شادی۔ آپس کا حسن سلوک۔ جدائی۔ صبر (قسط سوم)
٭…1948ء
’’میری ہاجرہ ! میرا پنسل سے پُرزوں پر لکھا ہوا خط ایک درویش کی طرف سے ہے۔ میں آپ کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں آقا کی خدمت میں سلام کہنا اور حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کرکے سلام اور دعا کی درخواست کرنا۔
مومنانہ شان سے بہادری اور جرأت سے دن گزاریں۔ آپ کا بچوں کی تربیت کرنا ان کا خیال رکھنا بھی جہاد ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ خوابوں میں ملاقات ہو جاتی ہے۔ ‘‘
’’میری رفیقۂ حیات آپ پر ہزاروں ہزار بلکہ لاکھوں لاکھ رحمتیں ہوں آمین۔ ہر کام میں حضرت اقدس سے مشورہ کریں یہ امتحان کا وقت ہے بھوک پیاس بھی امتحان ہے حضرت ایوبؑ کی کہانی پڑھنا اور بچوں کو سنانا اور پیش نظر رکھنا اور حتی الامکان مشکلات اور مصائب تحریر نہ کرنا بلکہ خندہ پیشانی سے برداشت کرکے دعا کیا کرنا خدا تعالیٰ فضل کرتا ہے تنگی تُرشی گرمی سردی عُسر یُسر سب اس کی نعمتیں ہیں اس کی رضا پر راضی رہنا مناسب ہے گھبراہٹ سے سر پھوڑ کر کیا ہوگا۔ میرے یہاں رہنے، بچے قربان کرنے، بھوک پیاس برداشت کرنے سے کمزور اور تعلیم سے محروم رہ جائیں میں اور آپ اسی طرح دور رہتے ہوئے ختم ہوجائیں مگر اسلام احمدیت کا غلبہ ہوجائے تو عین مراد ہے اللہ تعالیٰ ہماری خطائیں معاف فرمائے اور فضل فرماتا رہے آمین ‘‘
’’برائے خدا میرے سب جگر گوشوں کو الگ الگ کھڑا کرکے فوٹو کھنچوا کے ارسال کریں۔ ملتمس ہوں کہ جلدی اس کارِ خیر کو سر انجام دیں۔ اب تو خدا شاہد ہے تصورات بھی ان کو سامنے لاکر مشاہدہ کی صورت پیدا نہیں کرتے نہ حمیدہ کی صورت جما سکتا ہوں نہ رشیدہ کو آنکھیں بند کر کے دیکھ سکتا ہوں باری کی بھولی تصویر بھی بڑی دیر بعد اور پوری توجہ سے دھندلی سی کھنچتی ہے شکور کی تصویر بھی صاف سامنے لانے سے قاصر ہوں۔ دیکھے بغیر راحت اور ٹھنڈ کیسے حاصل ہو۔ دکان میں تو چند گھنٹے گزرتے تھے باقی وقت تو اپنے گلشن کی سیر کرتا تھا اب تو اس گلشن میں ایک پھول سے بیٹے کا اضافہ بھی ہو گیا ہے ‘‘
٭…14؍جنوری 1949ء
’’میری خوش اسلوب پاک دامن رفیقہ!
