خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍فروری 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ
٭…رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابوبکر ؓ کی مثال فرشتوں میں سےمیکائیل اور انبیاء میں سے حضرت ابراہیم ؑکی سی ہے
٭…صلح حدیبیہ کے صلح نامہ میں مسلمانوں کی طرف سے بطور گواہ دستخط کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ بھی شامل تھے
٭…حضرت ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی کوئی اور فتح نہیں ہے
٭…زوہ ٔخیبر کی فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو بھی ایک سو وسق غلہ اور کھجوریں عطا فرمائیں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍فروری 2022ء بمطابق 04؍تبلیغ 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 04؍فروری2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
آج کل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض غزوات کا بھی ذکر ہوا تھا۔
عبدالرحمٰن بن غنم ؓروایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓنے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ لوگ اگر آپؐ کو دنیاوی زینت والے لباس میں دیکھیں گے تو اُن میں اسلام قبول کرنے کی خواہش زیادہ ہو گی۔ آپؐ نے فرمایا: میرے ربّ نے میرے لیےعمربن خطابؓ کی مثال فرشتوں میں سے جبرئیل کی سی بیان کی ہے ۔ اللہ نے ہر امت کو جبرئیل کے ذریعہ ہی ہلاک کیا ہے اور اُن کی مثال انبیاء میں سے حضرت نوح ؑکی سی ہے جب انہوں نے کہا :
رَبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا۔
اے میرے ربّ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ رہنے دے۔ اورابوبکرؓ کی مثال میکائیل کی مانند ہے۔ جب وہ مغفرت طلب کرتا ہے تو اُن لوگوں کے لیے جو زمین میں ہیں اور انبیاء میں اُن کی مثال حضرت ابراہیمؑ کی مانند ہے جب انہوں نے کہا
فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ ۚ وَمَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔
پس جس نے میری پیروی کی تو وہ یقیناً مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقیناً تُو بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
آپؐ نے فرمایا: اگر تم دونوں میرے لیے کسی ایک امر پر متفق ہو جاؤ تو مَیں تمہارے مشورے کے خلاف نہیں کروں گا لیکن تم دونوں کی حالت مشورے میں کئی طرح کی ہے جیسے جبرئیل اور میکائیل اور نوح اور ابراہیم علیہ السلام کی مثال ہے۔
ایک روایت ہے کہ بنو قریظہ میں حضرت سعدؓ اور حضرت کعبؓ بن عمرو مازنی بھی تیر چلانے والوں میں سے تھے جنہوں نے کثرت سے تیر چلائے تھے۔جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو یہ اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ آئے اورحضرت سعد بن عبادہ ؓکی بھیجی ہوئی کھجوریں کھا کر وقت گزارا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی کھجوریں کھا رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کھجور کیا ہی عمدہ کھانا ہے۔
صلح حدیبیہ کے حوالے سے گذشتہ خطبات میں ذکر ہو چکا ہے کہ ایک خواب کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کی جمعیت کے ساتھ ذوالقعدہ چھ ہجری میں عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ کفار مکہ نے آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی تیار کرلی ہے۔بخاری کے ایک حوالے میں درج ہے کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریش کے معاہدہ کی شرائط طے پا چکی تھیں۔اُس وقت سہیل بن عمرو کے بیٹے حضرت ابوجندلؓ اپنی زنجیروں میں لڑکھڑاتے ہوئے آئے۔سہیل بن عمرو نے جو مکہ کی طرف سے سفیر تھے اُن کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے قریش کو واپس کر دیا۔ حضرت عمرؓسے نہ رہا گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:کیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ضرور ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا:کیا ہم حق پرنہیں اورہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپؐ نے فرمایا :ہاں ضرورایسا ہی ہے۔ حضرت عمرؓنے کہا :تو پھر ہم ذلت آمیز شرائط کیوں برداشت کریں؟ آپؐ نے فرمایا:مَیں خدا کا رسول ہوں اورخدا کی منشا کو جانتا ہوں اوراس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا : کیا آپؐ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کاطواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا :کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہو گا؟حضرت عمرؓ نے کہا:نہیں۔آپؐ نے فرمایا:پھر انتظار کرو تم انشاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہوکر کعبہ کا طواف کرو گے۔ مگرحضرت عمرؓکی تسلی نہیں ہوئی اورحضرت ابوبکرؓ کے پاس جاکر اُن سے بھی اسی قسم کی باتیں کیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی وہی جواب دیے مگر ساتھ ہی فرمایا: دیکھو عمر ؓرسول خدا کی رکاب پرجو ہاتھ تم نے رکھا ہے اُسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قسم یہ شخص سچا ہے۔ حضرت عمر ؓکہتے ہیں کہ بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اورمَیں نے توبہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کودھونے کے لیے بہت سے نفلی اعمال کیے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دُھل جائے۔
