مرکز احمدیت قادیان دارالامان میں عظیم الشان جماعتی روایات کے ساتھ 126ویں جلسہ سالانہ کا کامیاب و بابرکت انعقاد
٭… حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
٭…روایتی انداز میں جلسہ کی تیاریاں، معائنہ کارکنان، علمائے کرام کی ٹھوس تقاریر
الحمد للہ کہ جلسہ سالانہ قادیان بستان احمدکے وسیع احاطہ میں مورخہ 24، 25 و 26؍دسمبر2021ء بروز جمعہ، ہفتہ و اتوار منعقد ہو کر بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا۔ کووِڈ کے موجودہ حالات کے پیش نظر حضور انور کی راہنمائی و ارشادات کی روشنی میں قادیان آکر جلسہ سننے والوں کی حاضری گرچہ کہ محدود تھی لیکن لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ سے پورے ہندوستان کے احمدیوں نے اس جلسہ سے خوب استفادہ کیا بلکہ بیرون ملک بھی جلسہ سالانہ قادیان دیکھا اور سنا گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مشکل حالات میں بھی ہمارے لیے نئے راستے تبلیغ وتربیت کے مہیا کردیے۔ دو سال کے وقفہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی راہنمائی اور دعاؤں کی بدولت جلسہ کا انعقاد ممکن ہوسکا جس نے ماہِ دسمبر میں قادیان دارالامان کی بستی کو ایک بار پھر خوشیوں اور رونقوں سے بھردیا۔ اور ایک بار پھر قادیان کے باسیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی آمد اور ان کے استقبال کی خوشی میں اپنے اپنے گھروں اور محلوں اور گلی کوچوں کی صفائی کی اور ہر ایک نے اپنے اپنے رنگ میں جلسہ کی تیاری کی۔ اجتماعی وقار عمل کے ذریعہ پورے قادیان کو صاف ستھرا کیا گیا۔ جلسہ سے کچھ دن پہلے ہی نظامت بجلی وروشنی کی طرف سے محلہ کی تمام گلیوں اور سڑکوں کو ٹیوب لائٹس کے ذریعہ روشن کردیا گیا۔ بہشتی مقبرہ، دارالمسیح، مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح کو بجلی کے چھوٹے چھوٹے رنگین بلبوں سے دُلہن کی طرح سجایا گیا۔ اس طرح مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی یہ رُوحانی بستی اپنی باطنی جگمگاہٹ کے ساتھ ساتھ ظاہری طور پر بھی جگمگا اُٹھی۔
معائنہ کارکنان وانتظامات جلسہ
مورخہ 21 دسمبر 2021 بروز منگل تقریباً پونے گیارہ بجے جلسہ گاہ بستان احمد میں نمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مولانا محمد انعام غوری صاحب، ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان کی زیر صدارت معائنہ کارکنان کی تقریب عمل میں آئی۔ تقریب کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سےشروع ہوئی جو عزیز لقمان احمد تقی نے کی اور ترجمہ پیش کیا۔ اس کے بعد محترم ناظر صاحب اعلیٰ و امیر مقامی نے اپنے خطاب میں اس للّٰہی جلسہ کی اہمیت و برکات پر روشنی ڈالی اور ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ نیز آپ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے حوالہ سے جلسہ میں تشریف لانے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ان کے ساتھ نہایت عزت و احترام کے ساتھ پیش آنے کی نصیحت کی۔ اور آخر پر تمام کارکنان کو دعاؤں پر زور دینے کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے بعد ناظر صاحب اعلیٰ نےدعا کرائی اور اس طرح معائنہ کارکنان کی یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
مورخہ 24 دسمبر 2021ء جلسہ کا پہلا دن
افتتاحی اجلاس
جلسہ سالانہ کا افتتاحی اجلاس مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب صدر، صدرانجمن احمدیہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس سے قبل آپ نے ٹھیک دس بجے لوائے احمدیت لہرایا اور دعا کروائی۔ مکرم طارق احمد لون صاحب آف کاٹھپورہ کشمیر نے سورۃ الانفال کی آیات 21 تا 26 کی تلاوت کی۔ ان آیات کا ترجمہ مکرم جمال شریعت احمد صاحب نائب انچارج شعبہ نورالاسلام نے پیش کیا۔ اس کے بعد صدر اجلاس نے افتتاحی خطاب کیا۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں بتایا کہ یہ جلسہ دُنیاوی میلوں کی طرح ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کے انعقاد کی غرض ایمان اور معرفت میں ترقی کرنا ہے۔ آپ نے جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت اختیار کرنے والے بعض افراد کے جلسہ کے متعلق ایمان افروز تاثرات بیان کیے۔ آخر پر صدر محترم نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لیے اس زمانہ کے مامور و مرسل حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے جو دعائیں کی ہیں وہ پیش کرکے اپنے خطاب کو ختم کیا۔ اس کے بعد نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ترانہ کی شکل میں مکرم مرشد احمد ڈار اور ان کے ساتھیوں نے نہایت خوش الحانی سے پیش کی۔
