اسلامی قانون میں قذف، زنابالرضا یا زنا بالجبرکے ثبوت کا طریق اوراس کی سزا (قسط اوّل)
اسلامی لائق عبرت سزاؤں کا اصل مقصد معاشرہ کا امن اور اصلاح ہے۔تاہم ان سزاؤں کے نفاذ میں سختی کی بجائے نرمی کی نصیحت کی گئی ہے
اسلامی سزاؤں کا فلسفہ
جرم و سزا کےاسلامی قوانین کے بارہ میں پہلا سوال ان کی حکمت و فلسفہ کے متعلق پیدا ہوتا ہے ۔ اس بارہ میں یادرکھنا چاہیے کہ اسلامی لائق عبرت سزاؤں کا اصل مقصد معاشرہ کا امن اور اصلاح ہے۔تاہم ان سزاؤں کے نفاذ میں سختی کی بجائے نرمی کی نصیحت کی گئی ہے۔اسلامی نظریہ کے مطابق اصل محاسبہ قیامت اور یوم جزاسزا کے وقت ہوگا۔رسول کریمﷺنے فرمایاکہ مسلمانوں کو حتی الوسع سزاؤں سے بچاؤ۔اگر مجرم کے لیے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہوتو اس کےلیے راہ خالی چھوڑ دو کیونکہ امام کا معافی میں غلطی کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کا مرتکب ہو۔(ترمذی ابواب الحدود بَابُ مَا جَاءَ فِي دَرْءِ الحُدُودِ)
اسلامی حدود اور ان کی شرائط
اسلام میں محض گناہ ِزنا کی سزا سوکوڑے نہیں بلکہ یہ اس اعلانیہ بدکاری کی سزا ہے جسے کئی لوگوں نے دیکھاہو۔لیکن اگرزنا کاجرم ایسا پوشیدہ ہو کہ نہ توخودملزم اس کا اعتراف کرے،اورنہ ہی اس واقعہ کے چارعادل ،معتبر چشم دید گواہ موجودہوں تواسلامی قانون کے مطابق اس کی کوئی سزانہیں۔ایسے شخص کا محاسبہ خدا کے سپرد ہے۔البتہ چارگواہوں کے ذریعہ یہ جرم ثابت ہونے پریہ سزانافذ ہوگی۔جسے فقہی اصطلاح میں ’’حدّ‘‘کہتے ہیں۔حدود چونکہ اللہ تعالیٰ کی مقررفرمودہ ہیں جن میں زناکی سزا سوکوڑے،قذف (جھوٹاالزام لگانے)کی سزا اسّی کوڑے اور چوری کی سزا ہاتھ کاٹناہے۔اس لیےان سزاؤں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔البتہ جرم زنا جب اورزیادہ بھیانک شکل اختیار کرجائے یعنی زنا کاری کے ساتھ اس کی تشہیر اور اشاعتِ فحشا کا جرم بھی اس میں شامل ہوجائےیا زنابالجبر ہوتو اس کی سزابطورتعزیر سنگساری یاموت بھی ہوسکتی ہے(الاحزاب:61تا62)جس کااختیار ریاست کو ہے کہ وہ حسب حالات جرم کی نوعیت کے مطابق عوام کے جان و مال کی حفاظت اور قیام امن کےلیے ایسے مجرموں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے، جلاوطنی اور موت تک کی سزائیں دے سکتی ہے۔(المائدة:34)تاکہ قومی زندگی کے لیےایسے سخت تباہ کن اورمہلک جرائم کا استیصال ہو۔چنانچہ چوری کی سزاہاتھ کاٹنے کو بھی قرآن شریف میں ’’ نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ‘‘ (المائدة :39) کہہ کر باعث عبرت قرار دیااوربدکاری کی سزا سو کوڑےبھی سبق سکھانے کی خاطر ہے۔اس لیے فرمایا:ایسے مجرموں کی سزا مومنوں کے ایک گروہ کی موجودگی میں دی جائے۔(النور:3)تاکہ زناکا مجرم نشانِ عبرت بن جائے۔
اشاعت فحشاسے بچنے کی خاطر سترپوشی کی تعلیم
اشاعت فحشاایک ایساقومی جرم ہےجس کی سزا موت تک بیان ہوئی ہے۔جبکہ اسلام سترپوشی کی تعلیم دیتا ہے۔رسول کریمﷺ نے ایک طرف مسلمانوں کو معاشرہ میں اخوت و محبت کا ماحول پیدا کرنے کی خاطر غیبت اور بدظنی سے بچنے کا حکم دیا تودوسری طرف ستر پوشی کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی سترپوشی کرے گا۔(بخاری کتاب المظالم بَابٌ: لاَ يَظْلِمُ المُسْلِمُ المُسْلِمَ وَلاَ يُسْلِمُهُ)
حتی کہ جن معاشرتی گناہوں کی سنگین سزائیں حدودکی صورت میں مقرر ہیں اشاعت فحشا سے بچنے ،برائی کی سنگینی اور نیکی کا رعب قائم رکھنے کی خاطر ان کی تشہیر سے منع کرتے ہوئےفرمایا:
