احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد
رَأَیْتُ رَبِّی عَلٰی صُوْرَةِ أَبِیْ
آپ کی سوانح پر نظرکرنے والا خدائے غفور و رحیم کے پیار کی ایک خاص نظر اس بزرگ انسان پر مشاہدہ کرتاہے۔ وہ بآسانی محسوس کرسکتاہے کہ اس رحمٰن اور رحیم و کریم خداکے پیار کا ہاتھ اس کی زندگی میں بھی اس پر تھااوروہی نظر شفقت اس بندے کے آخری دنوں میں بھی تھی اور جو آخری دن تھا تب بھی تھی اورخداکو نہ جانے اس کی کونسی اداپسند آئی تھی کہ مرنے کے بعد بھی یہ پیارکا اظہار اس طرح قائم رہا کہ عرش کا خدا اس پیارے بندے کے رُوپ میں اپنا دیدارکروانے لگا۔ آخر کوئی بات تو تھی کہ خدائے ذوالجلال والاکرام نے اس کی صورت میں اپنا آپ ظاہر فرمایا…چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
’’حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے کہ
رَأَیْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَةِ أَبِیْ
یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے باپ کی شکل پردیکھا۔ میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ اُن کی شکل بڑی بارعب تھی۔ انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اس لئے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے۔ غرض میں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشّان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خداتعالیٰ ہے۔
اس میں سِرّ یہ ہوتاہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑاہوتاہے اور قُرب اور تعلق شدید رکھتاہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت، تعلق اور شدت ِ محبت کو ظاہر کرتاہے۔ اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے
کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَکُمْ
اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ اَوْلَادِیْ۔
یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے۔ ‘‘(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ342-343، الحکم جلد6 نمبر17 مورخہ 10 مئی 1902ء صفحہ 7کالم 1)
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجداقصیٰ کی تعمیرآپ کاایک بہت بڑاکارنامہ تھا۔ لیکن خداتعالیٰ نے حضر ت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کوجواعزازبخشا وہ یہ ہے کہ خدا کا ایک پیغمبران کی نسل سے ہوا۔ ان کاایک بیٹاخداکافرستادہ اور رسول ٹھہرا۔ وہ امام مہدی اور مسیح موعودؑ کے طورپرمبعوث ہوا۔ اور اس ناطے خداکے اس مسیح کے سارے کام ان بزرگ والدین کے لیے صدقہ جاریہ اور بلندئ درجات کاباعث بنتے رہیں گے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:
’’2یا 3 بجے رات کو مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک جگہ پر معہ چند ایک دوستوں کے گیا ہوں۔ وہ دوست وہی ہیں جو رات دن پاس رہتے ہیں۔ ایک اُن میں مخالف بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا سیاہ رنگ، لمبا قد اور کپڑے چرکین ہیں۔ آگے جاتے ہوئے تین قبریں نظر آئی ہیں۔ ایک قبر کو دیکھ کر مَیں نے خیال کیا کہ والد صاحب کی قبر ہے۔ اور دوسری قبر یں سامنے نظر آئیں۔ مَیں ان کی طرف چلا۔ اس قبر سے کچھ فاصلہ پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب ِقبر (جسے مَیں نے والد کی قبر سمجھا تھا) زندہ ہو کر قبر پر بیٹھا ہوا ہے۔ غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اَور شکل ہے والد صاحب کی شکل نہیں مگر خوب گورا رنگ، پتلا بدن، فربہ چہرہ ہے۔ مَیں نے سمجھا کہ اس قبر میں یہی تھا۔ اتنے میں اُس نے آگے ہاتھ بڑھایا کہ مصافحہ کرے۔ مَیں نے مصافحہ کیا اور نام پوچھا تو اُس نے کہا نظام الدین۔ پھر ہم وہاں سے چلے آئے۔ آتے ہوئے مَیں نے اُسے پیغام دیا کہ پیغمبرِ خدا صلعم اور والدصاحب کو السلام علیکم کہہ چھوڑنا۔ راستہ میں مَیں نے اس مخالف سے پوچھا کہ آج جو ہم نے یہ عظیم الشّان معجزہ دیکھا کیا اَب بھی نہ مانو گے تو اُس نے جواب دیا کہ اَب تو حد ہوگئی اَب بھی نہ مانوں تو کب مانوں …… مُردہ زندہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد الہام ہوا۔
