خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍جنوری2022ء
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کر کے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لیے ہم اس سے تخلّف نہیں کرسکتے اور خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے مَیں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گا
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ
غزوۂ بنو نضیر، غزوۂ بدرالموعد، غزوۂ بنو مصطلق، واقعۂ افک اور غزوۂ احزاب کا تذکرہ
مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مختار احمد گوندل صاحب، مکرم میر عبد الوحید صاحب اور مکرم سید وقار احمد صاحب آف امریکہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍جنوری2022ء بمطابق 28؍صلح1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر
ہو رہا تھا اور یہی آج بھی چلے گا۔ غزوۂ حمراء الاسد کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن احد سے واپس تشریف لائے۔ اتوار کے دن جب فجر طلوع ہوئی تو حضرت بلالؓ نے اذان دی اور بیٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ بن عَمرو بن عَوف مُزَنِیؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے ہوئے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو انہوں نے کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے آ رہے تھے۔ جب وہ مَلَلْ میں تھے تو قریش نے وہاں پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ مَلَلْ مکہ کے راستے میں مدینہ سے اٹھائیس میل کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے۔ اور انہوں نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم لوگوں نے تو کچھ نہیں کیا۔ تم لوگوں نے انہیں نقصان پہنچایا یعنی مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اور تکلیف پہنچائی اور پھر تم نے انہیں چھوڑ دیا اور تباہ نہیں کیا۔ کفار نے کہا کہ ان مسلمانوں میں کئی ایسے بڑے بڑے لوگ باقی ہیں جو تمہارے مقابلے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔ پس واپس چلو تا کہ ہم ان لوگوں کو جڑ سے اکھیڑ دیں جو اُن میں باقی رہ گئے ہیں۔ صَفْوَان بن اُمَیَّہاس بات سے انہیں روکنے لگا یعنی کافروں میں وہ بیٹھا تھا وہ انہیں روکنے لگا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! ایسا نہ کرنا کیونکہ وہ لوگ جنگ لڑ چکے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ جو لوگ جنگ میں آنے سے رہ گئے تھے اب وہ بھی تمہارے مقابلہ میں ان کے ساتھ جمع ہو جائیں گے۔ تم واپس چلو کیونکہ فتح تو تمہاری ہی ہے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر تم واپس گئے تو تم شکست کھا جاؤ گے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بلایا اور ان کو اس مُزَنِیصحابی کی بات بتائی تو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی طرف چلیں تا کہ وہ ہمارے بچوں پر حملہ آور نہ ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو بلوایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ وہ یہ اعلان کریں کہ رسول اللہ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ دشمن کے لیے نکلو اور ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی میں شامل تھا یعنی احد کی لڑائی میں شامل تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جھنڈا منگوایا جو کہ گذشتہ روز سے بندھا ہوا تھا۔ اس کو ابھی تک کھولا نہیں گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جھنڈا حضرت علیؓ کو دے دیا اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو دیا تھا۔
(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 308-309 ۔ غزوۃ حمراء الاسد۔ دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
(معجم البلدان جلد 5 صفحہ225 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بہرحال مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر حمراء الاسد پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا اور مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کر کے وہ واپس مکہ روانہ ہو گئے۔
(سیدنا ابوبکر شخصیت اور کارنامےاز علی محمد صلابی مترجم اردو صفحہ 113)
غزوۂ بنو نضیر
یہ 4؍ ہجری میں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ اس بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کیوں تشریف لے کر گئے۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس بنو عامر کے دو مقتولوں کی دیت وصول کرنے کے لیے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس کے قریب صحابہ تھے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچ کر ان سے رقم کی بات کی تو یہودیوں نے کہا کہ ہاں اے ابوالقاسم !آپ پہلے کھانا کھا لیجیے پھر آپ کے کام کی طرف آتے ہیں۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
یہودیوں نے آپس میں سازش کی
اور کہنے لگے کہ اس شخص یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے کے لیے تمہیں اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے بتاؤ کون ہے جو اس مکان پر چڑھ کر ایک بڑا پتھر ان کے اوپر گرا دے تا کہ ہمیں ان سے نجات مل جائے۔ اس پر یہودیوں کے ایک سردار عمرو بن جَحَّاشْنے اس کی حامی بھری اور کہا کہ میں اس کام کے لیے تیار ہوں مگر اسی وقت سَلَّامبن مِشْکَمْنامی ایک دوسرے یہودی سردار نے اس ارادے کی مخالفت کی اور کہا یہ حرکت ہرگز مت کرنا۔ خدا کی قسم! تم جو کچھ سوچ رہے ہو اس کی انہیں ضرور خبر مل جائے گی۔ یہ بات بدعہدی کی ہے جبکہ ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ موجود ہے۔ پھر وہ شخص جب اوپر پہنچ گیا یعنی پتھر گرانے والا، تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر گرا دے تو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آسمان سے اس سازش کی خبر آئی۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو خبر دار کر دیا کہ یہودی کیا کرنے والے ہیں۔ آپؐ فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر اس طرح روانہ ہو گئے جیسے آپؐ کو کوئی کام ہے۔ آپؐ تیزی کے ساتھ واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت محمد بن مَسْلَمہؓکو بَنُو نَضِیر کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میرے شہر یعنی مدینہ سے نکل جاؤ۔ تم لوگ اب میرے شہر میں نہیں رہ سکتے اور تم نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ غداری تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو دس دن کی مہلت دی لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم اپنا وطن ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس پیغام پر مسلمان جنگ کی تیاری میں لگ گئے۔ جب تمام مسلمان جمع ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کے مقابلے کے لیے نکلے۔ جنگی پرچم حضرت علیؓ نے اٹھایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا اور ان کی مدد کے لیے کوئی بھی نہ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی طرف لشکر کشی فرمائی تو عشاء کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دس صحابہ کے ساتھ اپنے گھر واپس تشریف لے گئے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کی کمان ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ کے سپرد فرمائی جبکہ دوسری روایت کے مطابق یہ سعادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئی۔ ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سختی کے ساتھ محاصرہ کیے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یعنی یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا کر دیا اور آخر کار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کو اس شرط پر جلا وطن ہونے کی اجازت دے دی جائے اور جان بخشی کر دی جائے کہ سوائے ہتھیاروں کے انہیں ایسا تمام سامان لے جانے دیا جائے جو اونٹوں پر لادا جا سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط اور درخواست منظور فرما لی۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے پندرہ روز تک ان کا محاصرہ کیا جبکہ بعض روایا ت میں دنوں کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 357 تا 361۔ غزوہ بنو النضیر۔ دارالکتب العلمیۃ 2002ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی اجازت سے غزوۂ بنو نضیر سے حاصل ہونے والا جو سارا مال غنیمت تھا وہ مہاجرین میں تقسیم کر دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! اللہ تمہیں جزائے خیر عطا کرے۔
(سبل الہدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ325 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
غزوۂ بَدْرُ الموعد۔
یہ 4؍ہجری کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ کا سبب یہ ہے کہ ابو سفیان بن حَرْب جب غزوۂ احد سے واپس آنے لگا تو اس نے بآواز بلند کہا کہ آئندہ سال ہماری اور تمہاری ملاقات بدر الصَّفْرَاء کے مقام پر ہو گی۔ ہم وہاں جنگ کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروقؓ کو فرمایا: اسے کہو ہاں ان شاء ا للہ۔ اسی پر لوگ جدا ہو گئے۔ قریش واپس آ گئے اور انہوں نے اپنے لوگوں کو اس وعدے کے بارے میں بتا دیا۔ بدر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور کنواں ہے جو وادیٔ صفراء اور جَارْ جومقام ہے اس کے درمیان واقع ہے۔ بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں 150 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اس جگہ ہر سال یکم ذیقعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا۔بہرحال جوں جوں وعدے کا وقت قریب آ رہا تھا ابوسفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلنے کو ناپسند کر رہا تھا۔ اس کو خوف پیدا ہو رہا تھا۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ اس مقررہ وقت میں آپؐ سے ملاقات نہ ہی ہو۔ ابوسفیان ظاہر کر رہا تھا کہ وہ ایک لشکرِ جرار لے کر آپؐ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے تا کہ یہ خبر اہل مدینہ تک پہنچا دے کہ وہ ایک بہت بڑا لشکر جمع کر رہا ہے اور عرب کے گوشے گوشے میں خبر پھیلا دی جائے تا کہ مسلمانوں کو اس سے خوفزدہ کیا جا سکے۔
(سبل الہدیٰ والرشادجلد4 صفحہ337 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
(اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 216 دار السلام1424ھ)
ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہؐ! اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے گا۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دے گا۔ ہم نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور ہم اس کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے۔ وہ یعنی کفار اسے بزدلی شمار کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعدہ کے مطابق تشریف لے چلیں۔ بخدا اس میں ضرور بھلائی ہے۔ یہ جذبات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر ملی یعنی کہ ابوسفیان وغیرہ کے لشکر کی تیار ی کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رَوَاحَہؓ کو اپنے پیچھے مدینہ کا امیر مقرر فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سَلُول کو امیر مقرر فرمایا اور اپنا جھنڈا حضرت علیؓ کو عطا فرمایا اور مسلمانوں کے ہمراہ بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ آپؐ کے ہمراہ پندرہ سو مسلمان تھے۔مسلمانوں نے بدر کے مقام پر لگنے والے میلے میں خرید و فروخت کی اور تجارت میں کافی نفع کمایا اور آٹھ روز قیام کرنے کے بعد واپس مدینہ آ گئے۔
