’’لجنہ اماء اللہ‘‘: حضرت مصلح موعودؓ کی اولوالعزمی کا منہ بولتا ثبوت (قسط اوّل)
درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے
دنیا میں پاکیزگی قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء اور خلفاء مقرر فرماتا ہےجن کی محبت اور پیروی سے ہی انسانی نفس کی اصلاح ممکن ہے کیونکہ خلیفۃ اللہ سے سچے تعلق کی بدولت انسان کی پرانی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی روحانی زندگی اس کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ گناہوں کی آلائش سے پاک و صاف ہو کر نیکیوں کے مجسمے بن جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے روحانیت کے اعلیٰ مدارج پر جا پہنچتے ہیں۔
تاریخ احمدیت ایسی روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ خلافت سے وابستگی نے اس میں شامل ہونے والوں کی زندگیوں میں عظیم روحانی انقلاب برپا کر دیا۔روحانی دنیا کے نظام میں تمثیلی طور پر ایک مومن کو پھلدار درخت بھی قرار دیا گیا ہے اور مذہب کو باغ سے مماثلت دی گئی ہے۔ ایک مومن ہمیشہ ا س جستجو میں رہتا ہے کہ اس کے عمل اسلامی تعلیم کےعین مطابق ہوں۔قرآن کریم میں ایسے مومن کو شجرہ طیبہ کہا گیا ہے اور کلمہ طیبہ سے ایک مراد وہ مومن بھی لیے جاتے ہیں جن کی زبانیں پاک اور ان کے اعمال ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آتے اور درجہ مقبولیت پاتے ہیں۔یہی وہ خوش نصیب ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے درخت وجود کی سر سبز شاخیں، قراردیا ہے۔ یہاں آپؑ نے ٹہنی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ شاخ کا لفظ استعمال فرمایا جو زندہ رہتی ہے اور اصل یعنی جڑسے جُڑی رہ کر خوراک لیتی، سر سبز رہتی اور پھل دیتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:…اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ۔ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا…۔(ابراھیم:25تا26)
حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یعنی اس میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اس کی اعلیٰ تعلیم کے مظہر ہوں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 474)
اور اسی بات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’اس درخت کو اس کے پھلوں سے اور اس نیر کو اس کی روشنی سے شناخت کرو گے۔‘‘(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ44)
کسی نے کیا خوب کہا کہ اچھا انسان وہ ہے جس کا کردار اس کےا چھے ہونے کی گواہی دے۔بہترین انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے۔انسان کے عمل یا اس کے فعل سے اس کی شخصیت کی ایک تصویر بنتی یا ابھرتی ہےجس سے وہ جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔
اسی مضمون کو ایک شاعرہ نے یوں ڈھالا ہے:
ہم شاخیں درخت وجود کی ہیں، سر پر ہے خلافت کا سایہ
افسوس ہے اُن کی حالت پر جو تپتی دھوپ میں جلتے ہیں
ہم بندھ گئے ایسے رشتے میں جو سب رشتوں سے پیارا ہے
دنیا میں جہاں بھی احمدی ہیں سب اپنے اپنے لگتے ہیں
جب تک تم میں خلافت رہے گی دُنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی
اسی انعام سے وابستگی کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’پس اے مومنوں کی جماعت! اوراے عملِ صالح کرنے والو ! مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدر کرو جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا۔… پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دُعاؤں میں مشغول رہو۔ اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دُنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی اور ہر میدان میں تم مظفر ومنصور رہو گے۔‘‘(انوارالعلوم،جلد15صفحہ593)
خلافت احمدیہ کی 114سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بلاشبہ خلافت خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہواپوداہےاوریہ ننھا پودا اب خدا تعالیٰ کے فضل سےایک مضبوط اور تناوردرخت کا روپ دھار چکا ہے۔اس کی باثمر شاخیں اکناف عالم میں پھیل چکی ہیں۔الحمدللہ!
