اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جنوری 2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پنجاب پولیس نے احمدیوں کی عبادت گاہ کو جزوی طور پر مسمار کر دیا
کوٹ دیالداس، ضلع ننکانہ صاحب، جنوری 2021ء: محمد اصغر نامی شخص نے ڈی ایس پی ننکانہ کو احمدیہ عبادت گاہ کے محراب اور مینار کے خلاف درخواست جمع کرائی۔یہ اقدام محراب کے گرانے پر منتج ہوا، حالانکہ پاکستان کا قانون احمدیہ عبادت گاہوں میں محراب رکھنے سے منع نہیں کرتا۔
اس مخالفانہ درخواست کے بعد احمدیوں کو کہا گیا کہ وہ 8؍جنوری 2021ء کو ڈی ایس پی کے دفتر میں حاضر ہو کر اپنا موقف واضح کریں۔ چنانچہ آٹھ مقامی احمدیوں کے ایک وفد نے ڈی ایس پی کے دفتر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے متعلقہ علاقے کے ایس ایچ او اور اسپیشل برانچ کے چار افسران سے ملاقات کی۔ملاقات کے دوران ڈی ایس پی نے کہا کہ کوٹ دیالداس کی عبادت گاہ کے مینار اور محراب کو گرا دیا جائے گا، اور احمدیوں سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں تعاون کریں۔ احمدیوں کا کہنا تھا کہ یہ عبادت گاہ آرڈیننس XX کے نافذ ہونے سے پہلے بنائی گئی تھی، اور اس پر یہ قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔ مقامی جماعت کے صدر نے پولیس افسران کو مشورہ دیا کہ احمدیوں کی عبادت گاہ کے باہر ایک دیوار بنائی جا سکتی ہے تاکہ محراب کو چھپا یا جا سکے۔
پہلے تو پولیس افسران نے احمدیوں کی تجویز سے اتفاق کیا۔تاہم، اس کے بعد اسپیشل برانچ کے ایک افسر نے کہا کہ ایسا کرنے سے مینار موجود رہیں گے، اور کوئی دوبارہ درخواست جمع کرائے گا، اس لیے انہیں ہٹا دیا جائے۔ اس وقت احمدیوں نے پولیس افسران سے کہا کہ وہ مزید غور و خوض کے بعد انہیں مطلع کریں گے۔
15؍جنوری کو پولیس نے احمدیوں کی عبادت گاہ پر چھاپہ مارا اور احمدیوں سے کہا کہ محراب گرا دیں۔ احمدیوں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ احمدیوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ قانون کے مطابق چلیں، لیکن حکام کے پیش نظر کچھ اور تحفظات تھے۔
اس کے بعد پولیس نے کچھ مزدوروں کی مدد سے محراب کو توڑ دیا۔ علاقے کے ایس ایچ او نے احاطے کا دورہ کیا اور عبادت گاہ کے منہدم ہونے والے حصوں کی تصاویر لیں۔
پولیس نے احمدیوں کی عبادت گاہوں اور قبروں کی بے حرمتی کی اور انہیں نقصان پہنچایا
دھیروکے، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ، 26؍جنوری 2021ء: چند شرپسندوں نے یہاں احمدی مخالف بینرز لگائے اور احمدیوں کی قبور کے معاملے پر عوام کو مشتعل کیا۔انہی شرپسندوں نے احمدیوں کے خلاف پولیس کو ایک درخواست بھی جمع کرائی جس میں احمدیوں پر اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا۔ پولیس نے اسی کے مطابق کارروائی کی اور احمدیوں کی قبروں پر عربی الفاظ کو سیمنٹ سے ڈھانپ دیا۔
5؍دسمبر کو، اسسٹنٹ کمشنر اور پٹواری نے انکوائری کی غرض سے گاؤں کا دورہ کیا۔
26؍جنوری کو، تحصیلدار، پٹواری، اور ایس ایچ او نے گاؤں میں احمدیہ قبرستان کا دورہ کیا اور احمدیوں سے کہا کہ وہ پہلے سے بنائے گئے مقبروں کے کتبوں کو توڑ دیں۔ احمدیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر ان سرکاری اہلکاروں نے گاؤں سے ایک مستری کی مدد حاصل کی اور مقبروں کے کتبوں کو توڑ دیا۔ ایک احمدی ویڈیو بنا رہا تھا، پولیس نے اسے حراست میں لے لیا اور بعد میں چھوڑ دیا، لیکن اس کا موبائل فون اپنے پاس رکھا اور سب کو ویڈیو بنانے سے منع کر دیا۔
قبرستان میں آپریشن کے بعد پولیس اہلکار احمدیوں کی عبادت گاہ گئے اور احمدیوں سے کہا کہ وہ اسمائے الٰہیہ کو توڑ دیں لیکن احمدیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ پویس نے ایک مستری کی مدد سے عبادت گاہ میں آویزاں اسمائے الٰہیہ کو توڑ دیا۔ انہوں نے وہاں کیمرے بند کر دیے اور ڈی وی آر اپنے ساتھ لے گئے اور کہا کہ وہ اسے بعد میں واپس کر دیں گے۔ آپریشن غروب آفتاب تک جاری رہا۔ اس موقع پر غیر احمدیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