……آپ نے وعدہ کیا تھا کہ عُسر یُسر میں میرا ساتھ دیں گی۔ اب نبھانے کا وقت آ گیا ہے۔ میں اپنے بعض فرائض دوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتا وہ بھی آپ ہی کو کرنے ہیں۔ میرا قطعاً انتظار نہ کریں۔ آپ اہلِ بصیرت ہیں قوتِ فیصلہ بھی ہے۔ ہر کام میں حضور اور حضرت میاں صاحب سے مشورہ لیں۔ اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمائے۔
آپ کے اُداس ہونے کی کیا وجہ ہے اگر میری جدائی حیران کرتی ہے تو حضرت خنساء کی مثال سامنے رکھیں اگر عورتیں لڑتی جھگڑتی ہیں تو ان سے کنارہ کش رہا کریں۔ اگر کوئی وجہ تسکین نہ ملے تو میری مثال اپنے وجود پر اثر انداز کریں۔ کہ میں نے آپ کا کبھی ایک رات بھی کسی جگہ ٹھہرنا پسند نہیں کیا تھا۔ مگر اب خدا کی خاطر، اپنی بھلائی کی خاطر خیال بھی نہیں آنے دیتا۔ بچوں کو اور اُن کے والدین کو جب پیار کرتے دیکھتا ہوں تو اگر فضل خدا نہ ہو تو صبر کیسے آئے ایک دن ایک ماں اپنی بچی کو پوچھ رہی تھی کس کی بیٹی ہو۔ ماں کی یا نانی کی… مجھے معاً شکور یاد آ گئی آبدیدہ، سینہ پر ہاتھ رکھ کر گھر آ گیا۔
آج جمعہ ہے صبح بیت الدعا میں آپ سب کے لئے نام بنام دعائیں کیں۔ صبح اجتماعی دعا کے بعد واپس آیا ہوں۔ اعلان دعا کا بورڈ پر لکھا فرداً فرداً بھی بہت عاجزی سے دعا کے لئے کہا۔ چائے تو نماز سے قبل ہی بنا لی تھی وقار عمل سے پہلے پی لیتا ہوں ایک روٹی چھ بجے ناشتہ کے لئے ملتی ہے۔ چائے کے گھونٹ سے کاٹ کاٹ کر کھا لیتا ہوں۔
میری رفیقہ! میں آپ سے خوش ہوں۔ آپ نے خوب تعاون کیا آپ سے یہی امید تھی۔ یہ تو ایک عظیم الشان کامیابی کے لئے پرچہ ملا ہے دعا کے ساتھ
لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا
کے ساتھ اسی کی توفیق سے حل کرتی جائیں ‘‘
٭…27؍ جون 1949ء
’’عزیزہ لطیف!
آپ کی والدہ نے خربوزہ میٹھا نکلنے پر مجھے یاد کیا میں نے یہاں خربوزے لے کر کھا لئے…میں خدا کے احسان سے بخیریت تمام ہوں اور کوئی گھبراہٹ نہیں ہے۔ میں گوتم بدھ کو بھی خدا کا مامور مانتا ہوں۔ اُس نے راج پاٹ اولاد بیوی سب چھوڑ چھاڑ کر محض عبادت ہی عین مقصود بالذّات کر لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور اس عرصہ امتحان کو کم سے کم کر دے مگر میرے لعل !اگر یہ عرصہ اُس کی منشاء سے لمبے سے لمبا بھی ہو جائے تو آپ کے ابا کے پاؤں انشاء اللہ لغزش نہ کھائیں گے۔ اب وہ آپ سے ملا دے اور حضور کا دیدار کرا دے اُس کی مہربانی ہے۔ ورنہ حالات تو بد سے بدتر ہی خیال کئے جا سکتے ہیں۔ دکان کے اندر اصحابِ کہف کی طرح رہتا ہوں اندھیرا بہت ہے بارشوں میں پانی اندر آکر سیلن ہوجاتی ہے۔ خدائی نان جن کو مسیحا کے لنگر کی چنے کی دال لذیذ بنا دیتی ہے کھا کر مہمان خانے کے چشمے سے پانی پی لیتا ہوں سبحان اللہ کیسی خوشگوار زندگی ہے موت ہتھیلی پر ہے مالک حقیقی کے سوا کوئی ڈر نہیں وہ مجھے سب بتا دیتا ہے۔ یہیں پر سب دکھا دیتا ہے آپ کیسے رہتے ہیں کیا کھاتے ہیں کیا باتیں کرتے ہیں سب بتا دیتا ہے رات کا انتظار کرتا ہوں آنکھیں بند کرتا ہوں وہ میرے قریب آجاتا ہے رازو نیاز کرنے لگتا ہے دلاسا دیتا ہے۔ بہت قریب آجاتا ہے۔ …