صرف یہی نہیں خلافت کے اس انعام کے منادی امام آخرالزماں ؑکو ایک پُر شوکت پیشگوئی میں ایک عظیم الشان بیٹے کی ولادت کی خبر بھی دی گئی تھی۔ یہ کوئی عام اولاد کا وعدہ نہیں تھا بلکہ اس میں خدائے بزرگ وبرتر نے موعود بیٹے کی خبر دی تھی جو اس کے روحانی کمالات کی نظیر ومثیل ہو گا۔ جس نے تمام احیائے عالم میں اپنی زندگی میں ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک ایک بلند نام اور وسعت پذیر کام اپنے پیچھے چھوڑنے تھے۔ جس نے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو زمین کے کناروں تک پہنچانا تھا۔ جو اپنے اندر آنے والے وجود کی کئی خوبیاں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کئی تاثرات رکھتی تھی۔کہیں تو اس وجود کی ذات بابرکات کے متعلق یہ منادی تھی کہ ’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘اور کہیں اس کی ذہانت اور فہم کا اعلان کرتے ہوئے یہ خبر دی جارہی تھی کہ وہ ’’علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔‘‘گویا اس فرزند دلبند گرامی ارجمند کا آنا کوئی معمولی نہ تھا بلکہ اس کا نزول بہت مبارک ہونا تھا اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہونا تھاگویا وہ نور کی آمد تھی۔یہ وہی وجود تھا جس کی بدولت خلافت کو نہ صرف استحکام عطا ہوا بلکہ اس کی قیادت میں ترقیات کا وہ باب رقم ہوا جس کی چمک اور روشنی سے تاریخ احمدیت کے صفحات جگمگا رہے ہیں۔
خدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اوراُس کی تائید کےلیے ایک عظیم الشّان بنیاد قائم کردے گا
اس بارے میں خود حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’… تم مت سمجھو کہ اِس وقت میں بول رہا ہوں۔ اِس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہاہے…خدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اوراُس کی تائید کےلئے ایک عظیم الشّان بنیاد قائم کردے گا۔ میں ایک انسان ہوں میں آج بھی مَر سکتا ہوں اور کل بھی مَر سکتا ہوں لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں اِس مقصد میں ناکام رہوں جس کے لئے خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے۔‘‘(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد 17صفحہ 232تا233)
آپؓ نے اپنی فہم و فراست اور دور اندیشی سے جماعت کےمرد و زن اور بچوں کے لیے ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جس نے اخلاقی، روحانی، اور تعلیمی ترقی کے لیے لائحہ عمل دے کرجماعت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔آج خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ خلافت کی چھاؤں تلے کام کر رہے ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خدام جوش اور امنگ کی علامت ہیں اور قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اور انصار حکمت اور تجربہ کے مظہر ہیں۔ اسی طرح لجنہ سلیقہ اور ترتیب کی نمائندہ ہے۔ اور ان چاروں تنظیموں کے درمیان مسابقت کی ایک دوڑ جاری ہے جو جماعت کو اعلیٰ ترقیات سے نوازتے ہوئے مسلسل آگے بڑھائے جا رہی ہے۔
احمدی مستورات کے لیے لجنہ اماء اللہ کا قیام وہ عظیم الشان اور بے مثال کارنامہ ہے جس کا مقصد عورتوں کی مذہبی،اخلاقی اور مادی و روحانی حالت کا جائزہ لے کر اسے بہتر کرنا تھا۔کیونکہ عورتیں کسی بھی معاشرے کا وہ اہم جز ہیں جن کے بغیر معاشرے کی تصویر کشی کرنا ممکن نہیں۔اسی بات کا اظہار شاعروں نے کچھ اس رنگ میں کیا
’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
اور اس بات میں کوئی مبالغہ بھی نہیں کیونکہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ لہٰذا دنیا میں انسانی زندگی کا انحصارجس قدر مردوں پر ہے اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے۔عورت ہی ہے جس کو خدا تعالیٰ نے خلقت جیسا اہم فریضہ سونپا ہے۔ تربیت اولاد و نگہداشت کا اہم کام بھی عورت کے ہی سپرد ہے اور اس بات کو دور جدید کے مفکرین اور معاشرتی راہنمائوں نے بھی تسلیم کیا ہے تبھی تو نپولین کا یہ قول تمام دنیا میں مشہور و معروف ہے کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
