’’تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو‘‘
’’تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا احیا اور اسکی تکمیل ہے۔ قدیم پیشگوئیوں کے عین مطابق جب اسلام کی ترقی ماند پڑی تو آپؑ نے قادیان سے علَم اسلام بلند فرمایا۔ مخبرِ صادق ہی نے آنے والے مسیح کو ایک بیٹے کی بشارت عطا کی گویا بتا دیا کہ جیسا کہ سنتِ انبیاء ہے اس مشن کی کہ جو موعود مسیح کے سپرد کیا جائے گا تخم ریزی تو وہ کر دے گا لیکن اُس کی آبیاری اور اس کا استحکام اور اسے مضبوط بنیادوں پر قائم اُس کا موعود بیٹا کرے گا۔ اور جیسا کہ سورج نکلنے کے بعد کسی کو اس کے ہونے پر شک نہیں رہتا آج شاید ہی کوئی شخص ہوگا جسے اس پیشگوئی کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ بابرکات میں پورا ہونے پر شک ہو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام عالمین کے لیے مبعوث ہوئے تھے اس لیے حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت کا اہم پہلو یہ تھا کہ کل عالم کو اسلام کے جھنڈے تلے لا کر اسے زندہ خدا کی پہچان کروائی جائے تا وہ اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کر سکیں۔ اور یہی مقصد آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپؑ کے جانشینوں یعنی خلفائے احمدیت کا اولین فریضہ ٹھہرا۔ اسکے ساتھ خلافتِ اسلامیہ کا وجود اسلام کی ترقی اور غلبہ کے لیے بنیادی اکائی کے طور پر خدائی فوجدار کی صورت میں اکنافِ عالم میں شناخت پایا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو۔ ہمیشہ اسلام نے خلفاء کے ذریعہ ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا۔‘‘ (درس القرآن فرمودہ یکم مارچ 1921ء صفحہ 72مطبوعہ نومبر 1921ء) یعنی اسلام کی ترقی اور خلافت لازم و ملزوم ٹھہرے۔
آج ہم احمدیوں کا محض خلیفۂ وقت کی بیعت کرنا اور اپنے احمدی ہونے پر فخر کر لینا ، یومِ مصلح وموعود پر عقیدت و احترام دکھانایا پیشگوئی مصلح موعود کے پورا ہو جانے پر خوشیاں منالینا کافی نہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز کے مشن کو تکمیل تک پہنچانے میں معاون اور مددگار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ہم بطور ایک احمدی اور بطور ایک جماعت خلافت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں؟ پسرِ موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مورخہ 28؍ دسمبر 1944ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر معرکہ آرا خطاب فرمایا جس میں اپنے دعویٰ مصلح موعود پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے پیشگوئی مصلح موعود کا پورا ہونا قطعی دلائل اور واقعات سے روزِ روشن کی طرح ثابت فرما دیا۔ اپنے اس خطاب کے آخر میں حضورؓ نے ممبرانِ جماعت کو جن الفاظ میں نصیحت فرمائی وہ آج بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا:
’’مَیں اِس موقع پر جہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُس پیشگوئی کو پورا کر دیا جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی۔ وہاں میں آپ لوگوں کو اُن ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ لوگ جو میرے اِس اعلان کے مصَدِق ہیں آپ کا اوّلین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں۔ بیشک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا نے اِس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں آپ کو یقیناً خوش ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اِس کے بعد اَب روشنی آئے گی۔ پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا۔ میں تمہیں اُچھلنے کودنے سے نہیں روکتا۔ بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اُچھلو اور کُودو۔ لیکن میں کہتا ہوں اِس خوشی اور اُچھل کُود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو۔ جس طرح خدا نے مجھے رؤیا میں دکھایا تھا کہ میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی جا رہی ہے اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے الہاماً میرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا۔ پس میرے لئے یہی مقدر ہے کہ میں سُرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جاؤں مگر اِس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیز کریں اور اپنی سُست روی کو ترک کر دیں۔ مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتا اور سُرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دَوڑتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اُس شخص پر جو سُستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتا ہے۔ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تاکہ ہم کُفر کے قلب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحۂ عالم سے نیست و نابود کر دیں اور اِنْشَاءَ اللّٰہُ ایسا ہی ہو گا۔ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔‘‘
(الموعود۔ انوار العلوم جلد نمبر17صفحہ نمبر648تا649)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے امام، اپنے مطاع، اپنے پیارے خلیفہ کے قدم میں قدم ملاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم بحیثیت جماعت اور بطور فردِ واحد خدا تعالیٰ کے اس انعام کے شکر گزار بنیں۔ آمین