الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
اخبار ’’الفضل‘‘ کے چار ایڈیٹرز
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 18؍جون 2013ء کا شمارہ اخبار کی ’’صدسالہ خصوصی اشاعت‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس خصوصی شمارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب نے اخبار ’’الفضل‘‘ کے چار ایڈیٹر صاحبان کے بارے میں اپنے ذاتی مشاہدات قلمبند کرکے پیش کیے ہیں۔
٭…مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ والد گرامی (محترم احمد خان نسیم صاحب) واقف زندگی کارکن تھے۔ 1952ء میں ہم اپنی والدہ محترمہ، دادی جان اور پھوپھی کی وفات کے صدمے سے دوچار ہوئے تو اُنہی دنوں میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن لینے کے بعد گھر کے مالی حالات کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ ہماری اعلیٰ تعلیم کے بارے میں کچھ سوچا بھی جائے۔ چنانچہ ہم انجمن کے کارکن بن گئے اور بطور محرّر نور ہسپتال میں متعین ہوئے۔ پھر وہاں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے دفتر میں جگہ ملی اور آپؓ کی مکتوب نویسی کی خدمت ہمارے لیے نعمتِ غیرمترقبہ ثابت ہوئی۔
آپؓ کا طریق یہ تھا کہ کوئی خط لکھوانے کے بعد اسے دوبارہ پڑھواکر سنتے اور دستخط کرنے سے قبل بھی اس پر ایک نگاہ ڈال لیتے۔ مضامین کے باب میں تو آپؓ کی طبیعت ازحد محتاط تھی۔بڑی سوچ بچار کے بعد فقرہ لکھواتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ لکھنا بڑا مشکل کام ہے اور چھپوانا اس سے بھی زیادہ مشکل۔ آج آپ جو بات لکھ دیں گے اور وہ چھپ جائے گی بعد کے آنے والوں کے لیے وہ سند بن جائے گی اور حوالے کے طور پر پیش کی جائے گی۔ چنانچہ مضمون لکھوانے کے بعد اتنی بار اس کو پڑھواتے کہ بعض اوقات طبیعت گھبرانے لگتی۔ مگر وہ شوق نہیں تھا، احتیاط تھی۔ وہ صاحبِ حزم تھے اور احتیاط آپؓ کی زندگی کے ہر پہلو میں ملحوظ رہتی تھی۔چنانچہ یہی حال خورونوش کے باب میں تھا۔ چیز صاف ستھری، پھل بےداغ، روٹی جلی ہوئی نہ ہو۔ جو شخص ایک عارضی چیز کے لیے اتنا محتاط تھا وہ مستقل رہ جانے والی چیزوں کے لیے کتنا محتاط ہوگا۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ اخبار کی زندگی ایک دن کی ہوتی ہے، مگر جن اخباروں کو نسلوں کے لیے محفوظ رہنا اور رکھنا ہو اُن میں لکھنا حد درجے کی احتیاط کا متقاضی ہے اور حضرت میاں صاحبؓ اس بات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔
آپؓ اپنے مضمون کے بعض الفاظ پر سرخ روشنائی سے نشان لگوادیتے تھے کہ یہ لفظ جلی کرکے لکھا جائے۔ بعض فقرہ کے نیچے لکیر ڈلوادیتے تھے کہ یہ فقرے احتیاط سے کتابت کیے جائیں۔ آپؓ کے فقرے مختصر مگر جامع ہوتے تھے، واضح اور دوٹوک۔اگر کہیں ذرا سا بھی ابہام ہوتا تو سارا فقرہ بدل دیتے۔ محاوروں کے بارے میں بہت محتاط تھے۔ کئی بار مجھے حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ کی خدمت میں بھیجا کہ فلاں محاورہ کن موقعوں پر استعمال ہوتا ہے، کن موقعوں پر نہیں ہوتا۔ استفسار ہمیشہ لکھ کر کرتے تھے۔ زبان کی باریکیوں کا خیال رکھتے تھے۔ غلط العام اور غلط العوام کے فرق کو ہمیشہ مدّنظر رکھتے تھے۔ مجھے فرماتے تھے کہ شعر ضرور کہو مگر جو پائیداری نثر میں ہے وہ نظم میں نہیں۔
