سندھ کی احمدیہ اسٹیٹس (قسط اوّل)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی بصیرت افروز راہ نمائی اور حسنِ انتظام کا شاہکار منصوبہ
جب وادئ سندھ کی ہزاروں ایکڑ اراضی اور بنجر زمینیں دیکھتے ہی دیکھتے سرسبز وشاداب، لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہوگئیں
آج سے سو سال پیشتر یعنی بیسویں صدی کا نصف اوّل دنیا میں عظیم انقلابات اور تغیرات کا زمانہ تھا۔ اس عرصے میں جنگ عظیم اوّل اور دوم کے معرکے پیش آئے۔ دنیا سے نو آبادیاتی نظام اور غلامیوں کا خاتمہ ہوا۔ صنعت و حرفت نے بےمثال ترقی کی۔ ایٹم بم جیسی مہلک ایجادات سامنے آئیں۔ اسی طرح سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ، انقلاب روس، جاپان کی حیرت انگیز فتوحات اور بالآخرشکست نیز امریکہ و اتحادی افواج کی کامیابی نے نظامِ عالم کا نیا نقشہ ترتیب دیا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں جب یورپی طاقتیں باہم دست وگریبان تھیں اور یورپ کے اکثر ممالک جنگوں کا شکار تھے، جنگ عظیم اوّل کے شعلے بجھتے ہی نئے سرے سے انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور جاپان بھی جنگی جنون کی لپیٹ میں آچکاتھا۔ اس وقت برطانوی راج کے ماتحت سرزمین سندھ میں نہ صرف یہ کہ امن وعافیت کا دور دورہ تھا بلکہ ایسے عظیم الشان منصوبوں کی بنیاد رکھی جارہی تھی جو اس خطے کی تقدیر بدلنے والے اور غیر معمولی کشش کے حامل منصوبے تھے۔ 1890ء کے اوائل میں ہی حیدر آباد اور جودھپور کے مابین ریلوے لائن بچھ چکی تھی اور 1901ء میں کراچی اور بمبئی کے درمیان’’سندھ میل‘‘ دوڑنے لگی تھی۔ اسی طرح کھوکھرا پار اور موناباؤ کے ٹریک پر’’راجہ جی کی ریل‘‘کے چرچے تھے تو میرپورخاص اور عمر کوٹ کے اضلاع میں سرکلر ریلوے یا لوپ لائن کا جال بچھ چکا تھا۔ 1923ء میں سکھر کے مقام پر ایک عظیم بیراج (لائیڈ بیراج یا سکھر بیراج)کی تعمیر شروع ہوچکی تھی جو اپنی نوعیت کادنیا کا سب سے بڑا نہری آب پاشی کا منصوبہ تھا۔
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ 1914ء کی اپنی ایک رؤیا کی بنا پر سندھ کی طرف متوجہ ہوئے اورا ٓپ کے نہایت بلند فکر و خیال اور حُسن انتظام کی بدولت صدیوں سے ویران پڑی ہوئی بنجر زمینیں سونا اگلنے لگیں اوردیکھتے ہی دیکھتے موجودہ ضلع عمرکوٹ، میرپورخاص اور حیدرآباد کی ہزاروں ایکڑ اراضی لہلہاتے سبزہ زاروں کا روپ اختیار کرگئی۔ حضورؓ اپنی اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ابھی سکھر بیراج نہیں بنا تھا۔ اور نہ اس قسم کی کوئی خاص سکیم تھی۔ میں نے خوا ب میں دیکھا کہ میں ایک نہر کے کنارے ایک بند پر کھڑا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اس علاقہ میں طغیانی آگئی ہے اور گاؤں کے گاؤں غرق ہونے شروع ہوگئے ہیں اور میں حیرت کے ساتھ یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ اتنے میں میرے ساتھیوں میں سے کسی نے مجھے آواز دی کہ پیچھے کی طرف سے پانی بہت قریب آگیا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دیکھا کہ تمام قصبے اور گاؤں زیر آب ہورہے ہیں اور پانی بہت قریب آگیا ہے۔ جس کنارے پر میں کھڑا ہوں وہاں کچھ اور اشخاص بھی میرے ساتھ کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر میں پانی اور بھی زیادہ قریب آگیا ہے اور اس نے وہ کنارا بھی اکھاڑ پھینکا جس پر میں کھڑا تھا اور میں نہر میں تیرنے لگ گیا ہوں۔ یہ نہر دور تک چلی جاتی ہے اور اب دریا کی شکل میں تبدیل ہوگئی ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی جگہ میرے پیر لگ جائیں۔ آخر میں تیرتا تیرتا فیروز پور کے آگے نکل گیا اور بار بار کوشش کے باوجود میرے پاؤں کہیں نہیں لگے۔ اُس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ نہر، ستلج سے جا ملی ہے اور اب یہ دریا سندھ میں ملنے کے لئے جارہا ہے۔ تب میں بہت گھبرایا اور میں نے دعا شروع کی کہ یااللہ ! سندھ میں تو میرے پَیرلگ جائیں۔یا اللہ! سندھ میں تو میرے پیر لگ جائیں۔ اس دعا کے بعد میں دیکھتا ہو کہ یک دم ایک اونچی جگہ پر میرےپیر لگ گئے ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1946ء بمقام محمد آباد سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 132)
