شادی۔ آپس کا حسن سلوک۔ جدائی۔ صبر (قسط ششم۔ آخری)
٭…13؍اپریل1976ء
’’عزیزی عبدالمجید نیاز
مرحومہ کی جن خوبیوں کا آپ نے سب بچوں نے سب لوگوں نے اور سب تعزیت کرنے والوں نے ذکر کیا ہے وہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں۔ مگر کیا ہم ناشکر گزار نہ ہوں گے اور آنے والی نعمتوں اور افضال کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرنے والے نہ ہوں گے اگر بے صبری کا کوئی لفظ ادا ہوگیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی اپنے آقا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ارشاد سامنے رکھیں ؎
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
میرے بچے آپ کو خاص طور پر ہدایت ہے۔ بڑے ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ پاس کریں۔ صبر والا نسخہ آزما کر دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بٹالے میں صبر کا نمونہ دکھایا تو خدا تعالیٰ نے کیسی عزت بخشی فرمایا بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے سبحان اللہ ہم کب اس قابل تھے کہ آمنہ جیسی نعمت ملتی پھر بچوں کی صورت میں جو احسانِ عظیم ہوا وہ زبان اور قلم وہ دماغ اور دل کہاں سے لاؤں جس سے شکر کا حق ادا کر سکوں۔ بس الحمد للہ ثم الحمد للہ یہی ورد کچھ حق ادا کر سکتا ہے۔ ‘‘
٭…13؍ مئی 1976ء
’’عزیزم مکرم عبدالمجید نیاز
خط لمبے لمبے نہ لکھا کریں مبادا منتشر جذبات میں بہ کر ایسا لفظ سپرد قلم ہو جائے جس سے شرک کا پہلو نکلتا ہو۔ جب کسی کے سامنے بیان دینے کا وقت آئے تو جس قدر کم بولا جائے اچھا رہتا ہے۔ کس کو انکار ہے کہ یہ وقت بڑا صبر آزما ہوتا ہے اور پھر آپ کے لئے تو اور بھی زیادہ المیہ رکھتا تھا کئی وجوہات کی بناء پر…… مگر جب زیادہ دُکھ والا واقعہ سامنے آ جائے تو صبر بھی اُسی کے مطابق دکھانا موجب انعام ہوا کرتا ہے کہتے ہیں کوئی رو رہا تھا ایک بزرگ نے پوچھا کیوں رو رہے ہو فرمایا میرا دوست فوت ہو گیا ہے۔ جواب دیا پھر آپ نے فوت ہونے والے کو دوست بنایا کیوں تھا۔ سو جس قدر، جتنا عرصہ، جب تک خدا نے اور جس مطلب کے لئے خلق کیا تھا پورا کر لیا۔ تو ہر شے اس کے بعد جب وہ کام کر لیتی ہے سنبھال لی جاتی ہے۔ بعض لوگ جن پر میں حیران ہوں لکھتے ہیں صحت اچھی تھی۔ پھر لکھتے ہیں جلدی فوت ہو گئی۔ نہیں میں تو خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے اتنا بڑا انعام شدید ترین ماحول میں بھی اتنا عرصہ دئے رکھا میں عرصہ دراز سے اُن کی اور صفات کے ساتھ صابرہ بھی لکھا کرتا تھا سو خدا نے اس کو اس کی رضا پر صبر کرنے کے نتیجے میں بہت زندگی دی۔ الحمدللہ۔ میں نے آپ سے کئی بار اور دوسروں کو بھی تحریر کیا ہے کہ میں تو پہلے سے ایسے حادثہ کی خبر سننے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتا رہتا تھا۔ اکتوبر ہمارے خاندان کے لئے اور باقی سال سے ذرا تکلیف دہ ہوا کرتا ہے جب ہی ہم سب یعنی ہماری والدہ مقدسہ بھی اور والد صاحب بزرگوار بھی اس ماہ میں صدقہ خیرات اور حفظانِ صحت کا زیادہ خیال رکھتے۔ اور رکھنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے میں بھی دسمبر میں علیل ہوا پھر جنوری میں زیادہ ہی علیل ہو گیا پھر میں نے جلدی جلدی اپنی خوابوں کی بناء پر روز دوسرے چوتھے باخذِ رسید اور خاموش صدقہ دینا بھی شروع کر دیا مگر اس طرف خیال جاتا ہی نہ تھا کہ ہونا یہ ہے۔ میں نے ان کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی چار مارچ 1976ء کولکھا گرم سرد کپڑے میرے پاس کافی ہیں ہاں ایک اچھی سی خوبصورت گرم چادر کی کمی ہے میں نے سب سے قیمتی جو اُس وقت اُس دکان میں تھی خرید کر بھیج دی یہ بھی یاد آرہا ہے کہ دکان پر اُس کو لے جاتا اور کپڑا پسند کرنے کو کہتا پھر یہ پسند کر کے ہاتھ لگا کے واپس آجاتی میں خرید کر لے آتا۔ دوسری طرف یہ بھی اگر میں نے کسی وقت خود اُن کے لئے کوئی لباس خریدا تو اُنہوں نے بھی اس کو خوشی سے اور خوش کرنے کے لئے پہن لیا۔ سُنا ہے اس چادر کو ایک دفعہ یا دو دفعہ اپنے پاؤں پر لپیٹا تھا اور مجھے لکھا کہ زندگی اور صحت رہی تو اگلے سال اوڑھ لوں گی۔ مگر تقدیروں پر ہمارا ایمان ہے اور یہی ڈیوٹی ہے۔
دو چار روز سے کام میں بڑا مصروف ہوں اور صحت اچھی ہے لطیف نے لکھا کہ اب آپ کی ڈیوٹی ہے کہ ایک جوڑا روز بدلا کریں۔ میں نے تو عرصہ سے اپنا ایک اصول بنایا ہوا ہے کہ مصروف، مصروف، مصروف کہ دھیان بس عبادت ریاضت میں رہے اور آپ سب کی یاد میں نہ اُلجھوں۔
آپ سب کی خوشی کے لئے وہ سب کچھ انشاء اللہ کروں گا جو مرحومہ کرتی تھیں گو میں اُس کی گرد کو بھی نہ پا سکوں گا مگر جذبہ ضرور رکھتاہوں۔ ‘‘
٭…چھ جون 1976ء
’’عزیزہ باری پیاری
میں نے سلسلہ احمدیہ میں پڑھا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ ساری عمر جب بھی اپنی والدہ صاحبہ کا ذکر فرماتے یا سُنتے تو جذبات کو یوں دباتے کہ صاف دکھائی دیتا کہ اندر ایک تلاطم ہے اور آب دیدہ ہوجاتے ماں، ماں، ماں اور پھر آمنہ ماں آپ کے دل کا حال سمجھتا ہوں۔ ایک دفعہ عزیزہ شکور کے رخصتانہ کے موقع پر میں نے کہا مشہور ہے کہ
ماواں دھیاں ملن لگیاں
چارے کنداں چبارے دیاں ہلیاں
(بیٹی کی رُخصتی پر جب ماں نے بیٹی کو رُخصت کرنے کے لئے گلے سے لگایا تو گھر کی چاروں دیواریں ہلنے لگیں )
تم نے پانچ بیٹیاں رخصت کی ہیں تمہارا کیا حال ہوا ہو گا۔ واقعی دل گردہ تھا، برداشت تھی، حوصلہ تھا، فضل تھا خدا کی دین تھی، فراخ دلی تھی، نیکی تھی، تقویٰ تھا، بھروسہ تھا، دور اندیشی تھی، معاملہ فہمی تھی، محبت و شفقت تھی، صلہ رحمی کا بے مثال نمونہ تھی۔ اپنوں سے دوسروں سے گھر، پڑوس، محلہ، شہر، مضافات اور دوسرے ملکوں تک اس کے حُسنِ سلوک کی کئی کئی مثالیں دے سکتا ہوں اس کا وجود بابرکت تھا۔ اُسے میری حلیمہ ماں برکت بی بی نے پسند کیا تھا صبر تحمل صورت و سیرت میں ممیّز تھیں پھر میرے والد صاحب خدا کے فضل سے فضل محمد جن کی اُس نے بہت خدمت کی تھی۔ ‘‘
