فضائل القرآن (3) (قسط نمبر 13)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسۂ رحم کا اجراء
تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس ذریعہ سے رَحْمَة پیدا کی گئی ہے۔ کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے۔ مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑا بھی تو ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے۔ جہاں اصل ٹکڑے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی بسر ہوتی ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں ناچاقی رہتی ہے اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس مرد کی کسی اور عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ بڑی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کا ٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملتا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے۔ پس مرد عورت کو اپنا ٹکڑا سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے اور اس طرح اسے رحم کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہر جگہ اس عادت کو استعمال کرتا ہے۔ وہ لوگ جو ڈاکے ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ بھی اگر بیوی بچوں میں رہیں تو رحمدل ہو جاتے ہیں۔ لیکن علیحدہ رہنے کی وجہ سے ان میں بے رحمی کا مادہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مجرموں کو جیلوں میں رکھنے کی وجہ سے جرم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ علیحدہ رہتے ہیں اور اس طرح سنگ دل ہو جاتے ہیں۔ گویا مرد عورت کے تعلق کے ذریعہ انسان کو رحم کا ایک مدرسہ مل جاتا ہے جس میں تربیت پا کر وہ ترقی کرتا ہے اور خدا کے رحم کو کھینچ لیتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عورت و مرد کا تعلق ایک پر حکمت تعلق ہے۔ اس کو توڑنا انسانیت کو ناقص اور سلوک کو ادھورا کر دیتا ہے۔ اور اسے قائم کرنے سے خدا تعالیٰ کی طرف رغبت میں سہولت پیدا ہوتی ہے نہ کہ روک۔
عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد و عورت کس اصل پر تعلق رکھیں؟ یورپ کے بعض فلاسفر ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تربیت اخلاق کیلئے شادی تو ضروری ہے لیکن تعلقات شہوانی مضر ہیں۔ یہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے۔ فرمایا ہے نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ۪ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ ۫ وَقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمْ (البقرة:224)تمہاری بیویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں۔ تم جس طرح چاہو ان میں آئو۔ اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم جس طرح چاہیں کریں تو اچھا ہم تو چاہتے ہیں کہ عورتوں سے تعلق نہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ اس طرح آئو کہ آگے نسل چلے اور یاد گار قائم رہے۔ پس تم اس تعلق کو برا نہ سمجھنا۔ اس آیت میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں۔
۱۔ نر و مادہ کے تعلق کی اجازت دی ہے لیکن ایک لطیف اشارہ سے۔ یعنی عورت کو کھیتی کہہ کر بتایا کہ انسانی عمل محدود ہے۔ اسے غیر محدود بنانے کیلئے کیا کرنا چاہئے۔ یہی کہ نسل چلائی جائے۔ پس جس طرح زمین ہو تو اسے کاشتکار نہیں چھوڑتا۔ تم کیوں اس ذریعہ کو چھوڑتے ہو جس سے تم پھل حاصل کر سکتے ہو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا بیج ضائع ہو گا۔
۲۔ دوسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ ان کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری۔ اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے۔ تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھیتی سے پے در پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے۔ پس اس میں بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا چاہئے۔ جس طرح عقلمند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہئے اور کس حد تک کھیت سے فصل لینی چاہئے اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے۔
اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے۔ کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں۔ کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معاً دوسری بو دی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی۔ اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی۔ اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کے متعلق خدا کے جس قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مدنظر رکھو۔ جس طرح ہوشیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہو جائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہو جائے۔ اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا کرنے لگے۔ اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے کے فعل کو روک دو۔
تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو تو اولاد پر اچھا اثر ہوگا۔ اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولاد بھی تم سے بے وفائی کرے گی۔ پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولاد اچھی ہو۔ اگر بدسلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب ہوگا۔ یعنی عورتوں سے بدسلوکی اولاد کو بداخلاق بنا دے گی۔ کیونکہ بچہ ماں سے اخلاق سیکھتا ہے۔
چوتھی بات یہ بتائی کہ عورت سے تمہارا صرف ایسا تعلق ہو جس سے اولاد پیداہوتی ہو۔ بعض نادان اس سے خلافِ وضع فطری فعل کی اجازت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ وہ عمل کرو جس سے کھیتی پیدا ہو۔ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس میں خدا تعالیٰ ایک بات کو اسی حد تک ننگا کرتا ہے جس حد تک اخلاق کیلئے اس کا عُریاں کرنا ضروری ہوتا ہے باقی حصہ کو اشارہ سے بتا جاتا ہے۔ پس اَنّٰی شِئۡتُمۡمیں تو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو۔ لیکن یہ نصیحت یاد رکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے۔ یہ ایک طریق کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے۔ مثلاً ایک شخص کو ہم رہنے کیلئے مکان دیں اور کہیں کہ اس مکان کو جس طرح چاہو رکھو تو اس کا مطلب اس شخص کو ہوشیار کرنا ہوگا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا اور تمہیں نقصان پہنچے گا۔ اس طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیاہتے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے جیسا چاہو اس سے سلوک کرو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے جوتیاں مارا کرو بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے اسے سنبھال کر رکھنا۔ پس اَنّٰی شِئۡتُمۡکا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے برا ہوگا۔ اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہوگا۔ دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے اَنّٰیکو پنجابی کا ’’اَنّاہ‘‘ سمجھ لیتے ہیں اور یہ معنی کرتے ہیں کہ ’’انھے واہ‘‘ کرو۔
تکمیل روحانیت کا زوجیت سے تعلق
پھر قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جنت میں بھی بیویاں ہونگی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق اسلام میں روحانیت کی تکمیل کیلئے ضروری ہے۔ ورنہ اس جگہ بیویوں کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی۔ وہاں تو اولاد پیدا نہیں ہونی۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ رجولیت اور نسائیت کی اصل غرض تکمیل انسانی ہے اولاد ایک ضمنی فائدہ رکھا گیا ہے۔
غرض قرآن کریم کاکوئی حکم لے لو۔ خواہ وہ کس قدر ہی ابتدائی امر کے متعلق ہو اس میں بھی اسلام کی تعلیم افضل ہی نظر آئے گی۔ نرو مادہ کے تعلقات کا مسئلہ کتنا ابتدائی مسئلہ تھا لیکن قرآن کریم نے اسے کتنا علمی بنا دیا۔ باقی کتب میں اس کا ذکر بھی نہ ہوگا۔ پس ہمارا یہی دعویٰ نہیں کہ قرآن میں ایسی باتیں ہیں جو اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں۔ بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی بات نہیں جو دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے افضل نہ ہو۔ خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہو خواہ لین دین کے متعلق ہو۔ خواہ اور معاملات کے متعلق ہو۔ اس کے لئے ہم چیلنج دے سکتے ہیں کہ کوئی عیسائی یا ہندو یا کسی اور مذہب کا پیرو کھڑا ہو اور کسی مسئلہ کا نام لے کر کہے کہ اسے قرآن سے افضل ثابت کرو تو یقیناً ہم اسے افضل ثابت کر دیں گے۔ انشاء اللّٰہ تعالٰی۔
