سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے 1922ء کےبعض علمی کارناموں کا تذکرہ
’’وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘
پیش گوئی مصلح موعودؓ کا ایک ایک لفظ اپنی ذات میں عظیم الشان اہمیت کا حامل ہے خدا تعالیٰ نے پیش گوئی مصلح موعودؓ میں فرزند مصلح موعود ؓکی ایک یہ علامت بیان فرمائی کہ’’وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔پیش گوئی کے اس حصہ کے بارے میں آپ کے باون سالہ دَور خلافت کا مکمل احاطہ کرنا تو درکنار خلاصۃً بیان کرنا بھی ناممکن سا ہے ۔ذیل میں صرف 1922ء میں سے چند علمی کارناموں کا مختصر تذکرہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
1922ء میں ارشاد فرمودہ خطبات جمعہ
دوران سال حضور ؓنے 47 خطبات جمعہ ارشاد فرمائے۔ جن میں آپ نے سال نو کے استقبال، نماز،توکل علی اللہ،تربیت،تبلیغ، قرآن کریم ،رمضان،امن، اخوت، توحید،مشکلات،جھوٹ سے نفرت،بنیادی اخلاق،انفاق فی سبیل اللہ،شوریٰ اور جلسہ سالانہ جیسے موضوعات کااحاطہ فرمایا۔
6؍جنوری کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ سال نو کے آغاز کے مختلف انداز ہوا کرتے ہیں ہماری جماعت کا نئے سال کا پروگرام یہ ہونا چاہیے کہ پچھلا سال کیسا گزرا اورآئندہ ہم نے کیا کرنا ہے ۔گذشتہ سال جو خطائیں ہوئیں وہ اس سال نہ ہوں اور آگے کے لیے خدا تعالیٰ سے درخواست کریں کہ وہ ہمیںسیدھا راستہ دکھائے۔
13؍جنوری کا خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے پابندی نماز کے متعلق ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ نماز اور پھر نماز باجماعت میں سست ہیں اگر وہ تین ماہ کے عرصے میں اس سستی کو دور نہ کریں گے تو یا تو وہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت کر دیں کہ نماز باقاعدہ ادا کرنا ان کے لیے نہیں یا پھر ان کا جماعت سے اخراج کردیا جائے گا۔
20؍جنوری کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ نماز باجماعت میں سستی اور احباب جماعت میں آپس میں محبت اور نرمی کی کمی ہے وہ کمی بازاروں میں بھی دیکھی گئی ہے۔اس کو دور کرنے کے بارے میں نصائح فرمائیں اور اپنی کتاب تحفہ شہزادہ ویلز کا ذکر فرمایا ۔
27؍جنوری کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓنے ارشاد فرمایا کہ دنیا کی تربیت کی ذمہ داری ہماری ہے۔اس لیے ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ دین کی صداقت کے دلائل اور فرائض سے آگاہ ہو۔
10؍فروری کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نےفرمایا کہ اسلام کے خدا اور نبی کریمﷺنے ہر قسم کی تفریق کو مٹا دیا ہے۔ یہ زمانہ مساوات کا ہے۔سب اقوام محض شناخت کے لیے ہیں۔حقوق کے لحاظ سے کوئی کسی سے کم نہیں ہے۔
17؍فروری کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نےفرمایا کہ تمام مذاہب کی اشاعت اور باہمی امتیاز دو باتوں پر منحصر ہے۔ایک اندرونی یعنی خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق کیسا ہے۔ دوسرا بیرونی یعنی ان کے اخلاق کیسے ہیں۔
24؍فروری کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ متوکل انسان خدا کے حضور ایسا ہے جیسے بچہ ماں کی گود میں ہو اور وہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھ رہی ہو ۔متوکل ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں ۔دنیا جس بات میں ان کی ہلاکت سمجھتی ہے اسی میں ان کی کامیابی ہوتی ہے۔
3؍مارچ کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ پنجاب میں تبلیغ میں تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے مبلغین کو چاہیے کہ دوسرے آدمیوں کو سکھائیں تاکہ ان علاقوں میں ان سے کام لیں۔ہر ضلع سے آدمی منتخب کیے جائیں اور گاؤں میں لیکچرز ہوں جن علاقوں میں احمدی نہیں گئے ان میں جائیں اور خدا پر توکل اور دعا کریں ۔
17؍مارچ کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھے کہ اشاعت اسلام اسی کا کام ہے کسی اور کا نہیں اور ہر فرد اس کو پورا کرنے میں لگ جائے۔
