شادی۔ آپس کا حسن سلوک۔ جدائی۔ صبر (قسط چہارم)
بظاہر دوری مگرقدم قدم ساتھ
اللہ تعالیٰ نے ہمارے خاندان کو دوری کے باوجود قرب کے احساس سے نوازا یہ سب ہمارے والدین کے قلبی تعلق سے ممکن ہوا۔ امی جان ہر کام اباجان کی اجازت سے کرتیں اور اگر خود کوئی فیصلہ کرتیں تو اباجان کو مطلع کرتیں۔ اباجان اپنے خطوط کے ذریعے سب حالات سے باخبر رکھتے۔
٭…21؍اگست1951ء
’’میری رفیقہ حیات میری دکھیا پردیسن !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شدید گرمی کا موسم ہے بارش ہوئے دیر ہوگئی دھوپ میں کام کرتے ہوئے سر سے پیر تک پسینہ بہتا ہے۔ مگر با وجود پسینے اور تلملاہٹ کے طبیعت پر بوجھ نہیں بلکہ لطف ہے سبحان اللہ ایک ہی کام میں سکھ بھی ہے دکھ بھی۔ کتابیں اس لئے بھیجتا ہوں نایاب ہیں چھپیں گی تو دنیا کو فائدہ ہوگا دوسرے خرچ کی مشکل ہو تو فروخت کر لینا۔ ہم نہ رہے تو کام آئیں گی۔ بچوں کے لئے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ان کو والدہ کی فرمانبرداری کی توفیق دے اور نیک متقی اور صالح بنائے وہ قادر ہے میری جان عجیب مشکل میں ہے چاہتا ہوں بیوی بچے اچھی ستھری زندگی گزاریں مگر حالات کہتے ہیں صرفہ کریں۔
میری رفیقہ ! آپ کو یاد ہے کپڑے کی دکان سے سب سے اعلیٰ کپڑا خرید تاتاکہ آپ اچھا سے اچھا پہنیں اور ہم دیکھیں۔ میں نے کچھ اشعار کہے ہیں
اے مری روح رواں اے میری جان اچھی تو ہو
مخزن ِمہر و وفا کی تاج دار اچھی تو ہو
نرگسی آنکھیں ہیں کیوں یوں اشک بار اچھی تو ہو
ہے طبیعت میں یہ کیسا انتشار اچھی تو ہو
کیوں عیاں ہے چہرۂ پُرنور سے یہ اضطراب
اے مری سرمایہء صبر وقرار اچھی تو ہو
چاند سے چہرے پہ کیوں افسردگی کا ہے دھؤاں
قلب نازک پر ہے یہ کیسا غبار اچھی تو ہو‘‘
آپا کی شادی کے موقع پر اباجان نے ہر جذباتی ریلے کا رُخ حمدوشکر کی طرف پھیر دیا۔ امی کو نصیحت کی کہ شادی پر زیادہ خرچ نہ کرنا۔ سادگی سے بغیر کسی قسم کے تکلف کے رخصت کرنا۔ قرض نہ لینا۔ سلسلے سے نہ مانگنا اگر کوئی میری بچی کو طعن دے گا تو خدا کی خاطر، میری خاطر برداشت کر لینا۔ بیٹی کو نصیحت کی
’’لعل میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت بہت بابرکت کرے آمین ہو سکتا ہے آپ کو خیال آئے کہ ابا نہیں بھائی موجود نہیں۔ میں آپ کی طرف سے پُراُمید ہوں کہ کمال حوصلہ برداشت اور ہمت و استقلال سے خدا تعالیٰ کی مدد طلب کرتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر اچھا نمونہ پیش کرو گی‘‘
اور خود وہ دن کیسے گزارا
’’پندرہ اکتوبر 1951کو دن بھر جب دل بھرا دروازہ بند کر لیا۔ آنسوؤں سے ہلکا کیا خوشی بھی تھی خاندان کے افراد کی شمولیت باعث رحمت ہے۔ آپ خود خاص طور پر حضرت اقدس کے حضور حاضر ہو کر میری طرف سے سلام کے بعد اُن کی شفقت، مدد اور پیار کا شکریہ ادا کریں۔ امیر صاحب کے کمرہ میں الفضل پڑھا وہیں دونوں نے دعا کی وہاں سے سوا بارہ بجےمسجد مبارک جا کر دو نفل ادا کئے خوب رقت سے دعا کی پھر بیت الدعا میں جا کر دعا کی۔ پھر تینوں مساجد میں دعا کے اعلان کا بندوبست کرنے میں لگ گیا۔ نماز ظہر مسجداقصیٰ میں پڑھ کر خوشی کے آنسو بہائے نماز کے بعد سب سے پہلے مسجد مبارک میں نفل ادا کئے سب درویشوں نے گلے مل کر دعائیں اور مبارکباد دی۔ مسجد مبارک کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔‘‘