حدودیعنی سزاؤں والے جرم خود ایک دوسرے کو معاف کردیا کرو۔جب شکایت مجھ تک پہنچ جائے تو پھر سزا کا قانون (حسب شرائط) لاگو ہوگا۔(سنن نسائی کتاب قطع السارق باب مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لَا يَكُونُ)
اس بارے میں سنت رسولؐ و صحابہ میں امت کےلیے قابل تقلیدنمونہ ہے:
1۔ماعز اسلمی زناکا مرتکب ہوا تورسول کریمﷺنے ان کے مالک حضرت ہزالؓ کوجنہوں نے انہیں اعترافِ جرم پر آمادہ کیا، فرمایا کہ’’ اگر تم اس معاملہ کی پردہ پوشی کرتے تو تمہارے لیے بہتر تھا۔‘‘(سنن ابوداؤد کتاب الحدودبَابٌ فِي السَّتْرِ عَلَى أَهْلِ الْحُدُودِ)
2۔اسلم قبیلہ کےایک شخص کے اعتراف زنا اور توبہ پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے پردے میں چھپے رہنے کی تلقین فرمائی۔(مؤطاامام مالک کتاب الحدود باب الإِقْرَارِ بِالزِّنَا)
3۔ ایک شخص نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکراعتراف گناہ کرکےاپنے اوپر حد جاری کرنے کی درخواست کی۔رسول کریمؐ نے فرمایا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے۔اللہ نے تمہارے گناہ اور حد معاف فرمادی۔ (مسلم کتاب التوبة بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ)
ترمذی اور نسائی کی روایت میں وضاحت ہے کہ اس نےعورت سے محض مخالطت اور ملامست کا ارتکاب کیاتھانہ کہ مباشرت۔حضرت عمرؓ نے اسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیری ستر پوشی فرمائی تھی۔کاش تم بھی اپنی پردہ پوشی کرتے۔(ابوداؤدکتاب الحدودبَابٌ فِي الرَّجُلِ يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ دُونَ الْجِمَاعِ، فَيَتُوبُ قَبْلَ أَنْ يَأْخُذَهُ الْإِمَامُ)
الغرض انسان کے اپنی ذات کے متعلق کسی گناہ کے اقرارواظہارکی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓاپنی نسبت الزام کااظہارواعلان باعث ننگ و عار قرار دیتے ہوئےفرماتے ہیں:’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی طرف اس الزام کی نسبت دیناکہنے والے کے تقویٰ اور اس کی نیکی کا ثبوت ہوتا ہے حالانکہ اپنی نسبت الزام لگانا تو الزام لگانے والے کی وقاحت اور بے شرمی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اس کے تقویٰ اور پاکیزگی پر۔کیا یوسف علیہ السلام پر عزیز مصر کی بیوی نے اپنی ذات کے متعلق الزام نہیں لگایا تھا۔پھر کیا اس سے زلیخا کے تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 264)
تاہم اسلامی سزاؤں کے اصول وقوانین میں ضابطہ کی ایسی پابندی موجود ہے کہ جب تک ایسے جرائم پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتے، مجرم سزا کا مستوجب نہیں ہوسکتا۔
بلاثبوت جھوٹاالزام لگانے کی سزا
قرآن شریف میں جھوٹے اخلاقی الزام لگانے والوں کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَالَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّلَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًاۚ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَاَصۡلَحُوۡا ۚ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (النور:5تا6)یعنی ایسے لوگ جومحصنات یعنی شادی شدہ اور پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں پھر چار معتبر گواہ پیش نہیں کرتے ان کو اسّی کوڑے مارو اور ان کی گواہی قبول نہ کرو۔