٭…سات جون 1976ء
’’باری پیاری کا خط بہت ہی خوب مضامین پر ملا۔ خوشی ہوئی اس میں عزیزہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہماری امی اور ہمار ا حق ہے کہ اُن کے اوصاف بیان کئے جائیں جب کہ آپ نے کڑا بند باندھ رکھا ہے۔ نہیں لعل! شوق سے سنو میرا ہر خط اُس کے اوصاف حمیدہ سے بھرا پڑا ہے۔ دیکھ تو لو زندگی میں جب میں صادقہ، صابرہ شاکرہ، قانتہ اور نہ معلوم کیا کیا لکھا کرتا تو بعض لوگ برا مناتے مرحومہ بھی کہتی ایسے نہ لکھا کریں۔ مگر میں تو لکھ ہی دیا کرتا تھا۔ اگر آپ نے وہ خط سنبھال کر رکھے ہیں تو سارا مضمون کھل جائے گا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے جیسے جملے ودیعت ہوتے ہیں جب میں بورڈ پر اعلان لکھا کرتا تھا باسط مجید گرد ہو جاتے کہ آج ابا کیا لکھنے لگے ہیں جماعت کے اکابرین نے کئی مرتبہ میرے سامنے کہا بھائی جی ان اعلانوں کو نوٹ کر لیا کریں آپ کی اولاد کے لئے یادگار ہوں گے۔ حضرت خلیفۃالمسیحؓ حضرت چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خانؓ تک بھی تعریف فرماتے اور میرے اعلانات کو شہر کا عجوبہ قرار دیتے۔
آپ کی امی کی ذات میں بہت برکت تھی بعض دفعہ اُس کی سرسری باتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہوجاتیں اُس کے مشوروں پر عمل میں برکت ہی برکت تھی۔ طبیعت میں خاکساری تھی۔ کبھی کمزوری میں بھاری چیز صحن سے کمرے میں یا کمرے سے صحن میں لانی ہوتی تو مجھے ہی کہتی مگر تھکی ہوئی آواز میں منت شامل ہوتی۔ چاول نفیس پرانے منگواتی اب تک چاول کے ذکر کے ساتھ آپ کی امی کی چاولوں کی پرکھ یاد آجاتی ہے۔ ‘‘
24؍ ستمبر1976ء
’’عزیزہ لطیف
آج اٹھائیسواں روزہ ہے میں مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ اُمید ہے آج عید کا چاند نکل آئے گا۔ خط لکھنا آسان نہیں ہے۔ کوئی نہ کوئی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس سے سارا مضمون معطل ہو کے رہ جاتا ہے۔ میں آپ کی امی کو رابعہ ایک خواب کی بنا پر کہتا تھا۔ میں نے خواب دیکھا تھا کہ چینی کا ایک بے مثال سفید پیالہ ہے اُس میں خوبصورت لمبے لمبے سفید چاول پکے ہوئے ہیں چمچ بھی چمکتا ہوا سفید ہے میرے سامنے خلیل احمد (جہلمی) ہے کہتا ہوں اس کو کھا لیں یہ رابعہ بصری کا پس خوردہ ہے۔ اور میری مراد آمنہ مرحومہ سے ہے۔ سوبچے میں اُس کی سیرت کی وجہ سے اُسے رابعہ ہی سمجھتا ہوں میں ایک کمزور اور گرا ہوا انسان ہوں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ کے الطاف و اکرام دیکھو کہ ہر خط کوئی نہ کوئی خوشخبری لے کر آتا ہے۔ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ‘‘
٭…12؍اگست1976ء
’’عزیزہ باری……!