سات سال بعد پہلی بار ربوہ آمدکا احوال اباجان کی ڈائری سے
’’22؍ فروری 1954ء میں صبح کی اذان کے ساتھ پہلی بار ربوہ گیا اُس وقت میری اہلیہ اور بچے دارالخواتین میں رہتے تھے میرا ایک بچہ جو جدائی کے تین ماہ بعد 1947ء میں لاہور میں میری غیرموجودگی میں پیدا ہوا تھا میرے پاس لایا گیا اور اُس سے پوچھا گیا یہ کون ہیں؟ بچے نے کہا پھوپھا جی تب اس کو میری وہ تصویر دکھائی گئی جسے دکھا کر ابا جان کے پاس جانے کی ضد میں بہلایا کرتے تھے تب میرے ذہین بچے نے فوراً زور دار آواز میں ابا جی کہہ کر میرے گلے میں باہیں ڈال دیں پھر باپ نے بیٹے کو کیسے چمٹایا اور پیار کیا ہو گا۔ چشمِ تصور سے دیکھ لیں محسوسات کا اندازہ کر لیں۔
میرے بچوں میں صبر و شکر، سیر چشمی اور قناعت شامل ہونے کی وجہ اُن کی والدہ محترمہ کی تربیت تھی۔ درویشانہ فقیرانہ کس مپرسی میں عزتِ نفس کا احساس زندہ رکھا۔ واقعہ تو ایک بچے کی معصومیت کا ہے مگر میں اس کو کئی زاویوں سے دیکھتا ہوں۔ میری اہلیہ نے بتایا کہ ایک دن ایک بچہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ امی گلی میں یہ کپڑے والے، قلفی والے اور دوسری چیزیں بیچنے والے کیوں آتے ہیں جب کہ ان سے کوئی لیتا ہی نہیں ہے اور یونہی چکر لگا کر چلے جاتے ہیں۔ میں خوش بھی ہوئی افسردہ بھی کہ دیکھو اس بچے نے یہ خیال کیا کہ ہم ان سے کوئی چیز نہیں خریدتے تو کوئی بھی نہیں خریدتا ہو گا۔ اللہ کا شکر کیا کہ اگر ان حالات میں دوسرے بچوں کی طرح یہ مجھ سے بار بار پیسے مانگتے ضد کرتے تو میرے لئے کس قدر مشکل ہوتی۔
میں نے بھی یہ واقعہ سن کر بہت شکر کیا اور اپنی اولاد میں سیر چشمی صبراور قناعت میں اضافے کی دعا کی۔‘‘
امی جان سے خط لکھنے کی فرمائش
جیسا کہ ذکر ہوچکا امی جان پڑھنا تو جانتی تھیں لکھنے کی مشق نہیں تھی۔ اباجان چاہتے تھے کہ امی خود لکھیں بچوں سے لکھوائے ہوئے خط اور بچوں کو دیے ہوئے جواب سے تشنگی رہتی۔ اکثر خطوط میں اس کا ذکر ہے۔ بھائی جان باسط کے نام خط میں لکھا جو قادیان جا کر اباجان سے مل کر آئے تھے:
’’خدا کرے آپ کی والدہ مکرمہ مقدسہ آپ سے مل کر اتنا ہی خوش ہوں جس قدر میں نے پتھر دل پر رکھ کر آپ کو جُدا کیا۔ یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ میں اس دکھ کو الفاظ کی صورت میں آمنہ پر ظاہر نہیں کرسکتا اور اسی طرح وہ اپنا ما فی الضمیر ادا نہیں کر سکتی مگر بیٹے اس کی اطاعت اور خدمت گزاری اور دور اندیشی نے پیتل کو سونا بنا رکھا ہے اور جس کے لئے ہم اس کے بے حد ممنون اور زیر احسان ہیں ‘‘
’’میری رفیقہ ء حیات !
میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد لکھنا پڑھنا سکھا دے آنکھیں رو رو کر خراب نہ کریں جس اُمید پر آپ جیتی ہیں اگر وہی فوت کرلی تو کیا فائدہ؟ اگر جان پریشانیوں سے ہلاک ہو گئی تو مجھے کیسے دیکھو گی؟ کمال صبر اور صلوٰۃ سے دن گزارو۔ حضرت یعقوبؑ کو یوسف کا غم تھا انہوں نے صبر سے کام لیا تو سب کو پالیا دیکھو غلط سلط ہی سہی خط خود لکھا کرو اور کسی کو دکھائے بغیر ڈال دیا کرو۔ اگر آپ کو ہم سے لگاؤ ہوگا تو جلد لکھنا آجائے گا اسی لگاؤ کے نتیجہ میں فرہاد نے پہاڑ، سوہنی نے دریا اور سسی نے تھل چیر کر رکھ دیا آپ لکھنا سیکھ لیں ‘‘
اباجان کا گاہے ماہے ربوہ آنا
پہلی دفعہ سات سال بعد 1954ء میں ربوہ آنا ممکن ہوا۔ پھر کبھی کبھی ویزا اور چھٹی ملنے پر ربوہ آتے مگر 1962ء میں ایک نا دانستہ غلطی پر پکڑ ہوگئی حکومت نے پاسپورٹ واپس لے لیا۔ مصلحتاً زیر زمین جانے کی کیفیت ہوگئی۔ امی جان کو علم ہوا تو فکرمند ہوئیں اور قادیان جانے کے ارادہ سے میاں صاحب کے پاس اجازت کے لیے گئیں۔ میاں صاحب نے فرمایا میں نے خط لکھا ہوا ہے حالات سے آگاہی ہو تو پھر جانا چند دن کے بعدمیاں صاحب نے فرمایا اب تو آپ کو جانا ہی چاہیے۔ نیز فرمایا اُن سے کہہ دیں کہ میں میاں عبدالرحیم کو جانتا ہوں۔ وہ بہت مخلص ہے۔ سہواً منہ سے غلط نعرہ نکلا ہے۔ یہ بھی کہیں کہ اُن کے کیس کے لیے یہاں لڑیں وہاں لڑیں اوپر لڑیں مگر اس کو قادیان سے باہر نہ بھیجیں اور اگر باہر بھیجنا ہے تو میرا بندہ مجھے واپس بھیج دیں۔
امی جان نے جا کر یہ پیغام دیا تب یہ بَلا ٹلی۔ ایک لمبی کہانی ہے ابتلاؤں اور پریشانیوں کی۔ بالآخرضبط شدہ پاسپورٹ 1968ء میں واپس ملا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات درست ہوئے۔ ان وجوہات سے پاکستان کا سفر مشکل ہوگیا۔ جب آپ تشریف لاتے اور کچھ دن ہمارے ساتھ گزارتے بڑے سہانے دن ہوتے۔ اچھے اچھے پروگرام بنتے۔ دعوتیں ہوتیں امی جان بھی خوش خوش خاطرداری میں لگی رہتیں۔ باورچی خانے میں کھانا کھانے کا وقت بڑا پُر لُطف ہوتا پرانی طرز کے چولھوں میں لکڑیاں جلتیں امی جان کھانا بناتیں اباجان پیڑھی پر بیٹھے ہوتے کوئلوں پر سِکی گرم روٹی اترتے ہی اباجان ہمیں آوازیں دینا شروع کردیتے سب اپنی اپنی پیڑھی چوکی پر سامنے تپائی رکھ کر بسم اللہ پڑھ کے بیٹھ جاتے تقسیم کا کام اباجان کرتے امی خوشگوار سی خفگی سے کہتیں لطیف کے ابا روٹی اترتے ہی بانٹ دیتے ہیں پکا تو لینے دیا کریں۔ ہلکی پھلکی نوک جھونک مزے دار مزاح کی باتیں کوئی قصہ واقعہ سب ساتھ چلتا۔ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ کی خوشی میں سرشار رہتے۔ اباجان خودبھی مختلف مزےدار چیزیں پکاتے قیمے کے پراٹھے، پکوڑے، مٹھائیاں اور آئس کریم کھلا کر خوش ہوتے۔ گھر میں ہمارے سامنے آئس کریم بناتے ہم سب ارد گرد بیٹھ جاتے ایک سادہ سی مشین میں برف اور نمک ڈالتے جاتے اور اس ڈبے کو گھماتے جس میں اپنی خاص ترکیب سے تیار کیا ہوا گاڑھا دودھ ڈالتے پھر ہمارے مزے لے لے کر کھانے سے لطف لیتے۔ جو بے تکلف مہمان اور رشتے دار ملنے آتے انہیں بھی باورچی خانے میں ہی بلا لیا جاتا ملاقات ہوجاتی اور کھانا بھی پیش کردیا جاتا۔ یہ انتظام بڑا آرام دہ تھا۔