٭… اخبار الفضل کے ایک اَور ایڈیٹر محترم روشن دین تنویر صاحب تھے۔ آپ احمدی ہوئے تو وکالت ترک کرکے قادیان آگئے اور آتے ہی ’’الفضل‘‘کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اپنے وقت کے جیّد شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ ادبی پرچوں میں چھپتے اور پڑھے جاتے تھے۔ نثر لکھنے کا شوق بھی تھا۔ پہلے جماعت کے خلاف مضامین لکھتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی تو جماعت کے حق میں ایسے مضامین لکھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی نظر میں آگئے۔ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اس لیے دلیل بھی چُن کر لاتے تھے اور غلط دلیل کا ردّ کرنا بھی جانتے تھے۔ احمدیہ عقائد پر اُن کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ اُن کی شاعری اور نثر گویا جماعت کے عقائد کی ترجمان بن گئی تھی۔ وہ زمانہ جماعت کی مخالفت کے لحاظ سے بڑا پُرآشوب تھا۔ لاہور کے بڑے بڑے اخبارنویس جماعت کی مخالفت پر کمربستہ تھے۔ الفضل بھی کئی بار بندش کا شکار ہوا۔ ایسے کڑے وقت میں تنویر صاحب کی زبانِ قلم سے بڑے کڑے اداریے بھی سرزد ہوئے مگر اُن کے کسی لفظ پر گرفت کرنے کی جرأت کسی کو نہ ہوئی۔ زیادہ تر وقت مطالعہ میں گزارتے۔ نظمیں ہمیشہ رات کو کہتے۔ لیکن اپنے شعروں کو بھی تب تک الفضل میں درج نہ ہونے دیتے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہوجاتا کہ ان میں کوئی سقم باقی نہیں۔
محترم تنویر صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ لکھنے والوں کا ازحد احترام روا رکھتے۔ نئے لکھنے یا کہنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے۔
٭… اخبار الفضل کے ایک اَور ایڈیٹر مکرم مسعود احمد خان دہلوی سے رُوشناسی دفتر الفضل میں ہوئی جو رفتہ رفتہ دوستی میں بدل گئی۔ آپ کو ہم نے ہمیشہ ہی بھائی کہا۔ کسی نے اعتراض کیا تو مَیں نے کہا کہ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ میرا نام یوسف نہیں اس لیے بھائی کہنے میں ذم کا پہلو نہیں نکلتا۔ دوسرے دہلی والے اپنے عمر سے بڑے دوستوںکو بھائی کہہ کر ہی پکارتے ہیں۔ اور ویسے شعرو ادب میں عمر کا تفاوت بےمعنی ہوجاتا ہے۔ آپ الفضل کے رپورٹر بھی تھے اور اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی۔ کالج کی تقریبات کی رپورٹنگ کے لیے رموزواسرار ہمیں آپ نے ہی سمجھائے تو ہماری رپورٹس الفضل میں جگہ پانے لگیں۔ آپ کی اولاد کے ہم استاد بنے تو یہ بات بھی محبت و اخوت کی بنیاد بن گئی۔
مسعود صاحب دلّی کی محاورہ بندی کے شیدائی تھے۔ لکھتے کیا تھے مرصّع سازی کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ دلّی کے محاوروں کو سمجھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ الفضل میں تقرّر کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں تاکید کی تھی کہ ہمیں دلّی والوں کی نکتہ آفرینی سے غرض نہیں ہمارا معیار صاف ستھری اور سادہ زبان ہے۔
آپ بڑے وسیع المطالعہ آدمی تھے۔ شعر نہیں کہتے تھے مگر ذوق پاکیزہ تھا۔ پہلے اپنے بزرگوں کے حالات پر ایک کتاب مرتب کی اور بعد کو اپنی خودنوشت ’’سفرِ حیات‘‘ لکھی جو اہلِ ذوق کے لیے سامانِ انبساط ہے۔
