اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا
پھرہم اصل واقعہ کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں۔ کہ جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ توبہ کرنے کی فہمائش پرتوبہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے اُن سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا۔ کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے تب وہ فتویٰ اخوندزادہ مرحوم کے گلے میں لٹکادیا گیا۔ اور پھر امیر نے حکم دیا۔ کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسّی ڈال دی جائے۔ اور اُسی رسّی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا۔ اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اُس میں رسی ڈالی گئی۔ تب اُس رسّی کے ذریعہ سے شہید مرحوم کو نہایت ٹھٹھے ہنسی اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے۔ اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں۔ مفتیوں اور دیگر اہلکاروں کے یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہؤا مقتل تک پہنچا۔ اور شہر کی ہزارہا مخلوق جن کا شمارکرنا مشکل ہے۔ اس تماشا کے دیکھنے کے لئے گئی۔ جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دئے گئے تھے امیر اُن کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہےانکار کرے تو اب بھی مَیں تجھے بچا لیتا ہوں۔ اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر۔ تب شہید مرحوم نے جواب دیا۔ کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہو سکتا ہے۔ اور جان کیا حقیقت ہے۔ اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں۔ جن کے لئے مَیں ایمان کو چھوڑ دوں۔ مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اور مَیں حق کے لئے مروں گا۔ تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہےکافر ہے۔ اس کو جلد سنگسار کرو۔ اس وقت امیر اور اُس کا بھائی نصراللہ خاں اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے۔ اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے۔ جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا۔ کہ مَیں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں۔ تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ۔ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں۔ آپ چلاویں۔ تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے۔ اس میں میرا کوئی دخل نہیں۔ تب قاضی نے گھوڑے سے اُتر کر ایک پتھر چلایا۔ جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی۔ پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا۔ پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے لگے۔ اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو۔ یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہوگیا۔ پھر امیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتا تھا۔ کہ مَیں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا۔ اس پر چھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے۔ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴؍ جولائی کو وقوع میں آیا۔ اس بیان میں اکثر حصّہ اُن لوگوں کا ہے جو اس سلسلہ کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے۔ اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں داخل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ شاگرد تھے۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ امیر کے ظلم کو پورے طور پر ظاہر کرنا کسی نے روا نہیں رکھا اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے بہت سے خطوط کے مشترک مطلب سے ہم نے خلاصۃً لکھا ہے۔ ہر ایک قصّہ میں اکثر مبالغہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ قصّہ ہے کہ لوگوں نے امیر سے ڈر کر اُس کا ظلم پورا پورا بیان نہیں کیا اور بہت سی پردہ پوشی کرنی چاہی۔ شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی اب ظالم کا پاداش باقی ہے۔
اِنَّہٗ مَنۡ یَّاۡتِ رَبَّہٗ مُجۡرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ ؕ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَلَا یَحۡیٰی(طٰہ: 75)۔
افسوس کہ یہ امیر زیر آیت
مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا(النساء: 94)
داخل ہوگیا۔ اور ایک ذرہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا۔ اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اُس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنا لاحاصل ہے۔ ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں۔ جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں۔ اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا۔ اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے۔ مَیں نہیں جانتاکہ وہ کیا کام کریں گے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ58۔ 60)