اباجان ربوہ کی ترقی دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ مساجد میں جاتے پرانے ملنے والے قادیان کی یادیں تازہ کرتے۔ قادیان کے حالات سنتے دونوں طرف تشنگی تھی جو ان ملاقاتوں سے سیرابی میں بدل جاتی۔ جس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر حملہ ہوا تھا اباجان مسجد مبارک میں موجود تھے۔ بہت تکلیف میں تھے۔ رقت انگیز لہجے میں بآواز بلند قرآنی دعائیں پڑھتے اور ہمیں بھی دعاؤں کی تلقین کرتے۔
امی جان کا ذوق عبادت اور قبولیت دعا
امی جان کا دعا کا اپنا انداز تھا۔ دعا میں ہلکی سی گنگناہٹ جیسی آواز آتی۔ تضرع اور عاجزی سے نماز پڑھتیں ان کے چہرے پر ایک تقدس تھا۔ سفید ململ کا دوپٹہ پھیلا کر اوڑھتیں۔ تہجد کی پابند تھیں۔ اشراق کے نوافل بھی ادا کرتیں۔ ان کی سجدہ گاہ پتا نہیں ان کی کون کون سی مناجاتوں اور درد کی داستانوں کی امین تھی۔ ان کے روزمرہ کے کاموں کی تقسیم اوقات ایسی ہوتی کہ عین نماز کے وقت وہ جائے نماز پر ہوتیں نماز کے وقت سے پہلے ہی تیار ہوکر انتظار میں دعائیں پڑھتی رہتیں۔ رمضان المبارک کا بہت اہتمام کرتیں نماز، درس القرآن، نماز تراویح، سحری افطاری، گھر میں اور محلے میں قرآن پاک کے دور میں ہر جگہ شوق سے جاتیں۔ اہتمام سے اعتکاف بیٹھتیں۔ میرے میاں ناصر صاحب نے یہ سب بھاگ دوڑ دیکھ کر کہا لگتا ہے تمہاری امی کمانڈو ہیں۔ کبھی کبھی امی جان جلسہ سالانہ قادیان پر یا ویسے ملنے کے لیے ویزا لگوا کر قادیان جاتیں وہاں ان کا ذوق عبادت دیدنی ہوتا۔ بہت خواہش تھی کہ بیت الدعا میں تہجد ادا کریں مگر ہر وقت مردوں کی آمدو رفت کی وجہ سے موقع نہ ملتا۔ آپ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد کے پاس گئیں کہ عورتوں کے لیے بھی کچھ انتظام ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپ نے انتظام کروادیا۔ اباجان کہتے تھے اب تک جو خواتین اس سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں اس کا اجر امی جان کو ملے گا۔
ہماری تعلیم وتربیت کے لیے امی نے گھر کے صحن میں ایک ’امی سکول‘ بھی کھولا ہوا تھا۔ ربوہ میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی سورج غروب ہونے کے ساتھ اندھیرے پھیل جاتے۔ یہ سکول ہمارے گھر کے کچے صحن میں چاند تاروں کی چھاؤں میں بچھی چارپائیوں پر قائم تھا۔ اس کا نصاب سورتیں یاد کرنا، انبیا کرامؑ کی کہانیاں، احمدیت کی سچائی کے دلائل، بیت بازی، ناصرات کے کورسز سب کچھ بڑے خوشگوار ماحول میں اس سکول میں پڑھایا جاتا۔ آج تک صحن میں چھڑکاؤ کی تازگی۔ موتیا کی خوشبو۔ کہکشاں کا نظارہ سب امی کی یاد میں شامل ہوجاتے ہیں۔