24؍مارچ کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓنے فرمایا کہ ہماری جماعت پرجو ابتلاآرہے ہیں ان کو صبر اور دعا سے برداشت کرے کیونکہ یہ ابتلا بھی ترقی کا زینہ ہے ۔پہلوں نے ہم سے بہت بڑھ کر ابتلا برداشت کیے تھے اور ایمان کی پختگی کے لیے ابتلا ضروری ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے انعام ملتےہیں۔
14؍اپریل کا خطبہ جمعہ حضورؓ نے کلام الٰہی کی ضرورت و اہمیت کےمتعلق ارشاد فرمایا جس میں سورۃ المومن کے بعض مضامین پر روشنی ڈالی ۔
21؍اپریل کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نےارشاد فرمایا کہ مشاورت کے بہت سے فوائد ہیں اوررسول کریم ﷺ بھی مشورہ لیا کرتے تھے ۔ ہماری جماعت کے افراد کو چاہیے کہ مشورے کے وقت صحیح رائے دیں ۔
28؍اپریل کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے سورۃ البقرۃ کے تئیسویں رکوع کی تلاوت کے بعد رسول کریم ﷺ کی کامیابیوں کا ذکر فرمایا اور آخر پر رمضان کے فضائل و برکات کا تذکرہ فرمایا۔
5؍مئی کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنےگذشتہ خطبہ جمعہ کے مضمون رمضان کی اہمیت و برکات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ احکام الٰہی اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں۔اگر فضل نہ ہوتے تو ان کو بجالانے والوں سے محبت بھی نہ کی جاتی۔اس لیے ان احکام پرخوشی سے عمل کرو یہ تمہاری ہلاکت نہیں بلکہ ایک نعمت ہے۔
12؍مئی کے خطبہ جمعہ میںتقویٰ اور روزوںکے مضمون پر روشنی ڈالی ۔پھر فرمایا کہ نماز اور روزے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے لیے کام کرنے اور بعض کاموں سے رکنے کی مشق ہوتی ہے۔
19؍مئی کا خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود ؓنے روزے کے ذریعہ حصولِ تقویٰ کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔
26؍مئی کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے سورت البقرۃ کی آیت 187کی روشنی میں قرب الٰہی کی راہوں کے متعلق ارشاد فرمایا۔حضورؓ نے فرمایا کہ جب انسان خدا کی طرف جانا چاہے تو اس میں تین تغیر پیدا ہونے ضروری ہیں:اوّل یہ کہ خدا کے متعلق سوال پیدا ہوکہ خدا کو ملوں۔دوم خدا کی تلاش کے لیے محمد مصطفیٰﷺ سے پوچھے۔ سوم اس کی غرض محض خدا کو پانا ہو۔
2؍جون کے خطبہ جمعہ میںحضور ؓنے تبلیغ کی سرگرمیوں کو تیز کرنے اور تقریر کرنے کی مشق کی طرف توجہ دلائی۔
9؍جون کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ جیسے انسان کوئی کام کرتا ہے تو اس کی حفاظت کی تدبیر بھی کرتا ہے ایسے ہی اگر انسان ایمان لائے تو اس کو چاہیے کہ اس کی بھی حفاظت کرے اور ہر مخالف سے بچائے اور مشاہدہ کا مقام حاصل کرے کیونکہ اس کے بعد کوئی خطرہ نہیں۔
16؍جون کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓنے ایمان کو ہر راحت کی کلید قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایمان ایک ایسی ضروری چیز ہے جس میں سے ہر ایک ضروری راحت کی چیز نکل آتی ہے۔پس ایمان حاصل کرو اور اس کو مضبوط کرو۔اگر یہ مل جائے تو کوئی دکھ نہیں رہتا۔
23؍جون کا خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود ؓنے تجارت پیشہ احمدیوں کواسلامی تعلیمات کے مطابق تجارت کرنے کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ میں تو یہ خیال نہیں کرسکتا کہ کوئی احمدی کہلانے والا جان بوجھ کر دھوکا دیتا ہے۔
30؍جون کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ دنیا میں امن ہی ایک بڑی چیز ہے اور اسی کی تلاش ساری دنیا کو ہونی چاہیے۔ہر مسلمان کا فرض ہے کہ امن قائم رکھے ۔ مسلمان کے دو نام ہیں ۔ایک مومن دوسرامسلم۔تیسرا نام ہمیں قرآن کریم سے نہیں معلوم ہوتا۔ان دونوں لفظوں کے یہی معنی ہیں کہ لوگوں کو امن دینے والا ۔مسلم سلامتی سے نکلا ہے اور مومن امن سے۔
7؍جولائی کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓنے فرمایا کہ دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں اور انسان کا فرض ہے کہ وہ مذاہب کی غرض تلاش کرے۔ تمام مذاہب یہی کہتے ہیں کہ خداکو ان کے ذریعہ سے پایا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میںحضرت مسیح موعود ؑنے ہمیں خدا کا پتہ بتایا ہے مگر یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ۔بلکہ اصل خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم اس خدا کو پالیں۔