آپ کا ملے جلے جذبات سے لبریز خط ملا۔ میں نے بھی اُسے ملے جلے جذبات سے پڑھا۔ بہرحال شکرگزاری نعمت عظمیٰ ہے۔ میں بستر تو بارش سے بچا کر اندر لے آیا مگر خط میری آنکھوں کی بارش سے نہ بچ سکا۔ شکرگزاری کے میٹھے پانی سے گندھا ہوا خط پڑھ کر سجدۂ شکر ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت اُسی کی عطا ہوتی ہے اپنی کوشش کا رُخ اُس کی طرف کر دیں صحت، رجحان، طاقت سب صفتِ رحمانیت کے تحت آ جاتی ہے۔ یہ سب اُس کی دین ہے۔ درود شریف سے طاقت حاصل کریں۔ میرا تجربہ ہے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ دعا کے آگے پیچھے درود شریف لگا دیں کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ درود شریف سُن لے اور دعا ردّ کر دے۔
آپ نے لکھا ہے بچے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کو اپنا دل کیسے دکھاؤں جو خانۂ زنبور بن گیا ہے مگر اُس کی رحمت کے حصار میں رہا ہے۔ کسی نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے پوچھا کہ آپ کے سر میں سکری نہیں ہے۔ حالانکہ آپ کو اتنے ہم و غم ہیں آپ نے جواب دیا جب فکر میرے پاس آتے ہیں میں منہ دوسری طرف کر لیتا ہوں۔ میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ عجیب سلوک ہے۔ ساری زندگی ایسا ایسا کرم دیکھا ہے کہ بیان کرنے لگوں تو کتابیں لکھ دوں۔ ‘‘
٭…26؍جون1978ء
’’میرا بصری (باسط)آیا دیرینہ خواہش خدا نے پوری کی باپ بیٹا کس قدر خوشی کے عالم میں ہوں گے۔ دن اور پھر رات برسات کے باعث کبھی کمرے میں نلکے کے پاس دونوں چارپائیاں صاف ستھرا بستر لنگر کا تبرک اور پھر قادیان دارالامان کہاں تک لکھتا جاؤں اس کی وضاحت اور نقشہ تو الفاظ میں پیش کرنا میرے بس کی بات نہیں میری تعلیم بھی واجبی اور قویٰ بھی کمزور۔
خدا رحیم و بزرگ و برتر نے اپنی خاص مشیت سے میرے جسم کو محبت، اُلفت، رحم شفقت، کے خمیرے سے گوندھا ہے۔ اس سے جو بھی رَو نکلتی ہے۔ وہ خود محبت سے گزر کر دوسرے عناصر پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی جہاں خدا نے مجھے یہ لازوال دولت تازیست بخش کر احسان فرمایا۔ وہاں صبر سکون اور قوتِ توکّل سے بھی خوب نہال کیا اور حقیقت تو یہ ہے کہ محض بطفیل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت احمدؑ، کسی عمل وعلم کی بناء پر نہیں محض اپنی صفتِ کریمانہ سے کیا کچھ نہ دیا۔
عید مسجد اقصیٰ میں ہوئی۔ سارا ہفتہ ضروری وقار عمل کرتا رہا۔ پکوڑے بنائے، گلاب جامن پر بچے بہت یاد آئے بچوں کا تقاضا بے چین کرتا رہا۔ آپ کی والدہ کو دہی میں بوندیاں ڈال کر بہت پسندیدہ تھیں دن بھر رُلاتی رہیں۔ جذبات لاانتہا، رات مشاعرہ ہوا۔ عصر کے بعد کھیلیں۔ غم غلط کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ مگر عید کیا ہو؟ دیکھو میرے بچو سلسلہ اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے۔ اس وقت سلسلہ سے عشق و محبت یہ تقاضا کرتا ہے کہ مرنے سے پہلے مر جاؤ۔ کسی چیز سے محبت نہ کرو۔ صرف الٰہی سلسلہ سے۔ کسی شخص کو ترجیح نہ دو بس خدا کے ہو جاؤ……مختصر یہ کہ عید حضور نے نہ پڑھائی اپنے نظر نہ آئے غم ہی غم تھا اس کا ضبط کرنا ایک اور پہاڑ غم۔ الحمدللہ دارالامان نصیب تھا۔ ‘‘
شامِ زندگی
