متفرق مضامین

سندھ کی احمدیہ اسٹیٹس (قسط سوم)

(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی بصیرت افروز راہ نمائی اور حسنِ انتظام کا شاہکار منصوبہ

سندھ کے احمدیوں کو سندھی زبان سیکھنے اور سندھی تمدن اختیار کرنے کی تلقین، سندھ کی تعمیر و ترقی کے منصوبے

وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ انسان جہاں پیدا ہوتا، جن گلی کوچوں میں پروان چڑھتا اور جہاں بودوباش اختیار کرلیتاہے اس مقام سے ایک ایسا رشتہ جاں اور مناسبت استوار ہوجاتی ہے کہ وہ جگہ انسانی وجودکےجزو لاینفک کی طرح متصور ہونے لگتی ہے۔ حتی کہ بسااوقات وطن سے جدائی یا دوری کا احساس دلوں پر ایسا بھاری محسوس ہوتا ہے کہ گویا کسی عزیز کے فراق کا غم ہو۔

ہمارے پیارے رسولﷺ ہجرت مدینہ کے وقت اسی کیفیت میں سے گزرے۔ جب آپ مکہ چھوڑ رہے تھے تو آپؐ نےنہایت یاس و حسرت سے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

مَا أَطْیَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَیَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِی أَخْرَجُوْنِی مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَکِ۔ (الجامع الترمذی 49: 4305)

(اے مکہ )تو کتنا پاک شہر ہے اورتُو مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔

اس حدیث سےآنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے آبائی وطن سے محبت و الفت کا اظہار نمایاں ہے۔ لیکن جب آپؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو اس نئی سرزمین کو آپ نے اس طرح اپنا مسکن وماویٰ بنا لیا کہ گویا یہی آپ کا وطن مالوف ہے۔

مدینہ آمد کے بعد آنحضورﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نئے وطن کو بھی ویسا ہی محبوب ومالوف بنا دے جیسا کہ مکہ مکرمہ تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ ان الفاظ میں دعا کرتے کہ

اللّٰهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا۔ (الجامع الصحیح للبخاری 63: 3974)

اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا فرما جیسا کہ ہمیں مکہ سے محبت ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ اور اس کی آب وہوا کو درست کردے اور اس کی پیدا وار ( صاع اور مد )میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما۔

پھر دنیانے دیکھ لیاکہ نبی کریمﷺ کو اپنا نیا وطن مدینہ ایسا عزیز اور محبوب ہوا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ جب کسی سفرسے واپس تشریف لاتےاور مدینہ کے درودیوار پر نظر پڑتی تو اس (بستی) کی محبت میں اپنی اونٹنی کی رفتارتیز کردیتے اور اگر اونٹنی کے علاوہ کوئی دوسری سواری ہوتی تو اس کو تیز کردیتے۔

ہمارے پیارے آقا آنحضورﷺ کااپنے پیارے وطن سے محبت کا ایک یہ بھی انداز تھا کہ آپؐ مدینہ سے وباؤں، بیماریوں اورآفات کے دور ہونے کی دعائیں کرتے۔ آپؐ اپنےوطن کی زراعت اور پیداوار میں اضافے کی دعا کرتے۔ آپﷺ نے اہل مدینہ کی یوں بھی دلداری فرمائی کہ جب آپ کو علم ہوا کہ مدینہ میں بسنے والے یہود یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہیں تو آنحضورﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی عاشورکا روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔ گویا جس وطن میں بودو باش اختیار کی جائے اس سے رشتہ مؤدت استوار کرنا ہمارے پیارے رسولﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔

سندھ میں زرعی اراضی کی خرید کے بعد جب ہندوستان کےمختلف حصوں سے احمدی مسلمان ہجرت کرکے سندھ آنے لگے تو اس نئے خطہ کی بودو باش اور تہذیب و تمدن ہندوستان کے دیگر علاقوں سے یکسر مختلف تھا۔ سندھ کے لوگوں کا رہن سہن اور زبان، حتی کہ لباس بھی پنجاب کے باسیوں سے میل نہ کھاتا تھا۔ اس لیے جب تک نئے وطن کو دل سے قبول نہ کر لیا جاتا، جب تک اس سرزمین کی محبت دلوں میں گھرنہ کرجاتی، تب تک وہ کارہائے نمایاں انجام دینے ممکن نہ تھے جو احمدیہ اسٹیٹس کے کارکنان اور ہاریوں نےکر دکھائے۔