14؍جولائی کے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے میل ملاپ کے طریق بیان فرمائے ۔مثلاً کسی سے بات کرنےیادوسرے کےگھر جانے کے آداب کا مفصل ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ جماعت کے افراد کو ان تمدنی احکام کو اپنانا چاہیے۔
21؍جولائی کے خطبہ جمعہ میںحضور ؓنے سورۃ الانفال کی آیت 46اور47کی روشنی میں ثبات قدم اور ذکر الٰہی کےذریعہ فلاح حاصل کرنے کے متعلق ارشاد فرمایا۔
28؍جولائی کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے مومنین اور کفار کے باہمی فرق کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مردہ اور زندہ میں کیا فرق ہوتا ہے ۔یہ کہ زندہ ترقی کرتا ہے۔اور مردہ تنزل کرتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ مردےکو اگر کوئی نقصان پہنچائے تو اسے دور نہیں کر سکتا۔لیکن زندہ اپنے نقصان کے علاوہ دوسروں کے نقصانوں کو بھی دور کر سکتا ہے۔ مومن اور کافر میں بھی یہی فرق ہے۔
4؍اگست کا خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے یوم الحج کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ دن بظاہر دنیاوی آسائشوں کی کمی کا منظر پیش کرتا ہے مگر آج کا دن دعاؤں اور ذکر کا دن ہے۔پس چاہیے کہ آج خصوصاً ہمارے دوست دل میں اور زبان سے بھی دعائیں اور ذکر الٰہی کریں ۔
11؍اگست کے خطبہ جمعہ میں حضور ؓنےفرمایا کہ دنیا میں ہر چیزکے موسم ہوتےہیں۔ حضورؓ نے روحانی موسموں کو بیان کرتے ہوئےفرمایا کہ انبیاء اور ان کے قرب کے زمانے میں کثرت سے روحانی ثمر پیدا ہوتے ہیں اور روحانی علوم بھی کثرت اور آسانی سے مل سکتے ہیں۔گو حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ گزر گیا لیکن ابھی آپ کے قرب کا زمانہ ہے۔آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ اور موسم تین سو سال کے زمانے ہیں۔ہر سال ہمیں اس اصل زمانے سے دور لے جارہا ہے۔اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اس زمانے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
18؍اگست کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنےفرمایا کہ قوموں پر مشکلات آتی ہیں اور قومیں ان کا مقابلہ کرتی ہیں۔پھر آپؓ نے فرمایا کہ میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں کو آمادہ کرو کہ خدا کی طرف سے جو آزمائش آئے اس میں پورے اترو ۔پھر آپؓ نے مالی قربانی ،نمازوں میں کمزوری نفاق سے بچنے کے حوالے سے نصیحت فرمائی۔
25؍اگست کا خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے حقیقی موَحد بننے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہر انسان کی کوئی نہ کوئی خواہش ہوتی ہے جس کے پیچھے وہ لگا ہوتا ہے ۔مسلمان کو توحید کے لیے سعی کرنی چاہیے ۔ہر ایک چیز جو خدا کی راہ میں مقدم کی جاتی ہے خواہ وہ کتنی ہی حقیر ہو خدا کی شریک بنائی جاتی ہے۔
یکم ستمبرکے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ ہر چیز ایک زمانہ کے بعد خرابی کا شکار ہوجاتی ہے۔نبی کریمﷺ کے اصحاب کے اعمال ایسے تھے کہ دشمن بھی تعریف کرتے تھے۔مگر آج کے مسلمانوں کی حالت نہایت افسوس ناک ہے۔جھوٹ بولنا ان کا کام بن چکا ہے۔اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس فتنہ سے بچائے۔
8؍ستمبر کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ ساری دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری ہماری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ہر بچے بوڑھے اور عورت نے شامل ہونا ہے اور اپنے اموال سے طاقت بھی دینی ہے۔اللہ ہماری جماعت کو اس کی قوت دے۔
22؍ستمبر کے خطبہ جمعہ میں حضور ؓنے قادیان میں اپنی عدم موجودگی میں دیے جانے والے ایک خطبے میں بیان کیے گئے بعض امور کی وضاحت فرمائی۔
29؍ستمبر کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ اخلاق کو درست کرو ۔یادرکھو کہ جو جماعت اپنی طرف منسوب ہونے والی کسی بدی کو دورکرنے کی کوشش نہیں کرتی اس کا الزام ساری جماعت پر آتا ہے۔تم اس الزام سے اسی وقت بچ سکتے ہو جب تم ان کے ان اخلاق کو ناپسند کرو۔ جو کمزور اخلاق کے ہیں ان کی اصلاح ہو اور ہماری جماعت کو ان کی اصلاح میں زور لگادینا چاہیے۔ اگر ان کی اصلاح نہ ہوتی ہو تو وہ لوگ جدا ہو جائیں گے۔
