اے نادان! کیا مسلمانوں میں اختلاف مذہب اور رائے کی یہی سزا ہوا کرتی ہے۔
اور اس جگہ یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی ہے۔ کہ جب شاہزادہ مرحوم کی اُن بدقسمت مولویوں سے بحث ہورہی تھی تب آٹھ آدمی برہنہ تلواریں لے کر شہید مرحوم کے سر پر کھڑے تھے۔ پھر بعد اس کے وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا۔ اور یہ چالاکی کی گئی۔ کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمداً نہ بھیجے گئے۔ اور نہ عوام پر اُن کا مضمون ظاہر کیا گیا۔ یہ صاف اس بات پر دلیل تھی۔ کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے۔ مگر افسوس امیر پر کہ اُس نے کفر کے فتویٰ پر ہی حکم لگا دیا۔ اورمباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے۔ حالانکہ اُس کو چاہئے تو یہ تھا کہ اُس عادلِ حقیقی سے ڈر کر جس کی طرف عنقریب تمام دولت و حکومت کو چھوڑ کر واپس جائے گا خود مباحثہ کے وقت حاضر ہوتا۔ بالخصوص جبکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اس مباحثہ کا نتیجہ ایک معصوم بے گناہ کی جان ضائع کرنا ہے۔ تو اس صورت میں مقتضا خدا ترسی کا یہی تھا۔ کہ بہر حال افتاں وخیزاں اُس مجلس میں جاتا۔ اورنیز چاہئے تھا کہ قبل ثبوت کسی جرم کے اس شہید مظلوم پر یہ سختی روانہ رکھتا۔ کہ ناحق ایک مدت تک قید کے عذاب میں ان کو رکھتا۔ اور زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے شکنجہ میں اُس کو دبایا جاتا۔ اور آٹھ سپاہی برہنہ شمشیروں کے ساتھ اس کے سر پرکھڑے کئے جاتے اور اس طرح ایک عذاب اور رُعب میں ڈال کر اُس کو ثبوت دینے سے روکا جاتا۔ پھر اگر اُس نے ایسا نہ کیا تو عادلانہ حکم دینے کےلئے یہ تو اُس کا فرض تھا۔ کہ کاغذات مباحثہ کے اپنے حضور میں طلب کرتا۔ بلکہ پہلے سے یہ تاکید کر دیتا کہ کاغذات مباحثہ کےمیرے پاس بھیج دینے چاہئیں۔ اور نہ صرف اس بات پرکفایت کرتا کہ آپ ان کاغذات کو دیکھتا۔ بلکہ چاہئے تھا۔ کہ سرکاری طور پر ان کاغذات کو چھپوا دیتا کہ دیکھوکیسے یہ شخص ہمارے مولویوں کے مقابل پر مغلوب ہوگیا۔ اورکچھ ثبوت قادیانی کے مسیح موعود ہونے کے بارے میں اور نیز جہاد کی ممانعت میں اور حضرت مسیحؑ کے فوت ہونے کے بارے میں نہ دے سکا۔ ہائے وہ معصوم اس کی نظر کے سامنے ایک بکرے کی طرح ذبح کیا گیا۔ اور باوجود صادق ہونے کے اور باوجود پورا ثبوت دینے کے اور باوجود ایسی استقامت کے کہ صرف اولیاء کو دی جاتی ہے پھر بھی اُس کا پاک جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ اور اس کی بیوی اور اُس کے یتیم بچوں کو خوست سے گرفتار کر کے بڑی ذلّت اور عذاب کے ساتھ کسی اورجگہ حراست میں بھیجا گیا۔ اے نادان! کیا مسلمانوں میں اختلاف مذہب اور رائے کی یہی سزا ہوا کرتی ہے۔ تو نے کیا سوچ کر یہ خون کردیا۔ سلطنت انگریزی جو اس امیر کی نگاہ میں اور نیز اُس کے مولویوں کے خیال میں ایک کافر کی سلطنت ہے کس قدر مختلف فرقے اس سلطنت کے زیر سایہ رہتے ہیں۔ کیا اب تک اس سلطنت نے کسی مسلمان یا ہندو کو اس قصور کی بناء پر پھانسی دے دیا کہ اس کی رائے پادریوں کی رائے کے مخالف ہے۔ ہائے افسوس آسمان کے نیچے یہ بڑا ظلم ہوا کہ ایک بے گناہ معصوم باوجود صادق ہونے کے باوجود اہل حق ہونے کے اور باوجود اس کے کہ وہ ہزارہا معزز لوگوں کی شہادت سے تقویٰ اور طہارت کے پاک پیرایہ سے مزین تھا۔ اس طرح بے رحمی سے محض اختلاف مذہب کی وجہ سے مارا گیا۔ اس امیر سے وہ گورنر ہزارہا درجہ اچھا تھا جس نے ایک مخبری پر حضرت مسیحؑ کو گرفتار کرلیا تھا یعنی پیلاطوس جس کا آج تک انجیلوں میں ذکر موجود ہے۔ کیونکہ اس نے یہودیوں کے مولویوں کو جبکہ انہوں نے حضرت مسیحؑ پر کفر کا فتویٰ لکھ کر یہ درخواست کی کہ اس کو صلیب دی جائے یہ جواب دیا۔ کہ اس شخص کا میں کوئی گناہ نہیں دیکھتا افسوس اس امیر کوکم سے کم اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھنا چاہئے تھا۔ کہ یہ سنگساری کا فتویٰ کس قسم کے کفر پر دیا گیا۔ اور اس اختلاف کو کیوں کفر میں داخل کیا گیا۔ اور کیوں انہیں یہ نہ کہا گیا کہ تمہارے فرقوں میں خود اختلاف بہت ہے۔ کیا ایک فرقہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سنگسار کرنا چاہئے۔ جس امیر کا یہ طریق اور یہ عمل ہے۔ نہ معلوم وہ خدا کوکیا جواب دے گا۔
بعد اس کے کہ فتویٰ کفر لگا کر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا۔ صبح روز دو شنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانہ یعنی خاص مکان دربار امیر صاحب میں بلایا گیا۔ اُس وقت بھی بڑا مجمع تھا۔ امیر صاحب جب ارک یعنی قلعہ سے نکلے تو راستہ میں شہید مرحوم ایک جگہ بیٹھے تھے اُن کے پاس ہو کر گزرے اور پوچھا کہ اخوندزادہ صاحب کیا فیصلہ ہوا۔ شہید مرحوم کچھ نہ بولے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں نے ظلم پر کمر باندھی ہے۔ مگر سپاہیوں میں سے کسی نے کہا کہ ملامت ہوگیا یعنی کفر کا فتویٰ لگ گیا۔ پھر امیر صاحب جب اپنے اجلاس پر آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوندزادہ صاحب مرحوم کو بلایا۔ اور کہاکہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے۔ اب کہو کہ کیا توبہ کروگے یا سزا پاؤگے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیا۔ اورکہا کہ مَیں حق سے توبہ نہیں کر سکتا۔ کیا مَیں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ تب امیر نے دوبارہ توبہ کےلئے کہا۔ اور توبہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا۔ مگر شہید موصوف نے بڑے زور سے انکار کیا۔ اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے توبہ کروں۔ ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں۔ کہ یہ سُنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ہم خود اس مجمع میں موجود تھے اور مجمع کثیر تھا۔ شہید مرحوم ہرایک فہمایش کا زور سے انکار کرتاتھا اور وہ اپنے لئے فیصلہ کرچکا تھا۔ کہ ضرور ہے کہ میں اس راہ میں جان دوں تب اُس نے یہ بھی کہا کہ میں بعد قتل چھ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا۔ یہ راقم کہتا ہے کہ یہ قول وحی کی بنا پر ہوگا جو اس وقت ہوئی ہوگی۔ کیونکہ اس وقت شہید مرحوم منقطعین میں داخل ہو چکا تھا۔ اور فرشتے اس سے مصافحہ کرتے تھے۔ تب فرشتوں سے یہ خبر پاکر ایسا اُس نے کہا۔ اور اس قول کے یہ معنی تھے۔ کہ وہ زندگی جو اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے۔ چھ روز تک مجھے مل جائے گی۔ اور قبل اس کے جو خدا کا دن آوے یعنی ساتواں دن مَیں زندہ ہو جاؤں گا۔ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ54تا 57)