ایس ایچ او نے احمدیوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں پر آویزاں سے مقدس تحریریں خود ہی توڑ دیں۔ احمدیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر پولیس نے احمدیوں کے گھروں سے مقدس تحریروں کو توڑنے کی دھمکی دی۔
گوجرانوالہ میں احمدی کا قتل
کھیوے والا، ضلع گوجرانوالہ،25؍جنوری 2021ء: ایک احمدی صوفی غلام احمد کو صبح تقریباً 9:30 بجے دو نامعلوم افراد نے ان کے کاروباری مقام کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مرحوم کی عمر 70 برس تھی اور آپ ایک معروف اوراچھی شہرت کے حامل احمدی تھے۔ انہیں ماضی قریب میں دھمکیاں ملی تھیں اور دس لاکھ روپے تاوان کی رقم فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔ قاتل شاید اشتہاری مجرم تھے۔ صوفی غلام احمد مرحوم نے اپنے پیچھے بیوی، ایک بیٹا اور چار شادی شدہ بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔
ان کے ایک بھتیجے غلام سرور کو چند سال قبل اغوا کیا گیا تھا۔ جسے بھاری تاوان ادا کرنے کے بعد رہا کروایا گیا تھا۔
مجسٹریٹ نے احمدیوں کے خلاف چارج شیٹ میں دفعہ 295-C اور 295-B PPC کے اضافے کی تجویز دی
ننکانہ صاحب، 4؍جنوری 2021ء: اس مرتبہ یہ ایک مجسٹریٹ ہے جس نے تین احمدیوں کے خلاف لگائے گئے الزامات میں توہین رسالت کی خوفناک دفعات شامل کرنے کا حکم دیا ہے جن پر پہلے احمدی مخالف قوانین کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ کیس کا پس منظر مختصراً ذیل میں دیا جاتا ہے۔
شرافت احمد، اکبر علی اور طاہر نقاش کے خلاف احمدی مخالف قوانین PPC 298-B اور 298-C کے تحت 2؍ مئی 2020ء کو تھانہ مانگٹانوالہ، ضلع ننکانہ میں جھوٹی بنیادوں پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جس پر انہیں 2؍اکتوبر 2020ء کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس کے بعد ملزم نے ’’ضمانت بعد از گرفتاری‘‘ کی درخواست دائر کی۔ مجسٹریٹ عادل ریاض نے 23؍اکتوبر 2020ء کو ان کی درخواست مسترد کر دی۔ چنانچہ ملزمان نے اپیل کے لیے سیشن کورٹ سے رجوع کیا۔8؍دسمبر 2020ء کو اے ایس جے سہیل انجم نے ان کی درخواست مسترد کر دی جس پر لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی ۔یہ کیس اب جسٹس محمد وحید خان کے سامنے پیش ہوا۔
س دوران ملاؤں نے ان تینوں احمدیوں کی حالت کو مزید خراب کرنے کے لیے ننکانہ صاحب کے مجسٹریٹ ایم عادل ریاض کو ایک نئی درخواست دی کہ مقدمے میں دیگر دفعات شامل کی جائیں۔ مجسٹریٹ نے 4؍جنوری 2021ء کو کیس کی سماعت کی، اور سپریم کورٹ کے انتہائی متنازعہ فیصلے ’’ظہیر الدین بمقابلہ ریاست اور LHC کے 1987ءاور 1992ء کے فیصلوں‘‘ کی حمایت حاصل کرتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ توہین رسالت کی شق PPC 295-C اور 295-B کو چارجز میں شامل کیا جائے۔ ان دو شقوں کے تحت سزائیں بالترتیب موت اور عمر قید ہیں۔
ذیل میں مجسٹریٹ کے حکم 4.1.2021سے دو اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ ملزم چونکہ آئین کی رو سے کافر ہیں ان کے قبضے سے ناپاک مقام سے مقدس صحیفہ کی کاپیوں کا برآمد ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ملزمان کی نیت بد تھی۔چنانچہ یہ تعزیراتِ پاکستان 295-B کے تحت توہین قرآن کے زمرے میں آتا ہے۔ اس شق کے مطابق کوئی فرد جو قرآن کریم کے نسخہ کو دانستہ نقصان پہنچاتا یا شہید کرتا ہے ، وہ عمر قید کا حق دار ٹھرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اسم مبارک بھی آتا ہے اور قادیانیوں کا قرآن کریم کی تلاوت کرنا تعزیراتِ پاکستان 295-C کی خلاف ورزی بھی ہے۔
اس طرح مجسٹریٹ نے ابتدائی الزامات میں تعزیراتِ پاکستان کے ایسے حصے شامل کرنے کا فیصلہ کیا جن کی سزا موت اور عمر قید ہے۔ انہوں نے احمدیوں کے ان مقامات کو جہاں وہ اپنے مقدس صحیفوں کو رکھتے ہیں ’’ناپاک مقام‘‘ قرار دیا۔ مجسٹریٹ نے پہلے تین احمدیوں پر صرف قرآن پاک کا نسخہ رکھنے پر قرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگایا اور پھر مزید کہا: ’’قادیانیوں کی طرف سے قرآن پاک کی تلاوت 295-Cکے دائرہ کار میں آتی ہے۔‘‘
مختصراً یہ کہ اس مجسٹریٹ نے تین احمدیوں پر قرآن پاک کا نسخہ رکھنے کے جرم میں عمر قید اور یہاں تک کہ موت تک کی سزا دینے کے لیے سفارش کی ہے۔
(جاری ہے)