متفرق مضامین

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

(’الف قاف‘)

اس دنیا کی حقیقت کے ادراک کا دعویٰ کرنے والے اکثر مدعی جھوٹے ہیں۔ میرے اس دعویٰ کو بھی کچھ ایسا ہی سمجھا جا سکتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے اس دنیا کے ورے جو نظام چل رہا ہے وہ بہت عجیب ہے۔ میں اس تحریر میں روحانیت کی بنیاد پر کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ابلیس ایک صاحب عقل تھا۔ اس نے ظاہری شواہد کی بنا پر آدم کا انکار کیا۔ عمرو بن ہشام ایک زیرک انسان تھا۔ جس نے معلوم آثار کی بنیاد پر وجہ تخلیق کائنات کو رد کر دیا۔ گلیلیو کو خبطی بڈھا کہنے والے صاحبان تجربہ نے میسر گواہیوں کی وجہ سے ہی تو اس کو زندان میں ڈالنے کا حکم جاری کیا تھا۔ ایسے سینکڑوں صاحبان عقل و حرفت آئے اور مٹی ہو گئے۔ کیوں؟ اس پر کچھ بات کرتے ہیں۔

جزا اور سزا کا یہ سارا قصہ غیب سے جڑا ہے۔ ایمانیات کی کل غیب ہے۔ خود خدا غیب ہے اور اس کی جنت اور دوزخ سب غیب ہے۔ عقل کے سانچے پر پرکھا جائے تو غیب کچھ بھی نہیں اور اس دنیا کی رسم دیکھی جائے تو سبھی کچھ غیب ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے محسوسات تک سب کے سب غیب ہیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ عالم روحانیت میں غیب کو حق الیقین کی حد تک ماننے والا ہی کامیاب ٹھہرتا ہے۔ صاحبان عقل کہیں گے کہ یہ ناانصافی ہے۔ ہر ایک انسان کا ادراک ایک سا گہرا ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر میں کہوں گا کہ یہی انصاف ہے۔

میں کہتا ہوں کہ یہاں، اس درخت کے پیچھے، پانی کا ایک چشمہ ہے۔ مجھے تو غرض اس اقرار سے ہے، جب محض میرے کہے پر آپ کہیں کہ ہاں اگرتم کہہ رہے ہو، تو سچ کہہ رہے ہو۔ مگر آپ نے پانی کو دیکھ کر، اس کا گھونٹ بھر کر اقرا ر کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بخدا یہ واقعی پانی ہی ہے تو یہ اقرار سطحی ہے۔ مجھے اس اقرار سے کوئی خاص خوشی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری محبت غیب میں بھی اسی انتہا کی ہونی چاہئے جس انتہا کی، میری موجودگی میں ہوتی ہے۔ عقل اپنی آنکھوں سے شواہد دیکھ کر کہے گی کہ موسیٰ کے ہاتھ میں موجود بوتل میں جام ہے اور اس کی بغل میں موجود عورت ایک فاحشہ لیکن محبت کہے گی ٹھہرو! مجھے موسیٰ پر یقین ہے۔ یہ یقیناً پانی ہے اور اس کے ساتھ اس کی ماں کھڑی ہے۔

کچھ یہی معاملہ اطاعت کا بھی ہے۔ مجھے میری مرضی کے، یا میرے اختیار میں موجود، احکامات کی بجا آوری کا حکم دیا جائے اور میں اس پرلبیک کہوں تو ٹھیک ہے، میں نے اچھا کام کیا مگر کیا یہ اطاعت کہلا سکتی ہے؟ ہاں یہ میری ذاتی حالت کی ترقی ضرور ہے۔ بات تو تب بنے گی جب ان سے وراء، دیگر معاملات بھی مجھ سے اسی طرح صادر ہوں جس طرح سے میری نبض چلتی اور میرا خون گردش کرتا ہے۔ اطاعت تو وہ ہے جو بغیر کسی ’’انقباض‘‘ کے مجھے میرا اسماعیل ذبح کرنے پرآمادہ کر دے۔ میری آنکھیں نم ہو جائیں لیکن ہاتھ میرے خالق کی سمت اٹھے ہوں اور میرا دل گویا ہو کہ تو نے کہا تو ٹھیک کہا ہے۔ کیا، کیوں، کیسے پرمجھے بات نہیں کرنی۔

کوئی کہے گا کہ ’’طاعت معروفہ بھی کچھ ہوتی ہے‘‘۔ تو کوئی کہے گا کہ ’’سوال پر قدغن لگانے والے کبھی سچے نہیں ہوتے‘‘۔ کوئی یوں بھی کہے گا کہ ’’ کچھ چیزوں کا کوئی جواز نہیں ہوتا‘‘۔ آپ سب ٹھیک ہیں لیکن یہ سب اس وقت ہی کیوں جب چیزیں آپ کی مرضی کے خلاف نظر آنے لگیں۔ اس وقت ہی کیوں جب آپ کے وجودِ آتش کے مقابلہ میں کسی وجود خاکی کو زمین کا خلیفہ کر دیاجائے۔ اس وقت ہی کیوں جب آپ ایسے زیرک و علم و معرفت کے دریا کے بجائے ایک اُمی کو شاہ دوجہاں بنا دیا جائے۔