(سبل الہدیٰ والرشادجلد4 صفحہ337 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 46 غزوۃ رسول اللّٰہﷺ بدر الموعد، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
وہ میلہ جو وہاں لگا ہوا تھا مسلمانوں نے پھر اس میں تجارت بھی کی کہ اگر جنگ ہوئی تو وہ تو ہونی ہے لیکن اگر نہیں ہوتی تو کم از کم تجارت وہاں ہو جائے اور اس سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ ہوا۔ غزوۂ احد میں ابوسفیان نے مسلمانوں کو اگلے سال دوبارہ ملنے کا جو چیلنج دیا تھا اس کی مزید تفصیل بھی ہے اور یہ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ غزوۂ احد کے بعد ’’میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پرہماری تمہاری جنگ ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔ اس لئے دوسرے سال یعنی چار ہجری میں جب شوال کے مہینہ کا آخر آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کرمدینہ سے نکلے اورآپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کوامیر مقرر فرمایا۔ دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دوہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلا مگر باوجود احد کی فتح اوراتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اوراسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کاانتظام نہ ہوجاوے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔ چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے ایک شخص نُعَیم نامی کوجوایک غیر جانبدار قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا مدینہ کی طرف روانہ کر دیا اور اسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کوڈرا دھمکا کر اور جھوٹ سچ باتیں بنا کر جنگ سے نکلنے کے لئے باز رکھے۔ چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اور قریش کی تیاری اور طاقت اور ان کے جوش وخروش کے جھوٹے قصے سنا سنا کر اس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کر دی۔ حتی کہ بعض کمزور طبیعت لوگ اس غزوہ میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلنے کی تحریک فرمائی اور آپؐ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کر کے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے ہم اس سے تخلّف نہیں کرسکتے اور
خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے میں جاؤں گا اور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گا
تولوگوں کاخوف جاتا رہا اور وہ بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ آپؐ کے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکہ سے نکلا لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان توبدر میں اپنے وعدہ پرپہنچ گئے مگر قریش کالشکر تھوڑی دور آ کر پھر مکہ کو واپس لوٹ گیا اور اس کا قصہ یوں ہوا کہ جب ابوسفیان کونُعَیم کی ناکامی کاعلم ہوا تو وہ دل میں خائف ہوا اور اپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستہ سے لوٹا کر واپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت ہے اور لوگوں کوتنگی ہے اس لئے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب کشائش ہوگی تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اورچونکہ وہاں ماہ ذوقعدہ کے شروع میں ہرسال میلہ لگا کرتا تھا۔‘‘ (جس کا پہلے ذکرہو چکا ہے) تو ’’ان ایام میں بہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کرکے کافی نفع کمایا۔ حتی کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے راس المال کو دوگنا کر لیا۔ جب میلے کا اختتام ہو گیا اورلشکر قریش نہ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے کوچ کر کے مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکہ میں واپس پہنچ کر مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یہ غزوہ غزوۂ بَدْرُالْمَوعِد کہلاتا ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 529-530)
غَزوۂ بَنُو مُصْطَلِق
ایک ہے جو شعبان 5؍ہجری میں ہوا۔ غزوۂ بنو مصطلق کا دوسرا نام غزوۂ مُرَیْسِیْع بھی ہے۔(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 341، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2013ء)بنو مُصْطَلِق خُزَاعَہ کی شاخ تھی ۔یہ قبیلہ ایک کنویں کے پاس رہتا تھا جس کو مُرَیْسِیْع کہتے تھے۔ یہ فُرُعْ سے ایک یوم کی مسافت پر تھا اور فُرُعْ اور مدینہ کے درمیان قریباً 96میل کا فاصلہ تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جزء ثانی صفحہ48 غزوہ رسول اللّٰہ ﷺ المریسیع ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
(المنجد زیر مادہ ’برد‘)
علامہ ابن اسحاق کے نزدیک غزوۂ بنو مصطلق 6؍ہجری میں ہوا جبکہ موسیٰ بن عُقْبَہ کے نزدیک 4؍ہجری میں ہوا اور واقدی کہتا ہے کہ یہ غزوہ شعبان 5؍ہجری میں ہوا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کو 5؍ہجری کا ہی لکھا ہے۔ بہرحال جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی کہ قبیلہ بنومصطلق نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف شعبان 5؍ہجری میں سات سو اصحاب کے ساتھ پیش قدمی فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمایا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؐ نے مہاجرین کا جھنڈا حضرت عمار بن یاسرؓ کو دیا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہؓ کے سپرد فرمایا۔
(البدایۃ و النہایۃ جلد 4 صفحہ169-170، غزوۃ بنی المصطلق،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
واقعۂ افک