مڑ کر دیکھا جائے تو امی جان نے 35سال کی عمرسے ساری ذمہ داریاں سنبھالیں اور بفضل الٰہی کامیابی سے ادا کیں میرے والدین جو ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے مسابقت فی الخیرات کے جذبہ سے زندگی حاصل کرنے لگے۔ اگر امی جان میں ایمان و توکل اور سادگی و صبر کی عادت نہ ہوتی تو ابا جی درویشی کی سعادت ہر گز نباہ نہ پاتے امی جان نے کمال ہمت حوصلے اور صبر سے بااحسن ادائیگی کا ہرچیلنج قبول کیا بلکہ اباجان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں اور کبھی پریشانی،طعن و تشنیع اور کم حوصلگی کا مظاہرہ نہ کیا۔
امی جان نے بڑے سخت وقت دیکھے مگر بڑے وقار کے ساتھ ان سے عہدہ برآ ہوئیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک بیٹی کی بیماری شدت اختیار کر گئی۔ دوا اس لیے نہ دلا سکی تھیں کہ ہسپتال میں دو پیسے کی پرچی بنوانی پڑتی تھی اور اس وقت بچی کے علاج کے لیے مامتا دو پیسے بھی مہیا نہ کر پائی تھی۔
امی جان سے اللہ پاک کا بڑے پیار کا سلوک تھا۔ اللہ پاک آپ کو بہت دلاسے دیتا۔ اپنے قرب کا احساس دلاتا۔ آپ کو اس تعلق کےاظہار کی عادت نہیں تھی۔ زیادہ تر خاموش رہتیں۔ جو ہمارے علم میں آجاتے ان بے شمارایمان افروز واقعات میں سے کچھ بطور مثال پیش کرتی ہوں
امی جان نے بتایا کہ وہ بہت چھوٹی تھیں جب ان کی والدہ صاحبہ والد صاحب کے قبول احمدیت سے پہلے فوت ہوگئی تھیں، امی کو قلق رہتا والدہ کی مغفرت کے لیے بہت دعا کرتیں۔ ایک دن جائے نماز پر ہی یہ نظارہ دیکھا کہ والد صاحب والدہ صاحبہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے آرہے ہیں کہتے ہیں فکر نہ کرو تمہاری اماں میرے ساتھ ہے۔
میں چھوٹی تھی امی جان نے مجھے دفتر سے وظیفہ کی رقم لینے کے لیے بھیجا۔ اس وقت ہمیں ایک مہینے کے لیے پندرہ روپے ملتے تھے۔ میں نے روپے لیے اور دوپٹے کے پلو سے باندھ لیے راستے میں بدقسمتی سے بے احتیاطی سے دی گئی گرہ کھل گئی اور رقم کہیں گر گئی۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں ان کی قیمت پندرہ ہزار کے برابر ہوگی۔ امی جان کو بہت تکلیف ہوئی۔ دعا بھی کی خدا کی قدرت گھر میں پالے ہوئے چوزوں میں سے ایک وبائی مرض کا شکار ہو کر مر گیا۔ ہم بچے اسے دفن کرنے کے لیے باہر لے کر گئے۔ باہر ریت ہی ریت تھی ایک جگہ قبر کھودی تو وہاں پندرہ روپے کی وہی رقم پڑی ہوئی ملی۔ خدا نے اپنی ایک عاجز بندی کی دعا منظور فرمائی اور اس کی تکلیف دور کرنے کا غیب سے سامان فرمایا۔
ایک دفعہ امتحان میں ایک بہن کا پرچہ توقع کے مطابق نہیں ہوا۔ امی جان جو معمولاً ہر بچے کے لیے دعاکرتی تھیں زیادہ توجہ سے دعا کرنے لگیں۔ خواب میں انہیں نمبر بتائے گئے مگر انگریزی ہندسوں میں لکھے ہونے کی وجہ سے سمجھ نہ سکیں۔ سجدہ گاہ کے قریب زمین پر انگلی سے ایک ہندسہ کا نشان بنا لیا صبح اٹھ کر بتایا کہ شروع کا ہندسہ ایسا تھا۔ یہ بڑی خوشخبری تھی کہ تین سو سے زائد نمبر حاصل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے نتیجہ نکلنے پر پتہ چلا کہ نمبر تین سو سے زائد ہی ہیں۔