6؍اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں حضورؓنے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑکے اخلاق ہی مخالفین کے لیے اعجاز تھے۔تم بھی کوشش کرو کہ مخالف تمہارے اخلاق دیکھے تومحسوس کرے۔خوا ہ مانے یا نہ مانے دشمن کی آنکھ پہلے اخلاق کو دیکھتی ہے۔
13؍اکتوبرکے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے ارشاد فرمایا کہ ہر کام میں ہمیشہ دین کو دنیا پرمقدم رکھنا چاہیے۔
20؍اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے فرمایا کہ روحانی ترقی استقامت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔روحانیت کا یہ ایک جزو ہے کہ انسان اعمال میں دوام اختیار کرے۔
27؍اکتوبرکے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے دوام کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے جماعت کے کارکنان کو نصائح فرمائیں۔ فرمایا کہ دین کے کام کبھی ملازمین یا نوکروں سے نہیں ہوتے بلکہ اصحاب سے ہوتے ہیں۔ہمارے کارکن یہ سمجھ لیں کہ وہ ملازم اور نوکر نہیں بلکہ اصحاب ہیں۔ملازم کی خواہش ہوتی ہے کہ مجھے یہ بھی ملے اور وہ بھی ملے۔لیکن صحابہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ہمیں تو اس کا بھی حق نہیں۔ان کا دل غنی ہو جاتا ہے۔اس لیے وہ کسی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے۔
ملازم سے بڑھ کرصحابی کے مقام پر آنے کا موقع حضرت مسیح موعود ؑکے ذریعہ آیاہے۔ نبی کریم ﷺ کو قرآن میں نہایت پیارا خطاب عبداللہ سے کیا گیا ہے اس سے بڑھ کر نعمت کیا ہوسکتی ہے کہ انسان غلام سے نکل کر عبداللہ کا مقام حاصل کرلے۔
3؍نومبر کے خطبہ جمعہ میں حضور ؓنے غیر از جماعت لوگوں سے میل جول کی تلقین فرمائی کہ تم لوگوں سے ملو ان کی ہمدردی کرو مگر اپنے عقائد کو لوگوں کی خوشی کے لیے قربان نہ کرو۔لوگوں سے ملنا ترک کر کے دین کی تبلیغ میں روک نہ بنو۔
10؍نومبر کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے تبلیغ میں سستی نہ ہونے کی نصیحت فرمائی۔فرمایا کہ لوگوں سے مایوس مت ہو اللہ تمہاری تبلیغ میں برکت ڈالے گا ۔
17؍نومبرکے خطبہ جمعہ میں حضور ؓنے ہندوؤں میں تبلیغ کی طرف توجہ دلائی۔حضورؓنے فرمایا کہ ہندوستان میں موجود 7؍کروڑمسلمان انہیں میں سے آیا ہے۔
24؍نومبرکے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے نشر و اشاعت کی دو راہوں کے متعلق بیان کیا کہ ایک راہ یہ ہے کہ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں مختلف جگہوں پرچلے جائیں اور تبلیغ کریں ۔ دوسری راہ یہ ہے کہ چندے کے ذریعہ تبلیغ ہو ۔پہلی صورت پر عمل ہونا مشکل ہےجبکہ دوسری پر عمل ممکن ہے۔پس ہمیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔
یکم دسمبر کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے شفقت علیٰ خلق اللہ کے متعلق ارشاد فرمایا ۔حضورؓ نے فرمایا کہ میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ بنی نوع سے محبت کرو۔یادرکھو کہ عداوت میٹھی چیز نہیں محبت میٹھی چیز ہے ۔
8؍دسمبر کے خطبہ جمعہ میںحضور ؓنےجلسہ سالانہ اور اس کے متعلق ضروری ہدایات دیں۔ مہمانوں کی خدمت کرنے کی نصیحت فرمائی۔ فرمایا کہ استقبال سے لےکر مہمانوں کی رہائش تک تمام ضروری سہولیات کی فراہمی کی کوشش کی جائے۔دکان داروں کو بھی مہمانوں کی خدمت میں حصہ لینا چاہیے۔اور ان کے پاس مہمانوں کے لیے ضروری سامان کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔
15؍دسمبر کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے مہمانوں سے حسن سلوک کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات مہمانوں کی خدمت کرتے وقت ان کی اپنی طبیعت کے خلاف باتیں دیکھنی اور سننی پڑتی ہیں۔دوستوں کو چاہیے کہ ان کی سخت باتوں کو خاطر میں نہ لائیں اور حتی الوسع مہمانوں کو آرام پہنچائیں۔