اس کے بارے میں جو تفصیل ہے وہ اس طرح ہے کہ غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ بنت حضرت ابوبکرؓ پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی۔ یہ واقعہ تاریخ میں واقعۂ افک کے نام سے معروف ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ یہ روایت گو کہ ایک صحابی کے ضمن میں پہلے بیان ہو چکی ہے (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ دسمبر 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍ جنوری 2019ء صفحہ 6، 7) لیکن یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بھی بیان کرنا ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو آپؐ اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتےحضرت عائشہؓ سے یہ روایت ہے، اور پھر جس کا قرعہ نکلتا آپؐ اس کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپؐ نے ایک غزوہ میں ہمارے درمیان قرعہ ڈالا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا تو حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میرا قرعہ نکلا۔ میں آپؐ کے ساتھ گئی حجاب کے حکم کے نازل ہونے کے بعد۔ کہتی ہیں میں ہودج میں اٹھائی جاتی اور اسی میں اتاری جاتی۔ ہم چلتے رہے یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور واپس تشریف لائے اور ہم مدینہ کے قریب ہوئے تو ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا حکم فرمایا۔ میں کھڑی ہوئی جب لوگوں نے کوچ کا اعلان کیا۔ پھر میں چل پڑی یہاں تک کہ لشکر سے آگے نکل گئی۔ پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو ہودج کی طرف آئی اور میں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ میرا اَظْفَار کے نگینوں کا ہار ٹوٹ کر گر گیا ہے۔ بہرحال کہتی ہیں میں واپس گئی اور اپنا ہار ڈھونڈنے لگی۔اس کی تلاش نے مجھے روکے رکھا اور وہ لوگ آئے جو میری سواری کو تیار کرتے تھے جس پر میںہودج میں بیٹھتی تھی۔ اور انہوں نے میرا ہودج اٹھایا اور اسے میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر مَیں سوار ہوتی تھی۔ کہتی ہیں کہ انہوں نے سمجھا کہ مَیں اس میں ہوں کیونکہ عورتیں ان دنوں میں ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں اور ان پر زیادہ گوشت نہ ہوتا تھا اور وہ تھوڑا سا ہی کھانا کھایا کرتی تھیں۔ بہرحال لوگوں نے جب اسے اٹھایا تو ہودج کے بوجھ کو غیر معمولی نہ سمجھا۔ انہوں نے اس کو اٹھایا اور میں کم عمر لڑکی تھی۔ انہوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے اور میں نے اپنا ہار پا لیا بعد اس کے کہ لشکر چلا گیا۔
میں ان کے پڑاؤ پرآئی اور وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ پھرمیں اپنے پڑاؤ کی طرف گئی جس میں میں تھی اور میں نے خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے تو میرے پاس واپس آئیں گے۔ اس حال میں کہ میں بیٹھی ہوئی تھی میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صَفْوَان بن مُعَطَّلْ سُلَمِی ذَکْوَانِی لشکر کے پیچھے تھے۔ وہ صبح میرے پڑاؤ پر آئے اور انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجود یکھا۔ وہ میرے پاس آئے اور حجاب کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ میں ان کے انّا للہ پڑھنے پر جاگ اٹھی۔ جب انہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی تو انہوں نے اس اونٹنی کا پاؤں موڑا اور جب وہ اونٹنی بیٹھ گئی تو مَیں اس پر سوار ہو گئی۔ اور میری سواری کو لے کر چل پڑے یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے بعد اس کے کہ لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لیے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔
پھر جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا
اور اس افک کا بانی عبداللہ بن ابی بن سَلول تھا۔ ہم مدینہ پہنچے۔ مَیں وہاں ایک ماہ بیمار رہی اور لوگ افک لگانے والوں کی باتوں میں لگے رہے اور میری بیماری میں یہ بات مجھے بے چین کرتی کہ مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مہربانی نہ دیکھتی جو مَیں آپؐ سے دیکھتی تھی جب مَیں بیمار ہوتی۔آپؐ اندر تشریف لاتے اور سلام کہتے۔ پھر فرماتے تم کیسی ہو؟ مجھے اس واقعہ کا یعنی واقعۂ افک کا کچھ بھی علم نہ تھا یہاں تک کہ جب میں کمزور ہو گئی تو میں اورام مسْطَح مَنَاصِع کی طرف گئیں جو ہماری قضائے حاجت کی جگہ تھی۔ ہم نہ نکلتے مگر رات سے رات تک، رات کا انتظار کیا کرتے تھے، اور یہ اس سے پہلے کی بات ہے کہ ہم نے اپنے گھروں کے قریب بیوت الخلا بنائے تھے۔ گھروں میں اس وقت بیوت الخلا نہیں ہوتے تھے۔ بہرحال کہتی ہیں اس سے قبل ہماری حالت پہلے عربوں کی سی تھی جو جنگل میں یا باہر الگ جا کر قضائے حاجت کیاکرتے تھے۔ میں اور ام مسطح بنتِ اَبُورُہْم دونوں گئیں۔ ہم چل رہی تھیں کہ وہ اپنی اوڑھنی سے اٹکی اور اس نے کہا مسطح ہلاک ہو گیا۔ میں نے اسے کہا کیا ہی بری بات ہے جو تم نے کہی ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہو جو بدر میں موجود تھا تو اس نے کہا اے بھولی بھالی لڑکی! کیا آپؓ نے سنا نہیں جو لوگوں نے کہا۔ تب اس نے مجھے افک والوں کی بات بتائی۔ اس پر میری بیماری مزید بڑھ گئی۔
پھر جب میں اپنے گھر واپس آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور آپؐ نے سلام کیا اور آپؐ نے فرمایا تم کیسی ہو؟ میں نے عرض کیا مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ والدین کے پاس چلی جاؤں۔ میں اس وقت چاہتی تھی کہ میں ان دونوں یعنی اپنے والدین کی طرف سے خبر کا یقینی ہونا معلوم کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی والدہ سے کہا لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اے میری بیٹی! اس معاملہ میں اپنی جان پر بوجھ نہ ڈالو۔ اللہ کی قسم !کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کبھی کسی آدمی کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہو جس سے وہ محبت کرتا ہو اور اس کی سوکنیں ہوں اور پھر اس کے خلاف باتیں نہ کریں۔ مَیں نے کہا سبحان اللہ! لوگ ایسی بات کا چرچا کر رہے ہیں۔ انہوں نے یعنی حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ مَیں نے وہ رات اس طرح گزاری کہ صبح ہو گئی اور میرے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ مجھے ذرا سی بھی نیند آئی۔
پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابوطالبؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بلایا۔ جب وحی میں تاخیر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے اپنی بیوی کو چھوڑنے کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ جہاں تک حضرت اسامہ کا تعلق تھا تو انہوں نے مشورہ دیا اس کے مطابق جو وہ جانتے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہؓ سے تعلق کیا ہے اور حضرت عائشہؓ کی حالت کو بھی جانتے ہوں گے کہ نیک پارسا عورت ہیں۔ بہرحال حضرت اسامہؓ نے عرض کیا کہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کی بیوی ہیں اور اللہ کی قسم! ہم سوائے بھلائی کے اَور کچھ نہیں جانتے۔
اور جہاں تک حضرت علی بن ابوطالبؓ کا تعلق ہے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ نے آپؐ پر کچھ تنگی نہیں رکھی اور اس کے سوا اَور عورتیں بھی بہت ہیں اور اس خادمہ سے پوچھئے وہ آپؐ سے سچ کہہ دے گی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور آپؐ نے فرمایا اے بریرہ! کیا تم نے اس میں کوئی بات دیکھی جو تمہیں شک میں ڈالے؟ بریرہ نے عرض کیا نہیں۔ اس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے ان میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو میں عیب سمجھوں کہ وہ کم عمر لڑکی ہے ،گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے۔ بکری آتی ہے اور وہ اسے کھا جاتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی روز کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں معذرت چاہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کون مجھے اس شخص کے بارے میں معذور سمجھے گا جس کی ایذا رسانی میرے اہل کے بارے میں مجھے پہنچی ہے۔ اللہ کی قسم! میں اپنے اہل میں سوائے بھلائی کے اَور کوئی بات نہیں جانتا۔
اور لوگوں نے ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت مَیں بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتا اور میرے گھر والوں کے پاس وہ نہیں آتا تھا مگر میرے ساتھ۔ حضرت سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! بخدا میں اس سے آپؐ کو معذور ٹھہراؤں گا۔ اگر وہ اوس سے ہے تو ہم اس کی گردن مار دیں گے اور اگر وہ ہمارے بھائیوں خزرج سے ہے تو آپؐ ہمیں ارشاد فرمائیں۔ ہم آپؐ کے ارشاد کے مطابق کریں گے۔ اس پر حضرت سعد بن عبادہؓ کھڑے ہو گئے اور وہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے وہ بھلے آدمی تھے لیکن انہیں حمیت نے اکسایا اور انہوں نے کہا تم نے غلط کہا۔ اللہ کی قسم ! تم اسے نہیں مارو گے۔ یعنی آپس میں قبیلوں کی ٹھن گئی۔ اور نہ اس پر طاقت رکھتے ہو۔ حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا تم نے غلط کہا۔ اللہ کی قسم! اللہ کی قسم! ہم اسے ضرور ماریں گے۔ تُو منافق ہے اور منافقوں کی طرف سے جھگڑتا ہے۔ اس پر دونوں قبیلے اوس اور خزرج بھڑک اٹھے یہاں تک کہ وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے۔ ان کو دھیماکیا یہاں تک کہ خاموش ہو گئے اور آپؐ بھی خاموش ہو گئے۔
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں میں سارا دن روتی رہی۔ یہ واقعہ تو آپ کے علم میں آ گیا لیکن اصل بات یہ تھی کہ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ تو ہوتا رہا لیکن میں سارا دن روتی رہی۔ نہ میرے آنسو تھمے اور نہ مجھے نیند آئی۔ میرے ماں باپ میرے پاس آئے۔ میں دو راتیں اور ایک دن روئی یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ یوں رونا میرے جگر کو پھاڑ ڈالے گا۔ آپؓ نے فرمایا اس اثنا میں کہ وہ دونوں یعنی حضرت عائشہؓ کے والدین جو تھے، میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور مَیں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور مَیں نے اسے اجازت دی۔ وہ بیٹھی اور میرے ساتھ رونے لگی۔ ہم اس حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ جب سے میرے متعلق کہا گیا اور جو کہا گیا آپؐ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور آپؐ ایک مہینہ اسی طریق پر رہے۔ میرے اس معاملے کے بارے میں آپؐ پر کوئی وحی نہیں ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد پڑھا۔ پھر فرمایا اے عائشہ! مجھے تمہارے متعلق یہ بات پہنچی ہے۔ اگر تم بَری ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہاری بریت فرمائے گا اور اگر تم سے کوئی لغزش ہو گئی ہو تو اللہ سے مغفرت مانگو اور اس کے حضور توبہ کرو کیونکہ
بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور پھر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر رجوع برحمت ہوتا ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات ختم کرچکے تو میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ مجھے ان کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہوا اور مَیں نے اپنے باپ یعنی حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے جواب دیں۔ انہوں نے کہا بخدا ! مَیں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں۔ پھر مَیں نے اپنی ماں سے کہا آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں جو آپؐ نے فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا بخدا ! مَیں نہیں جانتی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں مَیں کم عمر لڑکی تھی، قرآن زیادہ نہیں جانتی تھی تو مَیں نے کہا بخدا ! مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ لوگوں نے سنا ہے جو لوگ باتیں کر رہے ہیں اور آپ کے دلوں میں وہ بیٹھ گئی ہے اور آپ لوگوں نے اسے درست سمجھ لیا ہے۔ اور اگر مَیں آپ لوگوں سے کہوں کہ مَیں بَری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں فی الواقعہ بَری ہوں تو آپ لوگ مجھے اس میں سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر مَیں آپ کے پاس کسی بات کا اقرار کر لوں اور اللہ جانتا ہے کہ مَیں بَری ہوں تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھ لیں گے۔