’’اور جب میں نے یہ دعا کی تو مجھے معلوم ہوا کہ سندھ آگیا ہے۔ پھر میں نے کوشش کی تو پیر ٹِک گیا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے سب پانی غائب ہوگیا ‘‘( روزنامہ الفضل 7؍اپریل 1944ء)
سندھ میں زمینوں کی خرید ایک معجزہ اور نشان ہے
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’جب سندھ کا علاقہ آباد ہونا شروع ہوا تو یہ خواب مجھے یاد آگئی اور اس خواب کی بناء پر میں نے یہاں زمینیں خرید لیں۔ جس وقت میں نے یہ خواب دیکھی تھی اُس وقت سندھ کے آبادہونے کے کوئی آثار نہ تھے اور جتنے بڑے بڑے انجینئر تھے وہ سب سکھر سے نہریں نکالنے کے خلاف تھے۔ آخر لارڈ لائڈ نے جو کہ بمبئی کا گورنر تھا چند انجینئروں کو اپنے ساتھ متفق کیا اور سکھر بیراج کی سکیم منظور کروالی اور اسی کے نام سے اس بیراج کا نام لائڈ بیراج ہے۔ غرض یہ جائیداد ایک معجزہ اور ایک نشان ہے۔ اس کا ہر ایکڑ خدا تعالیٰ کے کلام کی تصدیق کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اس جائیداد کا پیدا ہونا ایک الٰہی سکیم کے مطابق ہے۔ اور ہمیں چاہیے کہ اس جائیداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ پس اگر کسی دوست کو معلوم ہو کہ کسی جگہ اس علاقہ میں اور زمین ملتی ہے تو اسے ہمیں اطلاع دینی چاہیے۔ اس وقت ہماری زمینیں ضلع میرپورخاص اور ضلع حیدر آباد میں ہی ہیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ سندھ کے تمام علاقوں میں ہماری زمینیں پھیل جائیں، کیونکہ جہاں ہماری زمینیں ہوں گی وہاں ہمارے کارکن بھی رہیں گے اور ان کے ذریعہ سندھیوں میں احمدیت پھیلے گی۔ پس دوستوں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ جہاں کہیں کسی جائیداد کا پتا لگے کہ وہ سلسلہ کے لئے فائدہ بخش ہوسکتی ہے فورا ًمجھے یا تحریک جدید کو اطلاع دیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1946ء بمقام محمد آباد سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 133)
اراضئ سندھ کی خرید
اراضی سندھ کی خرید جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک درخشاں باب اور احمدیت کی وسعت و ترقی کا ایک عظیم منصوبہ کہی جاسکتی ہے۔ اس اراضی کی خرید کے بارے میں تاریخ احمدیت میں مذکور ہے کہ’’اب سلسلہ کی ضروریات ایسی صورت اختیار کر چکی تھیں کہ اسلام و احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک مستقل فنڈ جاری کرنا ضروری تھا۔ ا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی بعض جائدادیں اسلامی کاموں کے لئے وقف کر دی گئی تھیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓکے زمانہ میں کیا گیا۔ حضرت فضل عمرؓ نے بھی اسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے 1932ء میں ریزرو فنڈ کی مستقل بنیاد رکھی اور سندھ میں زمینیں خرید فرمائیں۔ یہ پانچ لاکھ کا سودا تھا۔ جو بیس سال میں ادا کرنا تھا۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 79)
ابتدا میں خریدی گئی زمین کا رقبہ
صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ مطبوعہ رپورٹ کے مطابق: ’’ ایک سال چھ ماہ کی متواتر کوشش سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کامیابی عطافر مائی اور سندھ میں حضور کی خواہش کے مطا بق پانچ ہزار ایکڑ زمین مل گئی۔ اس میں انجمن کا حصہ 2860ایکڑ کا ہے۔ انتظامی لحاظ سے انجمن کا اس میں اسی قدر دخل ہے کہ جس قدر ایک حصہ دار کا ہوسکتا ہے۔ مگر چونکہ انجمن کا سب حصہ داروں سے بڑا حصہ ہے اس لئے ناظر صاحب اعلیٰ اس کمیٹی مذکور یعنی سنڈیکیٹ کے ممبر ہیں اور اس ذریعہ سے مشترکہ جائیداد کے نظم ونسق میں انجمن کا خاص دخل ہے پس اس لحاظ سے ایک حد تک انجمن کے مفاد پر انجمن کے قائمقام یعنی ناظر صاحب اعلیٰ ہر وقت نظر رکھتے ہیں اور اس کاروبار کے عنوان انشاء اللہ امید افزاء ہیں۔
چونکہ پانچ ہزار ایکڑ اچھی زمین کا ایک جگہ پر ملنا مشکل تھا اس لئے دو مقامات پر اچھی اچھی زمینیں منتخب کی گئیں جس کی تلاش میں سنڈیکیٹ نے بہت سا مال اور وقت صرف کرکے اسے حاصل کیا۔ ‘‘( تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 79)
زمین کی تلاش کرنے والے اوّلین بزرگ
سندھ کےغیر معروف اور دور دراز علاقوں میں زمین کا انتخاب ایک نہایت کٹھن مرحلہ تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ خلف الرشید حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ کی کاوشیں قابلِ ذکر ہیں۔ جنہوں نے نہایت بڑی محنت اور جانفشانی سے پھر پھر کر موزوں زمینیں تلاش کیں۔ (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 80)
سب سے پہلی قائم ہونے والی اسٹیٹس
1932ء میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کی کوششوں سے زمین کی تلاش کا کام مکمل ہوا تو پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل دو اسٹیٹس کا قیام عمل میں آیا اس کی تفصیل تاریخ احمدیت میں یوں مذکو ر ہے کہ’’ ایک کا نام احمد آباد اسٹیٹ اور دوسرے کا محمود آباد اسٹیٹ رکھا گیا۔ اول الذکر میں 4؍نومبر 1932ء کو پانی ملا تھا۔ جہاں بوجہ تنگی صرف 575 ایکڑ زمین میں فصل ربیع بویا جاسکا۔ جس کی آمد اندازاً 8۔ 9ہزار ہوئی۔ اور دوسرے رقبہ میں چونکہ پانی ربیع گزشتہ 1932ء کے موقع پر نہیں ملا تھا۔ بلکہ ابھی تک بھی پانی کی مقدار ضرورت سے کم ہے اس لئے وہ گزشتہ سرما 32۔ 1933ء میں خالی رہا۔ البتہ موسم خریف میں تین چار سو ایکڑ کپاس اور باجرہ بویا گیا۔ اور اس طرح احمد آباداور محمود آباد بفضلہ تعالیٰ اندازاً ایک ہزار ایکڑ کپاس و باجرہ فصل خریف سنِ رواں میں ہوئی۔ جس سے امید ہے کہ انشاء اللہ اندازاً تیس ہزار روپیہ سنڈیکیٹ کو آمد ہوجائے گی اور آئندہ ربیع بارہ تیرہ سو ایکڑ کاشت ہوچکی ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 80)
اسی طرح 1932ء سے قبل ہی ایک مخلص احمدی خاندان زیریں سندھ میں آباد تھا۔ حضرت چودھری غلام حیدر صاحبؓ اور ان کے خاندان نے تحصیل ماتلی ضلع بدین میں جو گاؤں آباد کیا اس کا نام کوٹ احمدیاں رکھا گیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا بھی اس بستی میں رونق افروز ہوئے۔ چودھری غلام حیدر صاحبؓ چونکہ پہلے سے اس علاقے میں آباد تھے لہٰذا پنجاب سے ہجرت کرکے سندھ تشریف لانے والے احباب کی ابتدائی راہنمائی اور میزبانی کی سعادت اس خاندان کے حصہ میں آتی۔
سندھ کو اشاعتِ اسلام کا مرکز بنانے کی خواہش
سندھ میں احمدیہ اسٹیٹس کا قیام تاریخ احمدیت کے ایک درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سر زمینِ سندھ کی جغرافیائی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہمارے لئے تبلیغی لحاظ سے سندھ بہت اعلیٰ جگہ ہے۔ سندھ وہ ملک ہے جہاں اسلام ہندوستان میں سب سے پہلے آیا۔ جہاں مقامی روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ تشریف لائے اور جہاں آپ کے صحابہ فوت ہوئے۔ ناصر آباد کے پاس ایک گاؤں ہے جس کا نام دیہہ صحابو ہے۔ یعنی صحابی کا گاؤں۔ وہاں ایک صحابی کی قبر بھی ہے اور عین میری زمین میں ہے۔ اسی طرح بمبئی کے پاس ایک جگہ تھانہ ہے وہاں بھی صحابہ کی قبریں بیان کی جاتی ہیں۔