جلسہ سالانہ کے پہلے اجلاس کی پہلی تقریر مولانا محمد انعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ وامیر مقامی قادیان نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’سربراہان ریاست کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ حسنہ‘‘۔ آپ نے سورہ نساء آیت 59، سورہ حج آیت 42 اور سورہ طٰہٰ آیت 119 اور 120 کی تلاوت کی اور ان کا ترجمہ پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ ان تین آیات میں کسی بھی ریاست کے عوام اور حکام خواہ وہ کسی طرزِ حکومت سے تعلق رکھنے والے ہوں، دونوں کے لیے واضح پیغام اور لائحہ عمل دیا گیا ہے۔ انتخاب کا جمہوری عمل مکمل طور پر دیانتداری پر مبنی ہونا چاہیے۔ اور جب حکومت قائم ہوجائے تو کامل عدل و انصاف کے ساتھ بلا امتیاز مذہب و ملت رنگ و نسل رعایا کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش ہونی چاہیے۔ عوام کے تمام حقوق مہیا کرنے کی کوشش کی جائے اس غرض کے لیے اسلام نے زکوٰۃ اور جزیہ کا نظام جاری کیا۔ ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو عبادت میں آزادی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد آپ نے سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اُسوہ حسنہ تاریخی واقعات کی روشنی میں پیش کیا۔ آپؐ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سب سے پہلے نماز باجماعت کے لیے مسجد بنوائی۔ ایک ایک مہاجر کا مدینہ کے ایک ایک انصار کے ساتھ مؤاخات کا رشتہ قائم فرمایا۔ آپؐ نے مشرکین و یہود کے قبائل کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا تاکہ صلح اور امن کا ماحول پیدا ہو۔ آپؐ نے اپنے اعلیٰ اخلاق اور رواداری اور مساوات اور کامل عدل و انصاف کے ذریعہ مدینہ منورہ کو ایک مثالی ریاست بنادیا۔ آپؐ نے عیسائیوں، یہودیوں، مشرکوں کو مکمل مذہبی آزادی دے رکھی تھی اور کمال عدل و انصاف کو قائم کیا۔ آپؐ خود بنفس نفیس موقع پر پہنچ کر کام میں حصہ لیتے،ہر اہم امور میں راہنمائی فرماتےاور قوم کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ ایک اور اہم خصوصیت یہ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ریاست مدینہ کے سربراہ بننے سے پہلے اور بعد کی زندگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ مکی زندگی کی کسمپرسی اور بے سروسامانی کے زمانہ میں جو آپؐ کا رہن سہن تھا، مدینہ کے بادشاہ بن جانے کے بعد بھی اُس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی نوکر نہیں رکھا، خود ہی سب کام کرتے تھے۔ ضرورت مندوں کا ہمیشہ خیال رکھا مگر اپنی ذات اور اپنے اہل بیت کو قومی خزانے سے استفادہ کرنے سے ہمیشہ روکے رکھا۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر ’’سیرت صحابہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ و حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ‘‘ کے عنوان پر مکرم محمد شریف کوثر صاحب نے کی۔ یہ تقریر ڈاکٹر عبدالخالق صاحب صدر مجلس انصار اللہ پاکستان کی تھی جو مکرم محمد شریف کوثر صاحب استاذ جامعہ احمدیہ قادیان نے پڑھ کر سنائی۔ آپ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ معدن نبوت کا یہ گوہر شب چراغ، صلح کا شہزادہ، فتنہ و فساد کی بیخ کنی کرنے والا، سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کو پورا کرنے والا نواسہ رسولؐ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا فرزند سن ہجری کے تیسرے سال رمضان المبارک کے مہینہ میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کانوں میں اذان دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت حسن پیدا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے بیٹے کو مجھے دکھاؤ تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ مَیں نے عرض کی کہ مَیں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حرب نہیں ہے اس کا نام حسن ہے۔ آپؐ نے حضرت حسن کے متعلق فرمایا اَے اللہ مَیں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرتا ہے اس سے بھی محبت کر۔ آپؓ حضرت عثمانؓ کے عہد میں پورے جوان ہوچکے تھے اور جب باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپ ؓنے اور آپؓ کے ساتھیوں نے اس خطرہ اور فتنہ کی حالت میں نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ حملہ آوروں کی مدافعت کی اور باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا۔ اس مدافعت میں خود بھی بہت زخمی ہوئے۔ سارا بدن خون سے رنگین ہوگیا۔ حضرت علی ؓکی وفات کے بعد 40ہجری میں حسن بن علی سے خلافت کی بیعت ہوئی اور چند ماہ بعد مسلمانوں کے خون کی حفاظت کے لیے، فتنہ و فساد کا قلع قمع کرنے کے لیے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کردیا اور معاویہ سے گزارا لے لیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفت و عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے۔ (تریاق القلوب جلد 15 صفحہ 364 حاشیہ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپؓ کو الہام الٰہی میں قمر الانبیاء قرار دیا گیا۔ 20؍اپریل 1893ء کو آپؓ پیدا ہوئے اور 2 ستمبر 1963ء کو آپؓ کی وفات ہوئی۔ قریباً پون صدی میں آپؓ نے انبیاء علیہم السلام کی عظمت کے قیام اور ان کے نوروں کی پیروی و اشاعت کے ذریعہ اور مصیبت زدہ انسانوں کے لیے ٹھنڈی چاندنی کی کیفیت پیدا کرکے واقعی اپنا قمرالانبیاء ہونا ثابت کردیا۔ آپؓ میں تقویٰ بہت سے پہلوؤں سے نمایاں تھا۔ عجز و انکساری خود نمائی سے کلی اجتناب،خودپسندی سے کوسوں دور ، کھانے پینے، لباس اور رہائش میں ایک دلکش سادگی اختیار کرنا، دنیوی زندگی کو صرف آخرت کی سواری کے طور پر استعمال کرنا اور اسے دین کی خدمت کے لیے وقف کرنا، تکالیف کو خوشی سے برداشت کرنا، صبر و استقلال کا اعلیٰ نمونہ دکھانا، ہمدرری خلائق سےمعمور رہنا، یادِ الٰہی کو غذا بنانا اور محبت الٰہی سے سرشار رہنا، یہ سب تقویٰ اللہ کے کرشمے تھے جو آپؓ میں ظاہر ہوتے تھے۔ اس تقریر کے بعد بارہ بجے افتتاحی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
نماز جمعہ
جلسہ گاہ میں نماز جمعہ کے لیے پہلی اذان ایک بجے ہوئی اور خطبہ ڈیڑھ بجے شروع ہوا۔ نماز جمعہ مکرم حافظ مخدوم شریف صاحب نائب ناظر اعلیٰ نے پڑھائی اور خطبہ میں حضور انور کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ بیان کیا۔