اللہ کی قسم! مَیں اپنی اور آپ لوگوں کی مثال نہیں پاتی سوائے یوسفؑ کے باپ کے کہ جب انہوں نے کہا تھا فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ
اور اچھی طرح صبر کرنا ہی میرے لیے مناسب ہے اور جو بات تم بیان کرتے ہو اس کے تدارک کے لیے اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے اور اس سے مدد مانگی جائے گی۔
پھر مَیں نے اپنے بستر پر رخ بدل لیا اور مَیں امید کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری بریت ظاہر کرے گا لیکن بخدا مجھے گمان نہ تھا کہ وہ میرے متعلق وحی نازل کرے گا۔ مَیں اپنے خیال میں اس سے بہت ادنیٰ تھی کہ میرے معاملہ میں قرآن میں بات کی جائے گی لیکن مجھے امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند میں کوئی رؤیا دیکھیں گے کہ اللہ مجھے بَری قرار دیتا ہے۔ اللہ کی قسم !آپؐ اپنے بیٹھنے کی جگہ سے الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا یہاں تک کہ آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ شدت کی کیفیت طاری ہوئی جو وحی کے وقت آپؐ کو ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ سردی کے دن میں آپؐ سے پسینہ موتیوں کی طرح ٹپکتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کیفیت جاتی رہی تو آپؐ تبسم فرما رہے تھے اور پہلی بات جو آپؐ نے کی وہ آپؐ کا مجھ سے یہ فرمانا تھا کہ اے عائشہ! اللہ کی تعریف بیان کرو کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت ظاہر کر دی ہے اور میری ماں نے مجھ سے کہا اٹھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ مَیں نے کہا نہیں اللہ کی قسم! مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں جاؤں گی اور اللہ کے سوا کسی کی حمد نہیں کروں گی۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ (النور:12) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے ایک بڑا اتہام باندھا تھا تمہیں میں سے ایک گروہ ہے۔ جب اللہ نے میری بریت میں یہ نازل فرمایا تو حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا اور وہ مسطح بن اُثَاثَہ کو بوجہ اس کے قریبی ہونے کے خرچ دیا کرتے تھے، غریب آدمی تھا اس کو خرچ دیا کرتے تھے حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مَیں مسطح کو کبھی خرچ نہیں دوں گا بعد اس کے جو اس نے حضرت عائشہؓ کے بارے میں کہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا وَلَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَالسَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَالۡمَسٰکِیۡنَ وَالۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَلۡیَعۡفُوۡا وَلۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (النور:23)اور تم میں سے صاحبِ فضیلت اور صاحبِ توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔ پس چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگذر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اللہ کی قسم! مَیں ضرور پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے تو انہوں نے مسطح کو دوبارہ دینا شروع کر دیا۔ یعنی حضرت ابوبکرؓ جو خرچ کرتے تھے وہ خرچ دوبارہ شروع کر دیا۔حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاملے میں یعنی حضرت عائشہؓ کے بارے میں حضرت زینبؓ سے پوچھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زینب کو کہ اے زینب !تم کیا جانتی ہو یعنی حضرت عائشہؓ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں اپنی شنوائی اور بینائی محفوظ رکھتی ہوں۔ اللہ کی قسم ! مَیں نے ان میں خیر ہی دیکھی ہے۔
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ اب یہی زینب وہ تھیں جو میرا مقابلہ کیا کرتی تھیں اور اللہ نے انہیں پرہیز گاری کی وجہ سے بچا لیا۔
(صحیح البخاری کتاب الشہادات باب تعدیل النساء بعضھن بعضًا حدیث 2661)
یہ صحیح بخاری کی ایک لمبی روایت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے۔ ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی وَلۡیَعۡفُوۡا وَلۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (النور:23) تب حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اسی بنا پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسنِ اخلاق میں داخل ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں۔ ترکِ وعدہ پر بازپرس ہو گی مگر ترکِ وعید پر نہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 181)
یہ ایک علیحدہ مضمون ہے کہ وعدہ کیا ہے اور وعید کیا ہے اور وہ پہلے بھی ایک دفعہ بیان ہو چکا ہے۔
بہرحال اب ذکر ہے
غزوۂ احزاب
کا جو شوال پانچ ہجری میں ہوئی۔قریش مکہ اور مسلمانوں کے مابین یہ تیسرا بڑا معرکہ تھا جو غزوۂ خندق بھی کہلاتا ہے۔ یہ غزوہ شوال 5؍ہجری میں ہوا۔ چونکہ قریش، یہودِخیبر اور بہت سے گروہ اس میں جتھہ بندی کر کے مدینہ منورہ پر چڑھ آئے تھے اس لیے قرآن کریم میں مذکور نام احزاب سے بھی یہ معرکہ منسوب ہے یعنی غزوۂ احزاب۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے قبیلہ بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا تو وہ خیبر چلے گئے۔ ان کے اشراف اور معززین میں سے چند آدمی مکہ روانہ ہوئے۔ انہوں نے قریش کو اکٹھا کیا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کی ترغیب دی۔ ان لوگوں نے قریش سے معاہدہ کیا اور سب نے آپؐ سے جنگ پر اتفاق کیا اوراس کے لیے انہوں نے ایک وقت کا وعدہ کر لیا۔ بنو نضیر کے وہ لوگ قریش کے پاس سے نکل کر قبیلہ غَطْفَان اور سُلَیمکے پاس آئے اور ان سے بھی اس قسم کا معاہدہ کیا اور پھر وہ لوگ ان کے پاس سے روانہ ہو گئے۔ قریش تیار ہو گئے انہوں نے متفرق قبائل کو اور ان عربوں کو جو ان کے حلیف تھے جمع کیا تو چار ہزار ہو گئے۔ ابو سفیان بن حَرْب ان کا سردار تھا۔ راستہ میں دیگر قبائل کے لوگ بھی اس لشکر سے ملتے رہے۔ یوں