یہی لوگ نافرمان ہیں سوائے ان کے جواس کے بعد توبہ کرکے اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور باربار رحم کرنے والا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نےاس آیت کے تفسیری ترجمہ میں ’’محصنات‘‘کےمعنے صرف شادی شدہ کی بجائے تمام پاک دامن عورتوں کے کیے کیونکہ ’’محصن‘‘ کے اصل معنی قلعہ بند ہونے کے ہی ہیں۔آپؑ نے تحریرفرمایا:’’جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور اس تہمت کے ثابت کرنے کےلیے چار گواہ نہ لاسکیں تو ان کو اسّی درّے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ آپ ہی بدکار ہیں۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ318)
حضرت مصلح موعودؓ نے’’محصنات‘‘سے صرف پاک دامن عورتیں ہی نہیں،تمام ایسے مرد بھی مراد لیے ہیںجو پاک دامن ہیں۔آپؓ فرماتے ہیں کہ’’فقہاء نے بحث کی ہے کہ گویہاں محصنات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے محصنین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا مگر اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جبکہ مردوں کے ذکر میں عورتیں شامل سمجھی جاتی ہیں تو عورتوں کے ذکر میں مرد کیوں نہ شامل سمجھے جائیں گے۔پس وہ اس آیت کو مردوں اور عورتوں دونوں کےلیے سمجھتے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ261-262)
چنانچہ رسول کریمﷺ نےواقعہ افک میں الزام لگانے والے مردوں(حسان بن ثابتؓ اور مسطح بن اثاثہؓ)،عبداللہ بن ابی سلول اور خاتون(حمنہ بنت جحشؓ)سب کو اسّی کوڑوں کی سزا دے کر اس قانون پر عمل فرمایا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بہتان تراشی کی سنگینی بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’الزام لگانے والے کےلیے خدا تعالیٰ نے اسّی کوڑے سزا رکھی ہے جو زنا کی سزا کے قریب قریب ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ262)
یک طرفہ اعتراف کےباوجود ثبوت نہ ملنے پردوہری سزا
جب کوئی مجرم اپنی بدکاری کا اعتراف کرتے ہوئے کسی دوسرے کو بلاثبوت اس میں ملوّث کرے تو وہ دوہری سزا یعنی حدّزنااور حدّقذف کاسزاوارہوگا۔چنانچہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ کے پاس چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ ایک عورت سے بدکاری کا مرتکب ہوا ہے۔رسول کریمﷺ نے اس شخص کو سو کوڑے کی سزا دی۔پھر آپؐ نے اس سے عورت کے خلاف ثبوت طلب کیا۔ اس عورت نے کہا یارسول اللہﷺ اس نے جھوٹ بولا ہے۔حضورﷺ نے اس عورت کو کوئی سزا نہیں دی البتہ اعتراف گناہ کرنے والے کواپناالزام ثابت نہ کرسکنے پرحد قذف کے طورپرمزیداسّی کوڑے سزادی گئی۔(ابوداؤدکتاب الحدود بَابٌ إِذَا أَقَرَّ الرَّجُلُ بِالزِّنَا، وَلَمْ تُقِرَّ الْمَرْأَةُ)
زنا کے ثبوت کےلیے معیار شہادت
اسلامی قانون کے مطابق کسی معاملہ کے ثبوت کےلیے دو معتبر گواہ مقرر ہیں لیکن زنا کے ثبوت کےلیے چار سچے،عادل،غیرمتنازعہ اور معتبر گواہ ضروری ہیں۔معیار شہادت میں اس سختی کی وجہ دراصل معاشرہ میں برائی کی شناعت اور نیکی کا رعب قائم رکھنا ہے اور یہ پیغام دیناہے کہ جب تک برائی فرد کی حد تک محدود ہے اور اجتماعی امن کو خراب نہیں کرتی تب تک معاشرتی قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔اگر کوئی ایک گواہی بھی مشتبہ ہوتو زنا کی سزا سو کوڑے جاری نہیں کی جاسکتی۔