احمدی مسلمانو ں کی خوش نصیبی یہ تھی کہ انہیں ایک ایسے اولوالعزم امام کی قیادت میسر تھی جو عشقِ رسولﷺ سے سرشار اور علومِ ظاہری و باطنی ودیعت کیے گئے تھے۔ پس آپ کے بلند فکر وخیال نے ایک طرف بنجر زمینوں کو سرسبزو شاداب کھیتوں کھلیانوں میں تبدیل کردیا تو دوسری طرف آپ نے نہایت حکیمانہ اندازمیں گلشن احمد کی آبیاری کرتے ہوئے مخلصین کا ایک ایسا گروہِ کثیر تیار کردیا جس نے احمدیہ اسٹیٹس کی آبادکاری کو صرف زراعت اور کھیتی باڑی نہیں بلکہ ایک مقدس مشن سمجھ کر انجام دیا۔

جہاں جائیں سب سے پہلے وہاں کی زبان سیکھیں

جس ملک یا سرزمین میں بودو باش اختیار کی جائے اس سےرشتۂ مؤدت استوار کرنے اور اس کی تہذیب وثقافت کے سمجھنے میں زبان کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ زبان سے واقفیت کے بغیر جہاں کام میں روکیں اور مشکلات در آتی ہیں، وہیں مقامی رسم و رواج سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اراضیات سندھ کی خرید کے بعد وہاں آبسنے والے احمدی احباب کی جس حکیمانہ انداز سے تربیت فرمائی اس کا اندازہ آپؓ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے۔ فرمایا: ’’سندھ میں دس دس بارہ بارہ سال سے رہنے والوں نے ابھی تک سندھی زبان بھی نہیں سیکھی۔ کسی ملک میں جا کر بس جانے والے پر اس ملک کا سب سے پہلا حق یہ ہوتاہے کہ وہ اس ملک کی زبان سیکھے۔ اگر ہم اس ملک کی زبان نہیں سیکھتے تو ہم اس کے رہنے والوں کو اپنی باتیں پہنچا کس طرح سکتے ہیں۔ یہاں پر پرانے پرانےرہنے والوں سے جب میں نے پوچھا کہ کیا تمہیں سندھی زبان آتی ہے تو انہوں نے جواب دیا نہیں۔ یہ بڑی بھاری غفلت ہے۔ جس ملک میں کوئی شخص جا کر رہے اُسے چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اس ملک کی زبان سیکھے تاکہ وہ اس ملک کے رہنے والوں سے تبادلہ خیالات کر سکے۔ اگر وہ اس ملک کے رہنے والوں سے تبادلہ خیالات نہیں کر سکتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اُن پر اپنا اثر نہیں ڈال سکے گا اور دوسرے لوگ یہ سمجھیں گے کہ وہ ان سے نفرت کرتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جون1949ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 30صفحہ 156)