اوائل اپریل 1979ء میں قادیان سے خالہ زادبہن مکرمہ ناصرہ بیگم کا خط آیا جس سے ابا جان کی شدید علالت کا علم ہوا۔ آپا لطیف اولین کوشش کرکے قادیان پہنچیں۔ اباجان بہت کمزور ہو چکے تھے ان کو دیکھ بھال کی ضرورت تھی جبکہ پاکستان سے وہاں جا کر زیادہ دن ٹھہرا نہیں جا سکتا تھا۔ ایک دن جب حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ابا جان سے ملنے تشریف لائے تو آپا نے اُن سے آپ کو علاج کے لیے پاکستا ن لے جانے کی اجازت لے لی۔ ابا جان قادیان چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جس مقدس بستی میں زندگی گزاری تھی اسی کی خاک انہیں مرغوب تھی۔ لیکن بتوفیق الٰہی قادیان پہنچانے کے وعدہ سے آپ مان گئے انہی دنوں ابا جان کے دانت میں تکلیف ہوئی جس کے علاج کے لیے امرتسر جانا پڑا مگر یہ تکلیف مالایطاق تھی۔ حالت مزید خراب ہو گئی…بھائی جان عبد المجید نیاز صاحب چھوٹا بھائی عبد السلام باجی رشید اور پھوپھی جان حلیمہ قادیان پہنچے۔ اباجان کی خدمت کی توفیق ملی۔ حضرت میاں وسیم احمد صاحب بھی مسلسل خیال رکھ رہے تھے۔ بھائی جان کو ایک خط میں تحریر فرمایا:
’’السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ
آپ کا قادیان آنا، یہاں کے شعائر اللہ کی زیارت اور وہاں دعائیں کرنا خدا تعالیٰ آپ کو مبارک کرے۔ اسی طرح آپ کے لئے یہ امر بھی موجب سعادت ہے خدا تعالیٰ اسے قبول فرمائے کہ آپ نے کچھ عرصہ قادیان میں قیام کر کے اپنے بزرگ والد محترم، ہمارے درویش بھائی محترم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت کی خدمت کی توفیق پائی اور اس کی دعائیں لیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں آپ کے حق میں پوری فرمائے۔ آپ کی بڑی ہمشیرہ اس معاملہ میں آپ سب پر سبقت لے گئی ہیں خدا کرے آپ کے دوسرے بھائی بہن بھی ا پنے والد محترم کی خدمت کی توفیق پائیں۔ ہمارا سلام سب کو پہنچائیں۔ خداتعالیٰ ہمیشہ اپنے فضل سے آپ سب کو احمدیت کا سچا خادم اوروفادار بندہ بننے کی توفیق دے۔ مرزا وسیم احمد‘‘
کمزوری بڑھ جانے کی وجہ سے اباجان کو امرتسر کے ہسپتال میں داخل کیا گیا بھائی جان مجید اور سلام ساتھ تھے پھوپھی جان حلیمہ صاحبہ بھی امرتسر آئیں۔ اباجان ان سے مل کر بہت خوش ہوئے بھائی جان باسط برائے تبلیغ اسلام زیمبیا روانہ ہونے والے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے خصوصی اجازت حاصل کر کے مختصر وقت کے لیے اباجان سے ملنے آئے۔ حسب توفیق سب نے خدمت کی۔ خاص طور پر بھائی جان مجید نےاباجان کی بہت خدمت کی۔ سب کو صحت کی اطلاع بھی دیتے رہے۔ پھر ابا جان کا ویزا لگ گیا اور دونوں بھائی بہت خیال اور محنت سے ابا جان کو حیدرآباد پاکستان لے آئے۔ اباجان پہلی دفعہ حیدرآباد آئے تھے اور اپنے بیٹے کا ہنستا بستا گھر دیکھا تھا سلام اور اس کی بیوی مبارکہ اور بچوں نے خوب خدمت کی پھر آپ پہلی دفعہ ہمارے پاس کراچی آئے کمزور تھے مگر فارغ نہ رہتے۔ بچوں کو دلچسپ کہانیاں سناتے۔ صبح کچن کی کھڑکی سے دھوپ آتی تو میں وہاں اباجان کے لیے کرسی رکھ دیتی۔ آپ دھوپ میں بیٹھ جاتے میں کام میں لگ جاتی۔ ساتھ ساتھ ہم باتیں کرتے ایک دن فرش پہ پانی گرا ہوا دیکھ کر فرمایا بیٹی دیکھنا فرش پہ پانی ہے گر نہ جانا۔ میں اس وقت پانچ بچوں کی ماں تھی ایک دم لگا پاؤں پاؤں چلنے والی چھوٹی سی بچی ہوگئی ہوں اس کے بعد زندگی میں ہر پُر خطر موقع پر باپ کی شفقت سے لبریز یہ جملہ بہت رلاتاہے۔ دسمبر میں ربوہ آئے راحت منزل میں امی جان والے کمرہ میں قیام تھا ا با جان کہتے تھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور تمہاری امی کی روح مجھے یہاں لے آئی ہے۔ اسی کمرے میں حضرت صا حبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) آپ سے ملنے تشریف لائے اور محبت بھرے انداز میں ایک درویش قادیان کو پیار کیا۔ جلسے کے مہمانوں سے مل کر خوش ہوئے۔ بھائی جان مجید کی بیٹی عزیزہ راشدہ کی شادی میں شمولیت کی۔ زمانے کے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے ملنے کے غیر معمولی سامان ہوئے۔ نہ جانے آپ نے کس درد سے دعائیں کی ہوں گی جو اس طرح پوری ہوئیں۔ ابا جان کی عام صحت تو ٹھیک تھی مگر کمزوری بہت بڑھ گئی تھی چچا جان صالح محمد صاحب اور چچاجان عبداللہ صاحب بھی دیکھنے آئے۔ بھائی بہنوں کے سب موجودبچوں نے خدمت کی اور دعائیں لیں۔ بھابی منصورہ صاحبہ کو بھی خدمت کا موقع ملا۔ 6؍فروری کی رات سب ابا جان کے قریب بیٹھے تھے کہ چراغ زندگی کی لَو مدھم پڑنے لگی دھیمی آواز میں بات کر رہے تھے پھر آہستہ آہستہ سانس ہلکا ہونے لگا اور پھر یہ ڈوری بھی ٹوٹ گئی۔ دارالامان سے ہمارے گرد دعاؤں کے حصار بنائے رکھنے والا وجود ہمارے ابا جی ہم سے ہمیشہ کے لیے رُخصت ہو گئے اور اُس خالق حقیقی سے جا ملے جو سب سے پیارا بُلانے والا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حاضر جنازہ پڑھایا۔ آخری خواہش، کہ قادیان میں دفن ہونا ہے، غیر معمولی رنگ میں پوری ہوئی۔ آپا لطیف اور سب عزیز جنازہ لے کر لاہور پہنچے پھوپھی زاد بھائی مکرم فاروق احمد صاحب نے بہت تعاون کیا ہم نے لاہور جاکر آخری دیدار کیا دارالذکر میں نماز جنازہ پڑھائی گئی جسد خاکی کو لے کر بارڈر کراس کر نے سے پہلے کئی مشکل مراحل سے گزرنا تھا جو بخیر و خوبی انجام پائے۔ بارڈر پر قادیان سے احباب جنازہ لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ 12؍فروری کو حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے اپنے اس درویش بھائی کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ دارلامان کی مقدس مٹی میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے قدموں میں آسودہ ٔخاک ہو گئے۔
آپ کا وصیت نمبر3061تھا۔ آپ 3/1کے موصی تھے۔ قطعہ نمبر الف میں مدفون ہیں۔
تمہیں سلام و دعا ہے نصیب صبح و مسا
جوارِ مرقدِ شاہ زماں میں رہتے ہو
اخبار بدر میں اعلان
’’افسوس! مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت درویش وفات پا گئے۔ قادیان 8؍تبلیغ (فروری)… آج ہی لاہور سے بذریعہ ٹیلی گرام یہ انتہائی افسوسناک اطلاع موصول ہوئی کہ مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت درویش عرصہ قریباً آٹھ نو ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد کل 80/2/7 بروز جمعرات بعمر تقریباً 76 سال وفات پا کر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔ اِناللہ واِنا الیہ راجعون۔ لاہور سے مرحوم کا جنازہ 80-2-11 کو براستہ واہگہ بارڈر قادیان لایا جا رہا ہے۔
مکرم عبدالرحیم دیانت مرحوم حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے رفیق محترم حضرت میاں فضل محمد صاحب متوطن ہرسیاں ضلع گورداسپور بعدہ مہاجر قادیان کے فرزند تھے ملکی تقسیم سے بہت عرصہ قبل مکرم بھائی جی مرحوم نے قادیان میں مٹھائی، سوڈا واٹر، اور برف وغیرہ کی دکان کھولی اور پھر اپنی ا نتھک محنت، لگن اور تندہی کے باعث اس چھوٹے پیمانے کے کاروبار سے انہوں نے قادیان میں ایک معقول جائیداد بنائی جو تقسیم ملک کے بعد قادیان میں بحیثیت درویش قیام رکھنے کے باوجود محکمہ کسٹوڈین نے اپنے قبضہ میں لے لی اور ہر ممکن قانونی چارہ جوئی کے باوجود واگزار نہیں کی۔ آپ نے اس نقصان کو نہایت صبر و تحمل اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور حسب معمول اپنی ذمہ داریوں اور عہددرویشی کو انتہائی صدق و صفا اور اخلاص کے ساتھ نبھاتے رہے۔
