استحکامِ خلافت کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا مضبوط کردار۔ قبل از خلافت (قسط اول)
اختیارات کے فیصلے کا وہ وقت تھا جب کہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جب کہ حضرت خلیفہ اوّل نے صاف صاف کہہ دیا کے بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی۔ اور اس تقریر کو سُن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے؟
خلافت ! زمین پر خدا تعالیٰ کی نیابت کا منصب ۔ربِّ رحمٰن کی وہ عطا جو کبھی ’’خلافت نبوت‘‘ کی صورت میں جلوہ گر ہوئی، کبھی ’’خلافت قومی‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوئی اور کبھی ’’خلافت علیٰ منہاج نبوّت‘‘کی صورت میں عطا ہوئی۔
خلافت حقہ اسلامیہ وہ عالی اور پُر وقار منصب جو بارگاہ ایزدی سے چنیدہ بندوں کو عطا ہوتا ہے۔
خلیفۂ وقت! وہ ذات اقدس جسے آسمان سے یہ خلعت فاخرہ پہنائی جاتی ہے۔
’’اَلسُّلطَانُ اَلاَعْظَمُ‘‘ اور ’’اَلْاِمَامُ الَّذِی لَیْسَ فَوْقَہُ اِمَامٌ‘‘ کے مقام پر فائز شخص۔
خلیفۂ وقت!اللہ تعالیٰ کے نبی کے بعد دنیا میں سب سے بڑا موَحِّد اور متو کّل با للہ انسان ہوتاہے۔
خلیفۂ وقت ! نبی کے بعد اس کا خلیفہ اسی کے ظل میں ویسی ہی عظمتِ شان رکھتا ہے اور اس کے شامل حال بھی وہی تائید الٰہی ہوتی ہے جو نبی کے ساتھ ہوتی ہے۔وہ نبی کے بعد مومنوں کا غیر مشروط طور پر واجب الاطاعت امام، مُطاع اور آقا ہے۔بلاشرکت غیر امّتِ محمدیہ کا راہ نما وہی ایک وجود ہے۔
وہ شریعت اور احکام و تعلیمِ شریعت کا پاسبان ہے۔وہ نبی کے احکام کو نہ توخود ٹالنے والا ہے نہ ہی کسی کو ٹالنےکی اجازت دینے والا ہے۔بلکہ وہ ہر حال میں ان کو پورا کرنے والا ہے۔
اِسی نوع کے اور بیسیوں دریچے ہیں جو منصب و نظامِ خلافت کے وسیع و عریض آنگن میں کھلتے ہیں،اور حق یہ کہ اس کا ہر زاویہ ہی دلکش اور دلنشین ہے۔
قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:’’موجودہ زمانہ کے جمہوریت زدہ نوجوان اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ایک واحد شخص کے اختیارات کو اتنی وسعت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ اوّل تو خلافت کسی جمہوری اور دنیوی نظام کا حصہ نہیں بلکہ روحانی اور دینی نظام کا حصہ ہے جس کا حق خدا تعالیٰ کے ازلی حق کا حصہ بن کر اوپر سے نیچے کوآتا ہے اور خدا کا سایہ خلفاء کے سر پر رہتا ہے ۔ دوسرے جب ایک خلیفہ کے لئے شریعت کی آہنی حدود معین ہیں اور نبی متبوع کی سنت کی چاردیواری بھی موجود ہے تو ان ٹھوس قیود کے ماتحت اس کے اختیارات کی وسعت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ نبی کے بعد خلیفہ کا وجود یقیناً ایک نعمت اور رحمت ہے اور رحمت کی وسعت بہرحال برکت کا موجب ہوتی ہے نہ کہ اعتراض کا۔‘‘(ماہنامہ الفرقان ربوہ ، خلافت نمبرمئی جون 1967ءصفحہ 54)
زمین پر خلافت کب سے جاری ہے؟اصدق الصادقین کا یہ قول اس کی وضاحت کرتا ہے:
مَا کَا نَت نُبُوَّ ۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَا فَةٌ۔
(كنز العمال ،الفصل الأول في بعض خصائص الأنبياء عموما،حدیث نمبر 32246، المكتبة الشاملة الحديثة)یعنی دنیا میں جب بھی نبوّت کا بیج بویا گیا وہ خلافت کے سائے میں پروان چڑھا۔
یہ نظام کب تک جاری رہے گا ؟ اس سوال کا جواب بھی اسی انسان کامل نے دیا جس کی نبوت و شریعت تا ابد قائم و دائم رہے گی اور روحانی فیض ساعت قائم ہونے تک جاری رہے گا۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَكُوْنُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللّٰهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللّٰهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا عَاضًّا فَتَكُونُ مَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللّٰهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُوْنُ مَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللّٰهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ۔ ثُمَّ سَكَتَ۔(مشكوٰة المصابيح كتاب الرقاق باب الإنذار والتحذير ۔حدیث نمبر: 5378)
حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔پھر وہ اس کواٹھا لے گا۔اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا۔پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گےاور تنگی محسوس کریں گے۔پھر جب یہ دَور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا ۔ اس کےبعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قا ئم ہوگی اور یہ فرما کر آپﷺ خاموش ہو گئے۔
سلطان حرف وحکمت نے اپنی ایک تحریر میں اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو…خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں۔ظلّی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ ہو۔‘‘(شہادت القرآن،روحانی خزائن جلد6صفحہ353)
مخبر صادق ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کا روحانی فرزنداسلام کا بطل جلیل امام آخرالزّمان چودھویں صدی ہجری میں ظاہر ہوا۔ وہ بزم وقت میں اس تمکنت کے ساتھ آیا کہ شمس و قمر اس کی صداقت کے لیے گواہ بنے۔اس نے دین اسلام کو زندہ کرنے اور شریعتِ اسلامی کو قائم کرنے کے لیے ایک عظیم الشان مشن کی بنیاد رکھی ، اورنہ صرف اس بیج کے بڑھنے، پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی خبر دی بلکہ اپنے بعد نظام خلافت کے احیاء کا مژدہ جاںفزابھی سنایا۔
امام آخرالزّمان کے یہ الفاظ تا ابد اُس کی شان، عالی مقام و مرتبے کے ساتھ ساتھ خلافت یعنی قدرتِ ثانیہ کے منصب پر متمکن ہونے والے وجودوں کے مقام و منصب کا بھی اظہار کرتے رہیں گے:’’میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں۔اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گےجو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے‘‘۔(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 306)
مورخہ 26؍مئی 1908ء کو اسلام کا وہ بطل جلیل جو مذاہب کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے آیا تھا اپنے عظیم الشان مقاصد کو پورا کرکے اور ادیان باطلہ کے مقابل پر اسلام کو ایک زندہ اور عالمگیر مذہب ثابت کرکے مقبرہ بہشتی میں اُس چاندی کی مٹی میں جا سویا جو مالک حقیقی نے پہلے سے اُسے دکھا دی تھی۔ اور مورخہ 27؍مئی 1908ءکو چشم فلک نے ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھا، جب مسیح محمدی کی جماعت میں اُس خورشید کانور ظاہر ہواجسے عالم احمدیت ’’خلیفۃ المسیح الاوّل‘‘کے لقب سے جانتاہے۔حضرت الحاج مولوی نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صورت میں جماعت احمدیہ مسلمہ میں قدرت ثانیہ کا آغاز ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نعش مبارک قادیان پہنچتے ہی اکابرین نے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت خلافت کے لیے عرض داشت کی۔ آپؓ نے کچھ تامل کے بعد فرمایا:’’میں دعا کے بعد جواب دوں گا‘‘۔چنانچہ آپؓ نے نفل نماز پڑھی ، نماز سے فارغ ہو کر فرمایاچلو ہم وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر ہے، اور جہاں ہمارے بھائی انتظار میں ہیں۔چنانچہ آپؓ باغ میں تشریف لائے۔