آپ کی امی ہی کی ہمت تھی اپنے کام بھی کرتی اور مجھے بھی چوکس بیدار رکھتی۔ میں تو اُن کے بغیر مٹی کا ایک ڈھیلا بھی نہیں اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل و کرم سے اپنی ستّاری سے عمل کی ہمت دے۔ یاد آتی ہیں۔ دعا کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں دعا کرتا ہوں۔
رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ۔ (ابراھیم: 38)
٭…25؍مارچ 1949ء
’’رات حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا خط بنام میاں وسیم احمد صاحب مسجد میں پڑھ کر سنایا گیا۔ عجیب الفاظ میں تحریر تھا۔ میں اس وقت سجدہ میں تھا ضبط کا دامن چھوٹ گیا ہچکی بندھ گئی خوب دعا کا موقع ملا۔ آپ قادیان کی جدائی میں بے قرار ہیں مگر آپ کی آنکھیں یہاں کے اجڑے بازاروں اور گرے ہوئے مکانوں کو نہیں دیکھتیں اور کان ان کی نوحہ خوانی نہیں سنتے ہمیں تو پرانی گہما گہمی اور پُرکیف نظارے نظر آتے ہیں جو رُلا دیتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ مسجد مبارک سونی سونی ہیں مجلس عرفان کی یاد تڑپادیتی ہے الدار میں عام لوگ آ جا رہے ہوتے ہیں۔ بہشتی مقبرہ جاتا ہوں تو راستے میں مکان پکڑ پکڑ کر کہتے ہیں ہم اُجڑ گئے ہمارے ساتھ شریک ماتم ہو۔ اللہ کرے سب دعائیں سنی جائیں بہت جلد مرکز کی رونقیں بحال ہوجائیں۔ آمین اللھم آمین‘‘
دارالخواتین ربوہ میں قیام
اکتوبر 1947ء سے اپریل 1949ء تک رتن باغ میں قیام ر ہا۔ پھر حضرت فضلِ عمرؓ نے تازہ بستی ربوہ آباد کی۔ ہجرت کے بعد جب لاہور سے دارالہجرت ربوہ منتقل ہوئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے درویشان کے خاندانوں کو اپنی نگرانی میں دارالخواتین میں ٹھہرایا۔ یہ24کمروں اور وسیع صحن پر مشتمل تھا اس کا انتظام آپا امۃ اللطیف صاحبہ کے سپرد تھا جس میں امی جان کا تعاون حاصل تھا ایک موقع پر خود حضرت صاحبؓ نے آپ کو دارالخواتین کا نگران مقرر فرمایا۔
’’آپ خواتین اور بچیوں کی تعلیم قرآن، تربیت اور پابندی نماز کے لئے خاص طور پر سرگرم رہتیں۔ حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ نے کئی دفعہ اس امر کا اظہار فرمایا کہ لطیف کو کام کا موقع ملنے میں اس کی امی کا تعاون شامل ہے۔ ‘‘(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد2صفحہ1)
بچوں کی یاد اور بارڈر پر ملاقات کی صورت
بچوں سے جدائی میں باپ کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے الفاظ ’’کیا بتاؤں میں نے اپنی بچیوں کو کس قدر عزیز رکھا جس کا خمیازہ بھگت رہا ہوں۔ دل چاہتا ہے بچوں کو وصیت کروں کہ اولاد سے اس قدر محبت نہ کرنا کہ آنکھوں پر ہی بٹھا لو۔ مگر دوسری جانب اخلاق، رحم، شفقت، متقاضی ہے کہ خوب پیار کیا جائے۔
باری تو میرے ساتھ ہی رات بھر سو کے صبح کرتی ہے۔ اس جگر پارے کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر دو ایک دفعہ جُھلا کر پھر اوپر اٹھا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنا کہ ابا کے پاس جانا ہے اگر یہ اقرار کرے تو وہاں سے چھوڑ دینا کہ اُڑتی اڑاتی میرے پاس پہنچ جائے پھر میں اس کو لفافے میں بند کرکے بھیج دوں گا اگر اس نے واپس جانا چاہا۔ میرا یہ خط سن کر خوش ہو تو کہنا ابا کے لئے دعا کرو۔ ‘‘