حضرت مصلح موعود ؓکے لا تعداد احسانات میں سے ایک احسان عظیم عورتوں میں دینی و دنیاوی استعداوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کردار ،مضبوط تشخص ، عظیم الشان اور فقیدالمثال جذبہ خدمت پیدا کرنا ہے۔
مضمون ہذا میں خاکسار کی کوشش ہوگی کہ اسی نظام کے تحت کام کرنے والی تنظیم’’لجنہ اماء اللہ ‘‘کی ترقی اور کردار کو بیان کر سکوں۔اور ان اغراض و مقاصد کا ایک جائزہ پیش کر سکوں جو اس کے قیام کے وقت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے پیش نظر تھے۔اسی بات کوایک شاعر نے کچھ یوں بیان کیا:
عابدؔ ہے دعا میری محمود کے مقصد کو
دنیا میں ملے جلدی اک نصرتِ شاہانہ
لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کے قیام کے اغراض و مقاصد
اسی نصرت شاہانہ کا حصول تھا جس کے لیے آپؓ نے اپنے دَورخلافت کےابتدائی سالوں میں خواتین کی ایک تنظیم قائم کرنے کا ارادہ فرما لیا تھاتا کہ خواتین اپنی تنظیم کے لائحہ عمل کی پیروی کرتے ہوئے اعلیٰ کردار کی حامل ہوں اور دینی و دنیاوی تعلیمات سے آراستہ ہو کر اولاد کی بہتر رنگ میں پرورش کر سکیں تا احمدیت کا مستقبل روشن اور تابناک ہو۔
حضرت مصلح موعودؓ اس تنظیم کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’ہماری پیدائش کی جو غرض و غائیت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہماری زندگی کس طرح صَرف ہونی چاہئے جس سے ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں الله تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوسکیں۔ …پس علاوہ اپنی روحانی علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔ ان امور کو مدنظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کوتسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں۔‘‘(الازھار لذوات الخمار یعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھول،حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ،حصہ اوّل صفحہ 52)
15؍دسمبر 1922ء کو آپؓ نےایک مضمون تحریر فرمایاجس کی اوّلین مخاطب قادیان کی مستورات تھیں لیکن در حقیقت یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیادی دستاویز تھی۔ اس مضمون کے حرف حرف سے خدمت اسلام کا توانا عزم و حوصلہ جھلکتا ہے۔ جس میں آپؓ نے مستوارت کو ایک لائحہ عمل دیا۔اس مقصد کے حصول کے لیے سترہ ضروری اموراس اولوالعزم ہستی نے تجویز فرمائے۔ ان میں علم حاصل کرنا اور دوسروں تک علم پہنچانا، اسلام کی حقیقی تعلیمات جاننا اور ان پر عمل کرنا، جماعت میں اتفاق اور وحدت کی روح قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہنا، اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی ہمہ وقت سعی کرنا،بچوں میں خدا اور رسولِ خدا ﷺ، حضرت مسیحِ موعودؑ اور خلفائے کرام کی محبت پیدا کرنا، خلافت کی اطاعت کا درس دینا اور سب سے اہم یہ دعا کرنا کہ ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں خالقِ حقیقی نے مد نظر رکھے ہیں۔آخر میں آپؓ نے لکھا تھا کہ جو اس تحریک کے مندرجات سے متفق ہیں وہ دستخط کردیں۔اس پر چودہ خواتین نے دستخط کیے پہلا نام یہ تھا ’حضرت ام المومنین ام محمود نصرت جہاں بیگم ‘، یہ دستخط کنندگان حضور ؓکے ارشاد پر 25؍دسمبر 1922ءکو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓنے بھی خطاب فرمایا اوراس میں لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ تنظیم کا نام لجنہ اماءِ اللہ،اللہ کی لونڈیوں کی انجمن تجویز فرمایا۔آپؓ نے لجنہ کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیے اور نصیحتیں کیں۔حضرت اماں جان ؓ لجنہ کی پہلی پریذیڈنٹ منتخب ہوئیں۔ منتخب ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسیٔ صدارت پر بٹھا دیا۔(الفضل 8؍فروری 1923ء۔تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ اول صفحہ66تا72)
ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اُٹھتی ہے، خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے
حضرت مصلح موعودؓکے خطاب کے ساتھ ہی لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور خوا تین مبارکہ کی مقدس قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے سفر پر روانہ ہوا اور ایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کر گیا۔ حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں احمدی خواتین نے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اور دینی تعلیم و تربیت میں پرورش پانے کے لیے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اوّل کی مجاہدات ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ان اعلیٰ خدمات کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا کہ احمدی عورتوں کی تنظیم اصلاحِ معاشرہ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔لجنہ کے کاموں کے اعتراف میں اخبار ’’تنظیم‘‘ سے مولوی عبد المجید صاحب قریشی کی ایک تحریر درج ہے جس کا عنوان ’’لجنہ اماء اللہ‘‘ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:’’لجنہ اماء اللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے۔ اس انجمن کے ما تحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں۔ اور اس طرح ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اُ ٹھتی ہے۔ خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے۔ اس انجمن نے تمام احمدیہ خواتین کو سلسلے کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے۔ عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے۔ عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔’’لجنہ اماء اللہ‘‘ کی جس قدر کار گزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُرجوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو ہمیشہ تا زہ دم رکھیں گی جس کا مرورِ زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سر سبزی سے محروم ہونا لازمی ہے۔ کیا غیر احمدی مسلمانوں نے بھی اپنی خواتین کی تنظیم کے لئے کوئی ایسا قدم اُٹھایا؟‘‘(الفضل قادیان4؍جنوری1927ءصفحہ13)
ذیلی تنظیمیں جو عوام کی نمائندہ ہیںکی حکمت بیان کرتے ہوئے حضورؓفرماتے ہیں :’’یاد رکھو اگر اصلاح جماعت کا سارا دارومدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی لمبی نہیں ہو سکتی۔ یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا کہ ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا۔ ایک حصہ غافل ہو گا اور ایک حصہ ہوشیار ہو گا۔ خداتعالیٰ نے دنیا کو گول بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوئے اور ایک حصہ جاگے…یہی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دنیا میں دکھائی دیتا ہے جو درحقیقت پر تو ہیں تقدیر اور تدبیر کے۔ کبھی عوام سوتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور کبھی نظام سوتا ہے ا ور عوام جاگتے ہیں۔اور وہ وقت بڑی بھاری کامیابی اور فتوحات کا ہوتا ہے۔ وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں۔ جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے ا ور عوام بھی بیدا ر ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لئے فتح کا زمانہ ہوتا ہے وہ اس قوم کے لئے کامیابی کا زما نہ ہوتا ہے۔ وہ اس قوم کے لئے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے۔ وہ شیر کی طرح گرجتی اور سیلاب کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر روک جو اس کے راستہ میں حائل ہوتی ہے اسے مٹا ڈالتی ہے۔ ہر عمارت جو اس کے سامنے آتی ہے اسے گرادیتی ہے۔ ہر چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف۔ اِس طرف بھی اور اُس طرف بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دنیا پراس طرح چھا جاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مگر پھر ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب نظام سو جاتا ہے اور عوام جاگتے ہیں یا عوام سو جاتے ہیں ا ور نظام جاگتا ہے اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے جب نظام بھی سو جاتا ہے اور عوام بھی سو جاتے ہیں تب آسمان سے خدا تعالیٰ کا فرشتہ اترتا ہے اور اس قوم کی روح کو قبض کر لیتا ہے۔