22؍دسمبر کے خطبہ جمعہ میں حضور ؓنے کارکنان جلسہ اور احباب جماعت قادیان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جلسے کے دنوں میں لوگوں نے مہمانوں کے لیے بہت کم مکان دیے ہیں۔ کارکنان کی طرف سے بھی کمزوری سامنے آئی۔کہیں ہماری کمزوری کے باعث خدا تعالیٰ کے فضل ہم سے چھن نہ جائیں۔
29؍دسمبر کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے جلسہ سالانہ سے واپس جانے والوں کو فرمایا کہ جلسے کے دنوں میں جو حکمت ان کو حاصل ہوئی اس کو ساتھ لےکر جائیں اور دعائیں کرتے ہوئے جائیں ۔اللہ تعالیٰ ہم پر فضل کرے ہمارے عیب دور کرے ۔ آمین
1922ء میں ارشاد فرمودہ خطبات نکاح
سیدناحضرت مصلح موعود ؓنے دوران سال 16؍خطبات نکاح ارشاد فرمائے جن میں حضورؓ نے، نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات قرآنی کی تفسیر،نکاح کےاغراض و مقاصد،اس کی اہمیت،قول سدید کی اہمیت، ولی کے کردار، جیسے موضوعات کا احاطہ فرمایا۔
3؍جنوری کو حضرت مصلح موعود ؓنے خطبہ نکاح ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایمان کی اصلاح کے لیے قول سدید کو ایک بنیاد قرار دیا ہے اور خصوصاً شادی بیاہ کے مواقع پر اس پر عمل کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
6؍جنوری کو حضور ؓنے خطبہ نکاح ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے فرمایا کہ اگر نکاح کے مواقع پر صرف دنیاوی اغراض شہوت کا پورا کرنا یا اولاد حاصل کرنے کو ہی مدنظر رکھ لیا جائے تو بھی امن کسی حد قائم ہو جاتا ہے مگر اگر نکاح کا کوئی بھی مقصد مدنظر نہیں رکھا جائے گا تو لازماًامن خراب ہوگا۔
7؍جنوری کو حضرت مصلح موعود ؓنےخطبہ نکاح ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے فرمایا کہ نکاح کی جو غرض ہے جس کی طرف ہمیشہ توجہ دلائی جاتی ہے وہ تقویٰ ہے ۔مومن اور غیر مومن میں یہ فرق ہے کہ مومن کل سے پہلے سوچے اور غیر مومن بعد میں سوچتا ہے۔ اس لیے مومن کو چاہیے کہ ہر معاملے میں پہلے غور کرلے۔
12؍جنوری کو حضور ؓنے تعلقات میں ترقی یا بگاڑ میں رقابت کے کردار کے متعلق خطبہ نکاح ارشاد فرمایا جس میں فرمایا کہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کے افعال کو کریدنے لگتے ہیں تو اسی رقابت کی وجہ سے جھگڑا ہوتا ہے ۔بعض اوقات رقابت مفید بھی ہوتی ہے ۔مثلاً اگر یہی خیال رہے کہ غیر دیکھ رہا ہے تو اصلاح کاموجب ہوجاتا ہے اور عیب سے دوری محبت پیدا کرنے والی بھی ہوجاتی ہے۔ نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں ایک آیت اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ہے ۔انسان کو چاہیے کہ تجسس میں نہ پڑا رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے خوف کو دل میں رکھ کر اپنی اصلاح کرے تو پھر کسی قسم کے جھگڑے پیدا نہیں ہوںگے۔
25؍جنوری کو حضور ؓنے خطبہ نکاح ارشاد فرمایا جس میں فرمایا کہ انسان خدا کی قدرتوں کا روزانہ مشاہدہ کرتا ہے۔ انبیاء کی زندگی خدا کی قدرت کا سب سے بڑا نشان ہوا کرتی ہے۔کس طرح خدا ان کے حالات کو ظاہری کمزوریوں کے باوجود بھی بدل دیتا ہے۔پس نکاح کے مواقع بھی ایسے ہی ہیں جس میں نکاح ہونے، پھر اولاد ہونے پھر اولاد کی پرورش کرنے غرض بہت سی فکریں ہوتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ۔پس مسلمانو! گھبراتے کیوں ہو خدا نے آدم کو بیوی دی، اولاد دی ۔ جو خدا آدم کے لیے سب کچھ کرسکتا ہے،تم اگرمتقی ہوتوتمہارے لیے بھی سب کردے گا۔
8؍فروری کو حضرت مصلح موعود ؓنےخطبہ نکاح ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے فرمایا کہ عام طور پر جو نکاح کے مواقع پر نصائح کی جاتی ہیں وہ لڑکے اور لڑکی اور اس کے خاندان والوں کے لیے ہوتی ہیں مگر عام طور پر وہ یہاں موجود نہیں ہوتے اور برکت کے لیے کسی نمائندہ کو مقرر کرتے ہیں تاکہ ان کو قادیان کی برکت مل سکے وہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ قادیان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔
9؍فروری کو حضرت مصلح موعود ؓنے ولی کے لڑکی کے مفادکی حفاظت میں کردار کے حوالے سے خطبہ نکاح ارشاد فرمایا کہ ہمارے ملک میں رواج ہے کہ وکیل پیسے لےکر فریق ثانی کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔شریعت نے لڑکی کی رضا کے ساتھ اس کے ولی کی شرط اس لیے رکھی تاکہ لڑکی کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے جو ولی اس کو مد نظر نہیں رکھے گا وہ شریر ہوگا اور جو لڑکی کا رشتہ اس لیے دیتا ہے کہ وہ ہمیں رشتہ دے رہے ہیں تو یہ سخت برا کام ہے۔اس کو بٹا کہتے ہیں ۔ہماری جماعت میں سے ابھی تک یہ رسم نہیں مٹی۔جب تک لوگ اپنے فرض کو نہ پہچانیں گے یہ رسم نہیں مٹے گی۔
18؍فروری کو حضور ؓنے صداقت پر قائم رہنے کے خوش گوار نتیجہ کے متعلق خطبہ نکاح ارشاد فرمایا ۔فرمایا کہ ایک احمدی میاں نظام الدین کا رشتہ طے تھا۔ لڑکی والوں نےان سے پوچھا کیا تم احمدی ہو؟انہوں نے جواب دیا ہاں۔تو لڑکی والوں نے رشتہ ختم کردیا۔چنانچہ قرآن کریم کی اس آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ۔(الاحزاب:71تا72)پرعمل کرنے کی برکت سے دو دن میں ان کے رشتہ کا انتظام ہوگیا۔
25؍اپریل کو حضرت مصلح موعود ؓنے حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ’’زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے‘‘ پر خطبہ نکاح ارشاد فرمایا ۔فرمایا کہ انسان دنیاوی فیشن کے پیچھے ہے جبکہ زندگی کا اصل فن اور فیشن کا معیار تو انبیاء، رسل ، اولیاء اور صلحاء کی حیات ہے۔ان پر نظر کرنی چاہیے جو ان کو چھوڑتا ہے دکھ اٹھاتا ہے۔
26؍اپریل کو حضور ؓنے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ لوگ عام طور پر نکاح کی اہمیت کو مدنظر نہیں رکھتے جبکہ تمام رشتوں، ماں ، باپ ، بہن بھائی غرض ہر رشتہ کی بنیاد نکاح ہے۔اس لیے انسان کی زندگی اگر پرامن ہوسکتی ہے تو نکاح سے ہوسکتی ہے۔
21؍جولائی کو حضرت مصلح موعود ؓنے خطبہ نکاح ارشاد فرمایا کہ نکاح کی اصل غرض یا مقصد انسان میں تقویٰ پیدا ہوناہے۔اس نکاح کے نتیجے میں جو اولاد ہو وہ بھی تقویٰ کو فروغ دینےوالی ہو گی۔
29؍جولائی کو حضورؓ نےخطبہ نکاح میں فرمایا کہ انسان کی زندگی ماضی، حال اور مستقبل پر مشتمل ہوتی ہے۔نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں خدا تعالیٰ نے انہی تین زمانوں کا تذکرہ کیا ہے کہ تینوں حالتوں میں تقویٰ مدنظر ہو۔
21؍اکتوبر کو حضرت مصلح موعود ؓنے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ دنیا کے حالات کی وجہ نکاح ہے جیسا کہ ڈاکو کی وفات اس کے گھر والوں کے لیے دکھ اور ملک کے باقی لوگوں کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے اسی طرح شادی ایک انسان کے دل میں اَور احساس پیدا کرتی ہے اور دوسرے کے دل میں اَور۔مگر انسان کو چاہیے کہ شادی کے معاملات میں دین کو ہمیشہ مدنظر رکھے۔
24؍اکتوبر کو حضور ؓنے خطبہ نکاح میں ارشاد فرمایا کہ خطبہ نکاح کی مسنون عبارت یوں ہے الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ و نستغفرہ گویا مختصر مگر بہت سے مضامین نکلتے ہیں۔نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات کے بہت سے مطالب نکلتے ہیں مگر ان سب کا خلاصہ یہی ہے کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔
22؍دسمبر کو حضرت مصلح موعود ؓنے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ میرے نکاح پڑھانے کا باعث بابو عبدالرحیم صاحب ہیں۔ انہوں نےاچھا نمونہ دکھایا اور جماعت بغداد کو سنبھالنے میں بہت کوشش کی۔احباب کو چاہیے کہ وہ اس کے اخلاص اور حوصلہ کے لیے دعا کریں۔
29؍دسمبر کو حضور ؓنے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ میںنے نکاحوں کا پڑھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ایسے واقعات پیش آئے کہ مجھے گواہ کے طور پر عدالت بلائے جانے کا اندیشہ تھاجس سے دینی کاموں میں حرج ہوتا ہے۔مگر ان نکاحوں میں سے ایک نکاح میاں چراغ دین صاحب کے خاندان میں سے ہے جنہوں نے مسیح موعود ؑکا دامن پکڑا اور پھر کبھی نہیں چھوڑا ۔اس وجہ سے اس نکاح کا اعلان کررہا ہوں ۔
1922ءمیں بیان فرمودہ خطبہ عید الفطر
