مَیں اِس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں
غرض جب امیر صاحب کے روبرو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی اُن کے مزاج کو بہت کچھ متغیرکر رکھا تھا۔ اس لئے وہ بہت ظالمانہ جوش سے پیش آئے۔ اور حکم دیا کہ مجھے ان سے بو آتی ہے۔ ان کو فاصلہ پر کھڑا کرو۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد حکم دیا کہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خود امیر صاحب رہتے ہیں قید کردو۔ اور زنجیر غر اغراب لگا دو۔ یہ زنجیر وزنی ایک من چوبیس سیر انگریزی کا ہوتاہے۔ گردن سے کمر تک گھیر لیتا ہے۔ اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے۔ اور نیز حکم دیا کہ پاؤں میں بیڑی وزنی آٹھ سیر انگریزی کی لگادو۔ پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمایش ہوئی کہ اگر تم اس خیال سے توبہ کرو کہ قادیانی درحقیقت مسیح موعود ہے۔ تو تمہیں رہائی دی جائے گی مگر ہر ایک مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا۔ کہ مَیں صاحب علم ہوں۔ اور حق و باطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے۔ مَیں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیا ہے کہ یہ شخص درحقیقت مسیح موعود ہے۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیر نہیں ہے۔ اور میرے اہل و عیال کی بربادی ہے۔مگر مَیں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں۔ شہید مرحوم نےنہ ایک دفعہ بلکہ قید ہونے کی حالت میں بارہا یہی جواب دیا۔ اور یہ قید انگریزی قید کی طرح نہیں تھی جس میں انسانی کمزوری کا کچھ کچھ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ بلکہ ایک سخت قید تھی جس کو انسان موت سے بدتر سمجھتا ہے۔ اسلئے لوگوں نے شہید موصوف کی اس استقامت اور استقلال کو نہایت تعجب سے دیکھا۔اور درحقیقت تعجب کامقام تھا۔ کہ ایسا جلیل الشان شخص کہ جوکئی لاکھ روپیہ کی ریاست کابل میں جاگیر رکھتا تھا۔ اور اپنے فضائل علمی اور تقویٰ کی وجہ سے گویا تمام سرزمین کابل کا پیشوا تھا۔ اور قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعماور آرام میں زندگی بسر کی تھی۔ اور بہت سا اہل و عیال اور عزیز فرزند رکھتا تھا۔ پھر یک دفعہ وہ ایسی سنگین قید میں ڈالا گیا جو موت سے بدتر تھی اور جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ پڑتا ہے۔ ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پرور دہ انسان وہ اُس روح کےگداز کرنے والی قید میں صبر کر سکے۔ اور جان کو ایمان پر فداکرے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ51تا 52)