یہ قانون ہمارے لئے بھی جاری ہے۔ جاری رہے گا اور کبھی بدل نہیں سکے گا۔ پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ہمارا نظام بھی بیدار رہے اور ہمارے عوام بھی بیدار رہیں اور درحقیقت یہ زمانہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ خدا کا مسیح ہم میں ابھی قریب ترین زمانہ میں گذرا ہے۔اس لئے اس زمانہ کے مناسب حال ہمارا نظام بھی بیدار ہو نا چاہئے اور ہمارے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں۔ مگر چونکہ دنیا میں اضمحلال اور قوتوں کا انکسار انسان کے ساتھ ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس لئے عوام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ نظام کو جگاتے رہیں اور نظام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ عوام کو جگاتا رہے۔ تاخدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی سو جائے۔ غافل ہو جائے اور اپنے فرائض کو بھول جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اس دن کو بعید کر دیں جب نظام اور عوام دونوں سو جاتے ہیں اور خدائی تقدیر موت کا فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔ پس دونوں کو اپنے اپنے فرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا کہ اگر دونوں نہ جاگیں تو کم از کم ایک تو جاگے۔ اور اس طرح وہ دن جو موت کا دن ہے ہم سے زیادہ سے زیادہ دوررہے۔‘‘(الفضل17؍نومبر1943ء)
اسیروں کی رستگاری کا موجب
آپؓ نے طبقہ نسواں کو وہ بلند مقام واپس دلایاجو انہیں رحمۃ للعالمین ﷺنے عطا فرمایا تھا ۔آپؓ کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ یہ الٰہی بشارت کئی دفعہ اور کئی رنگ میں پوری ہوئی اور ہوتی رہے گی۔اس کا ایک ظہور جہالت کے زہر کی اسیر،رسوم و رواج کے قہر کی اسیر،صنفِ مضبوط کے جبر کی اسیر، عورت کے حقوق دینے اور دلوانے کی صورت میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو خلافت کی ردا پہنائی تو آپؓ نےاپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :’’جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔‘‘(تقریر فرمودہ12؍اپریل1914ءتاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ25)
عورتوں کوعلم حاصل کرنے کی تلقین
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :’’اپنی جماعت کی عورتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی کمزوریوں کے خیال کو چھوڑ کر دینی اور دنیاوی تعلیم میں کوشش کریں۔ وہ یاد رکھیں کہ محض جوش کام نہیں آتے جب تک اس کے ساتھ علم و ہنر نہ ہو ۔میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بہتوں کے دل میں جوش ہے کہ وہ خدمتِ دین کریں مگر یہ جوش اُس وقت کام آئے گا جب علم و تربیت کے ساتھ ہو اگر تعلیم و تربیت ساتھ نہ ہو تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوگا پس اگر تم چاہتی ہو کہ کوئی کام کریں تو علم حاصل کرو اور سیکھنے کی کوشش کرو علم تمہیں وہ قابلیت عطا کرے گا کہ تم کام کرنے کے طریق سے واقف ہوجاؤگی۔‘‘(الفضل 5؍فروری 1925ء)
’’میں جانتا ہوں کہ اس وقت اسلام کے لئے سب سے زیادہ زبردست قلعہ عورتوں کے دماغوں میں بنایا جاسکتا ہے اور اس قلعہ کی تعمیر اسی صورت میں ممکن ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی سکیم پورے طور پر اپنی دینی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بنائی جائے…۔‘‘(میری سارہ،انوار العلوم جلد13صفحہ95)
’’عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشے کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آسکتا ہے لیکن اس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے۔‘‘(الازھار لذوات الخمار صفحہ 375)