29؍مئی کوحضرت مصلح موعودؓنے خطبہ عید الفطر ارشاد فرمایا ۔فرمایا عید اپنے اندر سبق رکھتی ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتوں سے عبرت حاصل کرے اور تبدیلی پیدا کرے تو حقیقی عید آجائے گی۔ جب تک دل خوش نہ ہو عید نہیں ہوتی۔ عید دل کی خوشی کا نام ہے۔ عید سے سبق حاصل کرو جو نیک کام کَل کیے تھے آج بھی کرو اور ان کو جاری رکھو۔ پھر حضورؓ نے سستیوں کو دور کر کے دین کی خدمت کے لیے کھڑے ہونے کی طرف توجہ دلائی ۔ اپنی خوشیوں میں اپنے بھائیوں کو بھی شامل کرنے کی توجہ دلائی ۔دعا کرنے سے پہلے سورت فاتحہ اور پھر درود شریف پڑھنے اور شوال کے مہینہ میں عید کے بعد چھ روزے رکھنے کی طرف توجہ دلائی۔
1922ء میں بیان فرمودہ خطبہ عید الاضحی
5؍اگست کوحضور ؓنے خطبہ عید الاضحی ارشاد فرمایا جس میں بیان فرمایا کہ بالعموم رسول کریم ﷺ عید کے خطبوں میں اللہ کی تسبیح و تحمید اور روز قیامت کے بارے میں بیان فرمایا کرتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ روز عید کو روز محشر سے ایک نسبت ہے کیونکہ اس دن سبھی لوگ شامل ہوں گے اور عید پر بھی تمام افراد، مرد و عورت ،بچے وبوڑھے آتے ہیں اور جیسے کسی میلے یا جلسے میں جانے سے قبل خوشبو لگاتے ہیںتاکہ اچھے لگیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کو اس دن توجہ دلائی جاتی ہے کہ لوگ اس سفر اور اگلے جہاں کے لیے بھی تیاری کریں تاکہ وہ روز محشر خوبصورت نظر آئیں۔بعد ازاں آپؓ نے فلسفہ قربانی اور قربانی کے مسائل پر مختصر مگر جامع انداز میں گفتگو فرمائی۔
خطابات برموقع جلسہ سالانہ قادیان1922ء
27؍دسمبر حضور ؓنے اپنےخطاب میں سب سے پہلے مجلس مشاورت میں شمولیت اور مشورےکی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ کسی سستی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک غلط خیال کی وجہ سے مشاورت میں شامل نہیں ہوتے کہ جب ہم ایک ہاتھ پر بِک چکے ہیں تو پھر ہمیں کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ جس طرح ہمیں کہا جائے گا ہم کریں گے ۔فرمایا کہ یہ ٹھیک ہے مگر مشورہ دینے کا حکم بھی تو اسی کی طرف سے ہے جس کے ہاتھ پر تم بِک چکے ہو۔اس لیے جب مشورے کے لیے بلایا جائے تو مشورہ دو اور مشاورت میں ہر قسم کی قربانی کر کے شامل ہو۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی خلافت نہیں کہ جس میں مشورہ نہ ہو۔فرمایا کہ میں مشورہ لیتا ہو اس کی قدر بھی کرتا ہوں اس کے بہت سے فوائد ہیں۔
اس کے بعد حضور ؓنے نفس انسانی کو پاک کرنے اور روحانی بیماریوں سے تحفظ کے لیے دو بنیادی امور بیان فرمائے کہ گناہوں سے کیسے بچا جائے اور روحانیت پر اثر ڈالنے والے نیک اعمال کیے جائیں۔اس ضمن میں حضورؓ نے تین روحانی بیماریوںکا ذکر فرمایا:اوّل وہ روحانی بیماریاں جن کا تعلق انسان کی ذات سے ہے۔دوم وہ روحانی بیماریاں جو دوسروں پر اثر ڈالنے والی ہیں۔سوم اللہ کے متعلق معاصی۔ان روحانی بیماریوں کے مقابل تین قسم کی نیکیاں ہیں۔اوّل ذاتی نیکیاں۔ دوم بنی نوع سے تعلق رکھنے والی نیکیاں۔سوم اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی نیکیاں۔غرض حضورؓ نے اپنی اس تقریر میں نفس انسانی کو آلائشوں سے پاک اور روحانی بیماریوں سے بچانے کے متعلق تمام امور کا مفصل ذکر فرمادیا۔ آپؓ نے اپنے خطاب کے آخر میں کارکنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’لوگوں سے اخلاق اور نرمی سے پیش آؤ، ہمارے پاس حکومت نہیں، ہمیں جو کچھ ملا ہے حضرت مسیح موعود ؑسے ملا ہے اور آپؑ فرماتے ہیں:
منہ از بہرما کرسی کہ ماموریم خدمت را
جب حضرت مسیح موعودؑ یہ فرماتے ہیں تو ہمیں بھی اپنےآپ کو لوگوں کا خادم ہی سمجھنا چاہیے۔پس افسروں کو چاہیے کہ ان کا نفس مومنانہ ہو۔میں نے ان کو لوگوں کی خدمت کے لیے مقرر کیا ہے۔اس لیے انہیں اپنے بھائیوں کےمعاملات پیار اور محبت سے سلجھانے چاہئیںاوراخلاق برتنے چاہئیں۔اور دوسروں کو چاہیے کہ اپنے کارکن بھائیوں پر بد ظنی نہ کریں اور انہیں انتظام قائم کرنے میں مدد دیں۔‘‘
حضور ؓکے جلسہ سالانہ کے خطابات کو کتابی صورت میں انوارالعلوم جلد 7 میں شامل کیا گیا ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓنے 28؍دسمبر1922ءکوجلسہ سالانہ قادیان کے آخری روز جو اختتامی خطاب فرمایا اس میں حضورؓ نے مسئلہ نجات پر روشنی ڈالی اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بصیرت افروز انداز میں بیان فرمایا۔
حضور ؓکا یہ خطاب ’’نجات‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں انوارالعلوم جلد 7 میں شامل ہے۔
