خطبہ عید الفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 14؍ نومبر 2004ء
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں مَیں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا۔ (الحدیث)
ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بات کا بدلہ لیا جائے اور لڑائی جھگڑوں کو بڑھایا جائے بلکہ عفو، درگزر اور صبر سے کام لینا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ٹھہریں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تُو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے درگزر کر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی عیدوں کو خدا کی کبریائی بیان کرتے ہوئے سجاؤ
عید گاہ میں آتے جاتے اور سارا دن بھی ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں صرف کرنا چاہیے۔ نمازوں کا بھی باقاعدہ خیال رکھنا چاہیے
ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا تو اس کا دل ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے
سب دنیاکے احمدیوں، اسیرانِ راہِ مولیٰ ، شہدائے احمدیت کی اولادوں، سب دنیا کے مجبوروں، بے کسوں اور ضرورت مندوں کے لیے دعا کی تحریک
خطبہ عید الفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 14؍نومبر2004ء بمقام مسجد فضل،لندن، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ (الانفال:47)
الحمد للہ کہ رمضان خیریت سے گزر گیا اور آج ہم سب یہاں اکٹھے ہو کر عید منا رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہی ہے کہ اس کی خاطر جو چند دن کے لیے ہم نے اپنے آپ کو جائز چیزوں سے روکا تھا اس نے اس کے بدلے میں آج عید کی خوشیاں دی ہیں۔ تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے سلوک کے مطابق ہے کہ
کوئی بھی نیکی تم کرو گے تو لازماً وہ اس کا اجر دے گا۔
انسان سو دنیاوی دھندے اپنی بہتری کے لیے کرے لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ضرور اس کے آخر میں اس کے لیے خوشی کے سامان ہوں گے یا کوئی بھی کام وہ کرتا ہے تو ضرور اس کے بہتر نتائج نکلیں گے جبکہ خدا تعالیٰ کی خاطر کی گئی نیکی کے لازمی بہتر نتائج نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اجر دیتا ہے اور اس کے اظہار کے طور پر تمہیں سمجھانے کے لیے اس نے ان روزوں کے بعد ہمیں یہ عید کا دن دکھایا ہے اور یہ عید کا دن اس لیے رکھا گیا ہے تا کہ یہ اظہار ہوتا رہے کہ میری خاطر تمہاری جو تنگیاں اور تکلیفیں اور برداشت تھی اس کے بعد تمہیں خوشی مہیا کرتا ہوں۔ تو یہ عید کا دن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام ہے کہ تمہارے ہر نیک عمل کا اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں اجر دے گا اور اس سے تمہیں خوشی پہنچے گی۔ اس کے بدلے میں تمہارے لیے خوشی کے سامان مہیا ہوں گے۔ اس لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو، اس کے دیے ہوئے احکامات پر عمل کرتے رہو اور ان حکموں میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو، ایک دوسرے کا خیال رکھو۔ اگر اس طرح رہو گے تو وہ ہمیشہ تمہارے لیے خوشیوں اور عیدوں کے سامان پیدا فرماتا رہے گا۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے، اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے آپس میں جھگڑا نہیں کرتے بلکہ پیار اور محبت سے رہتے ہیں۔ پس
تم بھی اگر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہو تو آپس کے لڑائی جھگڑوں کو ختم کرو۔
ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے نہ صرف اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی نافرمانی کرنے والے ہو گے بلکہ تمہارا جو جماعت کی وجہ سے ایک رعب قائم ہوا ہوا ہے وہ رعب بھی جاتا رہے گا، تمہاری طاقت ختم ہو جائے گی۔ دشمن اور مخالف تمہارے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے فائدہ اٹھائے گا۔ شیطان تمہارے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تمہارے اندر وسوسے پیدا کرے گا اور ان میں سے ایک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم میں نظام سے نفرت پیدا کر دے کیونکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تم اگر اپنے معاملے نظام جماعت کے پاس لے کر جاؤ گے تو جس فریق کے خلاف بھی فیصلہ ہو گا اس کے دل میں کچھ نہ کچھ جماعتی عہدیدار کے خلاف بدگمانی پیدا ہو گی، اس کے متعلق بدگمانی پیدا ہو گی اور پھر یہی نہیں کہ تمہاری اس بات سے دشمن فائدہ اٹھائے گا بلکہ اس وجہ سے تمہارے اندر بزدلی بھی پیدا ہو جائے گی۔ بزدل آدمی جب لڑائی جھگڑے کر رہا ہوتا ہے تو پھر مقابلے کے لیے اپنے جتھے بنانے کی کوشش کرتا ہے، گروہ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر یہ مدد کرنے والے تمہارے سے اپنے کام بھی نکلواتے ہیں۔ تمہیں غلط راستوں پہ چلاتے ہیں۔ تمہیں عہدیداروں کے متعلق باتیں بھی کریں گے اور ایسی بہت ساری باتیں پیدا ہوں گی جو قباحتیں پیدا کرنے والی ہوں۔ تو پھر یہ ایک شیطانی چکر ہے جو شروع ہو جاتا ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ پھر باتیں چھپی نہیں رہتیں۔ آپس کے جو لڑائی جھگڑے اور نفرتیں ہیں وہ پھر چھپے نہیں رہتے۔ وہ پھر غیروں تک بھی پہنچتے ہیں اور ان پر تمہارا ایک جماعت ہونے کی وجہ سے، ایک فردِ جماعت ہونے کی وجہ سے جو رعب ہے وہ رعب ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اگر ایسے معاملات پیدا ہو جائیں تو صبر سے کام لو۔ اگر بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے جس کے حل کیے بغیر گزارہ نہیں تو نظامِ جماعت کو بتا دو وہ تمہارے لیے کوئی بہتر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اور پھر تم بہرحال صبر کر کے خاموش ہو جاؤ۔ اگر تمہارا یہ صبر خدا کی خاطر ہو گا، اس لیے ہو گا کہ جماعتی وقار کو ٹھیس نہ لگے، لوگوں کو جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا موقع نہ ملے، غیروں کو جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا موقع نہ ملے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔ میری خاطر کیونکہ تم نے یہ کام کیا ہے تو مَیں بہرحال پھر تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہاری بہتری کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کروں گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ہو تو اس کو اپنی جناب سے ایسے سامان مہیا فرماتا رہتا ہے جو انسان کے لیے تسکین کا باعث بنتے رہتے ہیں، جو اس کے لیے خوشی کا سامان پیدا کر دیتے ہیں اور
اللہ تعالیٰ جماعت کے وقار کی خاطر تمہاری اس قربانی کی بہت قدر کرتا ہے۔
پس یہ رمضان اور یہ عید تمہیں یہ بھی سبق دے رہے ہیں کہ عام زندگی میں بھی خدا کی خاطر دی گئی قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خوشی کے سامان پیدا فرمائے گا ان شاء اللہ۔ اس لیے جو ایک مہینہ کی ٹریننگ تم نے لی ہے اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’اسلامی فرقوں میں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے۔ پھوٹ اسلام کے لئے سخت مضر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
لَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِيْحُكُمْ۔
جب سےاسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بدم تنزل کرتا جاتا ہے۔ اس لئے خدا نے اس سلسلہ کو قائم کیا تا لوگ فرقہ بندیوں سے نکل کر اس جماعت میں شامل ہوں جو بیہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور اس سیدھے راستے پر چل رہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔‘‘
(ملفوظات جلد10صفحہ370-371)
تو دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو بتایا ہے، یہ اعلان فرما رہے ہیں، دوسرے مسلمانوں کو یہ دعوت دے رہے ہیں کہ جس پاک جماعت کا قیام مقدر تھا وہ بن چکی ہے۔ اس لیے اگر ایک ہو کر رہنا ہے تو آؤ اور اس جماعت میں شامل ہو جاؤ کیونکہ
اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق پر چلتے ہوئے ایک ہو کر رہنے والی اور جماعت کی مضبوطی کا احساس کرنے والی، لڑائی جھگڑوں سے بچنے والی یہی ایک جماعت ہے۔