’’عورتیں جماعت کا ایک ایسا حصہ ہیں کہ جب تک ان کی تعلیم و تربیت اس طرح نہ ہو بلکہ مَردوں سے زیادہ نہ ہو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی ترقی میں بہت روک رہے گی ان کی مثال اس ہیرے والے کی ہوگی جو ہیرارکھتا ہو مگر اس کے استعمال سے بے خبر ہو وہ اسے ایک گولی سمجھ کے پھینک دیتا ہے۔‘‘(مستورات سے خطاب،انوار العلوم جلد 9صفحہ22)
’’سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عورتیں مذہب سے واقف ہوں، مذہب سے اُن کا تعلق ہو، مذہب سے اُنہیں محبت ہو، مذہب سے اُنہیں پیار ہو۔ جب اُن میں یہ بات پیدا ہوجائے گی تو وہ خود بخود اس پر عمل کریں گی اور دوسری عورتوں کے لئے نمونہ بن کر دکھائیں گی اور اُن میں اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بنیں گی۔‘‘(الازھار لذوات الخمارصفحہ19)
لڑکیوں کی تعلیم پر ثواب
’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے علم کی شرط مرد اور عورت کے لیے برابر رکھی ہے۔ وہ تعلیم جو دنیا کی اغراض کے لئے حاصل کی جاتی ہے اُس کا ثواب نہیں ملتا۔ خدا تعالیٰ اُن نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے جن کا بدلہ اِس دنیا میں نہیں ملتا۔ ہاں عورتوں کے لئے تعلیم مکمل کرکے ثواب حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہے کیونکہ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دنیاوی غرض کوئی نہیں ہوتی بلکہ تعلیم کی غرض محض تعلیم ہی ہے۔ اس لئے عورتیں تعلیم حاصل کرکے ثواب حاصل کر سکتی ہیں ‘‘(خطاب فرمودہ27؍دسمبر1938ء مطبوعہ الازھار لذوات الخمار صفحہ323)
لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کا اجر
’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم روزہ رکھتے ہو تم نمازیں پڑھتے ہو لیکن اس دنیا میں کہیں اس کا بدلہ نہیں ملتا اس لئے میں آخر میں تم کو اس کا بدلہ دوں گا۔ تم اپنے لڑکوں کو تعلیم دلواتے ہو وہ پڑھ کر نوکر ہوتے ہیں تمہیں کھلاتے ہیں پہناتے ہیں تو تم نے ان کو تعلیم دلوانے کا بدلہ پا لیا لیکن جو لڑکی کی تعلیم پر تم خرچ کرتے ہو اس کا ثواب تمہیں اس دنیا میں نہیں ملتا اس لئے رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں وہ اُن کو اعلیٰ تعلیم دلواتا ہے اور ان کی اچھی تربیت کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا تو لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جنت کا وعدہ ہے مگر لڑکوں کے لئے نہیں۔‘‘(خطاب فرمودہ27؍دسمبر1938ء مطبوعہ الازھار لذوات الخمار صفحہ323)
عورتوں کی تعلیم میں خصوصی دلچسپی
حضرت مصلح موعود رضی اللہ کا ایک الہام تھا کہ’’اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی‘‘(الفضل 29؍ اپریل 1944ءصفحہ 3)
آج احمدی عورتوں کی عمومی تعلیم اوراعلیٰ تعلیم نسبتاًمردوں سے زیادہ نظر آتی ہے۔اپنے دَور خلافت میں آپؓ نے 1919ء میں گرلز سکول کی نئی عمارت بنوادی۔ آپؓ نے 1923ء میں لجنہ کے 3 جلسوں 5فروری، 11فروری اور 5 مارچ 1923ء میں 3 لیکچر دیے جن میں خواتین سے 95 علوم کا تعارف کرایا اور مذہبی اور روحانی دونوں قسم کے علوم کی باریک اقسام بھی بیان فرمائیں جس میں علم کا ن کنی ،علم جغرافیہ اور علم الرمل کا بھی ذکر فرمایا اور مقصد خواتین کے دل و نظر کو وسیع کرنا تھا۔
ربوہ کے قیام کے بعد تمام تعلیمی اداروں میں سب سے پہلے نصرت گرلز سکول ہی ربوہ میں جاری کیا اور پھر جامعہ نصرت قائم کیا گیا۔ پھر خواتین کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اخبارات اور رسائل کی اشاعت اور اس کے علاوہ جلسہ سالانہ میں خواتین کے لیے الگ سے جلسے کا انتخاب جس کا تمام انتظام لجنہ اماء اللہ ہی کے سپرد کر کے ان کی انتظامی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔علمی مجالس کی وجہ سے ان میں تقریر و تحریر کا ملکہ پیدا کرنا،تحریک جدید ،مساجد کی تعمیر اور دیگر مالی تحریکات میں خواتین کا بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ۔خواتین کو اپنے زیورات بے حد عزیز ہوا کرتے ہیں۔ یہ آپ رضی اللہ کی تربیت تھی کہ وہی خواتین اپنے قیمتی زیورات راہِ خدا میں پیش کرتی کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتی تھیں نیز جو بھی ان کے پاس ہوتا اس کی قربانی کرنا عین سعادت سمجھتی تھیں۔ روزنامہ الفضل بھی دو عظیم خواتین کی زیورات کی قربانی ہے۔ جب تک یہ اخبار شائع ہوتا رہے گااور ہم سب اس سے روحانی مائدہ حاصل کرتےرہیں گے۔ ان عظیم خواتین کی قربانی کو خراج تحسین پیش ہوتا رہے گا۔