اہل عرب میں تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا راستہ سندھ ہے۔ ہم پنجاب سے عرب میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہم بنگال سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہم یوپی سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہم افغانستان سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ اگر ہم عرب میں تبلیغ کرسکتے ہیں تو سندھ کے رستے سے ہی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہندوستان کی تمام تجارت عرب سے سندھ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عرب کی کھجوریں، چٹائیاں، رسیاں اور اسی قسم کی دوسری چیزیں کراچی آکر اُترتی ہیں۔ کراچی سے غلہ، کھانڈ اور باقی اشیاء تجارت عرب کو جاتی ہیں۔ یہ تجارت زیادہ تر کشتیوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عربوں کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے جہالت کے زمانہ میں آکر ہم کو ظلمت سے نکالا، ہمیں اللہ تعالیٰ سے ملایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رُوشناس کرایا۔ یہ ان کی اتنی بڑی نیکی ہے کہ جس کا کسی طرح بدلہ نہیں دیا جاسکتا۔ اور اب جبکہ عرب خدا تعالیٰ سے دور جا چکے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے ملائیں اور عربوں کو تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ یہی ہے کہ ہم سندھیوں کو احمدی بنائیں۔ اگر سندھی لوگ کثرت سے احمدی ہوجائیں تو ہماری آواز بہت ہی آسانی کے ساتھ عربی ممالک میں پہنچ سکتی ہے، کیونکہ عرب کا اور سندھ کا سمندر ملا ہوا ہے۔ عرب سے سندھ کو اور سندھ سے عرب کو کثرت سے کشتیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ اگر کشتیاں چلانے والے یا کشتیوں کے مالک احمدی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی ممالک میں احمدیت کی آواز نہ پہنچے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1946ء بمقام محمد آباد سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 130تا131)
سندھ میں جائیدادوں کا عطا ہونا بلا وجہ نہیں
حضورؓ نے محمد آباد اسٹیٹ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ’’ہماری جماعت کو اس علاقہ کی اہمیت کو جاننا چاہیے۔ صرف یہی نہیں کہ سندھ عرب کا دروازہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سلسلہ کو سندھ میں جائیدادیں عطا کی ہیں اور یہ بات بھی بلاوجہ نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہندوستان میں بلا وجہ نہیں بھیجا اسی طرح اللہ تعالیٰ کا سندھ میں ہمیں جائیدادیں عطا کرنا بلا وجہ نہیں …یہاں سندھ میں لانے کی کوئی وجہ تو ضرور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ زمینیں ایک خواب کی بنا ء پر خریدی گئی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1946ء بمقام محمد آباد سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 132)
قیام پاکستان کے وقت اراضئ سندھ کارقبہ
