خلافتِ ثانیہ میں برپاہونے والے بعض فتنے اور ان کا انجام (قسط اول)
’’کہنے والے نے کہا ہے دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے مگر میں بھی دیکھوں گامیرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اس شخص کی۔‘‘
…یقیناًآج دنیا کا کونہ کونہ حضرت مصلح موعود ؓکی پیشگوئی کے پورا ہونے اور ان مخالفین کے خائب و خاسر ہونے کی گواہی دے رہا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود 14؍مارچ 1914ء کومسندِ خلافت پرمتمکن ہوئے اور 8،7؍نومبر1965ء کی درمیانی شب اپنےمولائے حقیقی کےحضور حاضر ہوگئے۔اس طرح خلافتِ ثانیہ کامبارک دَور تقریباً 52سال تک دنیائےعالم کوانوارسےمنورکرتارہا۔ خلافت ثانیہ کےاس بابرکت دَور میں اللہ تعالیٰ کےبےشمار نشانات ظاہرہوئے اور اللہ تعالیٰ نےجماعت احمدیہ پران گنت فضل واحسان کرتے ہوئے لاکھوں افراد کو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور دنیاکےبیسیوں ملکوں میں جماعت کاپودا لگادیا۔ الحمدللہ
اس عرصے میں بعض اندرونی منافق اور بیرونی مخالف جماعت کی ترقی ومضبوطی کونہ صرف روکنےکی انتھک کوشش کرتے رہےبلکہ سلسلہ احمدیہ کومکمل طورپرتباہ کرنے کااپنا سا گمان بھی کربیٹھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نےہرایسی اندرونی اور بیرونی کوشش کو ناکام ونامراد کرکے خس وخاشاک کی طرح اُڑا دیا اور ہر منافق و مخالف کو نشانِ عبرت بنادیا۔ اس مضمون میں ایسی ہی بعض اندرونی مخالفتوں اور سازشوں کااحوال اور پھر ان کا انجام بیان کرنا مقصود ہے۔فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلُی الْاَبْصَارِ۔
منکرین خلافت کافتنہ
منکرینِ خلافت کےفتنےکاآغازاگرچہ خلافتِ اولیٰ میں ہواتھالیکن خلافتِ ثانیہ کےقیام (14؍مارچ1914ء) کو یہ اپنی انتہاپرپہنچ کرہمیشہ کےلیے نظامِ سلسلہ سےجداہوگیا۔ اس لیے اولین طورپراس فتنہ کاذکرکیاجارہاہے۔
مولوی محمد علی صاحب ایم اے (بعد ازاں امیر غیر مبائعین) کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سےہی حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ (جو کہ صدر ، صدر انجمن احمدیہ تھے) سے انجمن کے بعض معاملات اورسلسلے کے بعض انتظامی امور کی وجہ سے رنجشیں پیدا ہو چکی تھیں۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی بیعت کرنے کی تجویز ہوئی تواُس وقت بھی انہوں نےبیعت خلافت کرنے کےمعاملے پر اختلاف کیا۔ اس بارے میں خود مولوی محمد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’میں نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے۔ جو لوگ نئے سلسلہ میں داخل ہوں گے انہیں بیعت کی ضرورت ہے اور یہی الوصیت کا منشا ہے …اور اسی پر اب تک قائم ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی جن لوگوں نے بیعت کی انہیں آپ کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص کی بیعت کی ضرورت نہیں اور نہ بیعت لازمی ہے لیکن بایں ہمہ میں نے بیعت کر بھی لی اس لئے کہ اس میں جماعت کا اتحاد تھا‘‘۔(حقیقتِ اختلاف مصنفہ مولوی محمد علی صاحب،صفحہ31تا32)
اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی بیعت کرنا نہ چاہتے تھے۔اس بات کا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکوبھی بخوبی اندازہ تھا۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے بیعت خلافت کےبعدواپسی پر حضرت ڈاکٹر عطر دین صاحب سےدریافت فرمایا:’’میاں عطردین! کیا محمد علی نے میری بیعت کی ہے؟ ڈاکٹرصاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کا یہ سوال بہت معنی خیزتھا۔اور اس سے عیاں ہے کہ حضور کو بعض یقینی امور کی بناء پریہ خدشہ ہوگا کہ شاید مولوی محمدعلی صاحب کوآپ کی بیعت کرنے پرانشراح نہ ہو۔‘‘(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 9)
پس اس وقت حالات کے پیش نظر بظاہر بیعت کر لینے کے باوجود مولوی محمد علی صاحب اپنے اس خیال کو دل سے نہ نکال سکے بلکہ اپنےپراپیگنڈا سےصدر انجمن کے کئی سرکردہ افرادمثلاً مرزامحمد یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب اورشیخ رحمت اللہ صاحب وغیرہ کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سلسلے میں ان کےدست راست خواجہ کمال الدین صاحب بنے۔ جو خود بھی ایسے ہی خیالات کے مالک تھے بلکہ بعض معاملات میں محترم مولانا موصوف سے کچھ آگے ہی تھے۔چنانچہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ نے اپنی کتاب ’’کشف الاختلاف‘‘ میں ایسےمعاملات میں خواجہ صاحب کو استاد اور مولوی محمدعلی صاحب کو شاگرد لکھا ہے۔ان دونوں میں ایک قدرِ مشترک یہ ضرورتھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےزمانے سےہی مختلف انتظامی معاملات میں معترضانہ خیالات کےحامل چلےآرہےتھے۔