جب باغ میں پہنچے تو تمام حاضر الوقت اصحاب کی نمائندگی میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے کھڑے ہوکر حضور ؓکی خدمت میں بیعت خلافت لینے کی درخواست کی۔اس کے بعد حضرت مولوی صاحب ؓکھڑے ہوئے اور تشہدوتعوذ کے بعد ایک درد انگیز تقریر کی،جس کے دوران آپؓ نے فرمایا:’’اگر تم میری ہی بیعت کرنا چاہتے ہو تو سُن لو کہ بیعت بِک جانے کا نام ہے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے اشاراتاً فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا۔سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا۔پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے۔ایک شخص دوسرے کے لئےاپنی تمام حریت اور بلند پروازیوں کو چھوڑدیتا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا نام عبد رکھاہے‘‘۔(حیات نورصفحہ 333،ایڈیشن 2003ء۔نظارت نشرو اشاعت قادیان)
جماعت احمدیہ اب ایک مضبوط تناور درخت بن چکی ہے جس کی شاخیں اطراف عالم میں پھیل چکی ہیں، اور قومیں اس کے سائے تلے آچکی ہیں۔اور نظام خلافت بھی انتہائی مضبوطی سے قائم ہو چکا ہے، لیکن اگر تاریخ کے جھروکے سے جھانکیں تو متعدد بار ایسے مواقع پیدا ہوئے جب اس نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، اور ایسے حاسدین کے بغض کی آگ ابھی بھی سلگ رہی ہے۔ مگر و ہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خدا کرے۔
قدرت ثانیہ کی ابتدا سے ہی نظام خلافت کو مٹانے کی انتہائی منظم اور مربوط کوشش کی گئی، اور طرفہ تماشا یہ کہ یہ تحریک چلانے والے وہ لوگ تھے جو نہ صرف امام الزّمان کی اطاعت کا دم بھرتے تھے، بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر عہدبیعت باندھ چکے تھے۔مگر مخلصین کی اکثریت نظام خلافت سے وابستہ رہی، آج بھی ہے اور ان شاءاللہ آئندہ بھی رہے گی۔
خلافت اولیٰ کی ابتدا سے ہی جن مخلصین نے نظام خلافت کے استحکام کے لیے دن رات کام کیا، ان میں سب سے نمایاں وجودحضرت مرزابشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔
صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے دل و جان سے عہد بیعت کو نبھایا ، قول و فعل سے اس کی تائید کی اور ہمیشہ کامل اطاعت کا پاکیزہ نمونہ قائم کیا۔
خلافت کے قیام کے لیے آپؓ کی واضح خواہش کا اظہار یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش مبارک قادیان پہنچنے کے بعد مولوی محمد علی صاحب ، خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب ،مولوی محمد احسن امروہی صاحب اور دیگر اکابرین نے صاحبزادہ صاحب ؓکو نواب محمد علی خان صاحب ؓکے مکان میں بلا کر حضرت مولوی نور الدین کے ہاتھ پر بیعت کی بابت مشورہ کیا تو آپؓ نے بلا جھجک جواب دیا:’’حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر کوئی نہیں ، اور خلیفہ ضرور ہونا چاہیئے اور حضرت مولوی صاحب ہی خلیفہ ہونے چاہئیں ورنہ اختلاف کا اندیشہ ہے، اور حضرت اقدس کا الہام ہے کہ’’اس جماعت کے دو گروہ ہوں گے ایک کی طرف خدا ہوگا اور یہ پھوٹ کا ثمرہ (ہے)‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 188)
بیعت بک جانے کا نام ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ جو دل کی گہرائیوں سے نظام خلافت پرکامل یقین رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ اسلام کا احیائے نونظامِ خلافت سے وابستہ ہے، ابتدا سے ہی فکرمند اور نگران تھے۔آپؓ کی فطری ذہانت نے آپؓ کو اس فتنہ سے اُسی لمحہ متنبہ کر دیا جب اس فتنے نے پہلی انگڑائی لی۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں:’’حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کو ابھی پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ خواجہ صاحب(خواجہ کمال الدین صاحب) نے مولوی محمد علی صاحب کی موجودگی میں مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب! آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے۔ مَیں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جب کہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جب کہ حضرت خلیفہ اوّل نے صاف صاف کہہ دیا کے بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی۔ اور اس تقریر کو سُن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے؟ میرے اس جواب کو سُن کر خواجہ صاحب بات کا رُخ بدل گئے اور کہا بات تو ٹھیک ہے میں نے یونہی علمی طور پر بات دریافت کی تھی اور تُرکوں کی خلافت کا حوالہ دے کر کہا کہ چونکہ آج کل لوگوں میں اس کے متعلق بحث شروع ہے اس لئے میں نے بھی آپ سے اس کا ذکر کر دیا، یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آپ کی کیا رائے ہے۔ اور اس پر ہماری گفتگو ختم ہوگئی لیکن اس سے بہرحال مجھ پر اُن کا عندیہ ظاہر ہوگیا اور میں نے سمجھ لیا کہ اِن لوگوں کے دِلوں میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا کوئی ادب اور احترام نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خلافت کے اس طریق کو مٹادیں جو ہمارے سلسلہ میں جاری ہوا ہے۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ186)
فتنہ کی ابتدا
دسمبر1908ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر انجمن کے ممبران نے جو تقریریں کیں ان میں انجمن کی حاکمیت پر زور دے کر جماعت کی عقیدتوں کا رخ خلافت سے موڑ کر انجمن کی طرف پھیرنے کی کوشش کی گئی۔ جس سے جماعت میں اندر ہی اندر چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور خلافت اور انجمن کے بارے میں جماعت دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی ۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ نے ان ابھرتی ہوئی چنگاریوں کو محسوس کرکے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بعض سوالات بھیجے۔ حضرت صاحبؓ نے فرمایا ان سوالات کو جواب کے لیے چالیس آدمیوں کے پاس بھیجا جائے، اور ان کی رائے سے انہیں اطلاع دی جائے اور 31؍جنوری 1909ءکے دن وہ جمع ہوں ۔
فتنہ کی اطلاع بذریعہ رؤیا
جماعت احمدیہ میں خلافت حقہ کے خلاف برپا ہونے والے اس پہلے فتنہ کی خدا تعالیٰ نے آپ کو قبل از وقت اطلاع دی۔اپنی اس رؤ یا کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ بیان فرماتے ہیں:’’مَیں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے۔اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصّہ تو مکمل ہے اور دوسرا نا مکمل۔ نامکمل حصہ پر چھت پڑرہی ہے کڑیاں رکھی جاچکی ہیں مگر اوپر تختیاں نہیں رکھی گئیں۔اور نہ مٹی ڈالی گئی ہے۔ان کڑیوں پر کچھ بھو سا پڑا ہے اور اس کے پاس میر محمد اسحٰق صاحب، میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب اور ایک اور لڑکا جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا رشتہ دار تھا اور جس کا نام نثار احمد تھا اور جواب فوت ہوچکا ہے (اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے) کھڑے ہیں۔ میر محمد اسحٰق صاحب کے ہاتھ میں دیا سلائی کی ایک ڈبیہ ہے۔ اور وہ اس میں سے دیا سلائی نکال کر اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں۔مَیں نے ان سے کہا کہ آخر یہ بھوسا جلایا تو جائے گا ہی۔ مگر ابھی وقت نہیں ابھی نہ جلائیں ایسا نہ ہوکہ بعض کڑیاں بھی ساتھ ہی جل جاویں۔ اس پر وہ اس ارادہ سے باز رہے اور میں اس جگہ سے دوسری طرف چل پڑا۔ تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ مجھے کچھ شور معلوم ہوا۔ مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر صاحب بے تحاشہ دیا سلائیاں نکال کر جلاتے ہیں اور اس بھوسے کو جلانا چاہتے ہیں۔ مگر اس خیال سے کہ کہیں میں واپس نہ آجاؤں جلدی کرتے ہیں اور جلدی کی وجہ سے دیا سلائی بجھ جاتی ہے۔میں اس بات کو دیکھ کر واپس دوڑا کہ ان کو روکوں۔ مگر پیشتر اس کے کہ وہاں تک پہنچتا۔