پہلا دن دوسرا اجلاس
پہلے دن کے دوسرے اجلاس کی کارروائی دوپہر ٹھیک دوبجے شروع ہوئی اس اجلا س کی صدارت محترم جلال الدین نیّر صاحب صدرمجلس تحریک جدیدقادیان نے کی۔ مکرم مرشد احمد صاحب ڈار استاذجامعہ احمدیہ قادیان نے سورۃ الاعراف آیات 55تا59کی تلاوت کی اور ترجمہ مکرم مولوی سید کلیم الدین احمد صاحب مرکزی قاضی دارالقضاء قادیان نے تفسیر صغیر سے پیش کیا۔ بعدہٗ مکرم نَصرٌمِّنَ اللّٰہ صاحب نائب ناظر امورعامہ قادیان نے سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منظوم کلام
نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو
سے چند اشعار نہایت خوش الحانی کے ساتھ سنائے۔
اس اجلاس میں علماء کی دو تقریریں ہوئیں۔ پہلی تقریر مولانا محمد کریم الدین صاحب شاہد نے کی۔ آپ کی تقریر کا موضوع ’’ہستی باری تعالیٰ قبولیت دعا کی روشنی میں‘‘ تھا۔ آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ ایک زندہ اور متصرف خدا ہے جو اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان پر یقینی نتائج مرتب کرتا ہے۔ مذاہب عالم کی تاریخ اور روایات سے یہ بات بڑی نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے ہر نبی نے قبولیت دعا کے ذریعہ زندہ خدا کی ہستی کا ثبوت دیا ہے۔ قرآن کریم نے بھی متعدد انبیاء اور ان کے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے قبولیت دعا کے کئی واقعات بیان کیے ہیں۔ آپ نے حضرت آدم علیہ السلام کے مقابل ابلیس وغیرہ سرداران کابُرا انجام، حضرت نوح علیہ السلام اور آپؑ کی قوم کا ذکر، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں یہود کی ریشہ دوانیاں اور عیسیٰ علیہ السلام کا صلیب سے بچنا،حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور کفارمکہ ، حضرت رام چندر جی اور حضرت کرشن علیہم السلام اوران کے مخالفین کے بارہ میں متعدد واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی قبولیت دعا کے واقعات پیش کیے اور اس کے بعد آپ نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کے قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات بھی سنائے۔ یہ قبولیت دعا کے واقعات دراصل ہستی باری تعالیٰ کے وجود پر شاہد ناطق ہیں اور اس کے ظہور کے لیےتقویٰ، طہارتِ نفس، عاجزی اور انکساری کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎
کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب ا س کو پاوے
جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
دوسری تقریرمکرم کے طارق احمد صاحب صدرمجلس خدام الاحمدیہ بھارت نے ’’نئی نسل کی تربیت اور خلافت احمدیہ‘‘ کے عنوان پر کی۔ آپ نے بتایا کہ نبی کی طرح خلیفہ وقت کے دل میں بھی ہمیشہ یہ حرص رہتی ہے کہ اس کے متبعین صراط مستقیم پر گامزن رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبوت کے جوکام بیان فرمائے ہیں انہی کاموں کو خلیفہ وقت آگے بڑھاتا ہے۔ خلفاءکے کاموں میں تزکیہ اور تربیت نفوس بنیادی کام ہیں جس کے لیے وہ سعی بلیغ کرتے ہیں۔ نیز راتوں کو دعائیں کرتے ہیں۔ یہ نعمت آج صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے الحمد للہ۔ اس نعمت سے ہم کس طرح استفادہ کرسکتےہیں اور اپنی اور آئندہ نسل کی تربیت کے سامان کیسےکرسکتے ہیں یہ اہم سوال ہے۔ چنانچہ اسکے لیے ہمیں اس پاک وجود سے ذاتی تعلق قائم کرنا چاہیے اور خلیفہ وقت سے وابستگی کے ہر ذریعہ کو استعمال کرنا چاہیے۔ خلیفۃ المسیح کے ارشادات، خطبات و خطابات اور ان کی روحانی مجالس کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سمعنا واطعنا جو مومنین کا شعار ہےاس کے مطابق حضورکی آواز کو سننا اور پھر اس پر لبیک کہتےہوئے عمل کرنا چاہیے ۔حضورانور کے خطبات اور خطابات کو باقاعدہ سننے سے ہی ہمیں معلوم ہوگا کہ حضورکو ہم سے کیا توقعات ہیں۔حضورانور کس طرح ہماری زندگیوں کو سنوارنا چاہتے ہیں اور کس طرح ہمار ی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ پس جو احمدی ان خطبات اور خطابات کو باقاعدہ نہیں سنے گا وہ خلافت کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی روحانی تربیت سے محروم رہے گا۔ اسی طرح خطوط کے ذریعہ خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق قائم کرکے انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرسکتا ہے۔ خطوط کے ذریعہ ہم خلیفہ وقت کی دعاؤںکے وارث بن سکتے ہیں جو ہماری اور آئندہ نسل کی تربیت کے لیے از بس لازم ہے۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم خلافت کی ڈھال کے پیچھے ہیں۔ اس زمانہ میں جبکہ ہر طرف مسلمان فساد وعناد میں مبتلا ہیں ہم خلافت کے مضبوط قلعے میں محفوظ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خلافت کے کامل مطیع وفرمانبردار بنیں تاکہ فیض خلافت سے حصہ پاسکیں۔ اس کے بعد صدراجلاس کی اجازت سےپہلے دن کا دوسرا اجلاس برخاست ہوا۔
مورخہ 25 دسمبر 2021ء جلسہ کا دوسرا دن
دوسرا دن پہلا اجلاس
دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی کارروائی ٹھیک دس بجے شروع ہوئی۔ اس اجلاس کی صدارت محترم شیراز احمد صاحب نائب ناظر اعلیٰ جنوبی ہند نے کی۔ تلاوت قرآن مجید حافظ فاروق اعظم نے کی۔ انہوں نے سورۃ البقرہ کی آیات 262 تا 265 کی تلاوت کی۔ ان آیات کا ترجمہ مکرم محمد نصر غوری صاحب نائب انچارج نورالاسلام نے سنایا۔ اس کے بعد نظم مکرم عبدالواسع ملکانہ صاحب نے خوش الحانی سے سنائی۔ آپ نے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ منظوم کلام
نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
میں سے چند اشعار نہایت خوش الحانی سے سنائے۔ اس کے بعد اس اجلاس میں تین تقاریر علمائے کرام نےکیں۔
پہلی تقریر مکرم عطا الٰہی احسن غوری صاحب ناظم تعمیرات نے کی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا ’’سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن مجید سے آپؑ کا عشق اور خدمتِ قرآن کی روشنی میں‘‘۔ آپ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سےملنے والے قرآنی حقائق و معارف کے ذریعہ جہاں دیگر مذاہب کے عقائد حیاتِ مسیح، تثلیث، ابنیت مسیح، کفارہ، تناسخ، قدامت روح و مادہ وغیرہ کا ردّ فرمایا وہیں مسلمانوں کے عقائد فاسدہ کی اصلاح کرتے ہوئے وفات مسیح، اجرائے نبوت، عصمت انبیاء، نزول مسیح وغیرہ امور پر قرآنی شواہد سے روشنی ڈالی۔ نیز مسلمانوں میں پھیلی ہوئی بدرسوم کا بھی قرآن مجید کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں بحیثیت حکم و عدل خاتمہ کیا۔ آپؑ نے مسلمانوں میں مدتوں سے چلے آرہے ناسخ و منسوخ کے مسئلہ کو حل فرمایا۔ مقررنےقرآن مجید کی عظمت و شان اور ایک واحد ہادی و رہنما کتاب ہونے کے متعلق سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت دلنشیں، پُرمعارف ارشادات عالیہ پیش کیے۔ حضورؑ فرماتے ہیں:
’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تد ّبر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے۔‘‘
نیز مقرر موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق قرآن مجید کے واقعات بھی سنائےان میں سے ایک واقعہ پیش ہے۔ محترم میر حسن صاحب سیالکوٹی بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت مرزا صاحب پہلےمحلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پُرمعاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے، عمرہ نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے۔ کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر، کھڑے ہوکر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اُس کی نظیر نہیںملتی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 252)
اس اجلاس کی دوسری تقریر مولانا رفیق احمدبیگ صاحب ناظر بیت المال آمد نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’مالی قربانی کی اہمیت سیرت صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں‘‘۔ آپ نے سب سے پہلے مالی قربانی کی اہمیت پر قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کی اور ان کا ترجمہ پیش کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کرام کی مالی قربانی کےنہایت ایمان افروز واقعات پیش کیے۔
اس اجلاس کی تیسری تقریر مولانا محمد حمید کوثر صاحب نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مقبول دعاؤں کے ایمان افروز واقعات‘‘۔ آپ نے سب سے پہلےقبولیت دعا کےمتعلق سورۃ البقرہ کی آیت 87 کی تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے : اَے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو (تُو جواب دے کہ) مَیں ان کے پاس ہی ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ سو چاہیے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں۔
خلیفہ وقت کی عظمت و اہمیت کو واضح کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت کا جو خلیفہ ہو، وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدے کی رُو سے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لیے ساری دنیا سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہوگا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقیناً اُسے ’’بعد از خدا بزرگ تُوئی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے حضور انور کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات سنائے جن میں سے ایک واقعہ یہاں پیش ہے۔
4 مئی 2006ء جمعرات کا دن تھا۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ لعزیز اپنے دورہ کے دوران ’’ناندی‘‘ فجی میں تھے۔ رات قریباً تین بجے کا وقت تھاکہ ٹی وی پر خبریں آنے لگیں کہ ایک بہت بڑا سونامی طوفان فجی کے ساتھ والے جزائر Tongaمیں آیا ہےاور یہ طوفان طاقت کے لحاظ سے انڈونیشیا والے سونامی سے بڑا ہےجس نے لکھوکھہا لوگوں کو غرق کر دیا تھا اور دنیا کے کئی ممالک میں تباہی مچائی تھی۔ جب ٹی وی آن کیا تویہ خبریں آرہی تھیں کہ یہ سونامی مسلسل اپنی شدت اور طاقت میں بڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت ’’ناندی‘‘ فجی کا سارا علاقہ غرق ہوجائے گا اور ارد گرد کے جزائر بھی غرق ہوجائیں گے۔ آسٹریلیا کا ایک حصہ بھی غرق ہو گا اور یہ نیوزی لینڈ کے بھی ایک بڑے حصہ کو غرق کر دے گا۔صبح ساڑھے چار بجے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نماز فجر کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے تو حضور انور کی خدمت میں اس طوفان کے بارہ میں رپورٹ پیش ہوئی۔ حضور انور نے نماز فجر پڑھائی اور بڑے لمبے سجدے کیے اور خدا کے حضور مناجات کیں۔ نماز سے فارغ ہو کر مسیح کے خلیفہ نے احباب جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’فکر نہ کریںاللہ تعالیٰ فضل فرمائے گاکچھ نہیں ہوگا۔‘‘ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل واپس تشریف لے آئے۔ واپس آکر جب ٹی وی آن کیا گیا تو ٹی وی پر یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ اس سونامی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی شدت ختم ہو رہی ہے۔ پھر تقریباً دو اڑھائی گھنٹے بعد یہ خبر یں آ گئیں کہ اس سونامی کا وجود ہی مٹ گیا ہے۔ پس اس روز دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ سونامی جس نے اگلے چند گھنٹوں میں لکھوکھہا لوگوں کو غرق کرتے ہوئے اس سارے علاقہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا تھا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی دعا سے چند گھنٹوں میں خود اس کا وجود مٹ گیا۔ اس روز فجی کے اخبارات نے یہ خبریں لگائیں کہ سونامی کا ٹل جانا کسی معجزہ سے کم نہیں۔