بہرحال ان لوگوں نےحضرت مسیح موعود ؑکی واضح ہدایات اور ارشادات مندرجہ رسالہ الوصیت کے برخلاف آہستہ آہستہ اپنے دوست احباب سے اس قسم کے تذکرے شروع کر دیے، جن میں جماعت کے اندر موجودنظامِ خلافت کا انکار مقصودہوتا تھایاپھر خلافت کے اختیارات محدود کرنے کے تذکرے کیے جاتے تھے، اورکہاجاتاکہ اب شخصی خلافت کازمانہ نہیں رہابلکہ دنیاوی پارلیمنٹ کازمانہ ہے،اس لیےصدرانجمن ہی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی جانشین ہےجبکہ یہ بات بالبداہت غلط تھی کیونکہ رسالہ الوصیت میں حضرت اقدسؑ نبی کی وفات کے بعدخلافت کو دوسری قدرت قراردےچکے تھےاور فرماچکےتھےکہ’’وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا۔ جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘پس انجمن کیسےجانشین ہوسکتی تھی جوخودحضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہی 1906ء میں قائم ہوکر حضرت اقدسؑ کے ماتحت مختلف انتظامی خدمات بجالارہی تھی۔کیونکہ جانشین تودوسری قدرت یعنی خلافت تھی جس نےحضرت اقدسؑ کے جانے کے بعد آناتھا۔
دوسری طرف خواجہ کمال الدین صاحب نےخلافت اولیٰ کے چند دنوں بعد ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کو بھی بالخصوص خلیفہ کےاختیارات اوردائرہ کار کےحوالے سے اپناہم خیال بنانے کی کوشش کی۔لیکن حضرت صاحبزادہ مرزابشیرالدین محموداحمد صاحب نےجواب دیا کہ ’’اختیارات کےفیصلہ کا وہ وقت تھاجبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفہ اول نےصاف صاف کہہ دیاکہ بیعت کےبعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی اور اس تقریرکوسن کرہم نےبیعت کی تو اب آقا کے اختیارمقرر کرنے کاحق غلاموں کو کب حاصل ہے ۔‘‘(آئینہ صداقت،انوار العلوم جلد6صفحہ186)
ا ن لوگوں نے جب دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ ان خیالات کا شکار نہیں ہیں اور خلافت کے ادب اور اختیارات پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس گروہ نے آپ کو بھی اپنے نشانہ پر رکھ لیا اور خلافت اولیٰ میں اس گروہ نے نظام خلافت کے خلاف محاذ بنانے کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ کی بھی جابجا کبھی در پردہ اور کبھی اعلانیہ مخالفت شروع کردی۔
جلسہ سالانہ1908ءپرخلافت کےخلاف پراپیگنڈا
اسی سال دسمبر1908ء کے جلسہ سالانہ پر اس گروہ نے اپنےدبےاورمخفی خیالات و نظریات کو واشگاف کر دیا اور مولوی محمدعلی صاحب نے اپنے دوست احباب کے ذریعہ مختلف پیرایو ں میں صدر انجمن احمدیہ کو ہی حضرت اقدس ؑکی جانشین قرار دینے کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کی بے انتہا کوشش کی۔
نیز اس گروہ نے خلافت کے وقار کے خلاف ایک یہ حرکت بھی کی کہ جلسہ کی تقاریر کے لیےجہاں عام مقررین کے لیے ایک گھنٹہ مقرر کیا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی تقریرکے لیے دو گھنٹے کا وقت مقرر کیا گیا جبکہ خلیفہٴ وقت کےلیے تقریر کاکوئی دورانیہ مقرر کرنا بے ادبی اور گستاخی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے ظہر و عصر کی نمازیں پڑھا کر تقریر کا آغاز فرمایا جو مغرب کے وقت تک جاری رہی۔یہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی طرف سے اس گروہ کو خلیفہٴ وقت کی تقریر کا وقت مقرر کیے جانے پرایک عملی جواب تھا ۔
ان واقعات سے لوگوں میں اس بات کا چرچا ہونے لگاکہ جماعت میں ایک گروہ خلیفہ وقت کی اطاعت میں کمزوری دکھا رہا ہے۔
حضرت میرمحمداسحاق صاحبؓ کےسوالات
اس کے بعد اسی گروہ نے باقاعدہ ایک پروگرام بنا کر قادیان اور قادیان سے باہر رہنے والوں کےاندر اپنے خیالات کی اشاعت شروع کر دی۔بالخصوص خواجہ کمال الدین صاحب نے بیرونی جماعتوں میں دورے کر کے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ قادیان میں تو خلیفۃ المسیح کی موجودگی کی وجہ سے ان کو زیادہ کامیابی نہ ہوئی لیکن بہرحال افراد جماعت میں ان خیالات پر باتیں ہونے لگیں۔ جب ان بحثوں نے طول پکڑا تو حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے چند سوالات لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح ؓکے حضور پیش کر دیے۔
ان سوالات میں خلافت اور انجمن کے تعلقات کے متعلق روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نےمولوی محمد علی صاحب کو یہ سوالات بھیج کر فرمایا کہ ان کا جواب دیں۔مولوی صاحب کا جواب تھا کہ’’حضرت صاحب کی وصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خلیفہ کاکوئی فرد واحد ہونا ضروری ہےلیکن کوئی خاص صورتوں میں ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ اب ہے بلکہ حضرت صاحب نے انجمن کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ ایک ہی شخص ہو‘‘۔(حقیقتِ اختلاف مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ،صفحہ41)
مولوی محمد علی صاحب کے اس جواب سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ اس گروہ کے عزائم کوپوری طرح بھانپ گئے اور سمجھ گئے کہ یہ لوگ تو سلسلہ احمدیہ میں سے نظام خلافت ہی کو مٹانا چاہ رہے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حکم دیا کہ ان سوالات کی نقلیں تیار کر کے مختلف جماعتوں میں بھجوائی جائیں اور ان جماعتوں کے نمائندگان اپنے جوابات لے کر31؍جنوری1909ءکو قادیان آجائیں تاکہ افراد جماعت سے مشورہ ہو سکے۔
