جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھےکہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کیلئے میرے خون کی محتاج ہے
پھر یک دفعہ وہ ایسی سنگین قید میں ڈالا گیا جو موت سے بدتر تھی اور جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ پڑتا ہے۔ ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پروردہ انسان وہ اُس روح کےگداز کرنے والی قید میں صبر کر سکے۔ اور جان کو ایمان پر فداکرے۔بالخصوص جس حالت میں امیر کابل کی طرف سے بار بار اُن کو پیغام پہنچتا تھا۔ کہ اُس قادیانی شخص کے تصدیق دعویٰ سے انکار کردو تو تم ابھی عزّت سے رہا کئے جاؤگے۔ مگر اُس قوی الایمان بزرگ نے اس بار بار کے وعدہ کی کچھ بھی پروا نہ کی۔ اور بار بار یہی جواب دیا۔ کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پر دنیا کو مقدم رکھ لوں۔ اور کیونکر ہو سکتا ہے۔کہ جس کو مَیں نے خوب شناخت کرلیا۔ اور ہر ایک طرح سےتسلّی کرلی۔ اپنی موت کے خوف سے اُس کا انکار کردوں۔ یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہوگا۔ میں دیکھ رہا ہوں۔ کہ میں نے حق پالیا۔ اس لئے چند روزہ زندگی کےلئے مجھ سے یہ بے ایمانی نہیں ہوگی۔ کہ مَیں اُس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں۔ میں جان چھوڑنے کےلئے طیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر حق میرے ساتھ جائے گا۔اُس بزرگ کے بار بار کے یہ جواب ایسے تھے۔ کہ سرزمین کابل کبھی اُن کو فراموش نہیںکرے گی۔ اور کابل کے لوگوں نے اپنی تمام عمرمیں یہ نمونہ ایمانداری اور استقامت کا کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اس جگہ یہ بھی ذکر کرنے کے لائق ہے۔ کہ کابل کے امیروں کا یہ طریق نہیں ہے۔ کہ اس قدر بار بار وعدہ معافی دیکر ایک عقیدہ کے چھڑانے کےلئے توجہ دلائیں۔ لیکن مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی یہ خاص رعایت اس وجہ سے تھی۔ کہ وہ ریاست کابل کا گویا ایک بازو تھا اور ہزارہا انسان اُس کے معتقد تھے اور جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں وہ امیر کابل کی نظر میں اس قدر منتخب عالم فاضل تھا۔ کہ تمام علماء میں آفتاب کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ پس ممکن ہے کہ امیر کو بجائے خود یہ رنج بھی ہو۔ کہ ایسا برگزیدہ انسان علماء کے اتفاق رائے سے ضرورقتل کیا جائے گا۔ اور یہ تو ظاہر ہے۔ کہ آج کل ایک طور سے عنان حکومت کابل کی مولویوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور جس بات پر مولوی لوگ اتفاق کرلیں پھر ممکن نہیں کہ امیر اُس کے برخلاف کچھ کر سکے۔ پس یہ امر قرین قیاس ہے کہ ایک طرف اس امیرکو مولویوں کا خوف تھا۔ اور دوسری طرف شہید مرحوم کو بے گناہ دیکھتا تھا۔ پس یہی وجہ ہے کہ وہ قید کی تمام مدّت میں یہی ہدایت کرتا رہا۔ کہ آپ اس شخص قادیانی کو مسیح موعود مت مانیں۔ اور اس عقیدہ سے توبہ کریں تب آپ عزّت کے ساتھ رہا کر دیے جاؤگے۔ اور اسی نیت سے اس نے شہید مرحوم کو اس قلعہ میں قید کیا تھا جس قلعہ میں وہ آپ رہتا تھا۔ تا متواتر فہمایش کا موقعہ ملتا رہے۔ اور اس جگہ ایک اور بات لکھنے کے لائق ہے۔ اور دراصل وہی ایک بات ہے جو اس بلا کی موجب ہوئی۔ اور وہ یہ ہے۔ کہ عبدالرحمٰن شہید کے وقت سے یہ بات امیر اورمولویوں کو خوب معلوم تھی۔ کہ قادیانی جو مسیح موعود کا دعویٰ کرتا ہے جہاد کا سخت مخالف ہے۔ اور اپنی کتابوں میں بار بار اس بات پر زور دیتا ہے۔ کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد درست نہیں۔ اور اتفاق سے اس امیر کے باپ نے جہاد کے واجب ہونے کے بارے میں ایک رسالہ لکھا تھا جو میرے شائع کردہ رسالوں کے بالکل مخالف ہے۔ اور پنجاب کے شرانگیز بعض آدمی جو اپنے تئیں موحدیا اہل حدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ امیر کے پاس پہنچ گئے تھے۔ غالباً اُن کی زبانی امیر عبدالرحمٰن نے جو امیر حال کا باپ تھا میری اُن کتابوں کا مضمون سُن لیا ہوگا۔ اور عبدالرحمن شہید کےقتل کی بھی یہی وجہ ہوئی تھی کہ امیر عبدالرحمٰن نے خیال کیا تھا کہ یہ اُس گروہ کا انسان ہے جو لوگ جہاد کو حرام جانتے ہیں۔ اور یہ بات یقینی ہے۔ کہ قضا و قدر کی کشش سے مولوی عبداللطیف مرحوم سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ اس قید کی حالت میں بھی جتلادیا۔ کہ اب یہ زمانہ جہاد کا نہیں۔ اور وہ مسیح موعود جو درحقیقت مسیح ہے اس کی یہی تعلیم ہے۔ کہ اب یہ زمانہ دلائل کے پیش کرنے کا ہے تلوار کے ذریعہ سے مذہب کوپھیلانا جائز نہیں۔ اور اب اس قسم کا پودہ ہرگز بار آور نہیں ہوگا بلکہ جلد خشک ہوجائے گا۔ چونکہ شہید مرحوم سچ کے بیان کرنے میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اور درحقیقت اُن کو سچائی کے پھیلانے کے وقت اپنی موت کا بھی اندیشہ نہ تھا۔ اس لئے ایسے الفاظ اُن کے منہ سے نکل گئے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اُن کے بعض شاگرد بیان کرتے ہیں۔ کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کےلئے میرے خون کی محتاج ہے۔ اور درحقیقت وہ سچ کہتے تھے۔ کیونکہ سرزمین کابل میں اگر ایک کروڑ اشتہار شائع کیا جاتا۔ اور دلائل قویہ سے میرا مسیح موعود ہونا اُن میں ثابت کیا جاتا تو اُن اشتہارات کا ہرگز ایسا اثر نہ ہوتا جیسا کہ اس شہید کے خون کا اثر ہوا۔ کابل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند پڑا ہے۔ جو تھوڑے عرصہ میںبڑا درخت بن جاتا ہے۔ اور ہزار ہا پرندے اس پر اپنا بسیرا لیتے ہیں۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ51تا 53)