دوسرا دن دوسرااجلاس
دوسرے دن کے دوسرے اجلاس کی کارروائی کا آغاز محترم سیّد تنویر احمد صاحب صدر مجلس وقف جدید کی صدارت میں ہوا۔ تلاوت مکرم عُمیر احمد عباس صاحب متعلم جامعہ احمدیہ قادیان نے کی۔ انہوں نے سورۃ الصف کی آیات 7 تا 10 کی تلاوت کی جس کا ترجمہ مکرم قمرالحق خان صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد مکرم رضوان احمد صاحب استاذ جامعہ احمدیہ قادیان نے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل منظوم کلام میں سے چند اشعار نہایت خوش الحانی سے پیش کیے۔
ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے
نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے
اس کے بعد مولانا منیر احمد خادم صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد جنوبی ہند نے ’’جماعت احمدیہ کی ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کی روشنی میں‘‘کے عنوان پر تقریر کی۔ آپ نے انبیاء علیہم السلام کی جماعت کی ترقیات اور ان کے غلبہ کے متعلق قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں۔ اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جماعت کی ترقی اور غلبہ کے متعلق جو الہامات فرمائے اور جو پیشگوئیاں عطا فرمائیںوہ بھی آپ نے سنائیں۔ آپ نے جماعتی ترقیات کا ایک مختصر خاکہ یوں بیان کیا کہ سال 2019ء تک تمام دنیا میںجماعت 213 ممالک میں پھیل گئی۔ اور جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے حوالہ سے بتایا کہ صرف ایک سال میں 403 نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ 829 جگہوں میں پہلی بار جماعت کا پودا لگا۔ 211 مساجد تعمیر ہوئیں۔ 92 ممالک میں 384 کتب وپمفلٹ 39 زبانوں میں شائع ہوئے۔ 123 نئے مشن بنے۔ دنیا کے 102 ممالک میں جماعتی مضامین شائع ہوئے۔ 90 ممالک کی لائبریریوں میں کتب رکھی گئیں۔ 1970 نمائشیں لگیں۔ 103 ممالک میں 69 لاکھ سے زیادہ لیف لیٹس تقسیم ہوئے۔ MTAکے 8 چینل 24 گھنٹے دنیا کی 17 زبانوں میں اسلامی پروگرام نشر کررہے ہیں جن سے لاکھوں افراد فائدہ اٹھارہے ہیں۔ 27 ریڈیو اسٹیشن چل رہے ہیں۔ 75 ہزار سے زائد واقفین اور واقفات نو کی روحانی فوج تیار ہورہی ہے۔ سال 21-2020ء میں ایک لاکھ اکیس ہزار بیعتیں ہوئیں۔
اس کے بعد جلسہ گاہ میں حضور پُرنور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا وہ اختتامی خطاب حاضرین کو سنایا گیا جو حضور نے جلسہ سالانہ جرمنی سے 9؍اکتوبر 2021ء کو فرمایا تھا۔
مورخہ 26 دسمبر 2021ء جلسہ کا تیسرا دن
تیسرا دن پہلا اجلاس
جماعتی روایات کے مطابق ایک محفوظ بکس میں لوائے احمدیت خدام کی پہرےداری میں جلسہ گاہ لایا گیا۔ پانچ اعلیٰ عہدیداران مکرم مظفر احمد ناصر صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ و افسرجلسہ گاہ، مولانا محمد حمید کوثر صاحب ناظر دعوت الی اللہ شمالی ہند، مکرم ایم ناصرصاحب ایڈیشنل ناظر دعوت الی اللہ جنوبی ہند، مکرم کے ناصر احمد صاحب ناظم مال وقف جدید قادیان اور مولاناعطاء المجیب لون صاحب صدرمجلس انصاراللہ بھارت لوائے احمدیت کے اعزاز میں ساتھ تھے۔ صبح ٹھیک دس بجے محترم سید تنویر احمد صاحب صدرمجلس وقف جدید وقائم مقام صدرقضاء بورڈ قادیان نے لوائے احمدیت لہرایا اور پھر اجتماعی دعا کروائی۔ اسٹیج سے ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم کی دعائیں دہرائی جارہی تھیں اور اس کے بعد نعرئہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں۔
مولانا محمدحمیدکوثر صاحب ناظر دعوت الی اللہ شمالی ہند کی صدارت میں پہلے اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا جوکہ حافظ سیار احمد صاحب مبلغ سلسلہ نے کی۔آپ نےسورۃ النساء کی آیات 58تا60 کی تلاوت کی۔ ان آیات کا ترجمہ مولوی مظہراحمد وسیم صاحب نائب افسرجلسہ سالانہ قادیان نے پیش کیا۔ بعدہٗ مکرم سعید احمدملکانہ صاحب مربی سلسلہ نے نہایت خوش الحانی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےمندرجہ ذیل منظوم کلام میں سے کچھ اشعار خوش الحانی سے سنائے۔
کیوں عجب کرتے ہو گر مَیں آگیا ہوکر مسیح
خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار
بعدازاںاس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم جاوید احمد لون صاحب ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ قادیان نے کی۔ آپ کی تقریر کاعنوان تھا۔ ’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تبشیری وانذاری پیشگوئیاںموجودہ زمانہ کے حوالہ سے‘‘۔ آپ نے اپنی تقریر میں سیّدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بہت سی تبشیری پیشگوئیوں کا ذکر کیا جن میں سے کچھ کا ذکر ذیل میںکیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کوخوشخبری دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ اس پیشگوئی کے مطابق آج آپؑ کی جماعت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ آج ایم ٹی اے کے 8چینل پوری دنیا میں تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ 1882ء میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایاتھا I shall give you a large party of Islam ۔ اس پیشگوئی کے مطابق آج کروڑوں کی تعدادمیں احمدی نفوس ساری دنیامیں موجودہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا ینقطع ابائک ویبدأ منک کہ خداتعالیٰ تیرے باپ دادےکاذکر منقطع کرےگااور خدا اِس خاندان کی بزرگی کی تجھ سے بنیاد ڈالے گا۔ جس وقت حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا اُس وقت خاندان میں 70کےقریب مردتھے وہ سب کے سب نرینہ اولادسے محروم رہے۔ جبکہ آج صرف حضرت مصلح موعودؓ کی جسمانی اولادکی تعداد450سے تجاوز کرچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ اَنَاوَرُسُلِیْ۔لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ یہ پیشگوئی بھی عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئی۔اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری پیشگوئیوں میں فاضل مقرر نے زلازل اور عالمی جنگوں اور وباؤں سے متعلق آپ کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ایمان افروز و پُرمعارف شعر پراپنی تقریر ختم کی۔
ہےکوئی کاذب جہاں میں لاؤلوگوکچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں باربار
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم شیراز احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اعلیٰ جنوبی ہند نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’موجودہ ذرائع ابلاغ اوردعوت الی اللہ‘‘ تھا۔آپ نے بتایا کہ موجودہ دورمیں دہریت پھیل رہی ہے۔ دنیامیں توحیدپھیلانے کے لیے ہمیں اب اپنی تمام ترصلاحیتیوں اورطاقتوں کے ساتھ میدان عمل میں آناچاہیے۔حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ 10مئی 2019ء میں دعاکی طرف توجہ دلائی ہے۔ پھرحضورنے درس القرآن 4جون 2019ء میں فرمایا کہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ہم دنیاکواللہ تعالیٰ کی پہچان کرائیں۔ حضوراقدس 26؍اکتوبر 2018ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں کہ گزشتہ 100سال میں جتنے زلزلے ،طوفان اورآفات آئے وہ اس سے پہلے نہیں آئے۔پس اپنے آپ کو اوردنیاکو بچانے کے لیے بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے بتایا کہ خلیفہ وقت دنیاکو تیسری عالمی جنگ سے بچانے کے لیے بہت دعائیں کررہے ہیں۔ اس کے لیے مختلف خطابات کے ذریعہ سے حضورکوشش کررہے ہیںپس ہمیں بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں،تبلیغ کرنی چاہیے۔ قیام امن عالم اور ہستی باری تعالیٰ کے حوالہ سے تبلیغ کرنی چاہیے۔ تیسری عالمی جنگ سے قبل ہی لوگوں کو اس کے بارے میں بتانا چاہیے اور جماعت کا تعارف کروانا چاہیے۔ پھر اگر خدانخواستہ تیسری جنگ ہوتی ہے تو ہمارے لیے تبلیغ کے راستے کھلیں گے اور ہماری طرف توجہ پیدا ہوگی۔ حضور انورنے پیغام پہنچانے کایہ طریق بتایا کہ تقویٰ سے آراستہ ہوکر خلیفہ وقت کی راہنمائی میں اس تعلیم کو ساری دنیامیں عام کرنا ہے۔ مومن اپنا ہرقدم خلیفہ وقت کے پیچھے اور اس کے تابع اُٹھاتا ہے۔ اپنی مرضی اور خواہشات کو خلیفہ وقت کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتاہے۔ اپنی تدبیروں کو، اپنے ارادوں کو، اپنی آرزوؤں کو، اپنے سامانوں کو خلیفہ وقت کے تابع کرتاہے۔ تبھی کامیابی اور فتح یقینی ہوتی ہے۔
اس اجلاس کی تیسری تقریر حافظ مخدوم شریف صاحب نائب ناظراعلیٰ وناظرنشرواشاعت قادیان نے ’’کتب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام، خلفائےکرام اورجماعتی اخبارات و رسائل کے مطالعہ کی اہمیت‘‘ کے عنوان پر کی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے مظوم کلا م میں فرماتے ہیں۔
صف دشمن کوکیا ہم نے بحجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایاہم نے
سیّدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اشاعت اسلام کے مقدس فریضہ کو سرانجام دینے کے لیے اپنی زندگی کالمحہ لمحہ صرف کیا اوردنیاکو خوشخبری دی کہ
وہ خزائن جوہزاروں سال سے مدفون تھے
اب مَیں دیتاہوں اگرکوئی ملےامیدوارہے
آپؑ کی زندگی بخش تحریریں اردو، عربی اور فارسی کی 88تالیفات کے 11ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں، بیسیوں مضامین، 300 اشتہارات، 700مکتوبات اور ملفوظات کی 10جلدیں اس کے علاوہ ہیں۔ ان معجز نما88کتب میں سے 11کتب کا جواب لکھنے پر حضورؑ نے ہزاروں روپئے کے انعامی چیلنج دیے۔ ان بیش بہا روحانی خزائن کوحاصل کرنے کے لیے لوگ دیوانہ وار آپ کی طرف دوڑے چلے آئے۔ جیسے حضرت مولانانورالدین رضی اللہ عنہ ، حضرت مولاناعبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ اور مولاناغلام رسول صاحب راجیکی وغیرہم نے ان کتب کے مطالعہ سے اپنی روحانیت میں ترقی کی ۔ ہندوستان کے مشہور عالم دین مولوی حسن علی صاحبؓ نے 1894ء میں احمدیت قبول کی اوربتایاکہ ’’مردہ تھا، زندہ ہوچلاہوں‘‘
حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی اہمیت کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نظارت نشرواشاعت قادیان میں ہندوستان کی دس زبانوںکے ڈیسک قائم فرمائے۔پس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعہ کو یقینی بنائیں۔