تاریخِ مقررہ پرجب مختلف جماعتوں کےنمائندگان جمع ہوئےتوان لوگوں نےان نمائندگان کوانجمن کی جانشینی کےحوالے سےقائل کرنےکی بہت کوشش کی ۔ جس کی تفصیلات آئینہ صداقت انوارالعلوم جلد6میں درج ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اُس دن کی کارروائی کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آخر جلسہ کا وقت قریب آیااور لوگوں کو مسجد مبارک (یعنی وہ مسجد جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر کے ساتھ ہے اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پنجوقتہ نمازیں ادا فرماتے تھے) کی چھت پر جمع ہونے کا حکم دیا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ آپ مولوی صاحب ( خلیفہ اول ) سے جا کر کہیں کہ اب فتنہ کا کوئی خطرہ نہیں رہا۔ کیونکہ سب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی حضرت مسیح موعود ؑکی جانشین ہے۔میں نے تو ان کے اس کلام کی وقعت کو سمجھ کر خاموشی ہی مناسب سمجھی مگر وہ خود حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں چلے گئے۔میں بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔ جاتے ہی ڈاکٹر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح سے عرض کی کہ مبارک ہو، سب لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی جانشین ہے۔اس بات کو سن کر آپ نے فرمایا۔ کونسی انجمن؟ جس انجمن کو تم جانشین قرار دیتے ہو وہ تو خود بموجب قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس فقرہ کو سن کر شاید پہلی دفعہ خواجہ صاحب کی جماعت کو معلوم ہوا کہ معاملہ ویسا آسان نہیں جیسا کہ ہم سمجھے تھے‘‘۔(آئینہ صداقت،انوار العلوم جلد6صفحہ192)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی تقریر
پھرحضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ مسجدمبارک قادیان میں تشریف لائے اور کھڑے ہو کر تقریر شروع کی اور فرمایا کہ خلافت ایک شرعی مسئلہ ہے۔ خلافت کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو جاوے گا تو میں اس کی جگہ ایک جماعت تجھے دوں گا۔ پس مجھے تمہاری پروا نہیں۔خدا کے فضل سے میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا۔ پھر خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے جوابوں کا ذکر کر کے فرمایاکہ مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا دینا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا یا بیعت لے لینا ہے۔یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اور اس نے گستاخی سے کام لیا ہے۔ اس کو توبہ کرنی چاہیے ورنہ نقصان اٹھائیں گے۔ دوران تقریر میں آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے بہت دکھ دیا ہے اور منصب خلافت کی ہتک کی ہے۔ اسی لیے میں آج اس حصہ مسجد میں کھڑانہیں ہواجوتم لوگوں کابنایاہوا ہےبلکہ اس حصہ مسجدمیں کھڑا ہوا ہوں جو مسیح موعود علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے۔
تقریر کا اثر
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس تقریرکاذکرکرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:’’جوں جوں آپ تقریر کرتے جاتے تھے۔ سوائے چند سرغنوں کے باقیوں کے سینے کھلتے جاتے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں جو لوگ (حضرت )نورالدین کو اس کےمنصب سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے لگے اور یا خلافت کے مخالف تھے یااس کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔ آپ نے دوران لیکچران لوگوں پر بھی اظہار ناراضگی فرمایا جو خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کرتے رہے تھے اور فرمایا کہ جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کیا حق تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے۔ان کو اس کام پر ہم نے کب مامور کیا تھا۔ آخر تقریر کے خاتمہ پر بعض اشخاص نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے کہا،خیالات کا اظہارکسی نے کیا کرنا تھا۔ تمام مجلس سوائے چند لوگوں کےحق کو قبول کر چکی تھی۔ مجھ سے اور نواب محمد علی خان سے جو میرے بہنوئی ہیں، رائے دریافت کی۔ ہم نے بتایاکہ ہم تو پہلے ہی ان خیالات کے مؤید ہیں۔ خواجہ صاحب کو کھڑا کیا۔ انہوں نے بھی مصلحتِ وقت کے ماتحت گول مول الفاظ کہہ کر وقت کو گزارنا ہی مناسب سمجھا۔ اورپھر فرمایا کہ آپ لوگ دوبارہ بیعت کریں اور خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ الگ ہو کر آپ مشورہ کر لیں اور اگر تیار ہوں تب بیعت کریں۔اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم سے جو اس جلسہ کے بانی تھے، جس میں خلافت کی تائید کے لئے دستخط لئے گئے تھے کہا کہ اُن سے بھی غلطی ہوئی ہے۔وہ بھی بیعت کریں۔
غرض ان تینوں کی بیعت دوبارہ لی اور جلسہ برخواست ہوا۔ اس وقت ہر ایک شخص مطمئن تھا اور محسوس کرتا تھا کہ خداتعالیٰ نے جماعت کو بڑے ابتلاء سے بچایا۔ لیکن مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب جو ابھی بیعت کر چکے تھے اپنے دل میں سخت ناراض تھے اور ان کی وہ بیعت جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا ،دکھاوے کی بیعت تھی۔ انہوں نے ہرگز خلیفہ کو واجب الاطاعت تسلیم نہ کیا تھا۔‘‘(آئینہ صداقت،انوارالعلوم جلد6صفحہ193تا 194)
چنانچہ حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کا بیان ہے کہ’’مسجد کی چھت سے نیچے اترتے ہی مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب کو کہا کہ آج ہماری سخت ہتک کی گئی ہے۔ میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ہمیں مجلس میں جوتیاں ماری گئی ہیں۔‘‘(انوار العلوم جلد6صفحہ194)