چنانچہ حضرت مصلح موعودؓنے حضرت عمرؓ کے زمانہ کی ایک مثال سے اسے یوں واضح فرمایا ہے:’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ پرجو بصرہ کے گورنرتھے بدکاری کا الزام لگایا گیا۔حضرت عمرؓ نے گواہی لی تو ایک شخص نے گواہی میں خفیف سی کمزوری دکھائی اور کہا کہ میں نے زنا ایسی صورت میں نہیں دیکھا کہ مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ کے اندر داخل ہو۔اس پر دوسرے تینوں گواہوں کو قذف کی حد لگائی گئی۔(طبری جلد5صفحہ529تا533) اور کسی نے نہ کہا کہ تین گواہ تو موجود ہیں۔چوتھے نے صرف کسی قدر کمزور شہادت دی ہے۔اس لیے کم ازکم الزام لگانے والوں کو کوڑے ہی نہ لگائیں اورملزم کو قسم دے کر پوچھ لیں کہ یہ بات سچ ہے یا نہیں۔مگر اس کو قسم تک نہ دی گئی اور الزام لگانے والوں کو کوڑوں کی سزا کے علاوہ شہادت سے بھی محروم کردیاگیا اور حضرت عمرؓ نے اعلان فرمایا کہ ان لوگوں کی شہادت آئندہ کسی معاملہ میں قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد6صفحہ 265-266)
اعترافِ زنا کی صورت میں باریک بینی سے جانچ پڑتال اورتحقیق کا مسنون طریق
رسول کریمﷺ تو اعتراف زنا کے جرم کے باوجودحد سے بچانے کےلیے باریک بینی سے گہری تحقیق فرماتے تھے۔جس سے استنباط کرتے ہوئے دعویٰ زنابالجبر کی تحقیق بھی اس طرز پر کی جاسکتی ہے۔اس سلسلہ میں ماعز بن مالک کا واقعہ ایک مثال ہے جس نےزنا کا اعتراف کیا تو ابتداءً رسول کریمﷺ تین مرتبہ اس سےاعراض فرماتے رہے۔پھر چوتھی مرتبہ اقرار کے بعد آپ نے پہلے تو اس سے پوچھا کیا تمہیں جنون کی بیماری تو نہیں یعنی کوئی نفسیاتی مسئلہ وغیرہ تو نہیں۔(مسنداحمدجزء22صفحہ353)
مقصودیہ تھاکہ بیان بقائمی ہوش و حواس ہے یا نہیں۔ اس کے واضح انکار کے باوجود رسول کریمﷺ نے مزید تسلی کےلیے اس کے قبیلہ و قوم سے پتہ کروایا کہ اس کی ذہنی حالت کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے علم کے مطابق عقل کے لحاظ سے یہ ہمارے ٹھیک لوگوں میں ہی شمار ہوتا ہے۔( مسلم کتاب الحدودبَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى)
پھر رسول اللہﷺ نے اس سے سوال کیا کہ تم شادی شدہ ہو؟اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اعتراف زنا کی مزید تفتیش کرتے ہوئے آپؐ نےپوچھا کہیں ایسا تو نہیں کہ تم نے صرف بوسہ لیا ہو؟ یا محض عورت کو چھوا ہویا اس کے(جسم کو) دیکھا ہو۔یعنی کہیں ان مبادیات زنا کو تم زناتو نہیں سمجھ رہے۔ جب اس نے بغیر کسی کنایہ و اشارہ کےواضح الفاظ میں مباشرت کا اعتراف کیا تب آپؐ نے اسے سزا دی۔(ابوداؤد کتاب الحدودبَابُ رَجْمِ مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ)
ایک اور روایت کے مطابق آپ نے اس سےیہ بھی پوچھا کہ تم نے شراب تو نہیں پی یعنی نشہ کی حالت میں تو یہ بیان نہیں دے رہے۔اس کے انکار پر ایک شخص نے قریب ہوکر اس کے منہ کی بُو سونگھی تو کوئی بُو نہ تھی۔( مسلم کتاب الحدودبَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى)
پھرحضورؑ نےاس سے واضح الفاظ میں زنا کی بابت پوچھا کہ کیا تم نے اس (عورت)میں دخول کیا تھا؟اس نے اثبات میں جواب دیا۔توآپؐ نے پوچھا کیا اس طرح دخول ہواجس طرح سرمہ دانی میں سلائی اور ڈول کنویں میں ڈالتے ہیں؟اس نےپھر اثبات میں جواب دیا۔
پھر آپﷺ نے فرمایا کیا تمہیں پتہ ہے کہ زنا کیاہوتا ہے؟اس نے کہا ہاں۔میں اس عورت کے پاس اس کی حرام اور ممنوع جگہ سے آیا اوروہ کام کیا جوایک آدمی اپنی بیوی سے جائز طور پر کرتا ہے۔