1932ء میں پانچ ہزار ایکڑ اراضی کی خرید کے ساتھ احمدآباد اور محمود آباد اسٹیٹس کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بصیرت افروز راہ نمائی، زمینوں کی نگرانی کے لیے بزرگان سلسلہ اور واقفین زندگی کارکنان کا تقرر اور کام کرنے والوں کی محنت شاقہ کے نتیجے میں یہ منصوبہ مسلسل ترقی پذیر ثابت ہوتے ہوئے روز افزوں کامیابیاں حاصل کرنے لگا۔ اور اس رقبہ کی وسعت اس قدر بڑھی کہ ہزاروں مربعوں تک جا پہنچی۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’اب خدا تعالیٰ کے فضل سے 35,34ہزار ایکڑ یا اس سے زائد زمین احمدیوں کے پاس ہے۔ نواب شاہ، تھرپارکر، حیدرآباداور دادو وغیرہ اضلاع میں دوہزار مربعے کے قریب احمدیوں کی زمین ہے۔ جس میں سے 18ہزار ایکڑ کے قریب زمین میری اور انجمن کی ہی ہے۔ آٹھ دس ہزار ایکڑ زمین اس علاقہ میں دوسرے احمدیوں کے پاس ہے۔ اس علاقہ سے باہر حیدرآباد اور ضلع نواب شاہ اور ضلع لاڑکانہ اور دادو میں بھی بہت سے احمدیوں نے زمین خرید لی ہے۔ لیکن جب یہ خواب آئی تھی اس وقت دو مربعے زمین بھی احمدیوں کے پاس نہیں تھی۔ شاید کوٹ احمدیاں والے اِس سے پہلے سندھ آئے ہوئے تھے۔ باقی جو سندھی زمیندار ہیں وہ بعد میں احمدی ہوئے ہیں اور جن لوگوں نے زمین خرید لی ہے وہ بھی بعد میں آئے ہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ وہ ہمیں یہاں لے آیا۔ ‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ29؍فروری 1952ء بمقام بشیر آباد اسٹیٹ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 33صفحہ 35)
احمدیہ اسٹیٹس کے نام
جس طرح وطن سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے اسی طرح شہروں اور قصبوں کے ناموں سے جذباتی وابستگی محسوس کرنا انسان کا فطری خاصہ ہے۔ جب یہ نام احسن اور خوبصورت ہوں تو انسان کے مزاج اور تربیت پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ اسی لیےہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے نام رکھتے وقت اچھے نام رکھنے کی تلقین فرمائی ہے، کیونکہ نام انسان کی شناخت کا ذریعہ بنتا اور اس کی تربیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سندھ میں زرعی زمینوں کی خرید کے ساتھ ان دیہات اور قصبات کو نہایت حکیمانہ رنگ میں مقدس شخصیات اور بزرگا ن سلسلہ کے ناموں سے موسوم کرنا شروع کیا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں: ’’سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کی یادگار کو تازہ رکھنے کے لئے میں نے سلسلہ کی جائیداد کے مختلف گاؤں کے نام بزرگوں کے ناموں پر رکھنا تجویز کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اس لئے آپ کے نام پر اس گاؤں کا نام جو تحریک جدید کی جائیداد کا مرکز ہے محمد آباد رکھا گیا ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کے مرکز کا نام احمدآباد حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے نام پر رکھا گیا ہے۔ محمد آباد کا آٹھ ہزار ایکڑ کا رقبہ ہے۔ اس لحاظ سے میرا خیال ہے اس میں چھ سات گاؤں اور آباد ہوسکتے ہیں۔ اگر بارہ سو ایکڑ کا ایک گاؤں بنایا جائے تو سات گاؤں اس رقبہ میں آباد ہوسکتے ہیں۔ اس وقت جو آبادیاں یہاں قائم ہوچکی ہیں ان میں سے ایک کا نام پہلے سے حضرت خلیفہ اول کے نام پر نور نگر ہے۔ اب شمالی حلقہ کی ایک آبادی جو سٹیشن کے پاس ہے اس کا نام کریم نگر رکھا گیا ہے۔ اور مغربی طرف کی دوآبادیوں میں سے ایک کا نام لطیف نگر صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی یاد میں، اور ایک کا نام روشن نگر حافظ روشن علی صاحب کی یادگار میں رکھا گیا ہے۔ پہلے میں نے ان ناموں کے ساتھ آباد لگایا تھا مگر پھر اسے نگر میں تبدیل کردیا تاکہ محمد آباد نام کے لحاظ سے بھی اپنے حلقہ میں ممتاز ہو۔ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ہیں اور یہ لوگ ستارے ہیں اسی طرح محمد آباد بطور سورج کے ہو اوراس کے ارد گرد باقی گاؤں بطور ستاروں کے ہوں۔ میرا ارادہ بعض اور نام رکھنے کا بھی ہے مثلاً برہان نگر مولوی برہان الدین صاحب کے نام پر اور اسحاق نگر میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے نام پر۔ اسی طرح ایک دو گاؤں احمدآباد کی زمین پر بھی آباد ہوسکتے ہیں، ان کے ساتھ بھی نگر لگایا جائے گا اور جو گاؤں احمدآباد میں ہوں گے ان کے نام بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنےو الوں کےنام پر رکھے جائیں گے۔ ان گاؤں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہوں گے کیونکہ ایک وہ دن تھا کہ قادیان میں اگر تین چار سو روپیہ چندہ آجاتا تھا تو بڑی ترقی سمجھی جاتی تھی اور آج یہ دن آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کو لاکھوں کی جائیدادیں دی ہیں اور قربانی کرنے والوں کے نام پر گاؤں آباد ہورہے ہیں۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ ایک گاؤں کا نام تحریک نگر رکھا جائے جو تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی یادگار ہو۔ پس اگر کسی دوست کو اضلاع حیدر آباد، نواب شاہ، سکھر، دادو، کراچی یا میرپورخاص میں کسی اچھی زمین کا علم ہو تو وہ ہمیں فوراً اطلاع دے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1946ء بمقام محمد آباد سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 133تا 134)
جماعت احمدیہ کے محبت ِرسولﷺ کے انداز
سندھ میں احمدیہ اسٹیٹس کے نام رکھنےمیں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے نہایت حکیمانہ اسلوب اختیار فرماتے ہوئے جماعت احمدیہ کی تربیت اور راہ نمائی فرمائی کہ ہمارے لیے دنیا کا سب سے عزیز اور مقدس وجود حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ نے ان اسٹیٹس میں تحریک جدید کی جائیداد کے مرکزی مقام کا نام محمدآباد تجویز کرتے ہوئے اس کی مرکزی حیثیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’پہلے میں نے ان ناموں ( روشن نگر، لطیف نگراور کریم نگر) کے ساتھ آباد لگایا تھا مگر پھر میں نے اسے تبدیل کردیا تاکہ محمد آباد نام کے لحاظ سے بھی اپنے حلقہ میں ممتاز ہو۔ جس طرح رسول کریمﷺ سورج ہیں اور یہ لوگ ستارے ہیں، اسی طرح محمد آباد بطور سورج ہے اور اس کے ارد گرد باقی گاؤں بطور ستاروں کے ہوں۔ ‘‘( روزنامہ الفضل 12؍مارچ 1946ء)
اسی طرح ایک مرتبہ محمد آباد کی تبلیغی اور دیگر ترقیات پر اظہار مسرت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس دفعہ تبلیغ میں بھی محمدآباد سب سے بڑھ گیا ہے۔سندھیوں میں سب سے زیادہ محمدآباد کے لوگوں نے تبلیغ کی ہے اور تیرہ چودہ آدمی بیعت بھی کرچکے ہیں۔ اور سرعت کے ساتھ ترقی کی طرف قدم اُٹھتا نظر آرہا ہے۔ اس دفعہ محمد آباد باقی اسٹیٹوں سے دو لحاظ سے اوّل نمبر پر رہا۔ اوّل فصلوں کے لحاظ سے۔ جیسی فصل اس دفعہ محمد آباد میں ہے ایسی فصل ہماری کسی اور اسٹیٹ میں نہیں۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ محمد آباد ایک دنیوی کام میں سب سے بڑھ گیا ہے بلکہ ہم اس کامیابی کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ محمد آباد نے خدا کے نام کی جائیداد کو باقی اسٹیٹوں سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے…دوسرے تبلیغی لحاظ سے محمد آباد اوّل نمبر پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے ان کے ذریعہ دین کی اشاعت اور تبلیغ اسلام کی خوشبو دور دور تک پھیلے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1946ء بمقام محمد آباد سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 130)