تعلیمی معیار بلند کرنے کے لیے گھر سے جہاد عظیم کا آغاز
حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی ازواج کو تعلیم دے کر احمدی خواتین کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی خدمت پر لگادیں۔حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ کے عرصۂ حیات مختصر ہونے کی وجہ سے یہ شوق آپ کے بلند عزائم کے مطابق پورا نہ ہوسکا۔اوریہ سعادت حضرت چھوٹی آپا کے حصے میں آئی اور خوب ہی آئی۔ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور دینی تعلیم و تربیت اس پر مستزاد۔ قرآن کریم اور عربی صرف و نحو سبقاً سبقًا حضورؓ آپ کو پڑھاتے اور امتحان بھی لیتے۔آپ نےتیزی سے لکھنے پر بہت دفعہ حضور ؓکی خوشنودی حاصل کی۔تفسیر کے نوٹس لکھنا آپ کی ایک بہت بڑی سعادت تھی۔حضورؓنے1947ء کے بعد با لعموم اپنےخطوط،مضامین اور تقاریر کے نوٹس آپ ہی سے لکھوائے۔(گلہائے محبت صفحہ95)(الازھار لذوات الخماریعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھول،حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ410تا411)
بچوں کی تربیت میں عورتوں کا حصہ
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کے قیام کا ایک مقصد ایک دین دار نسل کو پروان چڑھانا بھی تھا چنانچہ اس حوالے سے آپؓ فرماتے ہیں :’’پھر جب تک عورتیں بھی مردوں کی ہم خیال نہ بن جائیں گی بچے دیندار نہیں ہو سکیں گے کیونکہ مرد ہر وقت بچوں کے ساتھ نہیں ہوتے۔بچے اکثر ماؤں کے ہی پاس رہتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ دیندار مائیں بھی بچوں کو دین سکھانے میں سستی کر جاتی ہیں۔ …بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کرو اور بچپن میں ہی اُن کو دین سکھاؤتاکہ وہ حقیقی دیندار بنیں۔‘‘(الفضل10؍جولائی1923ءصفحہ7)
’’میں احمدی ماؤںکو خصوصیت سے اِس امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں میں خدا پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہیں۔ وہ انہیں لغو، مخرب اخلاق اور بے سروپاکہانیاں سنانے کی بجائے نتیجہ خیز،مفید اور دیندار بنانے والے قصےسنائیں۔اُن کے سامنے ہرگز کوئی ایسی بات یاحرکت نہ کریں جس سے کسی بدخُلقی کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔بچہ اگر نادانی سے کوئی بات خلاف مذہب اسلام کہتا ہے یا کرتا ہے تواسے فورًا روکا جائے اور ہر وقت اس بات کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے قلب میں جا گزیں ہو۔‘‘(الفضل10؍ستمبر1913ءصفحہ11)
اولاد کے نیک کام بھی تمہاری طرف منسوب کیے جائیں گے
’’اسی طرح اگر بیوی اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرے تو وہ امام ہو گی اور اولاد ماموم اور اولاد کے نیک کام بھی تمہاری طرف منسوب کیے جائیں گے۔تم قبر میں سو رہی ہو گی مگر جب تمہارے بچے صبح کی نماز پڑھیں گے تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے صبح کی نماز پڑھی۔تم قبر میں سو رہی ہو گی اور فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے ظہر کی نمازپڑھی۔تم قبر میں سو رہی ہو گی اور فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے عصر کی نماز پڑھی۔چاروں طرف خاموشی ہو گی۔تارے جگمگا رہے ہوں گے۔ لوگ سو رہے ہوں گے۔لیکن تم نے اپنی اولاد کو تہجد کی عادت ڈالی ہو گی تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس نے تہجد کی نماز پڑھی۔کتنی عظیم الشان ترقی ہے جو تم حاصل کر سکتی ہو۔‘‘(مصباح مارچ1940ءبحوالہ اوڑھنی والیوں کے لیے پھول صفحہ336)
اخلاص و قربانی کی لازوال داستانیں رقم کرنے والی خواتین