مینیجرز اور دیگر کارکنان کا فرض ہےکہ سندھی زبان سیکھیں

زمینوں کی خرید کے بعد احمدیہ سنڈیکیٹ اور بعد ازاں احمدیہ اسٹیٹس کا قیام عمل میں آیا تو پنجاب میں بسنے والے احمدی حضرات نے امامِ وقت کی تحریک پر فوری لبیک کہتے ہوئے ان زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرکے ان علاقوں کی طرف ہجرت شروع کردی۔ اس لیے زمینوں کی نگرانی پر مامور عملے کی اکثریت ان احمدی مخلصین پر مشتمل تھی جو قادیان اور پنجاب کے دیگر علاقوں سے سندھ میں آبسے۔ سندھی زبان چونکہ اردو اور فارسی وغیرہ سے یکسر مختلف ہے لہٰذا پنجابی احباب کے لیے اس نئی زبان کا سیکھنا قدرے دشوار تھا۔ زمینوں کی خرید کے دس پندرہ سال بعد جب حضورؓ نے جائزہ لیا تو احمدیہ اسٹیٹس کے بہت سے کارکنان کو سندھی زبان نہ آتی تھی، اس پر حضورؓ نے مقامی تہذیب و ثقافت میں ادغام کے لیے سندھی زبان سیکھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ’’جو شخص مستقل طور پر یہاں رہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس علاقہ کی زبان سیکھے اور اسی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرے۔ ہمارے مینیجرہیں، اکاؤنٹنٹ ہیں، منشی ہیں، مزارع ہیں اِن سب کا فرض ہے کہ وہ اِس علاقہ کی زبان سیکھیں۔ اگر وہ اس علاقہ کی زبان نہیں سیکھتے تو وہ اس علاقہ میں رہنے والوں پر کس طرح اپنا اثر ڈال سکتے ہیں ؟سندھی تمہیں کس طرح اپنا بھائی سمجھنے پر مجبور ہوں گے؟وہ خیال کریں گے تم اپنے آپ کو ان سے بالا اور حاکم خیال کرتے ہو اور ان کی زبان سیکھنا ہتک خیال کرتے ہو۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جون1949ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 30صفحہ 157)

سندھی سیکھو، بھائی او رہم وطن بن کر رہو

حضورؓ کا اندازِ تربیت نہایت لطیف اور اثر انگیز تھا۔ آپؓ نے سندھ میں بسنے والے احمدیوں کے لیے سندھی زبان سیکھنا لازم قرار دیتے ہوئے احساس دلایا کہ جب نماز اور روزہ جیسے فرائض کی طرح مقامی زبان سیکھنے کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے تب تک ’’حب الوطن من الایمان‘‘کی کیفیت پیدا ہونا مشکل ہے۔ آپؓ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ’’پس جہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ تم نماز، روزہ اور دوسرے اسلامی احکام کی پابندی کرو وہاں ہر ایک کو اس علاقہ کی زبان سیکھنی چاہیے۔ تم قاعدے اور کتابیں خرید لو اور سندھی زبان سیکھنے کی کوشش کرو تاکہ تم اس علاقہ کے رہنے والوں کو آسانی سے تبلیغ کر سکو اور تا وہ دوری اور بُعد دور ہوجائے جو پنجابی اور سندھی میں پایا جاتا ہے۔ پھر تم جہاں سندھی زبان سیکھنے کی کوشش کرو وہاں یہ بھی کوشش کرو کہ سندھی لوگ اُردو زبان سیکھ جائیں تاکہ وہ سمجھیں کہ تم اُن کے بھائی ہو اور ہم وطن بن کر یہاں رہنا چاہتے ہو اور ان کا یہ احساس کہ تم ان سے نفرت کرتے ہو دور ہو۔ اس کے بغیر تبلیغ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جون1949ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 30صفحہ 160)

