حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خطبہ کے جواب میں ہر ایک احمدی کے جذبات
اے ستمگر فتنہ سازی سے دبے گا حق کہاں
مشکلیں کر دیں گی اَور بھی آسانیاں
تابش قہر و غضب ہے باعث تسکین یہاں
رحمت حق سایہ افگن ہو گی بن کر سائباں
جب کسوٹی پر گھسے سونا تو ثابت ہو کھرا
آج اپنی استقامت کا ہے روز امتحاں
الحذر اس برقِ شعلہ بار سے ہاں الحذر
مصقلہ پر چڑھ کے جب ہوں تیغ کے جوہر عیاں
جو کٹھالی میں پڑا سونا وہ کندن ہو گیا
کیا ہوا گر آج ہے ہر احمدی آتش بجاں
داغ دل ہیں پڑ گئے اور دے گئے کیسی بہار
کِھل رہا ہے اپنے سینوں میں خلیلی گلستاں
رات بھر شمع فروزاں خود رہی صرف گداز
نور سے لیکن منور کر دیا سارا مکاں
کچھ تو سوچو گلشن اسلام سے کیوں آخرش
ہو رہا ہے کارواں بادبہاری کا رواں
خار ظلم ناروا سو بار الجھے غم نہیں
ہم بھرینگے آخرش پھولوں سے اپنی جھولیاں
کیا ہے گر کانٹے بچھے ہیں راہ میں دلدار کی
ہم قدم رکھ دیں گے بڑھ کر دھار پر تلوار کی
شاخِ گُل کی گود میں غنچہ ہمکنا چھوڑ دے
پُھول کِھلنا چھوڑ دےبُلبل چہکنا چھوڑ دے
چھوڑ دے عہد جوانی حسن کی مشاطگی
چشمۂ خورشید پر سبزہ لہکنا چھوڑ دے
نامیہ گر چھوڑ دے ہر بیل بوٹے کی نمو
صحن گلشن موسم گل میں مہکنا چھوڑ دے
گدگدانے سے صبا کے پھول ہنسنا چھوڑ دے
ہاں خس و خاشاک سے آتش بھڑکنا چھوڑ دے
عالمِ تصویر گرچہ توڑ دے مُہر سکوت
آئینہ حیرت سے مُونہہ ہر اک کا تکنا چھوڑ دے
چھوڑ دے دوران خوں، ہر نس کا دورہ چھوڑ دے
دل دھڑکنا آنکھ کی پتلی تھرکنا چھوڑ دے
بھاپ اٹھنا چھوڑ دے اور ابر گھرنا چھوڑ دے
برق رخشاں کالے بادل میں چمکنا چھوڑ دے
چھوڑ دے ہر مست راہ کوچۂ پیرمغاں
دیدۂ خوباء کا ساغر چھلکنا چھوڑ دے
چھوڑ دے گر مشک بھی ساتھ آہوئے تاتار کا
میں نہیں چھوڑوں گا دامن احمد مختار کا
(مولوی برکت علی لائق لودہانوی، الفضل قادیان 6؍ نومبر 1934صفحہ 2)