بہرحال اس واقعہ کےبعد انہوں نے یہ سوچ کر کہ اب اگرہم نے خلافت کے خلاف کھلم کھلا پروپیگنڈا شروع کیا تو معاملہ ایسا صاف ہو جائے گا کہ آئندہ ہمارے لیے اس مسئلہ میں تاویلات کی گنجائش نہ رہے گی۔ اوردربارِ خلافت سےکوئی سخت فیصلہ آسکتاہے۔اس لیے اب اس معاملے میں بالکل خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔چنانچہ انہوں نے عام مجالس میں خلافت کا تذکرہ ہی چھوڑ دیا بلکہ بظاہر اپنے آپ کو خلافت کا مطیع اور فرماں بردار ظاہر کرتے رہے لیکن درپردہ خلافت کو مٹانے کی تدابیر جاری رکھیں۔چنانچہ ایک تدبیر انہوں نے یہ اختیار کی کہ صدر انجمن کے معاملات میں جہاں کہیں حضرت خلیفۃ المسیح کے کسی حکم کی تعمیل کرنی پڑتی وہاں ’’خلیفۃ المسیح‘‘ کی بجائے ’’پریذیڈنٹ‘‘لکھنا شروع کر دیا بلکہ یہ لکھا جاتا کہ پریذیڈنٹ صاحب نے اس معاملہ میں یوں سفارش کی ہے۔ اس کارروائی سے مقصد ان کا یہ تھا کہ صدر انجمن کے ریکارڈ سے یہ ثابت نہ ہو کہ خلیفہ کبھی انجمن کا حاکم رہا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بھی ان لوگوں کی حرکات کو خوب جانتے تھے۔چنانچہ آپ نے ان لوگوں کے اس حربہ کو یوں توڑا کہ 1910ءمیںصدرانجمن کو لکھ دیا کہ مَیں چونکہ خلیفہ ہوں۔ ممبر انجمن اور صدر انجمن نہیں رہ سکتا۔ میری جگہ مرزا محمود احمد کو پریذیڈنٹ مقرر کیا جاوے اور یوں ان کی اس تدبیر کو خاک میں ملادیا۔
اس لیے ان کا بغض خاندان مسیح موعود ؑسے عموماً اور حضرت صاحبزادہ مرزابشیرالدین محموداحمد صاحبؓ سے خصوصاً بڑھتا چلاگیا۔اوراُنہوں نےیہ مصمم ارادہ کرلیاتھا کہ اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحبؓ خلیفہ منتخب ہو گئے تو ہم قادیان کو چھوڑ کر لاہور چلے جائیں گے اور اپنا مشن الگ کھول دیں گے۔اور چونکہ غیراحمدیوں کو ناراض کرنے والے مسائل ہم چھوڑ دیں گے، اس لیے غیر احمدی خوش ہو کر اشاعت اسلام کے کام میں شرکت کرنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔اور خلافت سے تعلق رکھنے والا گروہ ہمارے مقابل میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھے گا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے عزت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے احمدیت کے خصوصی مسائل کو بگاڑنا شروع کر دیا۔ان کا یہ خیال تھا کہ علم کلام تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کریں گے مگر ایسی باتیں جن سے غیر احمدی ناراض ہوتے ہیں انہیں ایسے رنگ میں پیش کریں گے جن سے وہ ناراض نہ ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ جس قسم کے خواب یہ لوگ دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوں گے۔
انتخاب خلافتِ ثانیہ اور غیر مبائعین
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کےبعد14؍مارچ 1914ء کومختلف مقامات سےآئے ہوئےتمام احمدی مسجد نور قادیان میں جمع ہوئے تو بعدنماز عصر حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وصیت پڑھ کر سنائی جس میں درج تھاکہ’’میرا جانشین متقی ہو ہردلعزیز۔عالم باعمل ہو۔حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک۔ چشم پوشی۔ درگزرکو کام میں لاوے۔میں سب کا خیرخواہ تھا۔وہ بھی خیرخواہ رہے۔‘‘
وصیت پڑھنےکےبعد لوگوں سے درخواست کی گئی کہ وہ آپؓ کی وصیت کے مطابق کسی شخص کو جانشین تجویز کریں۔ حضرت مولوی سید محمد احسن امروہی صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کا نام پیش کیا۔نام پیش ہونےکی دیر تھی کہ احمدی احباب جوش کے عالم میں ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی بیعت کرلیں۔بیعت شروع ہو جانے پرمولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاءحسرت کے ساتھ رخصت ہو کر اپنی فرودگاہ کی طرف چلے گئے۔ دو اڑھائی ہزار کے مجمع میں سےگنتی کے چند افراد بیعت میں شامل نہ ہوئےاور باقی سب نے بیعت کر لی۔(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 96، تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 518)
چنانچہ خلافت ثانیہ کے آغاز میں ہی یہ لوگ نظامِ خلافت سےروگردان ہوکر الگ ہوگئےاورلاہورمیں اپنا مرکز بنالیا اورانکارِ خلافت کےبعد غیر احمدیوں کو خوش کرنے کے لیے احمدیت کےاکثر خصوصی عقائدومسائل کو خیرباد کہہ دیا۔ مگر نہ انہوں نے خوش ہونا تھا اورنہ ہوئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ آج جبکہ ان کو مرکز سلسلہ سے الگ ہوئےسوسال سےزائد گزر چکاہےاور اس گروہ نےاپنا مرکز بھی لاہور ایسے مرکزی شہر میں بنایا ، جہاں ہر قسم کی سہولتیں میسر تھیں، پھربھی ان کی تعداد جماعت مبائعین کے مقابلے میں آٹےمیں نمک کےبرابر بھی نہیں اور بقول یکےازغیرمبائعین ’’تحریک ایک لاش بن کررہ گئی تھی اورچندآدمی اسےنوچ نوچ کرکھارہےتھے‘‘(پیغام صلح 24؍فروری1954ءصفحہ4) کا عبرتناک نمونہ بن چکےہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی مسلسل فعلی شہادت نےیہ بتادیا ہے کہ اس کا ہاتھ خلافت پر ہے۔پس جولوگ خلافت سے وابستہ ہوں گےوہی حبل اللہ کو تھامنے والے ہوں گےاور وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں اوروہی بفضل اللہ تعالیٰ ہرمیدان میں کامیاب ہورہے ہیں۔
فتنہ کا عبرتناک انجام