پھر آپﷺ نے پوچھا کہ تمہارااس اعتراف جرم سے کیا مقصدہے؟ اس نے عرض کیا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کریں۔ چنانچہ وہ آپؐ کے حکم سے رجم کیا گیا۔(ابو داؤد کتاب الحدود بَابُ رَجْمِ مَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ)
ماعزکا یہ واقعہ کسی زنابالجبر کے دعویٰ کی تحقیق و تفتیش کےلیے بہت کافی راہنما ثابت ہوسکتا ہے۔
میاں یا بیوی کےایک دوسرےپرالزام زناکےمتعلق اصولی قانون اور اس پر عملدرآمد
جب کوئی مرد اپنی بیوی کو خود بدکاری کرتے دیکھ لےمگراس کے پاس اپنے علاوہ کوئی اور گواہ نہ ہوں۔تو قرآنی حکم کے مطابق چار گواہوں کی بجائے وہ خود چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر گواہی دےگا کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگروہ جھوٹاہوتواس پر خدا کی لعنت۔بیوی اگر شوہرکی اس شہادت کا انکار کرے تو زنا کی سزا سے بچنے کےلیے اس پر لازم ہے کہ وہ بھی چارمرتبہ اللہ کی قسم کھاکر یہ گواہی دے کہ اس کا شوہر اس پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہوتو اس عورت پر اللہ کا غضب نازل ہو۔(النور : 7تا10)
اگرکوئی خیال کرے کہ اس طرح تو ملزم قسمیں کھا کر دنیوی سزاسےبچ جاتے ہیں توایساناقص قانون کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے؟
اس کے جواب میں یہ یادرہے کہ جھوٹی قسم پر اصرار کرنے والے قہرالٰہی سے بہرحال نہیں بچ سکتے۔چنانچہ جب رسول کریمﷺ کے پاس ایک مسلمان اشعث بن قیس کسی یہودی سے تنازعہ لے کر آئے اوروہ رسول کریمﷺ کے سامنے کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے تو آپؐ نے یہودی سے حلف کا مطالبہ کیا۔اشعث نے کہا یہ تو محض قسم کھا کر میرا مال ہڑپ کرجائے گا۔رسول کریمﷺ نے وہ قرآنی آیت پڑھی جس کے مطابق جو لوگ قسم کو اہمیت نہیں دیتے،ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ روز قیامت ان سے نہ تو کلام کرے گا اور نہ ان پر نظر کرم فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔(آل عمران:78)(ابوداؤدکتاب الایمان والنذوربَابٌ فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا لِأَحَدٍ)
مؤکد بہ لعنت قسم سے ملزم کابری ہونا ایسامسلّم قانون ہے جس کے بعدملزم کے خلاف واضح قرائن زنا مل جانے پر بھی رسول کریمﷺ نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔ درج ذیل واقعات اس کا ثبوت ہیں:
1۔عویمر عجلانی ؓنے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک اور مرد کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کردے اور پھرخود قصاص میں مارا جائے یا وہ کیا کرے؟ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں وحی نازل ہوئی ہے۔ پس جاکر اپنی بیوی کو لے آؤ ۔چنانچہ ان دونوں نے مسجد میں ایک دوسرے پر لعنت ڈالی جس کے بعد عویمر نے کہا کہ یارسول اللہﷺ! اب اگر میں اس بیوی کو اپنے پاس رکھتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں۔چنانچہ اس نے اسے تین طلاق دے کر ہمیشہ کےلیے جداکردیا۔
رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ دیکھنا اگر اس (عورت)کے ہاں سانولے رنگ کا،سیاہ آنکھوں والا،بڑی سرین والا،موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہوتومیرا خیال ہے کہ عویمر نے اس کے بارے میں سچ ہی کہا ۔اور اگر وہ عورت ایسا بچہ جنے جو گہرے سرخ رنگ کا ہو جیسے چھوٹاگرگٹ ہوتا ہے تو پھرمیرا خیال ہے کہ عویمرنے اس بارے میں جھوٹ کہا ہے۔پھراس عورت کے ہاں ویسا ہی بچہ پیدا ہوا جیسا رسول اللہﷺ نے فرمایاتھا اورجس سے عویمر ؓکی سچائی ثابت ہوتی تھی۔اس کے بعد وہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا تھا۔(بخاری کتاب تفسیر القرآن بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ،مسلم کتاب الطلاق بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَيْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ)
اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ لعان کےچندماہ بعدجب ثابت شدہ قرائن سے پتہ چل گیا کہ عویمر کی بیوی نے جھوٹی قسم کھائی تھی پھربھی رسول کریمﷺ نے اسے اور کوئی سزا نہیں دی ۔
2۔حضرت ابن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک دوسرے پر لعنت ڈالنے والے مرد اور عورت کو فرمایا کہ اب تمہارا حساب اللہ کے ذمہ ہے تم میں سے ایک جھوٹا ہے اور مرد کو فرمایا کہ تمہیں اب اس عورت پر کوئی اختیار نہیں۔اس نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میرا مال جو اس کے پاس ہے،اس کا کیا ہوگا؟آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں تمہارا مال نہیں ملے گا اگرتو تمہارا الزام سچا ہے تو وہ مال اس کے عوض ہوگیاجوپہلے تم اس سے تعلق قائم کرچکےہواور اگر تم نے اس پر جھوٹاالزام لگایا ہے تو پھر تیرا اس سے کچھ مال لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔(بخاری کتاب الطلاق بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ: إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ)
3۔اسی طرح ہلال بن امیہؓ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (بدکاری کا) الزام لگایا۔رسول کریمﷺ نےان سےثبوت طلب فرمایا ورنہ الزام لگانے کی حد یعنی اسّی کوڑے کی سزا ہوگی۔اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! جب ہم میں سے کوئی اپنی بیوی پر کسی مرد کو دیکھے توکیا وہ اس وقت ثبوت تلاش کرنے جائے۔رسول کریمﷺ بدستور فرماتے رہے ثبوت دو ورنہ تم پر حد قذف جاری ہو گی۔تب ہلالؓ نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں یقیناً سچا ہوں اور لازماً اللہ تعالیٰ ایسی وحی اتارے گا جو مجھے اس سزاسے بری الذمہ کرے گی پھر جبرئیلؑ اترے اور آپﷺ پر سورة نور کی آیات 7تا10(بابت لعان)نازل ہوئیں۔
چنانچہ ہلالؓ نے اس آیت کے مطابق (چار مرتبہ) گواہی دی کہ وہ سچے ہیں اور نبی کریمﷺ فرماتےرہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔پس کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرتا ہے پھر اس عورت نے کھڑے ہوکر خاوند کے خلاف گواہی دی۔جب وہ پانچویں دفعہ خاوند کے خلاف جھوٹا ہونے اوراس کے سچا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے غضب کی بددعا کرنے لگی تو لوگوں نے اسے روک لیا اور کہا کہ یہ پانچویں قسم (غضبِ الٰہی کو)واجب کرنےوالی ہوگی۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ تب وہ عورت لڑکھڑائی اور پیچھے ہٹی یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ اپنے موقف سے رجوع کرلے گی پھر اس نے یہ کہہ کرکہ میں اپنی قوم کو ہمیشہ کےلیے رسوا نہیں کروں گی، پانچویں قسم بھی کھالی۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس کو دیکھنا اگر اس کے ہاں سرمگیں آنکھوں والا پُرگوشت بھرے سرین والا اورموٹی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہوگا۔ پھر ایسا ہی بچہ پیدا ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جو نازل ہوچکا ہے اگر وہ نہ ہوتا تو میں اس عورت سے نبٹ لیتا۔(یعنی آپؐ نے لعان کے بعد اس کا جرم ثابت ہوجانے کے بعد کوئی سزا نہ دی۔) (بخاری کتاب تفسیرالقرآن بَابُ وَيَدْرَأُ عَنْهَا العَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الكَاذِبِينَ)
قرآنی آیت سے دیگربلاثبوت الزامات کےلیے اصولی راہ نمائی
اس آیت میں شوہر کے اپنی بیوی پر الزام لگانے کی صورت میں جواصول بیان ہوا ہےاسے اصطلاح میں ’’لعان‘‘ کہتے ہیں۔اگر بیوی شوہر پر ایسا الزام لگائے تو اس کا مداوا بھی اسی طریق لعان سےہوگا۔حضرت مسیح موعودؑ نے مردوں یا عورتوں کے ایک دوسرے پردیگربلاثبوت سنگین الزامات کا حل بھی اسی آیت سےاستنباط کیا ہے۔چنانچہ مقدمہ کرم دین جہلمی کے دوران حضورؑنے اسےلعنت سے مؤکد قسم کھانے کی دعوت دیتے ہوئے اپنے لیے بھی حلف کا یہ مضمون منظور کیا کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو جبکہ کرم دین نے ایسی قسم کھانے کو شرعاًناپسند کیا،اس پر حضورؑ نے بلاثبوت پیچیدہ معاملات میں ملزَم فریق سےمؤکدبہ لعنت قسم لینے کے اصول کاذکرکرتے ہوئےفرمایا کہ’’شریعت اسلام میں جب کسی اور ثبوت کا دروازہ بندہویا پیچیدہ ہوتوقسم پر مداررکھا جاتا ہے…ایسا ہی قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے: اَرۡبَعُ شَہٰدٰتٍۭ بِاللّٰہِ ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ۔وَالۡخَامِسَۃُ اَنَّ لَعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ اِنۡ کَانَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ (النور:7تا8)یعنی شخص ملزم چار قسمیں خدا کی کھائے کہ وہ سچا ہےا ور پانچویں قسم میں یہ کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ511تا512)
اسی طرح دوسری جگہ بھی حضورؑ نےاسی اصول لعان کوایسےمردوں عورتوں کےلیے بھی تسلیم فرمایا ہے جن پرمجرم ہونے کا شبہ ہواور ان پر کوئی گواہ نہ ہو۔آپؑ فرماتے ہیں: ’’اسلام میں لعنت اللہ علی الکاذبین کہنا ایک بددُعا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ جو شخص کاذب ہے وہ خدا کی رحمت سے نومید ہو اور اُس کے قہر کے نیچے آجائے۔ اِسی لئے قرآن شریف میں ایسے مَردوں یا ایسی عورتوں کے لئے جن پر مجرم ہونے کا شبہ ہو اور اُن پر اَور کوئی گواہ نہ ہو جس کی گواہی سے سزاد ی جائے۔ ایسی قسم رکھی ہے جو مؤکّد بہ لعنت ہوتا اِس کا نتیجہ وہ ہو جو گواہ کے بیان کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی سزا اور قہر الٰہی۔ منہ‘‘(نزول المسیح صفحہ 75 طبع اول روحانی خزائن جلد 18)
پس حضرت مسیح موعودؑ کے استنباط کےمطابق اس آیت کی روشنی میں کسی بھی قسم کے الزام خواہ وہ عام زنا کا ہو یا زنابالجبر کا ،گواہ نہ ہونے کی صورت میں ملزَم شخص مؤکد بہ لعنت حلفیہ بیان دے کر اس جرم سے دنیوی قانون میں بری ہوسکتا ہے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭
ماشاءاللہ ، بہت علمی تحقیقی اور مدلل مضمون ہے ۔ مولا کریم ہم سب کو اسوہ رسول ﷺ پر حقیقی رنگ میں عمل پیراء ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