دو مسیح: قرآنی مسیح اوربائیبل کا یسوع دو مختلف کردار ہیں
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپؑ نے حضرت عیسیٰؑ کے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس الزام کو ردّ کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا ئےتعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے صدہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے۔ پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اوّلین آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سزا لعنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الٰہی سے بےنصیب سمجھتے ہیں قرآن نے ہمیں اس گستاخ اور بدزبان یسوع کی خبر نہیں دی اس شخص کی چال چلن پر ہمیں نہایت حیرت ہے جس نے خدا پر مرنا جائز رکھا اور آپ خدائی کا دعویٰ کیا۔ اور ایسے پاکوں کو جو ہزارہا درجہ اس سے بہتر تھے گالیاں دیں۔ سو ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے۔ اور خدائے تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے‘‘(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن، جلد9 صفحہ 374تا375)
مخالفین احمدیت کی طرف سے اب تک مسلسل لکھی اور بیان کی جانے والی تحریر و تقریر سے ثابت ہے کہ مخالفین نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس وضاحت کو قبول نہیں کیا یا علمائے یہودونصاریٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یَکْتُمُوْنَ الْحَقَّکرتے ہوئے اس وضاحت کونظرانداز کردیا۔
ذیل میں شیعہ اور سُنّی مکاتب فکر کے دو حوالہ جات پیش ہیں جو بعینہٖ یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن میں مذکور حضرت عیسیٰؑ اور بائبل میں مذکور یسوع ایک ہی شخص نہیں بلکہ دو الگ الگ کردار ہیں۔
خانوادۂ اہل بیت کے ایک بزرگ رکن اور اثناعشری شیعوں کے آٹھویں امام حضرت امام رضا ایک عیسائی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جاثلیق: حضرت عیسیٰ کی نبوت اور ان کی کتاب کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ ان دو کے منکر ہیں؟
امام رضا علیہ السلام: میں نبوت حضرت عیسیٰ ان کی کتاب اور جو انہوں نے اپنی امت کو بشارت دی اور حوارین نے جن باتوں کا اقرار کیا سب پر ایمان رکھتا ہوں اور جس عیسیٰ نے محمد مصطفیٰﷺ اور ان کی کتاب کا اقرار نہیں کیا اور ان کی بشارت نہیں دی ان کا منکر ہوں۔ ‘‘(احتجاج طبرسی حصہ سوم۔ چہارم۔ صفحہ238 دوسرے اہل مذاہب سے امام رضاؑ کا احتجاج)
بانیٔ جماعت اسلامی سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صاحب بھی اپنا یہی عقیدہ بتاتے ہیں کہ جس مسیحؑ پر عیسائی یقین رکھتے ہیں وہ تاریخی نہیں بلکہ ایک خیالی مسیح ہے۔
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اُس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالمِ واقعہ میں ظاہر ہوا تھا بلکہ انہوں نے خود اپنے وہم و گمان سے ایک خیالی مسیح تصنیف کرکے اُسے خدا بنالیا ہے۔ ‘‘(تفہیم القرآن، جلد اوّل صفحہ491۔ زیرتفسیر سورۃ المائدۃ آیت76)
ثابت ہوا کہ
’’دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار‘‘
(مرسلہ: انصر رضا۔ واقفِ زندگی۔ کینیڈا)
٭…٭…٭