اس لشکر کی مجموعی تعداد دس ہزار ہو گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر پہنچی تو آپؐ نے صحابہ کرام کو بلوایا اور انہیں، صحابہ کو، دشمن کی خبر دی اور اس معاملہ میں ان سے مشورہ کیا۔ اس پر حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کی رائے دی جو مسلمانوں کو پسند آئی۔عہد نبویؐ میں مدینہ کی شمالی سمت کھلی تھی۔ باقی تین اطراف میں مکانات اور نخلستان تھے جن میں سے دشمن گذر نہ سکتا تھا۔ چنانچہ کھلی سمت میں خندق کھود کر شہر کے دفاع کا فیصلہ ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ مل کر خندق کھودنی شروع کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیگر مسلمانوں کے ہمراہ خندق کھودنے کا کام کر رہے تھے تا کہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے۔ کل چھ ایام میں یہ خندق کھودی گئی۔اس خندق کی لمبائی تقریباً چھ ہزار گز یا کوئی ساڑھے تین میل تھی۔
(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 50-51 غزوۃ رسول اللّٰہ الخندق…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2017ء) (اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 278 دار السلام 1424ھ)
حضرت ابوبکرؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ خندق کھودنے کے دوران حضرت ابوبکرؓ اپنے کپڑوں میں مٹی اٹھاتے تھے اور آپؓ نے خندق کھودنے میںبھی باقی صحابہ کے ساتھ مل کر کام کیا تا کہ خندق کی کھدائی کا کام مقررہ وقت کے اندر جلد از جلد مکمل ہو جائے۔
(الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق از دکتور علی محمد الصلابی صفحہ 65-66، فی الخندق و بنی قریظۃ، دارالمعرفۃ بیروت، 2006ء)
خندق کھودنے میں کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو جب ٹوکریاں نہ ملتیں تو جلدی میں اپنے کپڑوں میں مٹی منتقل کرتے تھے اور وہ دونوں نہ کسی کام میں اور نہ سفر و حضر میں ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔
(سبل الھدیٰ والرشادجلد4 صفحہ365 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کی کھدائی میں سخت محنت کی ۔کبھی کدال چلاتے اور کبھی بیلچے سے مٹی جمع کرتے اور کبھی ٹوکری میں مٹی اٹھاتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ تھکاوٹ ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے۔ پھر اپنے بائیں پہلو پر پتھر کا سہارا لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آ گئی تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرھانے کھڑے ہو کر لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرنے سے روکتے رہے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگا نہ دیں۔
(سبل الھدیٰ والرشادجلد4 صفحہ367 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
قریش اور اس کے حامیوں کے دس ہزار کے لشکر نے مدینہ کے مسلمانوں کا جب محاصرہ کر لیا تو اس محاصرہ کے زمانہ میں حضرت ابوبکر مسلمانوں کے لشکر کے ایک حصہ کی قیادت کر رہے تھے۔ بعد میں اس جگہ جہاں حضرت ابوبکرؓ نے قیادت فرمائی ایک مسجد بنا دی گئی جسے مسجد صدیق کہا جاتا تھا۔
(سیدناصدیق اکبرؓ ازالحاج حکیم غلام نبی صفحہ41 مطبع آر۔آر پرنٹرز لاہور 2010ء)
یہ ذکر ابھی آئندہ بھی ان شاء اللہ چلے گا۔ اس وقت میں
بعض مرحومین کا ذکر
بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں پہلا ذکر ہے
مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ
جو مختار احمد گوندل صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 11؍جنوری کو 93سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ چودھری غلام محمد گوندل صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو تھیں۔ جماعتی خدمت بہت شوق سے بجا لاتی تھیں۔ اپنے گاؤں چک 99 شمالی کی صدر لجنہ بھی رہی ہیں۔ صوم و صلوٰة کی پابند، نیک اور غریب پرور اور مخلص خاتون تھیں۔ ساری عمر بچوں اور بڑوں کو قرآن کریم پڑھانے کی توفیق پائی۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ افتخار احمد گوندل صاحب مربی سلسلہ سیرالیون آپ کے بیٹے ہیں اور فواد احمد صاحب مربی سلسلہ کی دادی تھیں۔ اس کے علاوہ آپ کے خاندان میں پوتوں پوتیوں میں اَور بھی مربیان ہیں، واقفینِ زندگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی دعائیں اپنی نسل کے لیے بھی قبول فرمائے۔
دوسرا ذکر
میر عبدالوحید صاحب
کا ہے۔ جن کی وفات بارہ تیرہ جنوری کی رات کو ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔58سال ان کی عمر تھی۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا میر احمد دین صاحب کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے دور میں 1911ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اس طرح ننھیال کی طرف سے احمدیت کا نفوذ ان کے نانا حضرت شیخ اللہ بخش صاحبؓ آف بنوں سے ہوا۔ عبدالوحید صاحب کے دادا کا نام عبدالکریم صاحب تھا۔ انہیں تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ اس لیے ان کے یہ دادا پشاور میں مولوی عبدالکریم کے نام سے مشہور تھے۔ ذاتی مطالعہ بہت کرتے تھے۔ اپنی لائبریری بھی بنائی ہوئی تھی۔ 1974ء میں جب اسمبلی میں وفد خلیفة المسیح ثالثؒ کی سرکردگی میں پیش ہورہا تھا تو بعض نایاب کتب کی ضرورت تھی جو ان کی لائبریری سے ملیں۔ ان کے بہنوئی نے یہ روایت دی ہے۔ 9؍ستمبر2020ء کو توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگنے کی وجہ سے 295-Cکے تحت میر عبدالوحید کی فیملی کے خلاف مقدمہ بنایا گیا اور ملاؤں اور عوام الناس نے ان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا لیکن پولیس نے ان کو مع فیملی کسی طرح وہاں سے نکالا اور راولپنڈی پہنچا دیا۔ کچھ دنوں کے بعد راولپنڈی سے ہی ان کے گھر سے رات کو چھاپہ مار کر پولیس نے ان کے بیٹے عبدالمجید صاحب کو گرفتار کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے میر عبدالوحید صاحب کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ ان کے ایک بیٹے جن کا ابھی ذکر کیا ہے عبدالمجید صاحب کو گرفتار کر لیا تھا۔ ابھی تک اسیرِ راہ مولیٰ ہیں۔ جیل میں ہی تھے جب ان کے والد کی وفات ہو گئی، یہ شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ اور جو بیٹے ان کے اسیر ہیں، بیس سال تقریباً عمر ہے، اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے۔