اخبارات و رسائل کے مطالعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئےآپ نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زبان پر الہاماً یہ الفاظ جاری ہوئے کہ ’’دیکھومیرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا۔‘‘ چنانچہ آپؑ کے زمانہ میں ہی اردو میں اخبارات الحکم اور البدر اوربعدمیں تشحیذ الاذھان کی اشاعت ہوئی جبکہ انگریزی میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز بھی جاری ہوا۔ یہ رسالہ اپنے 100سال پورے کرچکاہے۔ خلافت خامسہ میں اس رسالہ کے جرمن اور اسپینش ورژن جاری ہوئے۔ ہفت روزہ اخبار بدر بھی سیدنا حضور انور کی منظوری سے اردوکے علاوہ ہندی، ملیالم، تامل، تیلوگو، کنڑ، بنگلہ، اڈیہ میں شائع ہورہاہے۔ آخر پر آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک اقتباس پیش کرکے اپنی تقریر ختم کی جس میں حضور انور نے کتب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےمطالعہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔اس کے ساتھ ہی تیسرے روز کا پہلا اجلاس ختم ہوا۔
اختتامی اجلاس اور حضورانور کا بصیرت افروز خطاب
آج جلسہ سالانہ قادیان کا آخری دن اور آخری اجلاس تھا۔ اس اختتامی اجلاس سے سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمانا تھا۔ جلسہ گاہ میں حاضرین خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے حضور انور کے خطاب کا انتظار کررہے تھے۔ حضور انور کے خطاب سے قبل ایم ٹی اے اسٹوڈیو لندن سے قادیان دارالامان کی مقدس بستی اور جلسہ سالانہ قادیان کے متعلق ایک خوبصورت ڈاکومنٹری دکھائی گئی۔یہ جلسہ اُس وقت ایک عالمی جلسہ کی صورت اختیار کر گیا جب امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت صدارت میں ایوان مسرور، اسلام آباد سے MTA کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ اس جلسہ کی اختتامی کارروائی پوری دُنیا میں براہ راست نشر ہوئی۔ (اختتامی اجلاس کی تفصیلی کارروائی الفضل انٹرنیشنل 28دسمبر2021ءتا 3جنوری2022ءمیں شائع ہوچکی ہے)
جلسہ مستورات
مورخہ 25دسمبر 2021ء بروز ہفتہ مستورات کا جلسہ ہوا جس کی صدارت محترمہ بشریٰ طیبہ غوری صاحبہ اعزازی ممبر لجنہ اماء اللہ بھارت نے کی۔ تلاوت قرآن مجید محترمہ امۃ الہادی شیریں صاحبہ معاونہ واقفات نو قادیان نے کی اور ترجمہ پیش کیا۔ محترمہ امۃ الباسط بشریٰ صاحبہ سیکرٹری تبلیغ لجنہ اماء اللہ بھارت نے نظم ’’تجھے حمدوثنا زیبا ہے پیارے‘‘ کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام خوش الحانی سے پڑھی۔ پہلی تقریر محترمہ ذکیہ تسنیم صاحبہ نائب صدر لجنہ ضلع بھاگلپور ومونگھیر نے بعنوان ’’اسلامی عائلی زندگی (طلاق و خلع کا سد باب) اسلامی تعلیمات کی روشنی میں‘‘ کی۔ آپ نے اپنی تقریر میں قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں بتایا کہ اسلامی معاشرہ کو حسین اور گھروں کو جنت نظیر بنانے کی ذمہ داری یکساں طور پر مرد اور عورت دونوں پر ڈالی گئی ہے۔ وہ نکاح کے وقت اس بات کا عہد کررہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشاد الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھی جا رہی ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق گزاریں گے۔ قول سدید سے کام لیں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے۔
بعد ازاں محترمہ وجیہہ بشارت صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نظم ’’تری محبت میں میرے پیارے ہر اک مصیبت اٹھائیں گے ہم‘‘ کے چیدہ چیدہ اشعار نہایت خوش الحانی سے پڑھے۔ جلسہ کی دوسری تقریر محترمہ بشریٰ پاشا صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ بھارت نے بعنوان ’’احمدی خواتین کی قربانیاں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطابات کی روشنی میں‘‘ کی۔ آپ نے بتایا کہ موجودہ دور میں بھی بے شمار خواتین ہیں جنہوں نےدین اور اس کی اغراض کے لیے بے لوث قربانیوں کی درخشندہ مثالیں قائم کی ہیں۔آپ نے بے لوث قربانیاں کرنے والی ، اسلامی پردہ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی اور احمدیت کی خاطر مخالفتوں اور مشکلات کا جرأت اور پختہ ایمان کے ساتھ مقابلہ کرنے والی خواتین کے ایمان افروز واقعات پیش فرمائے۔
بعد ازاں صدر اجلاس نے اختتامی خطاب کیا جس میں آپ نے پیغام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ وناصرات الاحمدیہ بھارت کی روشنی میں نصائح کیں۔ دعا کے بعد جلسہ کی کارروائی بخیروخوبی اختتام پذیر ہوئی۔ الحمد للہ۔جلسہ کے دوران ہر دو تقاریر کا رواں ترجمہ انگریزی، تامل اور ملیالم زبان میں کیا گیا۔ ملیالم زبان میں ترجمہ محترمہ جویریہ گوہر شمس صاحبہ صدر لجنہ ضلع کنور و کاسرگوڑ کیرالہ نے کیا اور تامل زبان میں محترمہ نجمہ طارق صاحبہ اور محترمہ شائنہ مبارک صاحبہ نے ترجمہ کیا جبکہ انگریزی میں محترمہ ملیحہ شمیم صاحبہ نے رواں ترجمہ کیا۔
٭…٭…٭
جلسہ سالانہ کے حوالہ سے بعض متفرق امور
٭… مورخہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر مسجد اقصی اور مسجد انوار میںاور جلسہ کے تین دن قادیان کی تمام مساجد میں باجماعت نماز تہجد کا اہتمام کیا گیا۔ تہجد سےقبل شعبہ تربیت کی طرف سے بذریعہ لاؤڈاسپیکر درود شریف اور پاکیزہ اشعار پڑھ کر نماز تہجد کے لیے احباب کو بیدار کیا گیا۔نماز فجر کے بعد تفسیر کبیر سے قرآن مجید کا درس دیا گیا۔قادیا ن کے تمام محلہ جات اور جلسہ گاہ میں تربیتی بینرز لگائے گئے۔