سَلِیْمٌ حَامِدٌ مُّسْتَبْشِرًا
کچھ حصہ الہام کا یاد نہیں رہا۔
والد کا زندہ ہونا یا کسی اَور مُردہ کا زندہ ہونا کسی مُردہ امر کا زندہ ہونا ہے۔ مَیں نے اِس سے یہ بھی سمجھا کہ ہمارا کام والدین کے رفع درجات کا بھی موجب ہے۔ ‘‘
(البدر جلد2 نمبر21 مورخہ12 جون 1903ء صفحہ162کالم -1 2، الحکم جلد 7نمبر22مورخہ 17جون 1903ء صفحہ15کالم 2-3)
نوٹ:
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی تاریخ وفات
[یکم جون 1872ء بروز ہفتہ]
آپ کی تاریخ وفات جون 1876ء بیان کی جاتی ہے۔ لیکن بالعموم دن اور تاریخ کاذکر نہیں ہوتا۔ دن اور تاریخ کی تعیین کے لیے تحقیق کی جائے تو ان دونوں کی تعیین کوئی بہت مشکل امر نہیں۔ اسی طرح سن وفات بھی قابل غور اور قابل تحقیق امر ہے۔ اس ضمن میں جو تحقیق کی گئی ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
دن کی تعیین کے لیے اگر دیکھا جائے تو وہ ہفتہ کا دن بنتا ہےکیونکہ حضرت اقدسؑ نے ایک جگہ بیان فرمایاہے کہ آپؑ لاہورسے جمعہ والے دن قادیان واپس تشریف لائے اور اگلے روزہفتہ والے دن غروب آفتاب کے بعد آپؑ کے والدصاحب کی وفات ہوئی۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’پھر اس کے ساتھ
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
کانشان ہے۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اور اس وقت کا ہے جبکہ میرے والد صاحب مرحوم کا انتقال ہوا۔ میں لاہور گیا ہوا تھا۔ مرزا صاحب کی بیماری کی خبر جو مجھے لاہور پہنچی میں جمعہ کو یہاں آگیا۔ تو دردِ گردہ کی شکا یت تھی۔ پہلے بھی ہواکرتا تھا۔ اس وقت تخفیف تھی۔ ہفتہ کے دن دوپہر کو حُقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھاکررہا تھا۔ مجھے کہا کہ اب آرام کا وقت ہے تم جا کر آرام کرو۔ مَیں چوبارہ میں چلا گیا۔ ایک خدمتگار جمال نام میرے پاؤں دبا رہا تھا۔ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا۔
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ……
میرے دل میں بشریّت کے تقاضے کے موافق یہ خیال گزرا اور میں اس کو بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں کہ چونکہ معاش کے بہت سے اسباب ان کی زندگی سے وابستہ تھے۔ کچھ انعام انہیں ملتا تھا اورکچھ اور مختلف صورتیں آمدنی کی تھیں۔ جس سے کوئی دو ہزار کے قریب آمدنی ہوتی تھی۔ میں نے سمجھاکہ اب وہ چونکہ ضبط ہوجائیں گے۔ اس لیے ہمیں ابتلاء آئے گا۔ یہ خیال تکلف کے طور پر نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے میرے دل میں گزرا۔ اور اس کے گزرنے کے ساتھ ہی پھر یہ الہام ہوا۔
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
یعنی کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ الہام میں نے ملاوامل اور شرمپت کی معرفت ایک انگشتری میں اسی وقت لکھوا لیا تھا۔ جو حکیم محمد شریف کی معرفت امرتسر سےبنوائی تھی اور وہ انگشتری میں کھدا ہوا الہام موجود ہے۔‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ355، 356)
اس مذکورہ بالااقتباس سے یہ یقینی بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ہفتہ والے دن ہوئی۔
اپنی ایک تصنیف میں حضرت اقدسؑ تحریرفرماتے ہیں:
’’جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔ مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔ میں اُس وقت لاہور میں تھا جب مجھے یہ خواب آیا تھا۔ تب میں جلدی سے قادیاں میں پہنچا۔ اور اُن کو مرضِ زحیر میں مبتلا پایا۔ لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہوجائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہوگئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے۔ دوسرے دن شدتِ دوپہر کے وقت ہم سب عزیز اُن کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرہ آرام کرلو۔ کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی۔ میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر پیر دبانے لگاکہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھے الہام ہوا وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاء و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگااور مجھے سمجھا یا گیاکہ یہ الہام بطور عزا پُرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہوجائے گا…… اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے۔ ‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 192تا 195حاشیہ)