پس قرآن کریم بعض باتوں میں ہی افضل نہیں بلکہ ہر بات میں افضل ہے۔ حتیٰ کہ قرآن زبان کے لحاظ سے بھی افضل ہے۔ لیکن بوجہ اس کے کہ تفصیلات سے صرف جزئیات کا علم حاصل ہوتا ہے میں اب اصول کی طرف آتا ہوں۔
میں نے پچھلے سال سالانہ جلسہ پر قرآن کریم کی فضیلت کے چھ اصول بتائے تھے۔ اور ثابت کیا تھا کہ ان میں سے ہر امر میں قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے۔ وہ چھ اصول یہ تھے۔ اول۔ جس کا منبع افضل ہو۔ دوم۔ ظاہری حسن۔ سوم۔ وہ اس غرض کو پورا کرے جس کے لئے اس کی ضرورت سمجھی گئی ہو۔ چہارم۔ اس کا فائدہ دوسروں سے زائد ہو۔ پنجم۔ جس میں ملاوٹ نہ ہو۔ ششم۔ وہ چیز اپنی ہو۔
اب میں چند اور فضیلت کے اصول بیان کرکےبتا ہوں کہ قرآن کریم پر وجہ فضیلت کے لحاظ سے دوسری تمام الہامی اور غیر الہامی تعلیمات سے افضل ہے۔
قرآنی فضیلت کی ساتویں وجہ
ساتویں وجہ فضیلت کی یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی جنس کی چیزوں کی نسبت ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ محفوظ ہو۔ جب ہم کپڑا خریدتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ کونسا کپڑا زیادہ چلے گا۔ جو جلد پھٹ جانے والا ہو وہ نہیں لیتے بلکہ جو زیادہ دیر چلنے والا ہو وہ لیتے ہیں۔ یہی حال اور چیزوں کا ہوتا ہے۔ زیادہ چلنے والی چیز خریدی جاتی ہے اور کم چلنے والی چیز چھوڑ دی جاتی ہے۔ تعلیمات کے متعلق بھی یہ سوال لازماً ہوتا ہے۔ اگر دو تعلیمیں برابر ہوں لیکن ایک بگڑنے سے محفوظ ہو تو اسے یقیناً تقدم حاصل ہوگا۔ اس اصل کے ماتحت ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ یہ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہے یا دوسری کتابیں۔ الہامی کتابوں میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں یہی کہ الہامی تعلیم بگڑنے سے محفوظ ہو۔ اس میں نہ ملاوٹ ہو اور نہ ہو سکتی ہو۔ پہلے بتایا گیا تھا کہ دوسری کتابوں میں ملاوٹ ہے لیکن قرآن کریم میں نہیں ہے۔ گو جو کچھ بیان ہوا تھا وہ بھی اختصار سے ہوا تھا اور دلائل بھی ساتھ بیان ہونے سے رہ گئے تھے۔ مگر اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن ایسا محفوظ ہے کہ اس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی۔ ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہو سکتی ہو میں بڑا فرق ہے۔ قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ:
(۱)قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے۔ اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی ہر وقت ایک قادر ہستی حفاظت کر رہی ہو وہ ٹوٹ نہیں سکتی۔ پھر جس چیز کی حفاظت کا ذمہ غیر محدود طاقت والا لے اس میں کوئی ملاوٹ بھی نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ صرف دعویٰ ہے۔ میں ابھی اسے دلیل کے طور پر پیش نہیں کر رہا۔ اس دعویٰ میں بھی قرآن دوسری کتب سے افضل ہے کیونکہ کسی اور کتاب کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ خدا اس کا محافظ ہے۔ نہ انجیل کا نہ تورات کا نہ وید کا اور نہ کسی اور کتاب کا۔ قرآن کریم نے اس دعویٰ کے ساتھ وجہ بھی بتائی ہے۔ اور وہ یہ کہ (i)یہ کامل ذکر ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ہم نے اس کامل ذکر کو اتارا ہے اور کامل ذکر میں خرابی پیدا ہونے سے چونکہ دنیا تباہ ہوتی ہے اس لئے ہم خود اس کے محافظ ہیں۔ نئی چیز تب بنائی جاتی ہے جب پہلی سے اعلیٰ بنائی جائے۔ لیکن قرآن چونکہ کامل ہے اس لئے اس کو توڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہو سکتی۔
(ii)دوسری وجہ یہ بیان کی کہ ہم نے خود قرآن کو کمال عطا کیا ہے۔اور جب ہم نے خود اس کو کمال دیا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے دیئے ہوئے کمال کو ضائع ہونے دیں۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