تیسرا ذکر ہے
مکرم سید وقار احمد صاحب
کا جو امریکہ میں تھے۔17؍جنوری کو اٹھاون سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔وقار احمد کی اہلیہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی پڑنواسی؛ ان کے نواسے کی بیٹی اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی پوتی کی بیٹی ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ہے۔ ان کی شادی شاہ صاحب کے ہاں، اس خاندان میں ہوئی۔ وقار شاہ صاحب کے دادا سید ڈاکٹر ظہور شاہ صاحب کو بعداز ریٹائرمنٹ وقف کرنے کی توفیق ملی اور فجی میں خلافت ثالثہ کے دَور میں مبلغ کے طور پر چند سال رہے۔ پھر ربوہ میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ جماعت سے اور خلافت سے وفا رکھنے والا خاندان ہے۔
ان کی بیوی شازیہ خان کہتی ہیں کہ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے مجھے رشتہ کے لیے دعا کے لیے کہا اور پھر دعاؤں کے بعد جب میں نے حامی بھری تو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اس رشتہ کو منظور فرمایا۔ یعنی حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے یہ رشتہ طے کروایا تھا۔ لکھتی ہیں کہ وقار صاحب نے تینتیس سال کی شادی شدہ زندگی میں میری انگلی پکڑ کر مجھے چلایا۔ ہر ضرورت اور خواہش کا خیال رکھا۔ بے مثال باپ تھے۔ کبھی اپنے لیے کچھ نہیں کیا اور سادہ سے انسان تھے۔ اپنی کوئی خواہش نہیں تھی اور اگر کوئی تھی بھی تو گھر والوں پہ قربان کر دیتے تھے۔ کہتی ہیں کہ میرے لیے سب سے خوبصورت دن وہ تھا جب انہوں نے کسی کو نہایت فخر سے یہ کہا کہ میں مسجد جاتا ہوں اور اپنا عہد دہراتا ہوں اور میرے لیے اس عہد کو نبھانے سے زیادہ ضروری کچھ نہیں ہے۔ ہر چیز مَیں اس عہد پہ قربان کر سکتا ہوں اور یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ
میں نے دیکھا ہے، میں جانتا ہوں کہ ایک کڑا امتحان ان پہ آیا تو انہوں نے اس عہد کا پاس کیا اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا تھا اور جو نبھاتے رہے، اس کو پورا کیا اور کسی رشتہ کی پروا نہیں کی۔ خلافت کی اطاعت سے کبھی باہر قدم نہیں رکھا۔
کہتی ہیں کہ جو بات ان کو کبھی سمجھ نہیں بھی آتی تھی تو اس کی بھی اطاعت کرتے تھے کہ ہمارا کام اطاعت کرنا ہے۔ نہایت شکرگزاری والی طبیعت تھی اور کہتی ہیں ہر وقت مجھے بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ مالی قربانی میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ ان کے بیٹے عزیزم سید عادل احمد، جو اَب مربی سلسلہ ہیں جامعہ احمدیہ کینیڈا سے انہوں نے شاہد پاس کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے والد ایک سادہ اور مخلص انسان تھے۔ کبھی اپنے آپ کی فکر نہیں کی اور ہمیشہ سب بچوں اور امی کی ضروریات کا خیال رکھا۔ کوئی اچھی چیز اپنے لیے نہیں لیتے تھے بلکہ کئی دفعہ یاددہانی کروانی پڑتی تھی کہ اپنے اوپر بھی خرچ کر لیا کریں۔ مربیان اور نظام جماعت کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ ان کے سسر محمود احمد خان صاحب جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے نواسے اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے پوتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ وقار یعنی ان کے داماد ایک نہایت خوش اخلاق اور مہمان نواز انسان تھا۔ کہتے ہیں مَیں نےکبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں دیکھا جتنے مرضی مہمان آ جائیں اور جو بھی ہو جائے ان کے ساتھ کوئی بات بھی ہوجائے۔ پھر کہتے ہیں کہ مجھے یا دہے کہ شروع میں اپنے بیٹے عادل کی لاپروا، زندگی میں جو لاپروائی ہوتی تھی، اس کو بار بار ٹوکا کرتا تھا لیکن جب عادل نے وقف کیا تو پھر وقار کا رویہ مکمل بدل گیا اور پھر یہی بچہ ان کا سب سے قریبی بن گیا اور اس کی بہت عزت اور احترام کرنے لگ گئے۔
منیر احمد صاحب سابق امیر جماعت ابو ظہبی لکھتے ہیں کہ وقار صاحب ابو ظہبی میں ملازمت کرتے رہے۔ ملازمت کے دوران فیملی کے ساتھ وہاں رہے۔ اس دوران میں ان کے گھریلو تعلقات بھی قائم ہوئے۔ ایک پروفیشنل تھے۔ بنک میں کام کرنے والے بینکر تھے۔ طبیعت کی سادگی اور ملنساری آپ کا خاص وصف تھا۔ سلسلہ اور نظام سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ خلافت کے لیے حد درجہ محبت اور اطاعت کے جذبہ سے سرشار تھے۔ کہتے ہیں امریکہ جانے تک اپنی رہائش گاہ کو جماعتی ضروریات کے لیے بڑی بشاشت سے پیش کیا جو جمعہ اور دیگر اجتماعات کے لیے کام آتی رہی۔ جماعت کے انٹرنل آڈیٹر کے طور پر بھی انہیں کام کرنے کی توفیق ملی۔ اسی طرح سید ہاشم اکبر نے بھی لکھا ہے کہ میں نے ان کے ساتھ کام کیا اور ہمیشہ ملنسار اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار پایا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی اپنے بچوں کے لیے دعائیں بھی قبول فرمائے۔
ان سب کے جنازے مَیں نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا۔ ان شاء اللہ۔
(الفضل انٹرنیشنل 18؍فروری2022ء صفحہ 5تا10)