اس مذکورہ بالااقتباس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ وفات کامہینہ جون کاتھا۔ گویا آپؑ کے والدماجدکی وفات جون کے مہینہ میں ہفتہ والے دن ہوئی۔
سن ِوفات کونساتھا؟ سلسلہ کی تاریخ میں 1876ء کاسن بیان ہواہے۔ خاکساربھی اسی تاریخ کواپنی کتاب میں بیان کرے گا۔ البتہ تحقیق کاایک دوسراپہلوبھی ہے وہ بھی پیش کرنا ضروری ہے، جب تک تحقیق کایہ سفرکسی دوسری حتمی تاریخ تک نہیں پہنچ جاتا۔ تحقیق کے کچھ دوسرے گوشے 1876ء سے قبل کسی سن کی طرف بھی راہنمائی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
مثال کے طور پرحضرت اقدسؑ کے والدبزرگوارکی تاریخ وفات پرتحقیق کرنے والے بعض اوقات سالوں اور سنین کی تفصیلات میں جاتے ہیں توانہیں مختلف تواریخ اور واقعات اور حضرت اقدسؑ کی بعض تحریرات میں سے گزرنا پڑتاہے۔ اورکبھی کبھی کسی محقق کونزول المسیح کی درج ذیل عبارت کچھ دیر توقف کرنے اور غورکرنے پر مجبورضرور کرتی ہے۔ نزول المسیح میں حضورؑ اپنے والد ماجدؒ کی وفات کےواقعہ کا ذکرکرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے گورنمنٹ انگریزی میں وہ پنشن پاتے تھے اور اس کے علاوہ چار سو روپیہ انعام ملتا تھا اور چار گاؤں زمینداری کے تھے پنشن اور انعام ان کی ذات تک وابستہ تھے اور زمینداری کے دیہات کے متعلق شرکاء کے مقدمات شروع ہونے کو تھے اتنے میں وہ قریباً 85 برس کی عمر میں بیمار ہو گئے اور پھر بیماری سے شفا بھی ہو گئی۔ کچھ خفیف سی زحیر باقی تھی۔ ہفتہ کا روز تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ مجھے کچھ غنودگی ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ
جس کے معنی مجھے یہ سمجھائے گئے کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی کہ غروب آفتاب کے بعد پڑے گا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ پیشگوئی میرے والد کے متعلق ہے اور وہ آج ہی غروب آفتاب کے بعد وفات پائیں گے اور یہ قول خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ماتم پرسی کے ہے۔ اس وحی الٰہی کے ساتھ ہی میرے دل میں بمقتضائے بشریت یہ گذرا کہ ان کی وفات سے مجھے بڑا ابتلا پیش آئے گا کیونکہ جو وجوہ آمدنی ان کی ذات سے وابستہ ہیں وہ سب ضبط ہو جائیں گی اور زمینداری کا حصہ کثیرہ شرکاء لے جائیں گے اور پھر نا معلوم ہمارے لئے کیا کیا مقدر ہے میں اس خیال میں ہی تھا کہ پھر یکدفعہ غنودگی آئی اور یہ الہام ہوا
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔
یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں۔ پھر اس کے بعد میرے دل میں سکینت نازل کی گئی اور نماز ظہر کے بعد میں نیچے اترا اور جون کا مہینہ اور سخت گرمی کے دن تھے اور میں نے جا کر دیکھا کہ میرے والد صاحب تندرست کی طرح بیٹھے تھے اور نشست برخاست اور حرکت میں کسی سہارے کے محتاج نہ تھے اور حیرت تھی کہ آج واقعہ وفات کیونکر پیش آئے گا۔ لیکن جب غروب آفتاب کے قریب وہ پاخانہ میں جا کر واپس آئے تو آفتاب غروب ہو چکا تھا اور پلنگ پر بیٹھنے کے ساتھ ہی غرغرہ نزع شروع ہو گیا۔ شروع غرغرہ میں مجھے انہوں نے کہا دیکھا یہ کیا حالت ہے اور پھر آپ ہی لیٹ گئے اور بعد اس کے کوئی کلام نہ کی اور پھر چند منٹ میں ہی اس ناپائیدار دنیا سے گذرگئے۔ آج تک جو دس 10 اگست 1902ء ہے مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو اٹھائیس28 برس ہو چکےہیں۔ ‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ 494 496-)
(باقی آئندہ)