فتنہ انکار خلافت کے بانی اور خلافت احمدیہ سے علیحدہ ہو کر انجمن اشاعت اسلام لاہور بنانے والے جناب مولوی محمدعلی صاحب کا انجام بالآخریہ ہواکہ تمام حامی آپس میں افتراق وانتشارکاشکارہوگئے۔چنانچہ ان کی قائم کردہ جماعت کے حالات کا کچھ تذکرہ خود اُن کی زبانی بھی قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ مولوی محمد علی صاحب نے 5؍ جولائی 1951ء کے ایک سرکلر میں لکھا:’’جب سےمیں گذشتہ بیماری کے حملہ سے اٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ اور شیخ مصری(مراد عبد الرحمٰن مصری صاحب) میرے خلاف پراپیگنڈا میں اپنی پوری قوت صرف کر رہے ہیں اور ہر ایک تنکے کو ایک پہاڑ بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے اور نہ صرف وہ میری بیماری سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ ان امور کے متعلق مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر کے میری بیماری کو بڑھا رہے ہیں۔ اور یہ امر واقع ہے کہ میری بیماری پھر ان احباب کی مہربانی سے بڑھ گئی ہے۔‘‘
نیز لکھا:’’جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی ہے۔ اور امیر جماعت کے خلافت علم بغاوت بلند کیا گیا ہے۔‘‘
اس سرکلر کے بعد مولوی صاحب موصوف نے 13؍اگست 1951ء کو اپنے ’’دکھوں کی داستان‘‘لکھی جس میں اپنے خلاف باغیانہ تحریک کی تفصیلات پر بالتفصیل روشنی ڈالنے کے بعد لکھا کہ’’ایک طرف دن رات میرے خلاف مشورے ہوتے رہتے ہیں اور احمدیہ بلڈنگس سے یہ پراپیگنڈا ہوتا رہتا ہے کہ میں کیا کیا قواعد کی خلاف ورزیاں کررہاہوں اور میری وجہ سے یہ جماعت نکمی ہو چکی ہےاور ان کے دلوں میں کوئی دینی جذبہ نہیں رہا۔ دوسری طرف میں کوئی بات کہوں تو اس کے ماننے سے انکار کیا جاتا ہے۔‘‘(حضرت امیرمرحوم کےدکھوں کی داستان صفحہ 16بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 383)
یہ حالت مولوی محمد علی صاحب کے لیے بالآخر جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ اپنے ’’دکھوں کی داستان‘‘ لکھنے کے ٹھیک دو ماہ بعد 13؍اکتوبر 1951 ءکو اس جہان فانی سے چل بسے۔ چنانچہ ان کی بیگم صاحبہ نے 29؍نومبر1951ءکو اپنی ایک چٹھی میں لکھا:’’مفسدوں نے مخالفت کا طوفان برپا کر دیا اور …طرح طرح کے بیہودہ الزام لگائے۔ یہاں تک بکواس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے۔‘‘
’’ان تفکرات نے آپ کی جان لے لی۔ سب ڈاکٹر یہی کہتے تھے کہ اس غم کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی جان گئی ۔‘‘
مزید تحریرکرتی ہیں :’’ایک وصیت لکھ کر شیخ میاں محمد صاحب کو بھیج دی کہ یہ سات آدمی جو اس فتنہ کے بانی ہیں اور جن کے دستخط سے یہ سرکلر نکلے تھے اور جن کا سرغنہ مولوی صدر دین ہے،میرے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھائیں۔ چنانچہ اس پر عمل ہوا۔‘‘( رسالہ ’’میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب میں‘‘ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 384)
حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
فتنۂ مستریاں
اس فتنہ کی تفصیل کچھ اس طرح سےہےکہ 1913ء یا 1914ءمیں ایک شخص مسمی مستری فضل کریم صاحب اپنے تین بچوں دو لڑکے مسمی عبدالکریم اور محمد زاہد اور ایک لڑکی مسماۃ سکینہ بی بی صاحبہ کے ہمراہ جالندھر سے قادیان منتقل ہوئے۔ان کی بیگم وفات پا چکی تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مکان بنانے کے لیے ان کو مفت زمین عطا کی جس پر انہوں نے اپنا رہائشی مکان بنا لیا ۔
تھوڑے عرصہ بعد مستری فضل کریم صاحب قادیان میں ہی مٹی کے تیل کے کنستروں اور قفل، تالیوں (چابیوں)وغیرہ کا کام کرنے لگے۔پھر انہوں نے مشین سیویاں کے نام سے سیویاں بنانے کا ایک چھوٹا سا کارخانہ بھی لگالیا۔اسی کاروبار کے سلسلے میں ایک جماعتی ادارہ’’احمدیہ سٹور‘‘سے ان کی درخواست پر ان کو مالی امداد دی گئی۔جب ان کے حالات بہترہوگئےتواحمدیہ سٹور کی طرف سے دیا گیا قرض واپس کرنے کا تقاضا کیاگیا۔اس پریہ لوگ لیت و لعل سے کام لینےلگے۔ جب با ر بار تقاضا کے باوجود انہوں نے احمدیہ سٹور کو واجب الادا قرض واپس نہ کیا تو اگست1919ء میں مینیجر احمدیہ سٹور نے نظارت امور عامہ میں درخواست دی کہ مستری فضل کریم وغیرہ کے ذمہ احمدیہ سٹور کا جو قرض واجب الاداہے،وہ دلوایا جائے۔حسبِ فیصلہ نظارت امورعامہ جب ادائیگی کا وقت آیا تو مستری فضل کریم صاحب نے منظور شدہ فیصلہ امور عامہ کے خلاف قضاء میں اپیل کر دی جو1920ء میں اس بنا پر رد کر دی گئی کہ جو فیصلہ باہم رضا مندی سے کیا گیا تھا مستری فضل کریم صاحب کو اس کے خلاف اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں۔
الغرض بار بار کی مہلت کے باوجودمستریوں نے قرض لی ہوئی رقم واپس نہ کی اور طرح طرح کے مقدمات کر کے معاملہ کو الجھائے رکھا ۔درحقیقت یہ لوگ لین دین کے اچھے نہ تھے اس لیے ان کےخلاف کئی کاروباری مقدمات زیر کارروائی رہے۔جب بھی مقدمات میں ان کے خلاف فیصلہ ہوتا تو یہ مختلف حیلوں بہانوں اور نت نئی درخواستوں کے ذریعہ ٹال مٹول سےکام لیتے رہتے اور جب نظام سلسلہ کی طرف سے توجہ دلانے اور کاروباری معاملات ٹھیک کرنے کے لیے زور دیا جاتا تو یہ نظام سلسلہ سے سرکشی کرتے اور عملاً ہرفیصلہ ماننے سے انکارکردیتے۔ اس طرح یہ لوگ اندرونی طور پر سلسلے سے دور ہوتے چلے گئے ۔یہ معاملات زیادہ تر1919ء سے 1923ء کے دوران چلتے رہے۔عرصہ بعدپھر مستری فضل کریم صاحب نے اپنی دکان اور کاروبار کومزید ترقی دینے کے لیے نظام سلسلہ سے مالی مدد کی درخواست کی لیکن بوجہ مالی تنگی کے ان کی اس درخواست پر امداد نہ کی جاسکی جو ان لوگوں کی مزید ناراضگی کا باعث بن گئی۔