مرحوم نہایت درجہ نیک متقی، پابند صوم وصلوٰۃ عبادت گزار اور دعا گو بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری خوبیوں کے بھی مالک تھے۔ طبیعت نہایت درجہ سادگی پسند اور نرم خُو واقع ہوئی تھی۔ ہر فن مولا ہوتے ہوئے بھی محنت و مشقت سے کبھی عار محسوس نہ کی حضرت اقدس مسیح پاکؑ سے متعلق بہت سی ایمان افروز روایات جو انہوں نے اپنے والد محترم اور سلسلہ کے دوسرے بزرگان کی زبانی سن رکھی تھیں اپنے حلقہ احباب میں بڑے دلچسپ اور روح پرور انداز میں بیان کرتے بیشتر مذہبی اور متنازعہ مسائل پر عبور رکھنے کے باعث طبیعت میں تبلیغی جذبہ وشوق بھی کار فرما تھا جس کی بنا پر بارہا تحریک وقف عارضی کے تحت دور دراز علاقوں کے تبلیغی سفر بھی اختیار کئے اور زمانہ درویشی میں عرصہ قریباً آٹھ نو ماہ تک لوکل انجمن احمدیہ میں بطور سیکریٹری تبلیغ و تربیت خدمات بھی بجا لاتے رہے۔
قریبا ً8-9 ماہ قبل بیماری کا شدید حملہ ہونے پر بغرض علاج اسپتال امرتسر میں داخل کیا گیا جہاں تشخیص سے معلوم ہوا کہ ملٹی پل میلوما ہو چکا ہے۔ کافی عرصہ امرتسر میں علاج ہوتا رہا۔ ازاں بعد ان کے عزیزان انہیں بغرض علاج و خدمت گزاری اپنے ہمراہ پاکستان لے گئے جہاں ہر ممکن علاج اور خبرگیری کی جاتی رہی مگر افسو س کہ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی بالآخر تقدیرِ الٰہی غالب آئی اور مرحوم بھائی جی ہمیشہ کے لئے اس دارِفانی کو چھوڑ کر دارقرار میں جا مکین ہوئے۔
مرحوم نے اپنے پیچھے نہایت ہونہار، تعلیم یافتہ اور سلسلہ کے ساتھ اخلاص و محبت رکھنے والی جو اولاد بطور یادگار چھوڑی ہے ان میں مرحوم کے تین فرزند مکرم عبدالمجید صاحب، مکرم مولوی عبدالباسط صاحب مربی سلسلہ اور مکرم عبدالسلام صاحب نیز مرحوم کی پانچ بیٹیاں، محترمہ امۃاللطیف صاحبہ ایڈیٹر ماہنامہ مصباح، محترمہ امۃالرشید صاحبہ، محترمہ امۃالحمید صاحبہ، محترمہ امۃالباری صاحبہ اور محترمہ امۃالشکور صاحبہ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے جذبہ اخلاص اور قربانیوں کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے انہیں اپنے قرب خاص میں بلند درجات سے نوازے اور تمام پسماندگان کو اس گہرے صدمے کو پورے صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ (ایڈیٹر بدر)‘‘
وہ پھول جو مرجھا گئے
محترم بدرالدین عامل صاحب اپنی کتاب ’’وہ پھول جو مرجھا گئے ‘‘ حصہ دوئم میں لکھتے ہیں کہ ’’1942ء میں پہلی دفعہ وہ میاں عبدالرحیم صاحب کے ساتھ تبلیغی ٹرپ پر گورداسپور کے پاس ایک گاؤں میں گئے تھے اور اُن کی پُرلطف گفتگو سے اس قدر محظوظ ہوئے تھے کہ اگلے سال بھی آپ کی معیت میں یومِ تبلیغ منانے گھوڑے واہ گئے۔ ……
آپ بڑے طبّاع اور ذہین تھے۔ دکان کے سامنے دلچسپ اور جاذبِ نظر بورڈ لکھ کر آویزاں رکھا کرتے اپنی بنائی ہوئی مٹھائیوں کی تعریف میں بورڈ لکھتے جس میں آپ کو ایک خاص ملکہ حاصل تھا۔ اس جدّت طرازی سے کام اچھا چل نکلا۔
تلاش و جستجو آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ کئی کام کئے اور ہر کام کو کرتے ہوئے
؏ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
مدّنظر رہا۔ بظاہر معمولی کئی اہم کام کئے مگر ان کی تہہ میں جا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ روپیہ اُن پر عاشق تھا۔ اس قدر معمولی کاموں سے تقسیم ملک کے وقت وہ کم و بیش دو لاکھ روپے کی جائیداد کے مالک تھے۔ ‘‘(صفحہ100تا102)
٭…٭…٭