تو دیکھیں یہ کتنی بڑی توقعات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت سے کر رہے ہیں، ہم سے کر رہے ہیں۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔ اپنی معمولی معمولی لڑائیوں اور ذرا ذرا سی بات پر زُود رَنجیوں اور رنجشوں کو ترک کریں۔ آپس میں محبت اور پیار سے زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔
یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بات کا بدلہ لیا جائے اور لڑائی جھگڑوں کو بڑھایا جائے بلکہ عفو، درگزر اور صبر سے کام لینا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ٹھہریں۔
پس اس عید کے دن جو ہر ایک کے لیے خوشی کا دن ہے اپنی خوشیوں کو اَور بڑھانے کے لیے ان لوگوں سے بھی آگے بڑھ کر گلے ملیں جن سے شکر رنجیاں ہیں، ناراضگیاں ہیں ،تلخیاں ہیں۔ آپس میں بول چال بعضوں کی بند ہے، چاہے وہ دوست ہوں، عزیز ہوں یا دفتروں میں کام کرنے والے ہوں۔ میاں بیوی ہوں، ساس بہو ہوں، بہن بھائی ہوں تو جو بھی ہوں جب خدا کی خاطر اور جماعت کی مضبوطی کی خاطر ان ناراضگیوں کو دور کریں گے اور اپنے معاملات خدا پر چھوڑتے ہوئے صبر سے کام لیں گے تو اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرما رہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ان محبتوں کو پھیلانےکی وجہ سے نہ صرف ذاتی طور پر تم فائدہ اٹھاؤ گے بلکہ تمہاری یہ بات جماعتی مضبوطی کا بھی باعث بنے گی اور
جب ہر ایک کو اس بات کا احساس ہو جائے گا تو یہی چیز عید کی بھی حقیقی خوشیوں کی ضامن بن جائے گی، حقیقی خوشیاں دینے والی بن جائے گی۔
اللہ تعالیٰ سب روٹھے ہوؤں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک روایت میں آتا ہے جو حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا۔
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃوالآداب باب فی فضل الحب فی اللہ حدیث6548)
تو دیکھیں یہ ہے سلوک جو اللہ تعالیٰ اپنے سے محبت کرنے والے اور اطاعت کرنے والوں سے کرتا ہے کہ اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا جب کوئی اَور سایہ نہیں ہو گا۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تُو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے درگزر کر۔
(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ373 مسند معاذ بن انس حدیث15703 عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس یہ ہے فضیلت جو آج ہر احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو تعلق رکھتا ہے جو تمہارا خیال رکھتا ہے اس سے تعلق رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں، اس کی تو کوئی حقیقت نہیں ہے، اس میں تو کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ فرمایا فضیلت اس میں ہے کہ جو تمہارے سے تعلق توڑتا ہے، جس سے تمہیں تکلیف پہنچی ہے، جو تمہارے حق مار رہا ہے، جو تمہاری برائیاں کرتا پھرتا ہے ان سب کو معاف کرو اور ان سے تعلق جوڑو اور
اللہ کی خاطر جوڑے گئے تعلق جو ہیں اور اللہ کی خاطر کی گئی معافی جو ہے، درگزر جو ہے یہی تمہارے لیے فضیلت کا باعث ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے اور بنی نوع انسان اور اخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جاوے۔ جب تک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ95)اللہ تعالیٰ ہم سب کو رسماً نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے یہ تعلق جوڑنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں’’اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بےجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔‘‘ فرمایا ’’میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دِقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جیسے دنیاکے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑ تی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔‘‘
(ملفوظات جلد7صفحہ127)
