گالیاں نکلوانے کا موجب بننے کے الزام کی حقیقت
پادری عمادالدین ، جو کہ 1865ء میں عیسائی ہوا تھا، کی کتاب ’’تلخیص الاحادیث یا تاریخ محمدی‘‘ جو 1871ء میں شائع ہوئی تھی، کے متعلق امداد صابری صاحب لکھتے ہیں:’’یہ گندی اور ناپاک کتاب جس میں حضورؐ کی سوانح عمری انتہائی شرمناک ذہنیت کے ساتھ ناقابل اعتبار لٹریچر کی بنیاد پر لکھی گئی ہے۔‘‘
(فرنگیوں کا جال صفحہ90)
اسلام، قرآن اور نبی اکرم ﷺ پر کیے گئے کچھ اعتراضات نقل کرنے کے بعد امداد صابری صاحب لکھتے ہیں: ’’ان اعتراضات کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر معترض کی ذہنیت ایک ہی غلاظت میں سنی ہوئی ہے۔ سب نے بڑے ذلیل انداز اور ننگوں کے معیار سے نبی آخر الزماں رحمۃ للعالمین کو بدنام و رسوا کرنے کی ناپاک و ناکام کوشش کی ہے اور اپنے بدباطن اور ناپاک ظرفوں کو آشکار کیا ہے۔ بعض نے تو حد کردی۔ شرافت و انسانیت اور اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر انتہائی گندہ دہنی اور ذہنی غلاظت کے ساتھ حضورِ انور کی ذاتِ والا صفات پر انتہائی غیر شریفانہ کمینہ اور غیر مہذب حملے کئے ہیں۔ان میں پادری عمادالدین کا گندہ قلم زیادہ گستاخ اور ان کی کتاب تلخیص الاحادیث بےبنیاد الزام و بہتانوں سے زیادہ سیاہ نظر آتی ہے۔اس پادری کے تمام الزامات سے اندازہ لگائیے کہ حکومت ایسی تصانیف کی موجودگی میں اپنے آپ کو حکومت کا اہل کس طرح کہہ سکتی ہے اور اپنے ہم مذہب مبلغین اور پادریوں کو ایسے افعال و حرکاتِ شنیعہ کے کرنے کی اجازت دیتے ہوئے اپنے آپ کو رعایا پرور، نیک نیت، مہذب اور غیر جانبدار ثابت کرسکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی گندی تصانیف اور سازشانہ شیطنیت کی مثال کسی سلطنت میں نظر نہیں آئے گی۔
(صفحہ93تا94)
پادری عمادالدین کی تحریریں اتنی اشتعال انگیز تھیں کہ خود ایک عیسائی پادری کو لکھنا پڑا کہ اب اگر دوبارہ غدر ہوا تو پادری عمادالدین کی ایسی تحریروں کی وجہ سے ہوگا۔ اس تبصرہ کو امداد صابری صاحب اپنی اسی کتاب ’’فرنگیوں کا جال‘‘ میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’پادری عمادالدین کے ہم مشرب پادری کریون ہدایت المسلمین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اگر 1857ء کی مانند پھر غدر ہوا تو اسی شخص عمادالدین کی بدعنوانیوں اور بیہودہ گوئیوں سے ہوگا۔ جو ان کو باہر پندرہ روپے کو بھی کوئی نہ پوچھے اور مشن 70روپے ماہوار اور کوٹھی ملے۔جس کے احاطہ کے اندر چاہیں تو تیل نکالنے کا کولہو بھی بنالیں۔ ایسے لالچیوں کا کیا کہنا۔‘‘
(مقدمہ اظہار عیسوی صفحہ163)
خواجہ غلام الحسنین پانی پتی کی شہادت