سیرت خاتم النبیینؐ سےماخوذ ہےکہ صلح حدیبیہ کےصلح نامہ کی دو نقلیں تیار کی گئیں اور بطور گواہ کے مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓتھے۔ حضرت ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی کوئی اور فتح نہیں ہے۔
سریہ حضرت ابوبکرؓ بطرف بنو فزارہ چھ ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو اس سریہ کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے اس سریہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ اس میں مشرکین کے کئی آدمی مارے گئےاور کئی قید کر لیے گئے۔ قیدیوں میں ایک عمررسیدہ عورت بھی تھی جس کے عوض اہل مکہ کے پاس محبوس بعض مسلمان قیدیوں کی رہائی حاصل کی گئی ۔
غزوہ ٔخیبر کے بارے میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ محرم سات ہجری میں خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ تاریخ و سیرت کی اکثر کتب میں ملتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو یکے بعد دیگرے امیر لشکر بنایا گیا تھا لیکن اُن کے ہاتھ سے قلعہ فتح نہ ہو سکا۔البتہ لاہور سے شائع ہوئی ایک کتاب سیّدنا صدیق اکبرؓ کے مصنف نے لکھا ہے کہ ایک قلعہ حضرت ابوبکرؓکے ہاتھ پر فتح ہوا جبکہ دوسرا قلعہ حضرت عمرؓکے پاتھ پر اور تیسرا قلعہ قموص حضرت علیؓ نے فتح کیا۔غزوہ ٔخیبر کی فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر رشتہ داروں کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی ایک سو وسق غلہ اور کھجوریں عطا فرمائیں۔
قریش کے حلیف بنو بکر نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئےمسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے ہتھیاروں اور سواریوں سے بنو بکر کی مددکی اور صلح حدیبیہ کی شرائط کا پاس نہ کیا تو اُس وقت ابو سفیان مدینہ میں آیا اور صلح حدیبیہ کے معاہدے کی تجدید چاہی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا لیکن آپؐ نے اُس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ پھر وہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓکے پاس گیا اور اُن سے بات کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں لیکن دونوں کے انکار کے بعد وہ ناکام لوٹ گیا۔
رمضان آٹھ ہجری میں غزوۂ فتح مکہ ہوا جسے غزوةالفتح الاعظم بھی کہتے ہیں ۔ تاریخ طبری میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے اپنے گھر والوں کو اپنا سامان تیار کرنے کا بھی فرمایا۔ حضرت ابوبکرؓ اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کے گھر گئے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان تیار کر رہی تھیں۔ سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ اس بارے میں حضرت عائشہؓ سے استفسار فرما رہے تھے تو اُسی وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا :قریش کے مقابلہ کا ارادہ ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیاکہ کیا قریش اور ہمارے درمیان ابھی معاہدے اور صلح کی مدت باقی نہیں ہے؟ آپؐ نے فرمایا :ہاں مگر انہوں نے غداری کی ہے اور معاہدے کو توڑ دیا ہےلیکن اس بات کو ابھی پوشیدہ ہی رکھنا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیا ر ہو گیا اور جب آپؐ لڑنے کے لیےنکلے تو فرمایا: اے میرے خدا !میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تُو مکہ والوں کے کانوں کو بہرا کر دے اور اُن کے جاسوسوں کو اندھا کر دے۔ نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ اُن کے کانوں تک ہماری کوئی بات پہنچے۔ مدینہ میں سینکڑوں منافق موجود تھے لیکن دس ہزار کا لشکر نکلتا ہے اور کوئی اطلاع تک مکہ نہیں پہنچتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کام تھے۔
طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا قافلہ عشاء کے وقت مکہ سے مدینہ کے راستے پر پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر مرّالظہران میں اترا۔صحابہ نے آپؐ کےحکم پر دس ہزار جگہ آگ روشن کی۔ قریش کو خبر پہنچی توابو سفیان بن حرب،حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء کو بھیجا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سےہمارے لیے امان لے لینا۔ انہوں نے لشکر دیکھا تو سخت پریشان ہو گئے۔ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کی آواز سنی تو پکار کر کہا کہ ابوحنظلہ (یہ ابوسفیان کی کنیت ہے) اُس نے کہا لبّیک۔حضرت عباسؓ نے اُسے پناہ دی اوراُس کو دونوں ساتھیوں سمیت آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ تینوں اسلام لے آئے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اس کا تسلسل آگے جاری ہے ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
٭…٭…٭