ان برائیوں کا مطلب یہی ہے کہ پھر جو نتیجہ نکلے گا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سزا ہو گی۔ پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔ خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفاتِ حسنہ میں ترقی کروگے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتتِ اعداء ہی نہیں یعنی دشمن کو ہنسی ٹھٹھے کا موقع نہیں مل رہا بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں پاتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اس کا قرب پانے والے ہوں۔ ہماری حقیقی عیدیں تو تبھی ہوں گی جب ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں داخل ہوں گے، کامل اطاعت میں داخل ہوں گے اور جب ہم اس کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
عید کے ضمن میں بھی مَیں ایک دو اَور باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک حدیث ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی عیدوں کو خدا کی کبریائی بیان کرتے ہوئے سجاؤ۔
(کنز العمال جزء8 صفحہ546 باب صلاۃ عید الفطر حدیث24094 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
ایک اَور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ تکبیر و تحلیل اور حمد و ثنا کرتے ہوئے اور خدا کی تقدیس ظاہر کرتے ہوئے اپنی عیدوں کو زینت بخشو۔
(کنز العمال جزء8 صفحہ546 باب صلاۃ عید الفطر حدیث24095 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
تو عید کا دن صرف اچھے کپڑے پہن کر اچھے کھانے کھا کر گزارنے کا نام نہیں ہے بلکہ
عید کے لیے عید گاہ میں آتے جاتے اور سارا دن بھی ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں صرف کرنا چاہیے۔ نمازوں کا بھی باقاعدہ خیال رکھنا چاہیے۔ نمازوں کی حاضری کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے
جس طرح رمضان میں ہوتی رہی ہے۔ آج یہاں بیت الفضل میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے صبح کی نماز پہ تو کافی لوگ آئے ہوئے تھے جو قریب کے تھے۔ اللہ کرے کہ یونہی مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں۔ ہماری اصل عید تو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہی ہے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمہاری عیدوں کی زینت صرف خوشیاں منانے میں نہیں ہے۔ یہ تہوار تو اَور لوگ بھی ڈھول ڈھمکے کر کے، باجے بجا کے مناتے ہیں ۔آج کل بھی یہاں بڑے پٹاخے بج رہے ہیں، ان کا کوئی دن ہے جو منائے جاتے ہیں، پچھلے دنوں میں منائے جا رہے تھے۔ بلکہ عید کی زینت کو بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا بہت ضروری ہے اور نہ صرف فرض نمازوں کی حاضری بلکہ راتوں کو زندہ کرنے والے کے لیے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا تو اس کا دل ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فیمن قام فی لیلتی العیدین حدیث1782)
دیکھیں کس قدر خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جو عید کی راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے زندہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہر احمدی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا بن جائے۔ خدا کرے کہ یہ عید جماعت کے ہر فرد کے لیے خوشیوں کی خبریں لے کے آئے اور ہمیشہ ان خوشیوں سے حصہ پانے والے ہوں۔
اب ہم دعا کریں گے۔
سب دعا میں شامل ہوں گے ان شاء اللہ۔ دعا میں سب دنیاکے احمدیوں کو، اسیران کو، شہدائے احمدیت کی اولادوں کو؛ سب دنیا کے مجبوروں، بے کسوں کو، ضرورت مندوں کو یاد رکھیں۔ اللہ سب کے لیے خوشیوں کے سامان پیدا فرمائے اور سب اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے بن جائیں۔
اب عید مبارک کا پیغام دینا بھی رہ گیا ہے۔
سب کو یہ عید مبارک ہو
اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیشہ خوشیاں لے کر آئے۔ ربوہ کے رہنے والوں کے لیے بھی اور پاکستان کے رہنے والے احمدیوں کو عید مبارک۔ قادیان کے رہنے والوں کو بھی عید مبارک۔ دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے احمدیوں کو عیدمبارک۔ اللہ تعالیٰ سب کی عید کو اور آئندہ آنے والی عیدوں کو خوشیوں سے بھر دے۔
(خطبہ ثانیہ و دعا)