جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے، اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 20؍ جنوری 2012ءمیں فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے۔ اسی طرح امرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی امر ہے‘‘۔ (یعنی اگر برائیوں سے زبان کو روکنا ضروری ہے تو حق بات کو کہنے کے لئے زبان کو کھولنا، منہ کھولنا، اُس کو استعمال کرنا بھی ضروری ہے) فرمایا کہ ’’یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر (آل عمران: 115)مومنوں کی شان ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اُس قوّت کو اپنے اندر رکھتا ہے‘‘ (جب یہ باتیں کر رہے ہیں تو اپنی عملی حالت سے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ نیکیاں جو مَیں کہہ رہا ہوں میرے پاس موجود ہیں ) فرمایا ’’کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔ پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور اندازِ بیان ایسا ہو نا چاہیے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلا ف بھی زبان کا کھولنا سخت گنا ہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ281-282۔ ایڈیشن 2003ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ ہم یہ معیار حاصل کریں اور ہمارا ہر قول اور فعل نیکیاں بکھیرنے والا اور برائیوں کو روکنے والا ہو۔ ورنہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہم الٹا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں کہ ایک عہد کر کے پھر اُسے پورا نہیں کر رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’مَیں باربار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے، اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے۔ … وہ لوگ جو دُورہیں، وہ قابل مؤاخذہ نہیں، لیکن تم ضرور ہو۔ اگر تم میں اور اُن میں کوئی ایمانی زیادتی نہیں، تو تم میں اور ان میں کیا فرق ہوا‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ28، ایڈیشن 2003ء)