سندھیوں سے اختلاط کے لیے مقامی زبان سیکھیں

سندھ میں زمینوں کی خرید محض تجارتی مقاصد اور دنیوی منفعت کی خاطر نہ تھی، بلکہ اس منصوبہ کے پس پردہ یہ خواہش کارفرما تھی کہ جس طرح اسلام کی آمد کے بعد برصغیر میں یہ سرزمین سب سے پہلے اسلام کے نور سے منور ہوئی اسی طرح احمدیت کی روشنی اس علاقے میں پھیلے اور یہ علاقہ دنیا میں اسلام احمدیت کی اشاعت کا مرکز ثابت ہو۔ حضورؓ نے سندھ میں بسنے والے احمدی احباب کو تلقین فرمائی کہ’’آج میں اپنی جماعت کے ان تمام دوستوں کو جو سندھ میں آباد ہوچکے ہیں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس علاقہ میں وہ مہمان کے طور پر رہ رہے ہیں اس کی مہمان نوازی کا حق ادا کریں۔ یعنی سندھیوں میں اشاعتِ احمدیت اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ زیادہ سے زیادہ وسیع کریں اور سندھی زبان سیکھنے کی کوشش کریں۔ میرے نزدیک تو یہاں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو سندھی زبان نہ جانتا ہو۔ اور ہر شخص کا خواہ وہ سرکاری ملازم ہو یا کسی فرد کے پاس ذاتی طور پر کام کرتا ہو، زمیندار ہو یا تاجر فرض ہے کہ وہ سندھی زبان سیکھے تاکہ یہاں کے رہنے والوں سے وہ اختلاط پیدا کرسکے، ا ن سے مل جُل سکے، اپنے خیالات اُن پر ظاہر کرسکے اور اُن کے خیالات سُن سکے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے ہمارے دوستوں کو یہاں رہتے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں پھر بھی انہوں نے سندھی زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ کوئی سندھی مجھ سے آکر بات کرے اور میں دوستوں کو اس کا ترجمہ کرنے کے لئے کہوں تو مجھے بہت کم ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو سندھی زبان جانتے ہوں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍مارچ1951ءبمقام ناصر آباد۔ سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 32صفحہ 32تا33)

اہل وطن کی زبان سمجھنا احمدیوں کی ذمہ داری ہے

سندھی قوم کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لیے سندھی زبان سیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حضوؓر فرماتے ہیں کہ’’میں جب پوچھتا ہوں کہ تم لوگ تبلیغ کیوں نہیں کرتے ؟ تو کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہماری بولی نہیں سمجھتے۔ اور یہ بات نہایت خطرناک ہے کہ تم اس بات کی امید رکھو کہ سندھی لوگ تمہاری بولی سمجھیں۔ ایسا کرنا ظلم ہے…ہم مسافر ہیں اور سندھی اہل وطن ہیں۔ وطن کا یہ کام نہیں کہ وہ ہماری بولی سیکھے۔ بلکہ ہم لوگ جو باہر سے آنے والے ہیں ہمارا فرض ہے کہ اِس ملک کی زبان سیکھیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍فروری 1952ءمطبوعہ خطبات محمود جلد33صفحہ 38)

سندھی تہذیب و تمدن اختیار کرنے کی نصیحت

سندھی قوم تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لیے تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کی نصیحت کرتے ہوئے حضورؓ نے یہ پُر حکمت انداز اختیار کرنے کی تلقین فرمائی کہ صرف سندھی زبان ہی نہیں، سندھی تمدن اور تہذیب وثقافت اختیار کرنے کی کوشش کریں تا اس سےسندھیوں میں حلقۂ تبلیغ وسیع تر ہوتا چلا جائے۔ چنانچہ آپؓ نے فرمایا: ’’جب تک تم سندھیوں میں احمدیت کی تبلیغ نہیں کرتے یا جب تک تم ان کے ساتھ اس طرح مل جل نہیں جاتے کہ تمہارا تمدن بھی سندھی ہوجائے، تمہارے کپڑے بھی سندھیوں جیسے ہوجائیں، تمہاری زبانیں بھی سندھی ہو جائیں اس وقت تمہاری حیثیت محض ایک غیر ملکی رہے گی۔ یہ کتنی واضح چیز ہے جو نظر آرہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے اس پر غور کیا ہے…جب ہم سندھ آئے ہیں تو سندھ کے لوگوں کی خاطر آئے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ سندھیوں میں اپنے حلقہ تبلیغ کو وسیع کریں اور ان کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ شامل کریں۔ غرض اگر غور سے کام لیا جائے اور سوچنے کی عادت ڈالی جائے تو یہ چیز ہمارے سامنے آجاتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت اس صوبہ میں رہتے ہوئے ہم نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں رہنے والوں کا حق پنجابیوں سے زیادہ ہے۔ اور ہمارے لئے خوشی کا دن دراصل وہ ہوگا جب ہمارے جلسے میں اگر پانچ سو آدمی ہوں تو ان میں سے چار سو سندھی ہوں اور ایک سو پنجابی ہوں۔ اگر ہم ایسا تغیر پیدا کرلیں تب بے شک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا۔ ( روزنامہ الفضل 28؍مارچ 1950ء)

