اطلاعات و اعلانات
درخواستہائے دعا
٭… عبد السمیع خان صاحب جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا تحریر کرتے ہیںکہ مکرم انور اقبال ثاقب صاحب استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کو ہرنیا کی تکلیف تھی۔ چند روز قبل احمدیہ ہسپتال سویڈرو میں ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب نے ان کاکامیاب آپریشن کیا ہے الحمدللہ ۔اب گھرآ گئے ہیں ۔
احباب جماعت سے کامل صحت یابی کے لیے دعا کی درخواست ہے۔
٭…عابد انور خادم صاحب ناظم تبلیغ مجلس انصار اللہ ساؤتھ ریجن یو کے تحریر کرتے ہیں کہ میرے برادر نسبتی ماسٹر عرفان اللہ صاحب آف طاہرہ آباد ربوہ کچھ عرصہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔حالت انتہائی تشویشناک ہے۔احبابِ جماعت سے موصوف کی کامل شفا یابی کے لیے دردمندانہ دعا کی درخواست ہے۔
٭…فوزیہ اسلم صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ ان کے والد مکرم محمد اسلم کنور صاحب آسٹریلیا میں بیمار ہیں ۔
احباب کی خدمت میں کامل شفایابی کے لیے درخواستِ دعا ہے۔
٭…٭…٭
سانحہ ارتحال
پیرزادہ سید منیر احمد شاہ صاحب
٭…سید شمشاد احمد ناصر صاحب مبلغ سلسلہ امریکہ تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کے تایا جان 18؍جنوری 2022ء بعمر92سال کینیڈا میں بقضائے الٰہی وفا پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے اپنے تایا جان سید منیر احمد شاہ صاحب مرحوم کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ البتہ ان کا نام سننے میں ضرور آتا تھا۔ میرے اباجان سید شوکت علی اور والدہ محترمہ سید مریم صدیقہ مرحومہ ہر سال چنی گوٹھ اور احمد پور شرقیہ سے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے چناب ایکسپریس سے ربوہ جاتے تھے۔ اور جب واپس آتے تو ہمیں ربوہ اور جلسہ سالانہ کی دلچسپ باتیں اور لنگر کی روٹی کے خشک ٹکڑے بطور تبرک ملتے جنہیں ہم شوق سے کھاتے کیونکہ گھر میں تذکرہ ہی اس طرح ہوتا تھا حالانکہ صحیح ادراک بھی نہ تھا۔
میرے والدین جب بھی جلسہ پر جاتے تو پھر تایا منیر احمد شاہ صاحب کے گھر ہی قیام کرتے۔ جلسہ کے دنوں میں ہر دو کی مہمان نوازی کی تعریف سننے میں آتی یعنی تایا جان اور محترم تائی امۃ الرزاق صاحبہ کی۔ بس یہی غائبانہ تعارف تھا۔ اُن دنوں کوئی اتنا آنا جانا تو ہوتانہیں تھا۔ ہم گاؤں میں تھے اور تایاجان دور ربوہ میں۔
بعد میں آپ نے اپنا مکان فیکٹری ایریا میں بنوایا۔ میری پہلی ملاقات پھر 1966ء کے بعد ربوہ ہی میں آپ سے اور محترمہ تائی جان سے ہوئی۔
میری شادی جب ہوئی تو تائی جان اور تایا جان نے مجھے ایک بہت خوبصورت جائے نماز تحفہ میں دیا۔ خاکسار نے وہ جائے نماز حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کیا کہ حضور اس پر نماز پڑھ کر متبرک فرما دیں۔ اس جائےنماز سے پھر سالہا سال خاکسار نے استفادہ کیا۔ الحمدللہ۔
تایاجان سید منیر احمد شاہ صاحب بہت ہمدرد سخی اور سب کی خدمت کرنے والے تھے۔ آپ کچھ طب اور ڈاکٹری بھی جانتے تھے اور دیار غیر میں یہی کام اور خدمت بجا لاتے تھے۔
آپ 19؍فروری 1930ءکو سید علی احمد شاہ مرحوم صحابی حضرت مسیح موعود ؑ اور غفور النساء صاحبہ مرحومہ کے ہاں قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ آپ محترم خان میر خان صاحب (باڈی گارڈ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) اور محترمہ لال پری صاحبہ کے داماد تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے، صوم و صلوٰۃ کے پابنداور تہجدگزارتھے۔ دو مرتبہ حج کرنے کی اور کئی مرتبہ عمرہ کی سعادت حصہ میں آئی۔ آپ نے لمبا عرصہ متحدہ عرب امارات میں فوج میں طبی خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ جتنا عرصہ وہاں رہے جماعت سے مضبوط تعلق قائم رکھا۔ اپنے گھر کو نماز سینٹر بنائے رکھا۔ کینیڈا میں بھی اپنے گھر کو نماز سینٹر کے لیے پیش کیا۔ اس کے علاوہ کینیڈا جماعت میں مختلف عہدوں پر خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ نیشنل مجلس انصار اللہ میں ایڈیشنل قائد مال اور قضاء کینیڈا میں بطور حَکَمخدمت کی توفیق ملی اور کینیڈا کے دو ہسپتالوں میں اپنی طبی خدمات بلامعاوضہ پیش کیں۔ محترم امیر صاحب کینیڈا نے فون پر تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ہمیشہ جماعت کی بہتری کے لیے مفید مشورے دیتے۔ نیکی اور بھلائی ان کا نمایاں وصف تھا۔
جب بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دورہ کینیڈا پر تشریف لاتے تو میں اور میرے اباجان، میری ساری فیملی جلسہ سالانہ کے دنوں میں آپ کی مہمان نوازی سے استفادہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہماری تائی جان امۃ الرزاق صاحبہ کو بہت جزائے خیر دے اور لمبی عمر عطا کرے۔ آمین
ایک دفعہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کینیڈا جلسہ کے لیے تشریف لائے تو پیس ویلج میں گلیوں میں سے گزر رہے تھے ۔ سب اہالیان پیس ویلج نے گھروں کو سجایا ہوا بھی تھا اورگھروں سے نکل کر حضور انور کااستقبال کر رہے تھے۔ خاکسار بھی اپنی بڑی پوتی سیدہ صباحت کو گود میں لیے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ حضور نےازراہ شفقت فرمایا کن کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہو۔ خاکسار نےبتایا کہ اپنے تایا جان سید منیر احمد شاہ صاحب کے گھر۔ الحمد للہ۔
آپ کو خلافت سے بے پناہ عشق تھا۔ تادم وفات حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں خطوط لکھتے رہے۔ آپ کی تحریر نہایت خوش خط تھی جس کا ذکر بڑی خوشنودی سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کی بیٹی محترمہ امۃالباسط شیخ صاحبہ سے جرمنی میں دوران ملاقات فرمایا۔
آپ خوش خط ہونے کے ساتھ ساتھ پُراثر مضمون نگاری کرتےاور شاعرانہ مزاج رکھتے تھے۔ روزمرہ کی گفتگو میں بھی اشعار استعمال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی اعلیٰ مثال اس وقت قائم کی جب جرمنی میں ان جوان بیٹے سید زاہد منیر کی اچانک وفات ہوئی تو اس صدمہ کو بھی کمال خوبی سے برداشت کیا۔ ساری زندگی دور و نزدیک ہر رشتہ دار سے محبت کا تعلق رکھا۔ رشتوں کو محبت و پیار اور خلوص سے نبھانے کا وصف رکھتے تھے۔ اپنے داماد (شیخ نعیم اللہ جرمنی) کو اپنی دامادی میں لینے کے بعد سے آخری سانس تک اپنا بڑا بیٹا اور ہمدرد دوست بنا کر اس رشتہ کی خوب آبیاری کی۔ خوش اخلاق، خوش مزاج، خوش گفتار،خوش لباس تھے۔ سارے اوصاف آپ میں نمایاں تھے۔
غرباء اور یتیموں کے ہمدرد تھے ہمیشہ ان کی مدد کرنے کو کوشاں رہتے۔ اپنی بھانجی محترمہ کے پاس ایک خطیر رقم رکھوائی اور تاکید کی کہ میری زندگی میں اور میرے بعد بھی غرباء کی خدمت کےاس سلسلہ کو اس طرح جاری رکھا جائے۔ اپنی ساری اولاد کو غرباء کا خاص خیال رکھنے کی تلقین ان کی آخری نصائح میں سے تھی۔
آپ نے اہلیہ محترمہ امۃ الرزاق صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے سید شاہد منیر اور سید طاہر منیر اورایک بیٹی امۃ الباسط شیخ اہلیہ نعیم اللہ شیخ کے علاوہ پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں،پڑنواسہ، پڑنواسی سوگوار چھوڑے ہیں۔
احباب جماعت سے خاص دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے رحمت و مغفرت کا سلوک فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اورآپ کی نیکیوں کو اپنانے اور جاری رکھنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین۔
٭…٭…٭