’’میری نورنظر میری لخت جگر ! آپ کو الگ اس لئے خط نہیں لکھتا کہ میری رقیق القلب بیٹی اس کو پڑھ بھی سکے گی آپ مجھے یقین دلا دیں کہ آپ خط کو پڑھتے وقت ضبط اور کنٹرول رکھ لیں گی تو انشاء اللہ لکھا کروں گا آپ کو سوار کیا تھا اب تک آپ کے ابا اس دوری کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں آپ کی آنکھیں بھی آنسو سنبھال نہیں پا رہی تھیں دعا کرتا رہا مولا جلدی ملا دینا جلدی واپس لانا۔ ‘‘
باجی امۃ الرشیدبتاتی ہیں کہ ابا جان کو قرآن کریم حفظ کروانے کا بے حد و حساب شوق تھا ہم بچوں کو کوئی سورت یاد کرنے کو کہتے اور شام کو کام سے آ کر سُنتے۔ صحیح حفظ پر آپ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا۔ تلفظ، ادائیگی، حفظ ہر پہلو پر توجہ دیتے اور خوش ہوتے۔ انعام بھی دیتے۔ ایک دفعہ مجھے آخری پارہ حفظ کرنے کا ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا اور وہ انعام تھا مخمل کا جوڑا۔ مخمل کے جوڑے کا تصور جنت کے حصول سے کم خوشگوار نہیں تھا۔ سورتیں یاد کرتی رہی اور اباجان کو سناتی رہی پھر جدائی کا زمانہ شروع ہو گیا حالات ایک دم پلٹ گئے۔ فقرو فاقہ و درویشی میں مخمل کے جوڑے کا وعدہ تو یاد رہا استطاعت نہ رہی۔ کبھی اتنی رقم نہ ہوئی کہ وعدہ پورا کر سکتے ہر محنت کے کام کے ساتھ یہ تصور اُبھرتا اور ڈوبتا رہا۔ پھر ایک کھدر کی قمیض بھیجی ساتھ خط لکھا کہ غریب کے لعل فی الحال اسی کو مخمل سمجھ لو اور ساتھ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی دعائیں تھیں۔ جو ساری عمر ساتھ رہیں۔ ابا جان کا توکّل، قناعت، سادگی ایسا درس تھا جس نے اسی دنیا کو جنت بنا دیا جو ہزار مخمل کے جوڑوں سے زیادہ قیمتی ہے اللہ تعالیٰ میرے ابا جان کو غریقِ رحمت فرمائے آمین۔
معجزانہ ملاقات کی صورت
٭…4؍ اپریل 1950ء
اللہ پاک نے اباجان سے ایک معجزانہ ملاقات کی صورت پیدا کی۔ ہوا یوں کہ بعض درویشوں کے اہل و عیال قادیان واپس جا رہے تھے۔ آپا جان انتظامی امور کے سلسلے میں ان کے ہمراہ لاہور گئیں ان کے ساتھ بھائی جان عبدالباسط بھی تھے انہوں نے کوشش کی کہ ابا جان کو پتہ چل جائے کہ ہم بارڈر تک جا رہے ہیں کسی طرح اباجان بھی آجائیں تو ملاقات ہوجائے بارڈر پر پہنچ کر قادیان سے آنے والے درویشوں کو پوچھا کہ ابا جان کو ہمارے یہاں آنے کی اطلاع ہے یا نہیں۔ کوئی درویش اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ فضل الٰہی خان صاحب نے کہا کہ جب میں قادیان سے آیا ہوں تو تمہارے ابا کام میں مصروف تھے۔ اور لگتا ہے کہ انہیں آپ کے آنے کی کوئی خبر نہیں ملی۔ لیکن میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ یہاں ان کا انتظار کریں کیونکہ وہ تو غیرمعمولی تگ و دَو اور دعا کر کے بظاہر غیرممکن کو ممکن کر ہی لیا کرتے ہیں …بھائی جان بتاتے ہیں کہ میں بار بار اُٹھ کر اٹاری سڑک پر نظر دوڑاتا آخر لمبے انتظار کے بعد دیکھا کہ دور سے سر پر دھوپ کی وجہ سے چھتری لگائے ہاتھ میں کوئی چیز پکڑے کوئی تیز تیز آرہا ہے فاصلہ کی وجہ سے میں ابا جان کو پہچان تو نہ سکا مگر ان کی مخصوص چال، مستعدی اور تیزی دیکھ کر میرا دل کہہ رہا تھا کہ ابا جان آ رہے ہیں۔ میرے اس اندازے کی تصدیق ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی وہ بھی اسی آس پر نکلے تھے کہ شاید کوئی آیا ہو…چند منٹوں کے بعد ہم انتظار، پیار، بیتابی، شفقت کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے۔ ابا جان کے ہاتھ میں آم تھے جو نہر کے پانی میں ٹھنڈے کر کے کھائے اور خوب خوب باتیں کیں۔ خوب خوب مزے لیے۔
جماعت نے 1950ء میں یہ انتظام کیا کہ پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر پر 1947ء سے بچھڑے ہوئے خاندان کچھ گھنٹوں کے لیے مل سکتے ہیں دونوں طرف بہت زیادہ انتظار تھا۔ اباجان نے اپنے تیسرے بیٹے کو پہلی دفعہ دیکھنا تھا ا شتیاق میں لکھا: ’’میں انشاء اللہ چار بجے قادیان سے روانہ ہو کر امرت سر رات ٹھہروں گا اور نو بجے دن آپ بارڈر پر تشریف لے آئیں۔ والد صاحب محترم کو ضرور لاویں۔ اگر ہو سکے تو سب میرے قریبی رشتہ داروں کو میرے آنے کا پروگرام بتا دیں کہ پھر خدا جانے کب ملاقات نصیب ہو انشاءاللہ رشیدہ اور حمیدہ سے ملاقات ہو گی۔ شکور بھی ابا کو دیکھے گی سلام ہمیں سلام کرے گا۔ باسط میاں والدہ کے بغیر نہ آئیں۔ اُن سے بھی ملاقات ہو جائے گی ‘‘
خاردار تاروں سے گھرے ہوئے ایک میدان میں فاصلے فاصلے سے چادریں بچھا کر بیٹھے سینہ چاکان وطن سے سینہ چاک ملے اور کچھ گھنٹوں کے بعد پھر غیر معینہ مدت کے لیے بچھڑ گئے۔
ہمارے والد ہمارے مربی
جماعت کی محبت کا درس آپ کے ہر عمل اور ردّعمل سے مترشح تھا۔ سوچ کے زاویوں کو بھی بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ جب بھائی جان عبدالمجید نیاز صاحب اور عبدالباسط صاحب جامعہ احمدیہ میں پڑھتے تھے جو اس وقت احمد نگر میں تھا۔ کسی وجہ سے بھائی جان باسط کا وظیفہ روک لیا گیا۔ ابا جان کا طبعی ردِّعمل تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں درویش ہو گیا ہوں بیوی بچے اللہ تعالیٰ کے سپرد کیے ہیں جماعت نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے کہ میرے بچے کا وظیفہ روک لیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
مگر ایک فنا فی اللہ متوکل انسان کا ردِّعمل دیکھیے۔ تحریر کرتے ہیں:
٭…13؍ ستمبر1950ء
’’عزیز باسط کے وظیفہ کی فکر کیسی۔ احمدی ہے یار کی رضا میں راضی رہے۔ یہ تو ہے بھی اللہ والا۔ اگر وظیفہ بند ہوا اس پر بھی خوش ہونا چاہیے۔ یہ وقت تو انشاء اللہ گزر جائے گا۔ سلسلہ سے زیادہ قابلِ امداد اس وقت کون ہے؟ بدحالی اور بے بسی پر گھبراہٹ ایک احمدی کو تو ہو ہی نہیں سکتی۔ جب تک مٹی کا برتن آگ میں نہ جلے پانی لے کر دوسرے کو فیض نہیں پہنچاسکتا اسی طرح انسان مشکلات سے نہ گزرے تو نہ خود کھڑا رہ سکتا ہے نہ زندہ اور باقی رہ سکتا ہے اور نہ دوسروں کو فیض پہنچا سکتا ہے سو وہ اگر معرفت اور قرب اور عرفان چاہتا ہے تو اس راستہ پر متبسّم ہو کر چلے۔ کہ شکل بھی مشتبہ دیکھ کر وہ راستہ سے الگ نہ کر دے۔ ‘‘