سندھ میں واقع احمدیہ اسٹیٹس کی بنیادی تقسیم اس طرح تھی کہ زمینوں کا بڑا حصہ تحریک جدید کی ملکیت تھا اور تحریک جدید کی زمینوں کےمراکز محمد آباد اور بشیر آباد اسٹیٹ تھے۔ صدر انجمن احمدیہ کی زمینوں کا مرکز احمد آباد اسٹیٹ، حضورؓ کی ذاتی زمینوں کے مرکز محمود آباد اور ناصرآباد تھے۔ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کی زمین نصرت آباد اسٹیٹ، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی زمین مبارکہ آباد کے نام سے آباد تھی۔ مسیح آباد اور مہدی آباد کے نام سے بھی بستیاں آباد تھیں اور احمدی زمینداروں اور خاندانوں کی ذاتی زمینوں کے نام بھی اس علاقے میں احمدیت کے وجو د کا پتہ دیتے تھے۔ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کی زمین ظفر آباد کے نام سے موسوم تھی۔ حضرت چودھری غلام حیدر صاحبؓ کی آباد کی ہوئی بستی کوٹ احمدیاں جماعت کی زمینوں کی خرید سے بھی پہلے وجود رکھتی تھی۔ اس علاقے کے قصبوں اور دیہات کے پرانے اور تاریخی ناموں کے بالمقابل نئی آباد ہونے والی بستیوں کو نہایت خوبصورت ناموں سے موسوم کرنا احمدیہ اسٹیٹس کے حُسن وکشش میں اضافہ کا موجب ثابت ہوا۔
زرعی اصلاحات کے نفاذ کے نام پر جب زمینوں کا بہت بڑا حصہ سرکاری تحویل میں لے لیا گیا تو ذرائع معاش محدود اور مسدود ہوجانے کی وجہ سے احمدی احباب ان علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ اس ہجرت کے نتیجے میں ان قصبوں اور دیہات کی وہ شان و شوکت تو برقرار نہ رہ سکی لیکن آج بھی برگزیدہ ہستیوں سے منسوب ان علاقوں کے نام، کھجوروں اور آموں کے باغات اور بچے کھچے آثار باقیہ عظمتِ رفتہ کی داستان سنارہے ہیں۔
تہجدگزار ہاری اور کسان
حضرت مصلح موعودؓ کے حکیمانہ انداز تربیت، کارکنان کی انتھک محنت اور حضورؓ کے مسلسل دوروں کے نتیجے میں یہ علاقہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ کارکنان کی بڑی تعدادواقفین زندگی پر مشتمل ہونے کے علاوہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد میں سے متعدد بزرگ شخصیات ان علاقوں میں فروکش ہونے لگیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کے حُسن انتظام سےاحمدیہ اسٹیٹس اور فارمز کے گلی کوچے ہر وقت سجے سنورے نظر آنے لگے، معزز احمدی شخصیات، اُساتذہ اور زمینوں کی دیکھ بھال پر مامور بزرگان نہایت اُجلے اور بھلے لباسوں میں دکھائی دیتے۔ سر وں پر جناح کیپ اور پگڑیاں، سڑکوں اور گلی کوچوں پر اسلامی آداب اوراخلاقی ارشادات کی خطاطی ایک ایسا منظر پیش کرتی جس کی مثال احمدیہ اسٹیٹس کے علاوہ دیگر گوٹھوں اور قصبات میں نا پید تھی۔ کارکنان کے اخلاقی اور روحانی معیارکا اندازہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کی اس تحریر سے ہوتا ہے جس میں وہ نصرت آباد اسٹیٹ کے کارکنان کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’بفضل تعالیٰ ہماری اسٹیٹ خدمت دین میں اور چندہ میں دوسری سٹیٹس سے بڑھ کر ہیں۔ تبلیغی مساعی بڑھ رہی ہیں۔ بعض نہایت آوارہ لڑکے یہاں آئے لیکن تہجد گزار بن گئے اور ان کے والدین شکر گزار ہوئے۔ ہمارے اکثر کارکنان تہجد گزار ہیں۔ باقیوں کو بھی تہجد گزار ہونا چاہیے۔ پھر کوئی مقابلہ نہ کرسکے گا۔ لوگوں پر نمونہ اثر کرتا ہے۔ معاملہ کی صفائی اور ماتحتوں سے بچوں جیسا سلوک چاہیے۔ وہ آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھیں، میں نے کارکنوں کو زبانی اور تحریری کہا ہے کہ لین دین میں قطعاً کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ احتیاط کرتے ہوئے بے شک میرا حصہ کسی ہاری کو دیدیں لیکن کسی ہاری کا حق میرے لئے حاصل نہ کریں۔ ہر ایک اس چیز کو جو ناجائز طور پر حاصل کی جاتی ہے، جہنم کی آگ کا ایندھن تصور کرتا ہوں۔ میں تمام ہاریوں ( کسانوں ) کے روبرو آپ لوگوں کو کہتا ہوں کہ ایسی چیز جو کہ جبر سے زیادتی سے ہاریوں سے آپ لوگ حاصل کریں گے۔ میں اس سے بری ہوں۔‘‘(الحکم جلد 7نمبر14؍مئی 1948ء)
(جاری ہے)