میاں بیوی کا بغیر کسی مجبوری کے ایک دوسرے کی خواہش پر حقوقِ زوجیت ادا نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہے
سوال: ایک خاتون نے خاوند بیوی کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں دو احادیث حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوا کر دریافت کیا کہ کیا ان احادیث کا اطلاق خاوند پر بھی ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22؍نومبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: پہلی حدیث جس میں بیان ہوا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے انکار کر دے تو فرشتے اس بیوی پر ساری رات لعنت بھیجتے ہیں۔ یاد رکھیں اس کا اطلاق صرف بیوی پر نہیں ہوتا بلکہ برعکس صورت میں خاوند پر بھی اس حدیث کا اطلاق ہوگا۔
اس حدیث سے اگر کوئی پہلو نکل سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے مرد کی جنسی خواہش کےلیے بے صبری کی وجہ سے بیوی کو کسی جائز عذر کے بغیر انکار کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔ ورنہ جس طرح بیوی پر لازم ہے کہ وہ خاوند کے دیگر حقوق کے ساتھ اس کی جنسی ضرورت کو بھی پورا کرے اسی طرح خاوند کا فرض ہے کہ وہ بیوی کی دیگر ضروریات کے ساتھ اس کے جنسی حقوق بھی ادا کرے۔ لہٰذا اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کی خواہش پر بغیر کسی مجبوری کے اس کے جنسی حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح قابل گرفت ہو گا جس طرح ایک بیوی بغیر کسی جائز عذر کے اپنے خاوند کی جنسی خواہش کی تکمیل سے انکار کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی مستوجب ہو تی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی حضورﷺ کی ازواج کے پاس آئیں۔ ازواج مطہرات نے ان کی بُری حالت دیکھ کر ان سے دریافت کیا کہ انہیں کیا ہوا ہے کیونکہ قریش میں ان کے خاوند سے زیادہ امیر آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرے خاوند کا دن روزہ سے اور رات نماز پڑھتے گزرتی ہے۔ پھر جب حضورﷺ اپنی ازواج کے پاس تشریف لائے تو ازواج مطہرات نے اس بات کا ذکر حضورﷺ سے کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺ حضرت عثمان بن مظعونؓ سے ملے اور ان سے (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) فرمایا کہ کیا تمہارے لیے میری ذات اسوہ نہیں ہے؟ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں بات کیا ہے؟ جس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ تم رات نماز پڑھتے ہوئے اور دن روزہ رکھ کر گزار دیتے ہو، جبکہ تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ لہٰذا نماز پڑھا کرو لیکن سویا بھی کرو اور کبھی روزہ رکھو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد یہی عورت دوبارہ ازواج مطہرات کے پاس آئیں تو انہوں نے خوب خوشبو لگائی ہوئی تھی اور دلہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھیں۔ ازواج مطہرات نے انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واہ کیا بات ہے! جس پر انہوں نے بتایا کہ اب ہمیں بھی وہ سب میسر ہے جو باقی لوگوں کے پاس ہے۔ (مجمع الزوائد کتاب النکاح باب حق المرأة على الزوج)
پھر مذکورہ بالا زیر نظر حدیث کے حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جائز عذر یا مجبوری کی بنا پر اس فعل سے انکار کی صورت میں کوئی فریق اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہیں ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ جب غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ایک صحابی جو سفر پر گئے ہوئے تھے، اور حضورﷺ کے غزوہ کےلیے کوچ کر جانے کے بعد مدینہ واپس آئے۔ اور اپنی بیوی کی طرف پیار کرنے کےلیے بڑھے، جس پر اس بیوی نے یہ کہتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ حضورﷺ تو اس قدر گرمی میں دشمن سے جنگ کےلیے تشریف لے گئے ہیں اور تمہیں پیار کرنے کی اور میرے پاس آنے کی پڑی ہوئی ہے۔ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 343تا344، مطبوعہ 1948ء)
پس اگر کوئی فریق کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ہو گا۔ لیکن اگر کوئی خاوند یا بیوی دوسرے فریق کے قریب آ کر اس کے جذبات بھڑکانے کے بعد اسے تنگ کرنے کی غرض سے اس سے دور ہو جاتا ہے تو یقیناً ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد ہو گا۔
2۔ جہاں تک خاوند کے گھر میں موجود ہونے کی صورت میں اس کی اجازت سے بیوی کے نفلی روزہ رکھنے کی حدیث کا تعلق ہے تو اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ہر موقع پر خیال رکھا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کی تقسیم میں گھر سے باہر کی تمام تر ذمہ داریوں کی ادائیگی اور بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی فراہمی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے سپرد کی ہے اور گھریلو ذمہ داریاں (جن میں گھرکے مال کی حفاظت، خاوند کی ضروریات کی فراہمی اور بچوں کی پرورش وغیرہ شامل ہیں) اللہ تعالیٰ نے بیوی کو سونپی ہیں۔
پس جب خاوند اپنے فرائض کی ادائیگی کےلیے گھر سے باہر جائے تو بیوی کو گھریلو فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نفلی عبادت بجا لانے کی کھلی چھٹی ہے۔ لیکن خاوند کی موجودگی میں چونکہ اس کی ضروریات کی فراہمی بیوی کے فرائض میں شامل ہے۔ اس لیے فرمایا کہ خاوند کے حقوق کی ادائیگی میں سے اگر بیوی کچھ رخصت چاہتی ہو تو اسے خاوند کی اجازت سے ایسا کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس حکم کی حکمت حدیث میں بیان ایک واقعہ سے بخوبی معلوم ہوجاتی ہے۔
حضرت ابو سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت صفوان بن معطلؓ (جو رات بھر کھیتوں پر کام کرتے تھے اور دن کے وقت گھر پر ہوتے تھے)کی بیوی نے حضورﷺ کی خدمت میں شکایت کی کہ جب میں نفلی روزہ رکھتی ہوں تو میرا خاوند میرا روزہ تڑوا دیتا ہے۔ حضورﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت صفوانؓ نے عرض کیا کہ جب یہ روزے رکھتی ہے تو رکھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ میں جوان آدمی ہوں اس لیے صبر نہیں کرسکتا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دن حضورﷺ نے فرمایا کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصوم)
پس خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی تعلیمات میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے تمام حقوق جن میں جنسی تعلقات بھی شامل ہیں کی پوری دیانتداری کے ساتھ ادائیگی کی تلقین فرمائی گئی ہے اور کسی فریق کو یہ اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ عبادت کو وجہ بنا کر دوسرے کے ان حقوق کو تلف کرے۔ لہٰذا جو فریق کسی بھی رنگ میں دوسرے فریق کی حق تلفی کا مرتکب ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قصور وار متصور ہو گا۔