سندھی زبان اور تہذیب وثقافت اپنانے کی تحریک اور احمدیوں کا رد عمل

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی یہ تحریک نہایت مؤثر ثابت ہوئی اور آج یہ عالم ہے کہ سندھ میں بسنے والے پنجابی احمدی احباب، جماعتی عہدیداران اور جماعت کی زمینوں پر خدمت کرنے والے کارکنان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو سندھی زبان نہ جانتا ہو یا سندھی میں بات نہ کر سکتا ہو۔ ٹھیٹھ پنجابی گھرانوں کے افراد اور احمدی بچے بھی سندھی میں کلام کرنے پر قادر ہیں۔

سندھی زبان سیکھنے کے علاوہ حضورؓ نے سندھ میں بسنے والے احمدیوں کو سندھی تمدن اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ احمدی احباب نے اس تحریک پر بھی لبیک کہا اور سندھی تہذیب و ثقافت کی مظہر سندھی ٹوپی کو اپنے لباس کا حصہ بنا لیا۔

حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ کے 1980ء کے سفر سندھ کی الفضل کی رپورٹ کے مطابق اس سفر میں ٹنڈوالہیار سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ ایک جیپ ڈرائیو کرتے ہوئے قافلے میں شامل ہوئے جنہوں نے سفید سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی ۔

حضورؓ نے سندھی زبان سیکھنے کی اس قدر تاکید فرمائی کہ آپ نے سندھ کی جماعتوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ صدران اور دیگر عہدیداران اپنی رپورٹوں میں اس بات کا بھی ذکر کیا کریں کہ کتنے افراد سندھی زبان سیکھ چکے ہیں یا سیکھ رہے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’میں تمام جماعتوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ اپنی رپورٹ میں آئندہ اس امر کی تصریح کیا کریں کہ ان کی جماعت کے کتنے افراد ہیں ؟ کتنے سندھی زبان جانتے ہیں اور کتنے نہیں جانتے۔ اور جو لوگ نہیں جانتے ان کو سندھی زبان سکھانے کی کیا کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تحریک ایسی ہے کہ جس میں عورتوں اور بچوں کو شامل کرنا چاہیے اور ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ کو سندھی زبان آنی چاہیے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍مارچ 1951ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 32صفحہ 36)

سندھ کی تعمیر و ترقی کے متعدد منصوبے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے سندھ کی تعمیر و ترقی کے متعدد منصوبوں کا اجرا فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے فضل اورحضورؓ کی راہ نمائی میں غیر معمولی طور پر پھلے پھولے اور محض چند سالوں میں تناور درخت بن گئے۔ گندم اورکپاس کی کاشت کے علاوہ، تعلیم الاسلام سکولوں کا اجرا، کاشتکاری کے جدید فارمز کا قیام، کاٹن فیکٹری کی تعمیر اور متعدد تکنیکی منصوبے دور رس فوائد کے حامل ثابت ہوئے۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی ایک نہایت مختصر سی جھلک قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے۔

تعلیم الاسلام سکولوں کا اجرا

صوبہ سندھ کے ان پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لیے تعلیم الاسلام سکول کے نام سے مختلف مقامات پر پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کا اجرا کیا گیا۔ بشیر آباد اور محمدا ٓباد کے ہائی سکولز سندھ بھر میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر 1944ء میں تعلیم الاسلام پرائمری اسکول قائم ہوا، 1962ء میں مڈل سکول کا قیام عمل میں آیا جبکہ 1970ء میں اسے ہائی سکول کا درجہ دےدیا گیا۔ 1972ء میں حکومت پاکستان نے اداروں کو نیشنلائزکرنے کے نام پر یہ سکول اپنے قبضے میں لے لیے۔