پھر ایک آخری امر ان مستری احباب کی بیماری کو بڑھانے والا یہ ہوا کہ جالندھر کے ایک مخلص احمدی دوست بابو محمد یوسف صاحب جلسہ سالانہ پر قادیان آئے اور بوجہ قرابت داری حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ، مستری فضل کریم صاحب کے مکان پر ٹھہرے کیونکہ حضرت مرزا عبدالحق صاحب بھی جلسہ پر بوجہ مستری فضل کریم صاحب کے داماد ہونے کے انہی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہی ایام میں بابو محمد یوسف صاحب ڈھاب میں ڈوب کر وفات پا گئے۔ اس کےبعدان کی بیوہ کو باامر مجبوری کچھ عرصہ مستری فضل کریم صاحب کے گھر قیام کرنا پڑا۔اس دوران مستری فضل کریم صاحب نے اُن کی بیوہ سے شادی کی کوششیں شروع کردیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں بھی لکھا کہ میرا اس بیوہ سے نکاح کروادیں۔بیوہ بابو محمد یوسف صاحب اس نکاح پر کسی طرح بھی راضی نہ تھیں۔اس لیےحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس معاملے میں کوئی دخل نہ دیا۔ان حالات کو دیکھ کر حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے اپریل 1926ء میں ان سے نکاح ثانی کر لیا۔اس طرح مستری فضل کریم صاحب کی ان سےشادی نہ ہوسکی اور دوسری طرف ان کی بیٹی پریہی خاتون سوتن بن کر آگئیں تو اس امر نے ان کو نہایت غضبناک کر دیا۔اوریہ تمام خاندان حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور نظام سلسلہ کا سخت دشمن بن گیا اور اپنے غیظ وغضب کے جوش میں نہایت گندے اور ناپاک اتہامات لگانے شروع کر دیے۔
ناپاک اتہامات
اُن لوگوں نےبعنوان ’’قادیان کے فتنہ کی حقیقت‘‘، ’’فتنہ قادیان کی اصل حقیقت‘‘، ’’کھلی چٹھی بخدمت خلیفہ قادیان‘‘ اور ’’انکشاف حقیقت ‘‘وغیرہ اشتہارات شائع کیے جو نظام سلسلہ اور خلیفہ وقت کے خلاف بدزبانی اور گندے ناپاک الزامات و اتہامات سے پُر تھے۔ پھر اس فتنہ کے مرکزی کردار عبدالکریم صاحب پسر مستری فضل کریم صاحب نے قادیان سے’’مباہلہ‘‘ نامی ایک اخباربھی جاری کردیا اور اس میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓکے کردار پر نہایت رکیک گندے حملے کرناشروع کردیے۔تقریباً اڑھائی سال قادیان میں بیٹھ کر خلیفہٴ وقت اور نظام سلسلہ کے خلاف سخت ناپاک اور گندے حملوں کے بعدمستری فضل کریم صاحب اور ان کے بیٹے قادیان سے چلے گئے اور پہلے بٹالہ اور بعدمیں امرتسر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اورپھر وہاں سے مغلظات سے بھرا اخبار’’مباہلہ‘‘شائع کرنا شروع کردیا۔ اس اخبار میں ناپاک الزامات لگاکرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سےحلف کامطالبہ کیا جاتاکہ وہ حلفیہ ان الزامات کارد کریں۔جبکہ اُن کا یہ موقف سراسر شریعت کےمنافی تھا، نیزتمام لگائےجانےوالے الزامات بھی جھوٹ کاپلندہ تھے۔ اس لیے جماعت کی طرف سے مسلسل ان کا بھرپور دندان شکن جواب دیا جانے لگا۔ مزید برآں حلف کے مطالبہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خود بھی مختلف مواقع پرنہایت سیرحاصل تبصرہ فرمایا، جس کےبعض حصے درج ذیل ہیں۔فرمایا:
٭…’’بعض نادان اور شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ مباہلہ نہ کرنا اس سبب سے نہیں کہ میں مباہلہ کو جائز نہیں سمجھتا بلکہ اس سبب سے ہے کہ میں مباہلہ کرنا نہیں چاہتا۔ سواس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مباہلہ بھی ہر شخص سے نہیں ہوسکتا اس کے لئے بھی شرائط ہیں مگر اس قسم کے امور کے لئے کہ جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خالص طریق مذکور ہیں۔مباہلہ چھوڑ کر قسم بھی جائز نہیں اور ہر گز درست نہیں۔ کہ کسی شخص(الزام دہندہ) کو ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کی اجازت دی جائے۔یا مطالبہ پر مباہلہ کو منظور کر لیا جائے۔مجھے یہ کامل یقین ہے اور ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے ۔کہ ایسے امور کے متعلق مباہلہ کا مطالبہ کرنا یا ایسے مطالبہ کو منظور کرنا ہر گزدرست نہیں بلکہ شریعت کی ہتک ہے۔اور میں ہر مذہبی جماعت کے لیڈروں یا مقتدر اصحاب سے جو اس امر کا انکار کریں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر مولوی محمد علی صاحب یا ان کے ساتھی جو مباہلہ کی اشاعت میں یا اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت میں خاص حصہ لے رہے ہیں مجھ سے متفق نہیں۔ بلکہ ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں۔اور ان کا یہ یقین ہے کہ جو شخص ایسے مطالبہ کو منظور نہیں کرتا وہ گویا اپنے جرم کا ثبوت دیتا ہے۔ تو ان کو چاہیئے کہ اس امر پر مجھ سے مباہلہ کر لیں۔پھر اللہ تعالیٰ حق وباطل میں خود فرق کر دے گا۔ ‘‘(اخبار الفضل 2؍مئی 1930ء صفحہ6)
٭…’’میں ہر ایک عالم کو چیلنج دیتا ہوں کہ کسی امام یا اہل بیت یا ان کے کسی بڑے شاگرد یاشاگردوں کے کسی بڑے شاگرد یا مشہور فقیہ کا نام پیش کرے جس نے اس صورت مباہلہ کو جائز قرار دیا ہو۔ اور میں ہر نام جو پیش کیا جائے گا۔ اس پر سو روپیہ دوں گا۔‘‘(الفضل16؍اپریل1930ء)