مسلمانوں کے خدا، قرآن مجید، دین اسلام، اہل اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق سوامی دیانند کے دلآزار اور توہین آمیز الفاظ نقل کرنے کے بعد مصنف لکھتے ہیں:’’ستیارتھ پرکاش کی وہ عبارتیں پہلے نقل ہوچکی ہیں جن میں سوامی جی نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ہر ایک انسان اور بالخصوص واعظ اور ناصح کو ہمیشہ شیریں، ملائم اور مہذب کلام بولنا چاہئے، غصہ، غیظ و غضب اور تلخ گوئی وغیرہ عیوب سے بچنا چاہئے اور سنیاسی کو تو کسی حالت میں بھی ایسی بداخلاقی نہیں کرنی چاہئے [دیکھو مقدمہ ہٰذا دفعہ۱۳] مگر معلوم ہوتا ہے کہ سوامی جی خود کبھی ان ہدایات پر کاربند نہیں ہوئے، چنانچہ دیگر مذاہب اور خصوصاً مسیحیت اور اسلام پر اعتراضات کرتے وقت انہوں نے ان ہدایات کو یک قلم نظر انداز کردیا ہے جس کے متعلق ڈاکٹر گرسوولڈ [Griswold] نے لکھا ہے کہ ’’مذہبی بحث و مباحثہ کے تمام لٹریچر یعنی تصنیفات میں مشکل ہی سے کوئی عبارت ایسی نکل سکے گی جو سوامی جی کی ان تحریرات کے مقابلہ میں پیش کی جاسکے‘‘
(مقدمہ کتاب۔سوامی دیانند اور ان کی تعلیم، صفحہ 14تا15)
علامہ خالد محمود کی گواہی
مولانا آل حسن مہانی، مصنف کتاب ’’الاستفسار‘‘ کا پادری فنڈر کے ساتھ 1844ء میں مناظرہ ہوا تھا۔اس کتاب کی جدید اشاعت کے مقدمہ میں علامہ خالد محمود لکھتے ہیں: ’’مولانا آل حسن ؒ نے 1844ء کے مناظرے میں یہ شرط لگائی تھی کہ پادری صاحب جہاں بھی ہمارے پیغمبر ؐ کا نام لیں تعظیمی الفاظ سے لیں اور ان کے لئے جمع کی ضمیریں استعمال کریں تاکہ مسلمانوں کو کوفت نہ ہو۔ اس کے بارے میں پادری فنڈر اپنے 29جولائی کے خط میں لکھتے ہیں:’’خوب سمجھ لو ہم تمہارے نبی کا ذکر تعظیم کے ساتھ کرنے یا افعال اور ضمیروں کو جمع کے صیغوں کے ساتھ لانے سے معذور ہیں…یہ بات ہمارے لئے قطعی ناممکن ہے…اور کسی ایسی جگہ جہاں کلام کا مقتضا ہوگا یہ بھی کہوں گا کہ محمد رسول نہیں ہیں یا جھوٹے ہیں۔‘‘ پھر فنڈر نے اپنے 31؍جولائی 1944ء کے خط میں بھی یہی لکھا ہے: ’’یہ بات محال ہے کہ ہم محمد کا نام ذکر کرتے ہوئے افعال اور ضمیروں کو جمع کے صیغوں کے ساتھ لائیں۔‘‘ یہ جواب مولانا آلِ حسنؒ کو ملا تھا۔ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ فرماتے ہیں، میں نے بھی اپنے مناظرے کے موقع پر یہی مطالبہ پادری فنڈر سے کیا کہ ہمارے آقا کا نام جمع کی ضمیروں سے لیا جائے تو میرے 16؍اپریل 1854ء کے خط کے جواب میں پادری فنڈر نے مجھے بھی وہی جواب دیا جو اس نے صاحب استفسار کو دیا تھا۔‘‘
(صفحہ44تا45)
جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا ہے، سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک دَور ، اس سے ماقبل و مابعد کے غیراحمدی علماء کےایسے بہت سے حوالے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح مسیحی علماء اسلام، قرآن کریم او رنبی اکرم ﷺ پر حملے کررہے تھے جن کے جواب دینے کے لیے حضور ؑنے دفاع اسلام کے مبارک مشن کا آغاز فرمایا۔ لیکن مضمون ہذا میں صرف اس اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عیسائیت اور آریہ سماج پر تنقید کی ابتدا کرکے اسلام کو گالیاں نکلوانے کا موجب نہیں بنے جیسا کہ بعض معترضین و مخالفین کہتے ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔
(مرسلہ:انصر رضا۔واقف زندگی، کینیڈا)