تعلیم الاسلام ہائی سکول محمدآباد اس عاجز کی بھی مادرِ علمی ہے، جہاں 1988ءسے1993ء کے دوران تحصیل علم کی توفیق ملی۔ ابتدا میں محترم ملک رشید احمد ریحان صاحب ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد محترم سائیں رادھا کرشن داس اور سائیں نارائن داس ہیڈ ماسٹر رہے۔ اسی طرح سائنس کے اُستاد سائیں عنایت اللہ تھے۔ سائیں جلیل لاشاری، سائیں خادم چانڈیو اور سائیں حنیف گرگیز سے بھی تحصیل علم کا موقع ملا۔ پرائمری تعلیم ماسٹر رحمت علی ظفر صاحب سے حاصل کی۔ احمدی اساتذہ کی خاص بات یہ تھی کہ سبھی جناح کیپ پہنتے۔ سکول کا عمومی ماحول اور ان علاقوں میں معاشرتی میل جول نہایت روادارانہ تھا۔ مذہبی یا نسلی تعصب کا شائبہ تک نہ تھا۔ مسلمان اور غیر مسلم، احمدی یا غیر احمدی کی کوئی تفریق نہ تھی۔

قومیائے جانے کے باوجودتعلیم الاسلام ہائی سکول محمد آبادپر احمدیت کی چھاپ قائم تھی۔ اساتذہ کا رویہ احمدی طلباء سے نہایت روادارانہ تھا۔ تعلیمی و اخلاقی معیار نہایت عمدہ تھا۔ میلادالنبیؐ اور یوم آزادی کے مواقع پر علمی مقابلہ جات ہوتے، اکثر احمدی نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے۔ ججز یا مہمانان خصوصی میں صدر جماعت محمد آباد اور محمد آباد اسٹیٹ کے مینیجر صاحب اور دیگر احمدی معززین بھی مدعو ہوتے۔ اس عاجز کو بھی تقریری مقابلوں میں حصہ لینے اور پوزیشن حاصل کرنے کا موقع ملا اور تقریر کی تیاری کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور اشعار کی تاثیر کے آگے دوسرا مواد ٹھہر نہ سکتا۔ بسا اوقات اوّل، دوم اور سوم پوزیشن پانے والے سبھی طلباء احمدی مسلمان ہوتے۔ غرضیکہ ایک طرف تو تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کے باوجود کئی دہائیوں تک عظمتِ رفتہ کے نشان قائم رہے اور دوسری طرف مقامی آبادی کی اکثریت نہایت روادارانہ واقع ہوئی۔

جدید کاشتکاری کے فارمز

جماعت احمدیہ کا اس علاقے پر یہ بھی ایک بہت بڑا احسان ہے کہ زمینیں خریدنے کے بعد علاقے بھر میں مختلف زرعی فارمز قائم کیے گئے۔ ان فارمز میں قسما قسم کے پھل دار درخت اور ان پھلدار درختوں کی بے شمار قسمیں اس علاقے کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے۔ آموں اور کھجوروں کے باغات ان فارمز کی خوبصورتی میں غیر معمولی اضافہ کا باعث تھے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر زمینوں کی تقسیم کے نتیجے میں احمدیہ اسٹیٹس کی شادابی قائم نہ رہ سکی، لیکن عظمت رفتہ کے آثار اب بھی قریہ قریہ نظر آتے ہیں۔

سندھ جننگ فیکٹری کنری

اراضیات سندھ کی خرید کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پرکنر ی میں سندھ جننگ فیکٹری کے نام سے کاٹن کو پراسس کرنے کا کارخانہ قائم ہوا۔ کنری کے گردو نواح میں ہزاروں ایکڑ پر تیار ہونے والی کپاس کی فصل کے لیے اس کارخانے کا اجرا ایک غیر معمولی انقلابی قدم تھا جس نے نہ صرف یہ کہ روزگار کے مواقع فراہم کیے بلکہ یہ اس پسماندہ علاقے میں کسانوں کے لیے غیر معمولی نعمت ثابت ہوئی۔ اس طرح یونیورسل ٹریڈنگ کمپنی کا قیام اورمحمد آباد میں ٹریکٹر ورکشاپ جیسے منصوبے اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے بے مثال منصوبوں میں سے تھے۔

ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی کنری

کنری شہر کی وسعت اور آبادکاری میں احمدی احباب، زمینداروں اور تاجر حضرات کا بڑا حصہ ہے۔ 1932ءمیں جب کنری کے گردو نواح میں جماعت نے زمینیں خریدیں تو اس وقت کنری کی حیثیت ایک معمولی سے قصبے سے بڑھ کرنہ تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتی زمینیں کنری کے نواحی علاقوں ناصرآباداور محمودآباد میں تھیں، جبکہ نسیم آباد میں حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ کے خاندان کی زمینیں تھیں۔ ان زمینوں کا مجموعی رقبہ ہزارہا ایکڑ پر مشتمل تھا۔

پنجاب اور دیگر علاقوں سے سندھ ہجرت کرکےتشریف لانے والے بہت سے احمدی احباب نے انہی زمینوں کے گرد اپنی ذاتی زمینیں خرید لیں اور یوں یہ علاقہ جماعت احمدیہ کے مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ بہت سے احمدی احباب نے اپنے کاروبار اور تجارتی دکانوں کے لیے بھی کنری کا انتخاب کیا اور یہ شہر احمدیوں کی پہچان بن گیا۔ حضورؓ نے یہاں کاٹن فیکٹری تعمیر کروائی۔

اس وقت کنری شہر کی آبادی دو لاکھ کے قریب ہے اور یہ شہر ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی کی حیثیت سے عالمی پہچان رکھتا ہے۔ پاکستان کی اَسی فیصد مرچ اسی شہر کے گردو نواح میں کاشت ہوتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی بصیرت افروز راہ نمائی او ر احمدی احباب کی پُر خلوص محنت کا نتیجہ تھا کہ ضلع تھرپارکر کے ویرانے شاداب گلستانوں میں تبدیل ہوگئے۔ 1932ء میں پہلی اراضئ سندھ کی خرید سے لے کر 1972ء میں زرعی اصلاحات کے نام پر زمینوں کی تقسیم تک چالیس سال کا عرصہ اس علاقےکی تعمیر و ترقی کا سنہری دَور کہا جاسکتا ہے۔ لینڈ ریفارمز متعارف کروانے کے بعد گذشتہ پچاس سال کی تاریخ گواہ ہےکہ ہر گزرے دن کے ساتھ یہ خوبصورت خطہ زمین روز افزوں معاشی ابتری اور بدحالی کی طرف گامزن ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1946ء میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی کا نہایت جدید اور جامع منصوبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’زمین کے علاوہ میرا ارادہ ہے کہ حیدر آباد اور ایسے ہی دوسرے علاقوں میں کارخانے جاری کئے جائیں۔ تحقیقات کے لئے کہ کہاں کہاں کارخانے مفید ہوں گے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ایک کارکن کو مقرر کیا ہے۔ اب واپس جا کر اس کی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ ہوسکے گا کہ کس کس جگہ کس کس قسم کے کارخانے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ سندھ کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی جائیدادوں کے لیے انتخاب کیا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب کی قدر کرنی چاہیے اور محنت اور قربانی سے سلسلہ کی آمد کو بڑھانا چاہیے۔ پس میں تمام کارکنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور انہیں کما حقہ ادا کریں اور سستی اور غفلت سے سلسلہ کی جائیداد کو کسی رنگ میں نقصان کی طرف نہ لے جائیں۔ اسلام کو دوبارہ تمام ادیان پر غالب کرنے کی اللہ تعالیٰ نے جو داغ بیل ڈالی ہے اس میں وہ ممد ہوں اور روک نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اسلام سے باغی قومیں ہمارے ذریعہ اسلام میں داخل ہوں اور اسلام کی بنیاد ایسی مضبوط اور شاندار طور پر قائم ہو کہ غیر مسلموں کی فوقیت کلی طور پر مٹ جائے۔ اور۔ وہ ایسے نظر آئیں جیسے سورج کے مقابلہ میں ایک جگنو ہوتا ہے ‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1946ء بمقام محمد آباد سندھ۔ مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 134تا135)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button