٭…’’یہ یادرکھیں کہ مباہلہ صرف انہی امورکےمتعلق ہوسکتا ہےجواصولی ہوں اور جن کےمتعلق شریعت نےکوئی اور طریق فیصلہ نہ بتایا ہو۔ جو امورکہ معاملات سےتعلق رکھتے ہوں اُن میں مباہلہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ اورایسا مباہلہ شریعت کےبرخلاف ہوگا۔ عقل بھی اس کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ الزام لگانے والے کےمقابلہ میں انسان مباہلہ کرے۔ کیاکوئی بھی شریف آدمی جسے ذرا بھی عزت خداتعالیٰ نے دی ہو، یہ پسندکرے گاکہ وہ ایسےامور میں مباہلہ کرے ۔ اس طرح کئی شریرالنفس لوگ روز اُٹھ کر لوگوں پرالزام لگادیں گے۔ اور جب اُنہیں ملامت کی جائے تو کہدیںگے کہ ملامت اور غصہ کی بات نہیں ۔مباہلہ کرلو۔ اگرکسی شریف انسان سےایک بدمعاش جاکر یہ کہدے کہ اس کی بیوی سے اس نے زناکیاہے۔تو وہ آدمی اس پر ناراض ہوگایا اپنی بیوی سے جاکر کہے گاکہ اس نیک بخت سے کھڑی ہوکر مباہلہ کر۔ میں تو نہیں سمجھ سکتا کہ دنیا میں سے ایک بھی شریف آدمی ایسا ملےگاجو ایسے موقعے پر اس الزام لگانے والے سفلہ اور کمینہ انسان پر اظہار خفگی کی بجائے اسے بڑے اطمینان سے اپنی بیوی کے پاس لے جائے گا اور جا کر اس سے یہ مطالبہ کرے گا کہ تواس سے مباہلہ کر۔اس راستہ کو کھول کر دیکھو کہ دنیا میں کسی شخص کی بھی عزت محفوظ نہیں رہتی پس یہ طریق عقل کے بھی بالکل برخلاف ہے اور کسی شریف انسان سے اس کا مطالبہ کرنا اس کی ہتک کرنا ہے۔‘‘(تحفہ مستریان یعنی فتنہ مستریان کی حقیقت صفحہ68تا69)
٭…’’میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض امور میں مباہلہ جائز بھی ہوتا ہے۔اگر بعض لوگ بغیر خدا کے غضب کو بھڑکانے کے تسلی نہ پائیں اور میری اس نصیحت کو قبول نہ کریں(یعنی نفسانیت سے الگ ہو کر خدا سے دعا کرنا)تو پھر میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کے ہاتھ میں جزااور سزا ہے اور ذلت و عزت ہے کہ میں اس کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں اور جو لوگ میرے مقابل پر کھڑے ہیں اور مجھ سے مباہلہ کا مطالبہ کرتے ہیں وہ اس کی مرضی اور اس کے قانون کےخلاف کر رہے ہیں اگر میں اس امر میں دھوکہ سے کام لیتا ہوں تو اے خدا تو اپنے نشان کے ساتھ صداقت کا اظہار فرما۔‘‘(اقتباس از خط بنام بابو عبدالحمید صاحب احمدی شملہ مورخہ29؍اکتوبر1929ءبحوالہ فتنہ مستریان مباہلہ صفحہ 16تا17)
مقدمات کی سازش اور انجام
ان ناپاک اتہامات اور الزامات کےعلاوہ 1927ء کے آخر میں بعض منافقین اور منکرین خلافت کی شہ پر انہوں نے یہ تجویز کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو کسی فوجداری مقدمہ میں پھنسایا جائے اور اس طرح اپنے اندر کا غضب ٹھنڈا کیا جائے اور عدالت میں اپنے گندے اور ناپاک الزامات کو بیان کر کے ان واقعات کی لوگوں میں عام تشہیر کی جائےتاکہ ان کےغضب کی تسکین ہوسکے۔چنانچہ پہلےانہوں نے قادیان میں از خود ایک احمدی سے لڑائی کر کے فساد پھیلانے کی کوشش کی۔اور اس واقعہ پر پولیس کوتار دے کر قادیان بلوایا لیکن پولیس نے جب جائزہ لیا تو مستریوں کی شکایت کو غلط پایا۔پولیس نے ان کو سمجھایا کہ اس جھوٹی رپورٹ پر معافی مانگ کر معاملہ ختم کر لو اور ابتدائی طور پریہ لوگ اس بات پر آمادہ بھی ہو گئے تھے،لیکن پھر منافقین اور منکرینِ خلافت کی مسلسل شہ پاکر انہوں نے عدالت میں دو استغاثے دائر کر دیے۔ایک زیر دفعہ107ضابطہ فوجداری تھا۔جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر دعوت وتبلیغ اور مولوی محمد امین خان صاحب مبلغ بخارا اور نیک محمد خان صاحب مدعا علیہ تھے۔یہ استغاثہ اس غرض کے لیےتھا کہ ہمیں(یعنی مستریوں کو)حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور دیگر مذکورہ اصحاب سے نعوذ باللہ نقض امن کا اندیشہ ہے۔اس لیے ان سے ضمانت لی جائے۔دوسرا استغاثہ زیر دفعہ 307 تعزیرات ہند درج کروایا۔جس میں صرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور مولوی محمد امین خان صاحب مدعا علیہ بنائے گئےاور اس میں یہ بیان کیا گیا کہ حضرت صاحبؓ اور مولوی محمد امین خان صاحب نے نعوذ باللہ ان لوگوں کو قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان امورپر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:’’جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ سب قدرتیں رکھتا ہے اوروہ اپنے بندوں کی خود حفاظت کرتا ہے انہیں کوئی ناجائز طریق اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔قتل کرانا تو بڑی بات ہے میں نے ان کے لئے کبھی بددعا بھی نہیں کی مگر انہوں نے اپنے اوپر قیاس کیا۔پچھلے دنوں بعض وجوہ سے جو خیالی طور پر گھڑی گئیں ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ان کے خلاف کوشش کی جارہی ہے ان لوگوں نے بعض ایسی وجوہات سے جو اخبار میں بھی بیان کر دی گئی ہیں کئی قسم کی ناجائز حرکات کیں…جو لوگ اخلاق میں گر جاتےہیں وہ اپنے بغض کا بدلہ غیر اخلاقی طور پر لینے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں جو الزامات اور اتہامات سے تعلق رکھتی ہیں۔مجھے جب اس کے متعلق اطلاع ہوئی تو میں نے باپ بیٹے کو بلایا اور کہا، سنا ہے تم لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہو …میرے خلاف جو باتیں تم بناتے ہو اس کی وجہ تمہاری سچائی نہیں بلکہ میری شرافت ہے۔