٭… اخبار الفضل کے ایک اَور ایڈیٹر مکرم مولانا نورمحمد نسیم سیفی صاحب پہلے قادیان اور پھر ربوہ میں ہمارے پڑوسی رہے۔پہلا مجموعہ کلام چھپا تو اپنی بیگم کے ہمراہ ہماری پھوپھی بیگم جی کو پیش کرنے اور دعا لینے اُن کے ہاں تشریف لائے۔ وہ دونوں میاں بیوی کی استاد بھی تھیں۔ ہم اُس وقت بہت چھوٹے تھے۔ سیفی صاحب کا بڑا بیٹا ہمارا ہم عمر ہے اسی لیے بےدھڑک ہم ان کے گھر چلے جاتے۔ کالج کے مشاعروں میں آپ کا آنا جانا شروع ہوا تو ہماری بےتکلّفی ہوگئی۔ آپ اردو اور انگریزی، دونوں زبانوں میں لکھتے تھے اور دونوں زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ تحریک جدید کے ایڈیٹر تھے تو دونوں زبانوں میں سارا رسالہ آپ کا ہی لکھا ہوا ہوتا تھا۔ جب الفضل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو سارا پرچہ (نظم و نثر) ان کے رشحات سے بھرا ہوتا تھا۔ اسیر راہِ مولیٰ بھی رہے۔ اس دوران ہم نے انہیں خط لکھا کہ حکومت نے یہ دیکھنے کے لیے آپ کو گرفتار کیا ہوگا کہ یہ ایک آدمی بیس آدمیوں جتنا کام کیسے کرلیتا ہے۔ الفضل ان کی زندگی کا لازمی جزو بن گیا تھا۔ ادھر ریٹائر ہوئے اُدھر بہشتی مقبرہ میں جاسوئے۔ خالہ سکینہ سیفی پہلے ہی چلی گئی تھیں۔ اولاد ربوہ سے باہر تھی۔ ہماری گلی والا ان کا مکان سائیں سائیں کرتا ہوگا ؎
یہ بےسبب نہیں سُونے گھروں کے سنّاٹے
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو
………٭………٭………٭………
ہمیشہ زندہ رہنے والا ذریعہ ابلاغ
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 18؍جون 2013ء کا شمارہ اخبار الفضل کی ’’صدسالہ خصوصی اشاعت‘‘ ہے۔ اس شمارے میں مکرم محمود احمد اشرف صاحب اپنے مشاہدات کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے گھر میں ایک ہی اخبار یعنی ’’الفضل‘‘ باقاعدگی سے پڑھا جاتا تھا۔ چنانچہ ناصر کاظمی کا ایک شعرمیرے ذہن میں الفضل کے حوالے سے کچھ یوں آرہا ہے کہ:
مَیں نے جب پڑھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام پڑھا تھا
ویسے الفضل سے میرا تعلق اس سے بھی پرانا ہے کیونکہ میری ولادت کا اعلان الفضل میں چھپا تھا۔ مَیں نے بہت بچپن سے ہی اپنے والدین کو دیکھا کہ وہ الفضل سے استفادے کے ساتھ ساتھ اس کے تقدّس کا بھی خیال رکھتے تھے۔ باقی اخبار ردّی میں بیچے جاتے تھے لیکن الفضل محفوظ رکھا جاتا تھا۔ حال اور مستقبل کی طرح الٰہی سلسلوں کا ماضی بھی ایک زندہ حقیقت ہوتا ہے۔ الفضل سلسلے کی تاریخ کا ایک بہترین اور بنیادی ماخذ ہے۔ دیگر اخبارات تو معاشرے کے منفی پہلوؤں کے عکاس نظر آتے ہیں۔ الفضل وہ واحد اخبار ہے جو معاشرے کے منفی پہلوؤں کی کبھی بھی بےمقصد تشہیر نہیں کرتا۔ سوائے اس کے کہ بعض حادثات انسان کے لیے سامانِ عبرت مہیا کرتے ہیں اور ایسے منفی پہلو انسان کی نفسیاتی اور روحانی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔ یا پھر خداتعالیٰ نے مظلوم کو آواز بلند کرنے کی جو اجازت دی ہے اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
میرا پہلا مضمون الفضل میں ہی شائع ہوا تھا۔ جب بھی کوئی مضمون الفضل کو بھجوایا تو اس کی اشاعت کے انتظار میں بےتابی سے وقت گزرتا۔ روزانہ اخبار لپک کر اسی نیت سے اٹھاتے کہ اپنا نام سرورق پر دیکھیں۔ ایک بار بہت انتظار کیا مگر مضمون شائع نہ ہوا تو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ اُن سے پوچھا کہ میرا مضمون ’سلوک‘ کی کس منزل پر ہے؟ میرے فقرے میں جس قدر تصوّف تھا وہی میرے تصوّف کی انتہا بھی تھی۔ ایک مختصر مگر حوصلہ افزا جواب ملا اور جلد ہی وہ مضمون شائع ہوگیا۔
الفضل کا میری زندگی میں کیا کردار ہے؟ اس سوال نے مجھے اپنی ذات کے محاسبہ کا عمدہ موقع فراہم کیا ہے۔اگر لاکھوں انسانوں کی طرح سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے مجھے بھی آج نفس لوّامہ حاصل ہوا ہے تو اس کے حصول میں الفضل نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔
………٭………٭………٭………
احمدی بھائی اور اخبار ’’الفضل‘‘
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 18؍جون 2013ء کا شمارہ اخبار کی ’’صدسالہ خصوصی اشاعت‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔ اس اخبار میں ایک پرانی اشاعت سے قبول احمدیت کا ایک نہایت ایمان افروز واقعہ بھی شامل اشاعت ہے۔
مکرم ملک سلطان محمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے1919ء میں راولپنڈی کے ایک مشنری کالج میں داخلہ لیا۔ ایک روز ایک عیسائی پروفیسر نے مسلمان طلبہ سے اسلامی عقائد کے بارے میں مختلف امور دریافت کیے اور پھر اُن کے عقائد سے متعلق ہم مسلمان طلبہ کی حالت دیکھ کر اُس نے چودہ نکات پر مشتمل ایک پمفلٹ ہمیں یہ کہتے ہوئے دیا کہ ان نکات کا جواب کسی مسلمان عالم سے لے کر آؤ (ورنہ خود فیصلہ کرلو کہ مذہب اسلام بہتر ہے یا عیسائیت)۔ مسلمان طلبہ نے اس پمفلٹ کی نقول تیار کرکے ہندوستان بھر کے 32 مسلمان علماءکو اعتراضات کا جواب دینے کے لیے بھجوادیں۔
تیس علماء نے تو جواب دینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ صرف دو خطوط ہمیں آئے۔ پہلا خط امرتسر کے ایک مولوی صاحب کا تھا جنہوں نے لکھا تھا کہ تمہارے والدین انتہائی بےوقوف ہیں جنہوں نے تم نوجوانوں کو مشنری کالج میں داخل کروایا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ فوراً اپنا بوریا بستر سمیٹو اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔
دوسرا جواب قادیان سے حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کی طرف سے آیا تھا جو نہ صرف نہایت مدلّل تھا بلکہ ساتھ ہی انہوں نے چودہ مزید سوالات بھی لکھ دیے تھے اور یہ تحریر فرمایا تھا کہ ہمارے ان سوالوں کا جواب یہ لوگ نہیں دے سکتے۔ جب ہم نے پروفیسر صاحب کو حضرت مولوی صاحبؓ کا خط دیا تو وہ کہنے لگے کہ مَیں نے احمدیوں سے تو سوال نہیں کیے تھے، میرے مخاطب دوسرے مسلمان علماء تھے۔
اس واقعے کا میرے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا اور مَیں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ شروع کردیا۔ پھر 1924ء میں جب مَیں تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے اوکاڑہ آگیا تو وہاں بھی اپنے نام اخبار ’’الفضل‘‘ جاری کروالیا۔ کچھ عرصے بعد ایک روز ڈاکیے کے ہمراہ ایک بزرگ تشریف لائے اور مجھے نہایت محبت سے کہا کہ مَیں احمدی ہوں اور اپنے احمدی بھائی سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔ مَیں نے بتایا کہ مَیں تو احمدی نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے ڈاکیے کے پاس جب الفضل کا پرچہ دیکھا تو سمجھا کہ جس شخص کے نام یہ آتا ہے وہ احمدی ہی ہوگا اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا ہوں۔ پھر وہ گویا ہوئے کہ کیا اب بھی آپ کو کوئی شک و شبہ ہے؟ میرے نفی میں جواب دینے پر انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ بیعت کیوں نہیں کرتے؟ مَیں نے کہا: بس ایسے ہی۔ کہنے لگے کہ کیا آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کل تک زندہ رہیں گے؟ اُن کا اتنا کہنا تھا کہ میری حالت بدل گئی اور مَیں نے فوراً بیعت کا خط لکھ کر لفافے میں بند کرکے اُن کو دے دیا کہ اپنے ہاتھ سے اسے لیٹر بکس میں ڈال دیں۔
………٭………٭………٭………