٭… حکومتی گائڈلائن کے مطابق ایک venueمیں 700 کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے مردانہ جلسہ گاہ کے دو الگ الگ پنڈال سات سات سو افراد کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ مستورات کے لیے بھی سات سو کے بیٹھنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ امسال سب کے لیے کرسیوں پر بیٹھنےکا انتظام کیا گیا تھا۔ مردانہ جلسہ گاہ میں دو اور لجنہ کے جلسہ گاہ میں ایک بڑے سائز کی LEDکے ذریعہ جلسہ سننے کا انتظام تھا۔ کووڈ پروٹوکول کی پوری پابندی کی گئی۔ جلسہ گاہ میں 6 فٹ کے فاصلے سے کرسیاں لگائی گئیں۔
٭… محکمہ موسمیات کی پیش خبری کے مطابق مورخہ 26 دسمبر 2021ء کو بارش تھی۔ پہلے اجلاس کے اختتام سے قبل ہی ہلکی بونداباندی شروع ہوگئی تھی اور دوسرے اجلاس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب Liveنشر ہونا تھا اس کے لیے بڑی فکر اور پریشانی تھی۔ چنانچہ پہلے اجلاس کی رپورٹ بھجواتے ہوئے موسم کے سازگار رہنے کے لیے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور انور کی دعاؤں سے موسم کو سازگار بنائے رکھا اور بارش نہیں ہوئی جس سے جلسہ گاہ پوری طرح بھرا رہا اور حاضرین نے بڑی توجہ سے حضور انور کا خطاب سنا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
٭… جلسہ سالانہ کی مکمل کارروائی لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ دکھائی جاتی رہی جس سے نہ صرف ہندوستان کی جماعتوں نے بھرپور استفادہ کیابلکہ بیرون ملک بھی جلسہ کا پروگرام دیکھا گیا شعبہ سمعی بصری کےمطابق ایک لاکھ چھ ہزار چھ سو چھیالیس افراد نےجلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھی اور سنی۔
٭… امسال مہمانوں کی رہائش کے لیے تقریباً 15قیام گاہیں تیار کی گئیں۔34 نظامتوں کے ناظمین، نائب ناظمین و معاونین دن رات خدمت بجالانے میں مصروف رہے۔
٭… جلسہ گاہ میں جلسہ کی کارروائی کا 6زبانو ں انگریزی،بنگلہ، کنڑ، ملیالم، تامل، تیلگو میں ترجمہ کیا گیا۔ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ اور اختتامی خطاب کا رواں ترجمہ کیاگیا۔لائیو اسٹریمنگ کے ذریعہ نشر ہونےوالے پروگرام کا ترجمہ تامل اور ملیالم میں کیا جاتا رہا۔ لجنہ اماء اللہ کے جلسہ کی کارروائی کا ترجمہ بھی پانچ زبانوں میں کیا گیا۔
٭… قیام گاہ مستورات کے لیے گیسٹ ہاؤس نمبر1 اور 2کو تیار کیا گیا۔6صوبہ جات جموںکشمیر، پنجاب، کیرالہ، کرناٹک، آندھرا پردیش اور ہماچل پردیش کی مہمان مستورات نے اس میں قیام کیا۔ مؤرخہ 21دسمبر کو معائنہ کارکنان منعقد ہوا جس میں تمام کارکنات نے شرکت کی۔ نمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قیام گاہ مستورات کا بھی جائزہ لیا اور ضروری ہدایات سے نوازا۔ شعبہ سیکیورٹی کے تحت گیٹ دارالمسیح، گیٹ بہشتی مقبرہ، قیام گاہ مستورات اور جلسہ گاہ مستورات میں لجنہ اماء اللہ بھارت کے تحت سیکیورٹی کی ڈیوٹیاں دی جاتی رہیں۔نمازوں کے اوقات میں شفٹ وائز مسجد اقصیٰ کی بیسمنٹ میں ممبرات لجنہ اماء اللہ نے ڈیوٹیاںدیں۔شعبہ طبی امداد کے تحت ہومیو ڈاکٹرز بھی نماز کے اوقات میں ڈیوٹیاں دیتی رہیں۔
٭… اس موقع پر ہندوستان بھر کی جماعتوں سے آئے ہوئے مبلغین، امراء کرام اور صدر صاحبان کے ساتھ مکرم ناظر اعلیٰ صاحب و نائب ناظر اعلیٰ صاحب جنوبی ہند نے میٹنگ کی اور انہیں ضروری ہدایات سے نوازا۔ اسی طرح احمدیہ میڈیکل ایسو سی ایشن آف انڈیا کی بھی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں ہندوستان سے آئے ہوئے ڈاکٹر صاحبان شامل ہوئے۔
٭…جلسہ کے موقع پر احباب کرام کی خواہش ہوتی ہے کہ قادیان کی مقدس بستی میں ان کے بچوں کے نکاحوں کے اعلانات ہوں ۔ چنانچہ جلسہ کے دوسرے دن بعد نماز مغرب و عشاء مسجد دارالانوار میں نکاحوں کے اعلانات ہوئے۔
٭…جلسہ سالانہ قادیان کا ایک اہم شعبہ ’’شعبہ خدمت خلق‘‘ بھی ہے ، جس کے تحت بنیادی طور پر نظم وضبط اور حفاظتی ڈیوٹیاں دی جاتی ہیں۔ امسال 500 رضاکاران خدام نے اس شعبہ کے تحت ڈیوٹیاں دیں۔ علاوہ ازیں انصار کی ایک ٹیم اور لجنہ اماء اللہ کی ایک ٹیم بھی شعبہ خدمت خلق کے تحت خدمات بجالا رہی تھی۔امسال ہر مہمان کا شعبہ خدمت خلق کے تحت covid test کیا گیا اور نیگیٹو رپورٹ آنے پر ہی رجسٹریشن کارڈ ایشو کیا گیا جس کے بعد ہی قیام گاہ میں جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔خدام نے نظم وضبط کی ڈیوٹیاں دیں۔ دار المسیح، بہشتی مقبرہ، جلسہ گاہ، قادیان کی تمام مرکزی مساجد اور جملہ قیام گاہوں اور داخلی راستوں پر خدام کی مستقل ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔اسی طرح القرآن نمائش، النور نمائش، مخزن تصاویر کی جگہوں پر اور اسی طرح دار البیعت لدھیانہ اور مکان چلہ کشی ہوشیارپور کے مقامات پر بھی خدام کو ڈیوٹیوں پر متعین کیا گیا۔ لَوسٹ اینڈ فاؤنڈ اور اعلانات کا دفتر بھی قائم کیا گیا۔ فرسٹ ایڈ اور ایمرجنسی کے لیے 24 گھنٹے ایک Dedicated Team موجود تھی جو مہمانوں کو سہولت اور راحت پہنچانے کا کام کر رہی تھی۔ مساجد، جلسہ گاہ اور قیام گاہوں کی سینیٹائزیشن اور صفائی کے لیے بھی ایک ٹیم خدمت بجا لا رہی تھی۔
اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہت ہی خیروبرکت کا موجب بنائے اور تمام کارکنان، کارکنات اور خدمت کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
(رپورٹ: منصور احمد۔ ایڈیٹر بدر قادیان)