جدید شِکوہ، جوابِ شکوہ
نادان مرید
مرے مرشد میں تیرے ہاتھ پر اقرار کرتا تھا
میں سب سے بڑھ کے تجھ سے اس جہاں میں پیار کرتا تھا
محبت سے مجھے تُو نے بھی مالامال رکھا تھا
اور اپنا ہاتھ مجھ پر تُو نے مثلِ ڈھال رکھا تھا
مجھے جب بھی مسائل پیش آتے تجھ سے ملتا تھا
بڑی شفقت، بڑی چاہت سے تُو بھی مجھ سے ملتا تھا
کئی سالوں سے تیرے ہاتھ میں میری کفالت تھی
مرے سَر پر مثالِ آسماں تیری وکالت تھی
مری ہر ایک خواہش لطف سے تیرے ہی پوری تھی
ہر اک آرام کی خاطر تری شفقت ضروری تھی
پھر اِس لطف و کرم کی ایسی عادت ہو گئی اک دن
کہ ہر خواہش کے قد سے کم، عنایت ہو گئی اک دن
اور اب کچھ روز سے تیرا تغافل مجھ کو ڈستا ہے
نیا اک وہم ہے جو روز میرے دل کو کستا ہے
مجھے لگتا ہے تُو اک عام سا انسان ہے گویا
کہ تُو بھی اِس جہاں کے سامنے بے جان ہے گویا
تجھے مجھ جیسے لوگوں نے بلندی پر بٹھایا ہے
ترے سر پر یہ تاجِ پارسائی بھی سجایا ہے
تُو میری، اور میرے جیسے لوگوں کی کرامت ہے
ترا یہ آسمانی رُوپ ہم سب کی عنایت ہے
گروہِ عاشقاں گر سب کنارا کر گیا تجھ سے
تو پھر سمجھو کہ گویا رب کنارا کر گیا تجھ سے
تمہیں اب خود کسی تحقیق کا حق ہی نہیں حاصل
مرا مرشد، مرا مرہونِ منت ہے، تو کس قابل؟
اگر تو اپنے منصب کو بچانا ہے، مری مانو
میں دن کو شب کہوں، تو تم بھی دن کو رات ہی جانو
میں جس کو راہزن کہہ دوں، اسے سنگسار کر ڈالو
مجھے نفرت ہو جس جس سے، انہیں بے کار کر ڈالو
مرے مرشد، میں تجھ کو ایک موقع اور دیتا ہوں
پھر اِس کے بعد رخصت کی اجازت تجھ سے لیتا ہوں
کہ جب میرا گروہ تجھ سے کنارا کر گیا مرشد
تجھے بے آسرا اور بے سہارا کر گیا مرشد
تو بس پھر ساتھ تیرے بے سروسامانیاں ہوں گی
عجب تنہائیاں ہوں گی، فقط ویرانیاں ہوں گی
تجھے اِس پارسائی کا جنازہ دیکھنا ہوگا
اور اِس پر جگ ہنسائی کا تماشا دیکھنا ہوگا
مرشد
تُو کیسا بے سر و سامان میرے پاس آیا تھا
مگر یہ قُرب تجھ کو بے تہاشا راس آیا تھا
مجھے حاجت روائی کا نہ دعویٰ تھا، نہ دعویٰ ہے
مرا رستہ دعائے درد مندانہ کا رستہ ہے
اسی رستے پہ میں تم کو بھی اپنے ساتھ رکھتا تھا
سو وہ حاجت روا، ہم سب پہ اپنا ہاتھ رکھتا تھا
تجھے جو کچھ مرے ہاں سے ملا، رب کی عنایت تھی
مرا دستِ دعا تھا، دستِ مولا میں کفالت تھی
ہمیشہ ہی تجھے میں نے بہت مظلوم سمجھا تھا
تری ہر داستاں میں ظلم کا مفہوم سمجھا تھا
میں تیری گمشدہ خوشیاں تجھے لا کر تو کیا دیتا
نئی خوشیوں کو پانے کا مگر رستہ بنا دیتا
تجھے آسائشیں دیتا، تجھے آرام بھی دیتا
بہت سوں کو خبر گیری کا تیری کام بھی دیتا
مگر آسائش و آرام میں اک ابتلا بھی ہے
کہ اِس وادی میں ہی اک امتحاں کا راستہ بھی ہے
کِسے معلوم ہے اِس راہ پر کب، کون جا نکلے
پھر اِس رستے کی منزل کیا ہو، اور انجام کیا نکلے
اِسی پہ بدگمانی کے ہزاروں چوک آتے ہیں
یہیں حرص و ہوس کے بھی نرالے شوق آتے ہیں
یہیں جھوٹی عقیدت کے لبادے چاک ہوتے ہیں
پڑاؤ ایسے رستوں پر بڑے غم ناک ہوتے ہیں
حسد اِس راستے پر راہزن بن کر جھپٹتا ہے
یہیں دامن کبھی آگے، کبھی پیچھے سے پھٹتا ہے
مجھے دکھ ہے کہ تُو اِن بے اماں راہوں پہ جا نکلا
جہاں سے گر کوئی نکلا، تو ہو کر بے رِدا نکلا
اگر چاہو، تو میرا آخری اک مشورہ سُن لو
پھر اُس کے بعد جو جی میں سمائے راستہ چُن لو
مجھے چھوڑا، مری بربادیوں کی فکر بھی چھوڑو
مجھے سب چھوڑ جائیں گے؟ چلو یہ ذکر بھی چھوڑو
مجھے کب اِس زمانے سے طرفداری کی خواہش ہے
مجھے تو ’’مولیٰ بس‘‘ سے ہی وفاداری کی خواہش ہے
کسی کو بھی میں اپنے ساتھ رُکنے کو نہیں کہتا
کسی کو دم وفاداری کا بھرنے کو نہیں کہتا
’’الیس اللہ‘‘ کا وعدہ مجھے ہر دم میسر ہے
’’بکافٍ عبدہ‘‘ ہے، پھر مجھے کس بات کا ڈر ہے
کہ دنیا نے نہیں، اُس نے خلافت خود عطا کی ہے
میں تنہا تھا، مجھے اُس نے جماعت خود عطا کی ہے
کوئی جب اِس ’’محبت کے مکاں‘‘سے دور جاتا ہے
حسد کے ہاتھ سے ہوکر بہت مجبور جاتا ہے
حقیقت میں کوئی مظلوم ہو، اِس گھر میں آتا ہے
جہاں ظالم بنا، پھر اِس مکاں کو چھوڑ جاتا ہے
سو اب تم ظالم و مظلوم کے قصے کر رہنے دو
خدا ہی فیصلہ دے گا، سو اِس قضیے کو رہنے دو
مجھے ہر جانے والے کا اگرچہ دکھ تو ہوتا ہے
خدا سے حوصلہ لیکن عطا یہ دل کو ہوتا ہے
کہ جب اِک فرد چھوڑے گا، قبیلے ساتھ آئیں گے
ترقی کے نئے، روشن وسیلے ساتھ آئیں گے
(آصف محمود باسط)
بے حد خوبصورت کلام ماشاء اللہ محترم آصف باسط صاحب نے موضوع کا حق ادا کر دیا ایک ایک شعر اعلی اور پہلے سے بڑھ کر خوبصورت اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں منصب ِخلافت کے حقیقی مقام کو پہچاننے اور سمجھنے کا فہم و ادراک عطا ء کرے۔ ہماری نسل در نسل خلافت احمدیہ کی کامل اطاعت گزار رہے۔ آمین ثم آمین