تم جانتے ہو کہ اگر کسی اور کے متعلق کوئی بات ہم کہیں گے تو وہ ہر طرح اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے گا۔مگر میری طرف سے تم کو اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے تمہارا یہ طریق ہی میری شرافت کا اعتراف اَور اپنی کمینگی کا اظہار ہے …اس وقت میرے سامنے انہوں نے کہا، جو کچھ ہمارے متعلق کہا جاتا ہے یہ غلط ہے اور لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔پھر ایک نے اپنا خواب سنایا کہ مجھے بتلایا گیا ہے آپ سے دعا کراؤں۔مگر مجھے معلوم ہوا لوگوں سے جا کر انہوں نے کہا ہماری تسلی کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر نہیں ہوئی اور اب عدالت میں جا کر یہ لکھایا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ باز آجاؤ ورنہ تمہیں سیدھا کر دیں گے …غرض ان لوگوں نے جو میرے سامنے ایسی باتیں کرنے سے انکار کر گئے تھے شرارت بڑھانی شروع کی۔ان کی شرارتوں کے متعلق جن لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا میں نے ان کی باتوں پر اعتبار نہ کیا لیکن جب شملہ میں ذکر ہوا تو مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر نے جو مستری فضل کریم کے داماد ہیں، بتلایا کہ عبدالکریم مستری فضل کریم کا بڑا لڑکا اس قسم کی باتیں کرتا پھرتا ہے۔میں نے انہیں کہا آپ کو غلطی لگی ہو گی۔انہوں نے کہا نہیں اس نے خود مجھ سے باتیں کی ہیں۔تب ان لوگوں کی شرارت کا پورا علم ہوا۔…‘‘
پھر حضورؓ نے اپنی ایک پرانی رؤیا بیان فرمائی جس میں اس فتنےسے متعلق بتایا گیا تھا۔حضورؓ نےاس فتنےکی تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا:’’مجھے ان لوگوں میں سے ایک نے لکھا ہے۔ اب دیکھیں گے کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے اور یہ بھی طنزاً لکھا ہے کہ اب خوب چندے آئیں گے…یہ دعویٰ تو انسان کا ہے مگر اس کے برخلاف خداتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ شوکت و سلامتی سعادت اور ترقی کا زمانہ عنقریب آنے والا ہے۔کہنے والے نے کہا ہے دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے مگر میں بھی دیکھوں گامیرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اس شخص کی۔‘‘(تقریردلپذیر،انوار العلوم جلد 10صفحہ87تا90)
یقیناًآج دنیا کا کونہ کونہ حضرت مصلح موعود ؓکی پیشگوئی کے پورا ہونے اور ان مخالفین کے خائب و خاسر ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔الحمدللہ
ان مقدمات کاانجام مفتریوں کے لیےمزیدذلت کاموجب ہوا۔چنانچہ یہ مقدمات سرسری تحقیق کےبعد عدالت نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓاوربعض دوسرے احمدیوں کوبلائے بغیر ہی خارج کردیے۔(اخبار الفضل 3؍مئی 1930ء صفحہ 1تا2)
غیر مبائعین کاکردار
حضرت مصلح موعود ؓکی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نےنہ صرف حضور ؓکی ذات اقدس بلکہ کُل جماعت کی حفاظت فرمائی اور یہ منافقین و مخالفین اپنے ناپاک منصوبوں میں کلیۃً ناکام ونامراد رہے اور ان کی حقیقت خود بخود کھلتی چلی گئی کہ کس طرح غیر مبائعین سےبھی ان کا تعلق تھا اور وہ باقاعدہ ان کی مالی امداد بھی کر رہے تھے۔چنانچہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب آڈیٹر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام (جو احمدیہ بلڈنگزمسجد کے امام بھی تھے) کابیان ہے کہ’’انجمن کی انتظامیہ کمیٹی کے سارے ممبروں کو علم ہے کہ مولوی صاحب (مراد مولوی محمد علی صاحب) اپنی خاص منظوری کے ساتھ مباہلہ والوں(مستریوں) کی نقدی سے مدد کرتے رہے۔ان کے اشتہارات چھپواکر خاص ملازم انجمن کی معرفت دوسرے شہروں میں تقسیم کرواتے رہے۔مگر مولوی(محمد علی) صاحب نے مسجد میں کھڑے ہو کر جمعہ میں کہا کہ ہم نے کبھی صاحبزادہ صاحب کے خلاف بدگوئی کی تشہیر میں حصہ نہیں لیا۔‘‘(رسالہ الفرقان،قادیان جولائی 1944ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4صفحہ636)
اخبار’’فاروق‘‘ قادیان جس کے مدیر حضرت میر قاسم علی صاحب تھے، نے7؍جولائی 1931ء کے شمارےمیں مولوی محمد علی صاحب کے خطوط کی نقلیں شائع کیں اور لکھا کہ’’اخبار مباہلہ سینکڑوں کی تعداد میں ان کے دفاتر میں فروخت ہوتارہا۔رات کے دو دو بجے تک مباہلہ کے پیکٹ تیار ہوتے تھے اگر کسی قسم کا شبہ ہو تو پیغام بلڈنگ بک ڈپو کے حساب میں’’مباہلہ‘‘ کی خریدوفروخت کا اندراج دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ636)
پس یوں یہ فتنہ جو خلیفہ برحق سیدنا محمود المصلح الموعودؓ اور آپ کی جماعت کے خلاف اٹھایا گیاتھا اپنی موت آپ مر گیا اور دنیا پر بھی ظاہر ہو گیا کہ کن لوگوں کی شہ پر اور پشت پناہی پر یہ فتنہ اٹھایا گیا تھا۔اور ان بدنصیب فتنہ پردازوں کا انجام یہ ہوا کہ یہ ابتلا جو ان لوگوں کے لیے ایک معمولی لین دین کے معاملہ سے شروع ہوا تھا بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی مستقل دوری پر منتج ہوا اور اس فتنے کے بانی مستری فضل کریم صاحب اوران کی نرینہ اولاد نہ صرف سلسلہ احمدیہ سے مرتد ہوگئی بلکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس پر بھی ناپاک حملے شروع کر دیے اور چاند پر تھوکنے کی کوشش میں اپنا ہی چہرہ ہمیشہ کے لیے گندا کر لیا۔
دنیا میں گرچہ ہوگی سو قسم کی برائی
پاکوں کی ہتک کرنا سب سے برا یہی ہے
(درثمین)
٭…٭… (جاری ہے)…٭…٭