امی جان اس مشکل وقت میں قدرتی طور پر یہ سوچ کر پریشان ہو گئیں کہ بچے بھوکے نہ ہوں۔ تعلیم میں حرج نہ ہو چھوٹے سلام کو ساتھ لے کر احمد نگر چلی گئیں کچھ عرصہ خود وہاں رہیں۔ اور بچوں کی پریشانی میں ساتھ دیا۔ یہ ان کا بڑا جرأت مندانہ اقدام تھا۔
اباجان کی حکیمانہ دوراندیشی کی ایک اور بات لکھتی ہوں جو ربوہ کے ایک بزرگ نے کئی دفعہ سنائی کہ ایک دفعہ بھائی جی اپنے ایک بچے کو ہمراہ لے کر میری دکان پر رکے اور اسے ایک جوتا خرید کر دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی جی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے یہ سستا جوتا خرید کیا ہے… کہنے لگے کہ یہ ٹھیک ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مگر میں نے اس بچے کی زندگی وقف کی ہے اسے سادگی کی عادت ہونی چاہیے ان کی نیک نیت کی برکت سے اس بیٹے کو کئی ممالک میں خدمت دین کی توفیق ملی۔
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی پدرانہ شفقت
بفضلِ الٰہی جماعت کی برکت سے ہمارے خاندان کو حضرت اقدس علیہ السلام کے خاندان کے قابل صد احترام بزرگوں اور خواتین مبارکہ کی شفقت حاصل رہی یہاں خاص طور صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی مہربانیوں کا ذکر ہے جو ناظر خدمت درویشاں رہے۔
آپؓ ہمارے ہر کام پر، ضرورت پر اور مشکل پرنگاہ رکھتے خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا۔ جس وقت بھی ضرورت پڑتی ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جب لوٹتے تو نہ صرف کام اور ضرورت پوری ہو جاتی بلکہ آپ کی ملاقات سے ایسا اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی جو کبھی کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔
ایک سردیوں کے موسم کی بات ہے رات کو دروازہ کھٹکا۔ امی نے پوچھا: ’’کون؟ ‘‘جواب ملا: ’’بشیر احمد‘‘آپؓ نےایک لحاف تھماتے ہوئے فرمایا سردی زیادہ ہوگئی ہے میں نے سوچا پتا نہیں بچوں کے پاس لحاف ہے کہ نہیں۔
کیا حق ادا فرمایا درویشوں کی خدمت کا اور یہ بھی کہ امی نے کیسے دعائیں دی ہوں گی۔ سبحان اللہ۔ کیا خدا ترسی اور عاجزی تھی۔ سردی لگی تو درویش کے بچوں کو یاد کیا پھر کسی ملازم کے ہاتھ نہیں بھیجا خود تشریف لائے۔ اللہ پاک آپؓ کے درجات بلند فرمائے۔
1947ء کے بعدقادیان سے ابا جان کے خط دو سال تک آپ کی معرفت آتے رہے جس وقت خط آتا آپ فوراً بھجوا دیتے اور اکثرایسا ہوا کہ اگر کوئی پاس نہیں ہے تو یہ سوچ کےخود خط دینے کے لیےتشریف لے آتے کہ بچوں کو انتظار ہو گا۔ ایک بار اپنی کمزوری ٔصحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب بات کرنے اور ہلنے کو دل نہیں چاہتا ایک وہ دن تھا کہ تمہاری ڈاک خود پہنچا آیا کرتا تھا۔ اللہ اللہ کس قدر عظیم ہستی تھی آپ کو دوسروں کے احساسات کا کس قدر خیال تھا۔
ایک دفعہ لطیف آپا آپؓ کی خدمت میں اپنی کسی بہن کے رخصتانہ کی دعا میں شمولیت کی درخواست کرنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں آؤں گا انشاء اللہ۔ آپا نے دوبارہ سے کہا تو نہایت شفقت سے فرمایا۔
’’تم کیسی باتیں کرتی ہو میں انشاء اللہ ضرور آؤں گا۔ مَیں تو تمہارا ڈاکیہ بھی رہ چکا ہوں تو کیا آج تمہاری بہن کی شادی پر نہ آؤں گا۔ ‘‘