ایک دیا سلائی جل گئی اور اس سے انہوں نے بھوسے کو آگ لگادی۔ مَیں دَوڑ کر آگ میں کود پڑا اور آگ کو بجھا دیا۔ مگر اس عرصہ میں کہ اس کے بجھانے میں کامیاب ہوتا چند کڑیوں کے سرے جل گئے۔مَیں نے یہ رؤیا مکرمی مولوی سیّد سرورشاہ صاحب سے بیان کی انہوں نے مُسکرا کر کہا کہ مبارک ہو کہ یہ خواب پوری ہوگئی ہے۔ کچھ واقعہ انہوں نے بتایا۔مگر یا تو پوری طرح ان کو معلوم نہ تھا یا وہ اس وقت بتانہ سکے۔ میں نے پھر یہ رؤیا لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے اسے پڑھ کر ایک رقعہ پر لکھ کر مجھے جواب دیا کہ خواب پوری ہوگئی۔ میر محمد اسحٰق صاحب نے چند سوال لکھ کر دئیے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ شور نہ پڑے اور بعض لوگ فتنہ میں پڑ جائیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اس فتنہ کا علم ہوا، اور وہ بھی ایک خواب کے ذریعہ۔ اس کے بعد وہ سوالات جو حضرت خلیفۃ المسیح نے جواب کے لئے لوگوں کو بھیجنے کا حکم دیا تھا مجھے بھی ملے اور مَیں نے ان کے متعلق خاص طور پر دُعا کرنی شروع کی اور اللہ تعالیٰ سے ان کے جواب کے متعلق ہدایت چاہی۔اس میں شک نہیں کہ میں حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کرچکا تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ میں خلافت کی ضرورت کا عقلاً قائل تھا۔ مگر باوجود اس کے مَیں نے اس امر میں بالکل مخلع بالطبع ہو کر غور شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے دُعا میں لگ گیا کہ وہ مجھے حق کی ہدایت دے اس عرصہ میں وہ تاریخ نزدیک آگئی۔ جس دن کہ جوابات حضرت خلیفۃ المسیح کو دینے تھے۔ مَیں نے جو کچھ میری سمجھ میں آیا لکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح کو دے دیا۔ مگر میری طبیعت سخت بےقرار تھی کہ خداتعالیٰ خود کوئی ہدایت کرے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے لئے سخت ابتلا٫کے دن تھے۔ دن رات غم اور رنج میں گزرتے تھے کہ کہیں میں غلطی کرکے اپنے مولیٰ کو ناراض نہ کر لوں۔ مگر باوجود سخت کرب اور تڑپ کے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نہ معلوم ہوا۔‘‘(آئینہ صداقت از حضرت مرزابشیر الدین محمود احمد ؓ،صفحہ 107تا108)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو بھی یہ سوالات بھجوائے اور ان کا تحریری جواب دینے کا ارشاد فرمایا۔ اور پھر اپنا جواب لکھ کر بھجوایا کہ’’خلیفہ انجمن پر حاکم ہے نہ کہ انجمن خلیفہ پر۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 256)
باوجود اس کے کہ آپ خلیفہ کو انجمن کا مطاع سمجھتے تھے، اور استحکام خلافت کے لیے ہر طرح سے مصروف عمل تھے، پھر بھی آپ نے دعا اور الٰہی مدد کے بغیر شوریٰ میں حاضر ہوکراپنی رائے دینا مناسب نہ سمجھا ، اور دعاؤں میں مصروف ہو گئے۔اپنی اس کیفیت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:’’میں اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ جوں جوں رات گزرتی جاتی تھی اور صبح قریب ہوتی جاتی تھی کرب بڑھتا جاتا تھا اور مَیں خداتعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا کر دُعا کرتا تھا کہ خدایا مَیں نے گو ایک رائے کو دوسری پر ترجیح دی ہے مگر الٰہی! مَیں بےایمان بننا نہیں چاہتا تُو اپنا فضل کر اور مجھے حق کی طرف ہدایت دے، مجھے اپنی رائے کی پچ نہیں۔مجھے حق کی جستجو ہے۔راستی کی تلاش ہے دُعا کے دوران میں مَیں نے یہ بھی فیصلہ کرلیا کہ اگر خداتعالیٰ نے مجھے کچھ نہ بتایا تو مَیں جلسہ میں شامل ہی نہ ہوں گا تا کہ فتنہ کا باعث نہ بنوں۔ جب میرا کرب اس حد تک پہنچا تو خداکی رحمت کے دروازے کُھلے اور اس نے اپنی رحمت کے دامن کے نیچے مجھے چُھپا لیا اور میری زبان پر یہ لفظ جاری ہوئے کہ قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُمۡ(الفرقان: 78) یعنی ان لوگوں سے کہہ دے کہ تمہارا ربّ تمہاری پرواہ کیا کرتا ہے اگر تم اس کے حضور گرنہ جاؤ۔ جب یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے تو میرا سینہ کھل گیا اور مَیں نے جان لیا کہ میرا خیال درست ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں قُلْ یعنی کہہ کا لفظ بتاتا ہے کہ میں یہ بات دوسروں کو کہدوں۔ پس معلوم ہوا کہ جو لوگ میرے خیال کے خلاف خیال رکھتے ہیں ان سے خداتعالیٰ ناراض ہے، نہ مجھ سے۔ تب مَیں اُٹھا اور مَیں نے خداتعالیٰ کا شکر کیا اور میرا دل مطمئن ہوگیا اور مَیں صبح کا انتظار کرنے لگا۔‘‘(آئینہ صداقت ازحضرت مرزابشیر الدین محمود احمدؓ،صفحہ 110)
یوم الفرقان پرایک اور رؤیا کا پورا ہونا
مورخہ31؍جنوری 1909ء کا دن جماعت کی تاریخ میں ایک انتہائی یادگار دن ہے، جس دن مسیح آخر الزّمان کے اولوالعزم خلیفہ نے مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں کھڑے ہو کر دوٹوک الفاظ میں یہ اعلان فرمایاکہ’’میرا فیصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خلیفہ مطاع ہے، اور یہ دونوں خادم ہیں۔ انجمن مشیر ہے اور اس کا رکھنا خلیفہ کے لئے ضروری ہے۔‘‘
اس یوم الفرقان پر بھی آپ کی ایک رؤیا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی، جو آپ پہلے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی خدمت اقدس میں لکھ کربھجوا چکے تھے۔
اپنی اس خواب کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ بیان فرماتے ہیں :’’مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مسجد میں جلسہ ہو رہا ہے اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقریر فرما رہے ہیں۔ مگر آپ اس حصّہ مسجد میں کھڑے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنوایا تھا۔ اُس حصّہ مسجد میں کھڑے نہیں ہوئے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا۔ آپ تقریر مسئلہ خلافت پر فرما رہے تھے اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں۔آپ کی تقریر کے دوران میں خواب میں ہی مجھے رقّت آگئی اور بعد میں کھڑے ہوکر میں نے بھی تقریر کی جس کا خلاصہ قریباً اس رنگ کا تھا کہ آپ پرلوگوں نے اعتراض کرکے آپ کو سخت دُکھ دیا ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی سچّے دل سے بیعت کی ہوئی ہے اور ہم آپ کے ہمیشہ وفادار رہیں گے۔ پھر خواب میں ہی مجھے انصار کا واقعہ یاد آگیا۔ جب اُن میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہوکرکہا تھا یا رسول اللہ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آوے۔ اُسی رنگ میں مَیں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں اور لوگ خواہ کتنی بھی مخالفت کریں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ اور دشمن آپ کے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہم پر حملہ کرکے پہلے ہمیں ہلاک نہ کرلے۔ قریباً اسی قسم کا مضمون تھا جو رؤیا میں مَیں نے اپنی تقریر میں بیان کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقریر کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت میرے ذہن سے یہ رؤیا بالکل نکل گیا اور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے بائیں طرف بیٹھ گیا۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مجھے اپنے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا۔ میرے دائیں طرف آبیٹھو۔ پھر خود ہی فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے ؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا تمہیں اپنی خواب یاد نہیں رہی۔ تم نے خود ہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 261)
(جاری ہے)
٭…٭…٭