اس خطاب میں حضورؓ نے فرمایا کہ نجات فطرت انسانی میں داخل ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں میں اس کا تصور کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے۔ان تصورات کے مقابل پر اسلام کا ’’تصور فلاح‘‘یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے ملے ۔اس غرض کو حاصل کرلینا ہی فلاح ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حضور ؓنے نجات کی سات اقسام کا ذکر بھی فرمایا اور نجات حاصل کرنے والوں کی گیارہ علامات کو بھی بیان فرمایا۔آخر پر حضورؓ نے نجات کے حوالے سے بعض اعتراضات کے جوابات بھی دیے اور ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کا رد بھی فرمایا۔
1922ء میں تصنیف کردہ کتب
٭…’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘
برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ ویلز ( جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم کہلائے اور 1936ءمیں چرچ آف انگلینڈ سے اختلاف کر کے تخت سے دستبردار ہوگئے اور ڈیوک آف ونڈسر کہلائے۔)دسمبر1921ء میں ہندوستان کے دورے پرآئے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے ان کی ہندوستان آمد کے وقت’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کو جماعت کے ایک وفد نے 27؍فروری1922ء کو گورنمنٹ آف پنجاب کے توسط سے پرنس آف ویلز کی خدمت میں ایک ایڈریس کے ساتھ ایک بے نظیر تحفے کی صورت میں پیش کیا۔
حضرت مصلح موعوؓد نے اس مختصر عالمانہ تصنیف میں حکومت وقت سے وفاداری کے اظہار کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ بانی سلسلہ کے مختصر حالات، سلسلہ احمدیہ کی تعلیم ، تاریخ اور اس کے قیام کی غرض بیان فرمائی۔آخر میں سنت رسول ﷺپر عمل پیرا ہوتے ہوئے برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک اسلام کا پیغام نہایت مؤثر رنگ میں پہنچاکر اسے اسلام کی طرف دعوت دی ہے ۔
شہزادہ ویلز نے حضور ؓکی طرف سے پیش کیے گئے اس تحفہ کو قبول کیا اور اپنے چیف سیکرٹری کے ذریعہ اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔
٭…’’دعوت علماء‘‘
مارچ 1922ءمیں قادیان کے غیر احمدیوں نے اپنا جلسہ منعقد کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اس جلسے پر آنے والے غیر از جماعت علماء کو تحقیق حق اور تبادلہ خیالات کے لیے ’’دعوت علماء ‘‘کے عنوان سے 25؍مارچ کو ایک خصوصی پیغام تحریر فرمایا۔
حضورؓ نے فرمایا کہ چونکہ ہمارا اختلاف دنیاوی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے لہٰذا اس اختلاف کو اسی رنگ میں مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے منشاء کے مطابق ہو ۔
حضور ؓنے علماء کو یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے باہم فیصلے کے درج ذیل تین طریق پیش فرمائے:
اوّل یہ کہ یہ علماء حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود ؑکے دعویٰ کو منہاج نبوت پرپر کھیں اور غور کریں کہ کیا جھوٹے دعوےداروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہوا کرتا ہے؟ کیا جھوٹے لوگ اسلام کی اسی طرح خدمت کیا کرتے ہیں جس طرح آپؑ نے کی ہے۔
علاوہ ازیں مدعی نبوت کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی اور اس کا کثرت سے غیب کی خبروں پر اطلاع پانا اور افتراء کرنے والے کا ناکام ہونا۔ ان تمام امور پر قرآنی معیار کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کی تحقیق کریں اور اگر اس طریق پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر حق کھول دےگا۔
دوسرا طریق حضورؓ نے یہ بیان فرمایا کہ اگر اس مندرجہ بالا طریق سے تسلی و تشفی نہ ہوتو پھر ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں ایک نمائندہ ان علماء کی طرف سے ہو اور ایک احمدیوں کی طرف سے ہو اور اختلافی مسائل پر تبادلہ خیال ہو جس کا اصل مقصد صرف مباحثہ و مناظرہ نہیں بلکہ حق کی تلاش ہو۔
تیسرا طریق یہ ہے کہ اگر یہ مندرجہ بالا صورت فیصلہ بھی منظور نہ ہو تو قرآن کریم کے حکم کے مطابق مباہلہ کرلیا جائے۔ تاکہ ان لوگوں کو جو قوت فیصلہ نہیں رکھتے فیصلہ کرنے میں مدد ملے۔
٭…٭…٭