1950ء میں بھی ایک دفعہ آپ ہمارے گھر تشریف لائے۔ آپا لطیف سے فرمایا: ’’ میں ایک کام سے آیا ہوں۔ ہماری بڑی ہمشیرہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کو خواب آیا ہے کہ حضرت نواب صاحب مرحوم تشریف لائے ہیں اور کچھ کھانے کی خواہش کی ہے اس لیے انہوں نے آج پلاؤ اورزردہ کی دیگیں پکوائی ہیں وہ تم کو بھجوا دی جائیں گی۔ مستحقین میں تقسیم کروا دینا۔ لیکن اس طرح نہیں کہ لوگ ہاتھوں میں تھالیاں پکڑے ہوئے آکر لیں بلکہ ہر ایک کو ٹرے میں رکھ کر دینا ‘‘
ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم کے حصول میں جماعت کا تعاون رہا جس میں آپؓ ذریعہ بنے۔ خاکسار کو یاد ہے سکول کالج میں جب ہمارا نتیجہ آتا خوشی خوشی حضرت میاں صاحب کو دکھانے جاتے۔ آپ بڑی شفقت سے پیش آتے۔ اگلی کلاس کی فیس بھی معاف کردیتے ہماری تعلیمی ترقی سے باخبر رہتے۔ اور اباجان کو اطلاع بھی دیتے۔ الحمدللہ
بچوں کے رشتے کرنے میں بھی امی جان آپؓ سے مشورہ کرتیں گھر میں پہلی شادی بڑی بہن لطیف آپا کی تھی۔ جب آپا کا مکرم شیخ خورشید احمد صاحب سےنکاح ہو اس سال پہلی دفعہ جلسہ سالانہ پر پاکستان سے محدود تعداد میں شاملین کو جانے کی اجازت ملی تھی۔ آپ نے ہم بہن بھائیوں اور امی جان کو بھجوانے کی بجائے شیخ صاحب کو بھجوایا اور ابا جان کو خط لکھا کہ میں آپ کے داماد کو بھجوا رہا ہوں میرا خیال ہے آپ کو ان سے مل کر زیادہ خوشی اور اطمینان حاصل ہو گا یہ بعض لحاظ سے آپ کے لیے بیٹوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔
آپا لطیف کی شادی 1951ءمیں ہوئی۔ گلشن عبدالرحیم اور آمنہ میں یہ پہلی شادی تھی۔ جذبات میں تموج قدرتی تھا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے بندوں نے سہارا دیا۔ نکاح حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے پڑھایا اور رُخصت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت اقدسؑ کے کئی محترم خواتین و حضرات فرما رہے تھے۔ الحمدللہ۔
ایک واقعہ آپا لطیف نے بتایا کہ جب ربوہ میں زمینیں الاٹ ہونے لگیں تو یہ سنا تھا کہ زمین اور مکان بنانے کے لیے رقم جمع کرانی ہوگی۔ آپ حضرت میاں صاحبؓ کے پاس گئیں کہ زمین کی قیمت ہم کسی نہ کسی طرح جمع کرادیں گے لیکن مکان کی رقم مشکل ہوگی۔ آپؓ نے فرمایا کہ زمین کی رقم جمع کرادو مکان بھی بن جائے گا۔ تم لوگ گارا بنا دینا۔ میں اینٹیں لگاتا جاؤں گا۔ الحمدللہ کیسے شفقت کے نظارے دیکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مکان بھی بنوادیا واقعی ایسے سامان ہوا جیسے فرشتے مدد کرنے آگئے ہوں۔ (مصباح قمر الانبیاء نمبرصفحہ73)
باجی رشید ایک نو عمربچی تھیں کسی کام سے آپ کے گھر گئیں۔ فرمایا: ’’کھانا کھا لو‘‘۔ ’’جی میں کھانا کھا کر آئی ہوں۔‘‘ باجی نے بصد ادب جواب دیا۔
آپؓ نے دریافت فرمایا: ’’کیا کھایا تھا۔ ‘‘
عرض کی: ’’کھمبیاں ‘‘
آپؓ نے فرمایا: ’’ابھی جاؤ اور میرے لیے بھی لاؤ مجھے بہت پسندہیں۔ حضرت اماں جانؓ برسات میں ضرور پکوایا کرتی تھیں۔ ‘‘
ہے تو چھوٹی سی بات لیکن دلداری کے کئی پہلو دیکھے جاسکتے ہیں۔ کمال ذرہ نوازی تھی۔
(جاری ہے)