں بھرتی تھے اس لیے وہ ان دنوں گھر پرنہ تھے۔
نیچے گلی میں آگ اور ہنگامے بڑھتے جا رہے تھے آخر کار دادا جان کے مشورے کے مطابق سب گھر والوں نےچھت سے کود کر ہمسایوں کے گھر پناہ لی۔ وہاں سے دادا جی نے پولیس آفیسر کو فون کیا اور ان کی راہ نمائی میں ہم لوگ دادا جان کے گاؤں چک 185/RDپہنچے۔ اس چک میں بھی مو لویوں نے بہت تنگ کرنے کی کو شش کی گھر کا محاصرہ بھی کیالیکن دادا جی نے ان سب حا لات کا بہت خندہ پیشا نی سے مقابلہ کیا اور کہتے کہ ہم کسی بھی قیمت پر احمدیت سے تعلق نہیں توڑ سکتے۔ خدا تعالیٰ غیب سے کوئی بہتر سا مان کر دے گا۔
ایسے کٹھن وقت میں رات کے اندھیرے میں ننگے پاؤں، چھوٹے بچوں کے ساتھ میرے دادا کی فیملی نے ربوہ ہجرت کی۔ کوئی سازوسامان یا رہنے کی جگہ نہ تھی۔ ایسی صورت حال میں خلیفہ وقت اور نظام جماعت کی طرف سے رہائش، کھانے کا سامان، رضا ئیاں بستر وغیرہ کا بندو بست کیا گیا۔ غرض ہر طرح سے ہم امن و سکون میں آگئے۔
میری دادی جان ایک غیر احمدی گھرانے سے بیاہ کر آئی تھیں۔ اپنے پورے خاندان سے اکیلی احمدی ہوئیں۔ دادا جی کی صحبت کا اثر قبول کیا۔ آپ نماز کی پابندی کرنے لگیں، باقاعدگی سےقرآن کریم کی تلاوت کرتیں، غریب عورتوں کی مدد کرتیں، محلے کی چند غریب عورتیں تو مدد لینے کی غرض سے بلا ناغہ آتیں۔ ان کی ایسے ضرورت پوری کی جاتی کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔
یہ سب کچھ میرے دادا کی تربیت اور خلافت سے محبت تھی۔ آپ خلیفہ وقت کو باقاعدگی سے خط تحریر کرواتے۔
خاکسار نے ان کی زندگی کا مشا ہدہ کیا ہے۔ آخری کچھ سالوں سے داداجی کی نظر کافی کمزور ہوگئی تھی اس لیے اکثر مدد کی ضرورت ہوتی۔ بچپن میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔نظر کی کمزوری کے باوجود جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ربوہ میں آباد ہونے کے بعد ہم لوگ محلہ دارالعلوم شرقی میں رہائش پذیر ہوئے۔ اس وقت محلہ میں نماز ادا کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ مسجد نہ تھی۔
داداجی نے محلے کے کچھ اَور لوگوں کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی بنائی اور مسجد کی تعمیر مکمل کروائی۔ اس کا نام مسجد نورتجویز ہوا۔ آپ نے تبلیغ کا کام ربوہ کے گردو نواح میں شروع کیا۔ انصار اللہ میں خدمت کا موقع ملا۔
داداجی صبح سویرے اٹھتے وضو کرتے لاٹھی ٹیکتے ہوئے فجر کی نماز پر پہنچتے۔ راستے میں درود شریف اور دعاؤں کا ورد کرتے جا تے۔ سب سے پہلے پہنچ کر اذان دیتے۔ ہر جمعہ باقاعدگی سے مسجد اقصیٰ جا کر ادا کرتے۔ ہر سال مجلس شوریٰ میں شریک ہوتے۔
جلسہ سالانہ ہوتا تو ایک روحانی ماحول کا سماں بندھ جاتا۔ داداجی کو مہمان نوازی کا بےحد شوق تھا۔ گھر میں احمدی عزیز واقارب تو آتے ہی تھے لیکن غیر از جماعت مہمانوں سے بھی گھر بھر جاتا۔ ان کے آرام کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا۔ اگر کوئی حقہ پینے والا ہوتا یا پرہیز ی کھانے والاہوتا تو اس کا خیال رکھتے۔ غرض ہر لحاظ سےدادا جی کوشش کرتے کہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔
داداجی کو سیاست سے کافی دلچسپی تھی۔ ہر موضوع پر کھل کر بحث کرتے۔ آپ کے دوست اکثر کہا کرتے تھے کہ سو وکیل ایک طرف اور مظفر دوسری طرف ہو تو برابر۔ یعنی آپ وکالت بہت اچھی کرتے تھے۔
آپ کے ارد گرد ضرورت مندروں کا تانتا بندھا رہتا، گندم، آٹا، پیسے ہر طرح سے ان کی مدد کرتے۔ صدقہ خیرات کرنا آپ کا روز کا معمول تھا۔ فارغ اوقات اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ گزارتے۔ علمی ماحول ہوتا۔ بچوں کے ساتھ معلوماتی بحث و مباحثہ کرتے۔ جنرل نالج اور حساب پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ بیماری کے آخری دنوں میں اکثر یہ شعر دہراتے رہتے جو کہ بعد میں ان کی قبر پر لکھوایا گیا
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
میں تو نا لائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار
دادا جان کی اولاد میں ایک بیٹا(چودھری ناصر احمد ندیم) حال جرمنی۔ بیٹی (امۃ الشافی صاحبہ) حال کینیڈا۔ پوتے، پوتیاں اور نواسے نواسیاں مختلف ممالک میں جماعت کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
اللہ تعا لیٰ ہمیں اپنے دادا جی کی قربانیوں کو یاد رکھنے، خلافت کی محبت اور دین کی خدمت کا حق صحیح رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