دیکھئے! خدا کا یہ نظام ہماری مرضیوں کے تابع نہیں۔ اگر ہوتا تو جتنے انسان اس روئے زمین پر ہیں، اتنے ہی نظام یہاں موجود ہوتے۔ اور جب یہ ہماری مرضیوں کے تابع نہیں تو اس میں وہ سب کچھ ہو گا جو ہم سب پر گراں بھی گزرے گا اور ہماری ڈھارس بھی بندھائے گا۔ خدا کے نظام میں ہر ظالم اسی دنیا میں اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ اور نہ ہی ہر معصوم و مظلوم کا اس دنیا میں ہی مداوا کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ دنیا، دنیا نہیں بلکہ جنت ہوتی اور اس میں رہنے والے سبھی بہشتی۔ ہمارے بڑے بڑے نقصان ہو جاتے ہیں۔ عقل کہتی ہے کہ یہ کیا ہوگیا ہمارے ساتھ۔ یہ تو خدا نےنا انصافی کر دی۔ کیا ہم کہتے ہیں کہ ارے خدا جائیے ہم نہیں رہتے آپ کے اس نظام میں۔ جان لیجئے کہ خدا کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اور نہ ہی خدا کے قائم کردہ کسی ’’نظام‘‘ کو۔

مجھے تمام احادیث میں سے یہ حدیث سب سے زیادہ پسند ہے کہ لو تكاشفتم لما تدافنتمکہ اگر تم ایک دوسرے کے سینے میں دفن راز جان لو تو تم کبھی ایک دوسرے کو دفن کرنا بھی پسند نہ کرو۔ تو جان لیجئے آگہی نعمت نہیں۔ بعض اوقات تجاہل عارفانہ نعمت ہوتا ہے۔ اور ادھوراعلم تو موت ہے۔ یہ تحریر کسی بھی قسم کی Justification کےلیے نہیں ہے۔ ہم سب انسان ہیں۔ فرشتے نہیں۔ Fallible ہیں۔ ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو دوسروں کے اندر برا سمجھتے ہیں۔ لیکن جیسے اس دنیا میں، اس دنیا میں ہونے والے کسی بھی مدعے کے فیصلے کا اختیار خدا کے پاس ہے، ویسے ہی، خدا کے کسی بھی نظام میں، ہونے والے کسی بھی معاملہ کا اختیار خدا کے نمائندے کے پاس ہونا چاہیے۔ یہی میری عقل کہتی ہے اور یہی میری Affiliation بھی۔ تو جب میں نے خدا کے کسی نظام کو اپنے لیے چن لیا اور اس نظام کے نگہبان کو اپنا نگہبان تسلیم کر لیا تو عشق میں مرضیاں نہیں چلتیں۔ جس طرح یار کہے بسم اللہ۔ مجھے اس نگہبان کے پیچھے چلنا ہے اور اس کے پیچھے لڑنا بھی ہے۔ اور یہ دوہری لڑائی ہے۔ ایک اپنے اندر کی اور ایک اپنے گرد۔ پہلے مجھے ابراہیم بننا ہے اور پھر مجھے اپنے اسماعیل کو اس یقین پر لے کر آنا ہے جس میں وہ کہہ سکے کہ اگر اس نے کہا ہے تو ٹھیک کہا ہے۔

دنیا کے سامنے منکشف کیا جانے والا ہر راز ادھورا ہوتا ہے۔ وقت تو ابھی ہے کہ ابوبکر کی طرح صدیق بن جایا جائے ورنہ جب سورج طلوع ہو گیا تو بہت آئیں گے لیکن ان میں کوئی صدیق نہیں ہو گا۔ میں اپنے نگہبان کی غلامی کا اقرار کرتا ہوں۔ اور صرف اسی کی غلامی کا۔ اس سے وراء کسی کی بھی نہیں۔ وہ سچا ہے اور وہ جو بھی کر رہا ہے، وہی سچ ہے۔ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو… اس نے میرے لیے ان سب اقوال کو سچ کر دکھایا ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اس کے مقابلہ میں آنے والے سب مٹ جائیں گے جیسا کے اس سے پہلے آنے والوں کے مقابل میں آنے والے سب مٹ گئے۔ مگر یہ میرا مدعا نہیں۔ یہ میری خواہش نہیں۔ مجھے تو صرف یہ اقرار کرنا ہے کہ میں opportunist نہیں۔ میری سمجھ، میری فہم اس سے بڑھ کر نہیں جس کے ہاتھ میں، میں نے اپنا ہاتھ دیا ہے۔ وہ جو کررہا ہے، جیسے کر رہا ہے، میں اس پر اعتماد کرتا ہوں۔ میں ہر حال میں، اس کے ساتھ ہوں کیونکہ مجھے اس سے پیار کا دعویٰ ہے۔ ظاہر میں بھی اور غیب میں بھی۔ اندھی محبت کہہ لیجئے، مگریہی ہے۔

سال نو مبارک۔ وقت کی یہ صفت، کہ یہ کبھی کسی کے لیے نہیں رکتا، ہر چیز میں موجودہے۔ اس دنیا میں میسر کوئی بھی چیز کبھی نہیں رکتی۔ ہمارے اپنے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے احوال، اعمال اوراحساسات بدل جاتے ہیں لیکن زندگی رواں رہتی ہے۔ ہاں کچھ اوقات کی خوشی یا غمی اس وقت کی کمیت کا ادراک ضرور بدل دیتی ہے۔ غم کا ایک لمحہ ایک سال لگنے لگتا ہے اور خوشی کا ایک سال بھی ایک پلک جھپکتا لمحہ۔ دعا، کہ خدا اپنے نظام کی غیرت دکھائے اور ’’صداقتوں بھرا‘‘سال طلوع ہو۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button