ایک دفعہ جب میں لاہور یونیورسٹی میں پڑھتی تھی امی کو لکھا کہ کبھی کبھی پڑھتے ہوئے کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے کھانے کے لیے جاؤں تو بہت وقت لگ جاتا ہے اگر کوئی پنجیری وغیرہ بنا کر بھجوا دیں تو مجھے بڑی سہولت ہو سکتی ہے۔ امی جان کے پاس کچھ چیزیں تو تھیں گھی نہیں تھا اور نہ پیسے تھے۔ درویش کی بیوی خداکے سامنے سجدہ ریز ہو گئی ابھی نماز سے فارغ نہیں ہوئی تھیں کہ ایک پڑوسن کی آواز آئی ’’یہ گھی چھوڑے جا رہی ہوں نماز کے بعد اسے سنبھال لیں ‘‘ سلام پھیر کر دیکھا تو گھی کا بھرا ہوا ایک کٹورا تھا اس سے پنجیری تیار کر کے لاہور بھجوا دی۔ بعد میں اس مہربان نے بتایا کہ اسے دیسی گھی کا تحفہ ملا تھا خدا نے اس کے دل میں ڈالا کہ اس میں سے آدھا اپنی درویش بہن کو دے آؤں۔ سبحان اللہ۔
ایک واقعہ حیدر آباد کا ہے۔ ایک دفعہ چھوٹے بیٹے کے پاس حیدرآباد گئیں۔ شام ہوئی تو خیال آیا کہ ان کے پاس کوئی زائد چارپائی نہیں ہے سوتے وقت مشکل پیش آئے گی اور بچے میرے آرام کی خاطر خود تکلیف اٹھائیں گے کیا ہی اچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ غیب سے چارپائی مہیا فرما دے۔ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ کسی نے باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مجھے پتہ چلا تھا کہ آپ کے ہاں مہمان آئے ہیں آپ کو چارپائی کی ضرورت ہو گی یہ چارپائی لے لیں۔ اس غیبی تائید کا ذریعہ بننے والے فرشتہ سیرت بزرگ مکرم مرزا محمد ادریس صاحب سابق مربی انڈونیشیا کے والد محترم مرزا محمد اسماعیل صاحب تھے۔
امی کی کوئی لگی بندھی آمد نہیں تھی۔ اللہ پاک غیب سے سامان کرتا قناعت، سیر چشمی اور کفایت سے گزارا کرتیں۔ ایسے بھی ہوا کہ شدید ضرورت پڑنے پر اللہ پاک کی طرف رُخ کرنے کے لیے قرآن مجید پڑھنے بیٹھ گئیں۔ کھولا تو اس میں سے بفضلِ الٰہی کبھی کے رکھے ہوئے روپے ملے۔
بچوں کے رشتوں میں اللہ پاک کی مدد کی ایک مثال لکھتی ہوں۔
اباجان کی صحت کمزور ہورہی تھی امی جان چاہتی تھیں کہ پانچویں بیٹی کی شادی کی ذمہ داری ادا ہوجائے تو وہ قادیان جاکر کچھ عرصہ رہ سکیں۔ سب کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ گھر میں امی جان اور چھوٹی بہن ہی رہتی تھیں آپ نے نماز میں دعا مانگی کہ اللہ پاک اپنے فضل سے کوئی مناسب رشتہ گھر بھجوادے۔ ابھی نماز میں ہی تھیں کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ بہن نےدروازہ کھول کر مہمانوں کو بٹھایا۔ یہ مہمان خدا نے بھیجے تھے جو چھوٹی بیٹی کے رشتہ کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ سے رشتے کے لیے پوچھا تو انہوں نے آپ کے گھر بھیجا ہے کہا ہے کہ درویش کی بیوی نے بچیوں کو گلے سے لگا کر ان کی کمائی کا لالچ نہیں کیا اور صحیح عمر میں بچیوں کے رشتے کر دیے ہیں۔ آپ قسمت آزما لیں۔ امی جان نے اسے اپنی دعاؤں کا جواب سمجھا اور مہمان خاتون کے اصرار پر اگلے روز ان کے ہاں گئیں۔ واپس آئیں تو دروازہ بھائی جان باسط نے کھولا جو ان دنوں ملتان میں مربی تھے اور اچانک آئے تھے۔ بھائی جان کو دیکھ کر غیر معمولی خوشی کا اظہار کیا۔ کہنے لگیں بیٹی کا رشتہ دیکھ کر آرہی تھی سوچ رہی تھی کہ اس کے ابا جان تو قادیان ہیں میں گھر میں اکیلی ہوں اس سلسلے میں کس سے مشورہ کروں گی اور پھر میں نے آتے آتے دعا کی کہ خدا کرے میرے گھر پہنچنے پر دروازہ میرا بیٹا کھولے اور خدا کی شان ہے کہ دروازہ کسی اور نے نہیں بلکہ تم نے ہی کھولا۔ الحمدللہ
مذکورہ حالات میں پانچ بیٹیوں کی شادی ایک بہت ہی کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں کی برکت سے بڑے وقار اور عمدگی سے اپنے اپنے وقت میں امی جان نے بیٹیوں کو دین اور دنیا کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ گھر داری کے سارے سلیقے سکھائے سلائی کڑہائی بُنائی جیسے ہنر سکھائے۔ فارغ بیٹھنا پسند نہیں کرتی تھیں نہ ہی فارغ بیٹھنے دیتیں۔ ہم نے امی کو گرمی کی لمبی دوپہروں میں چرخہ کاتتے دیکھا۔ گھر کے سارے کام ہم بہنوں میں بانٹے ہوئے تھے۔ ہماری پڑھائی کے خیال سے اکثر کام خود ہی کرلیتیں۔ سال بھر کی اجناس لینا صاف کرکے سنبھال کے رکھنا۔ سب بہنوں نے اپنے اپنے وقت پر سکول کالج میں پڑھایا۔ مگر تنخواہ کے لیے شادی میں دیر نہیں کی۔ پردے کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ خود بھی جیٹھ اور دیوروں سے پردہ کیا اور ہمیں بھی کزنز اور بہنو ئیوں سے پردہ کرایا۔ اور یہ کئی لحاظ سے بہت اچھا کیا۔ درویش کی امانت کو کما حقہ ذمہ داری سے سنبھالا اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمیں پردے کے لیے کہنا نہیں پڑا بلکہ امی کا نمونہ دیکھ کر عمل کیا۔ قرآن پاک کے اوامرو نواہی پر عمل کرتیں اور کراتیں۔ اُٹھتے بیٹھتے چھوٹی چھوٹی باتیں سکھا دیتیں کبھی کھانے کی چیز یا کاغذ زمین پر پڑا ہو تو امی فوراً اُٹھانے کو کہتیں۔ سنی سنائی بات آگے بڑھانے سے منع کرتیں۔ چیزیں سنبھال کے استعمال کرنا، ضائع ہونے سے بچانا اور نعمتوں پر شکر کرنا ہماری فطرت میں شامل کردیا۔
آپ کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ خاص طور پر کسی کو ضرورت مند دیکھ کر ہر ممکن مدد کرنے کو فرض ِمنصبی سمجھ لیتیں۔ تحمل سے جھگڑے نبٹانے میں بہت ماہر تھیں۔ ہم نے کسی سے انہیں تلخ کلامی یا بے رُخی برتتے نہیں دیکھا۔ بڑی خندہ پیشانی سے وقت گزارا۔ آٹھ بچوں کے رشتے، شادیاں پھر سمدھیوں سے حسن سلوک پھر اپنی اگلی نسل کے بچوں کی پیار محبت سے تربیت کا بھرپور کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم پانچ بہنیں امی جان کی تربیت کی خوشبو ساتھ لیے اپنے اپنے گھروں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