آپؓ نے اپنی تاثیر قدسی سے احمدی مستورات میں جو انقلاب پیدا کیا ، اُن میں مالی قربانیوں کا ذکر بھی بڑی کثرت سے ملتا ہے۔2؍فروری 1923ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسجد برلن جرمنی کی تعمیر کے لیے خواتین کو مالی قربانی کی تحریک فرمائی۔ جس پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مستورات نے حیرت انگیز اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لیے حضورؓ نے 50ہزار روپیہ تین ماہ میں اکٹھا کرنے کا اعلان فرمایا۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد یہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی جس کا خالصتاً تعلق مستورات سے تھا۔ اس تحریک نے احمدی خواتین کے مطمح نظر کو یکسر اتنا بلند کر دیا کہ ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت اور للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا ہو گیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں تھی۔(الازھار لذوات الخماریعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھول،حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ116تا118)
مسجد برلن کے چندہ کے لیے لجنہ اماء اللہ کی بےمثال مالی قربانیاں
لجنہ اماء اللہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی آواز پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے بے مثال عملی نمونہ کا اظہار کیا۔احمدی مستورات نے جس جوش اور ولولے سے اس تحریک پر عملی نمونہ کا آغاز فرمایا اس کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے الفضل کے ایک مضمون میں کچھ یوں فرمایا:’’…مجھے مسجد برلن کے چندہ کے متعلق اعلان کیے ابھی ایک ماہ نہیں گزرا کہ ہماری بہنوں کے اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور بے نظیر ایثار کے سبب سے چندہ کی رقم بیس ہزار سے اوپر نکل چکی ہے ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے اور درحقیقت ہمارے پاس ایمان اور محبت باللہ و محبت بالرسل …کے متاع کے سوا کہ وہی حقیقی متاع ہے اور کوئی دنیوی متاع اور سامان نہیں ہے…‘‘(الفضل قادیان یکم مارچ 1923ءصفحہ1)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس حوالے سے لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’…برلن کی مسجد کےلیے جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں عورتوں نے چندہ جمع کیا تھا اور بڑی قربانی کرکے انہوں نے چندہ جمع کیا تھا۔لجنہ نے اس زمانہ میں ہندوستان میں یا صرف قادیان میں، زیادہ تو قادیان میں کہنا چاہیے ہوتی تھیں، تقریباً ایک لاکھ روپیہ جمع کیا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کیا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی، بڑی خطیر رقم تھی اور زیادہ تر قادیان کی غریب عورتوں کی قربانی تھی جس کا مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ کسی نے مرغی پالی ہوئی ہے تو بعض مرغی لے کے آجاتی تھیں۔ کوئی انڈے بیچنے والی ہے تو انڈے لے کر آگئی۔ کسی کے گھر میں بکری ہے تو وہ بکری لے کر آگئی۔ کسی کے گھر میں کچھ نہیں ہے تو گھر کے جو برتن تھے تو وہی لے کر آگئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک دفعہ تحریک جو کی تھی میرا خیال ہے کہ یہی تحریک تھی۔ فرماتے ہیں کہ مَیں نے جو تحریک کی تو عورتوں میں اس قدر جوش تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ سب کچھ گھر کا سامان جو ہے وہ دے دیں۔ایک عورت نے اپنا سارا زیور جو تھا سارا چندے میں دے دیا۔اور گھر آئی اور کہنے لگی کہ اب میرا دل چاہتا ہے کہ(غریب سی عورت تھی معمولی زیور تھا)کہ اب مَیں گھر کے برتن بھی دے آؤں۔اس کے خاوند نے کہا کہ تمہارا جو زیور تم نے دے دیا ہے کافی ہے۔ تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس وقت میرا اتنا جوش ہے کہ میرا اگر بس چلے تو تمہیں بھی بیچ کے دے آؤں۔ تو گو کہ جواب صحیح نہیں ہے لیکن یہ اس جوش کو ظاہر کرتا ہے جو قربانی کے لیے عورتوں میں تھا۔ حیرت ہوتی تھی اس وقت کی عورتوں کی قربانی دیکھ کر اور آج کل جو آپ اُس وقت کے حالات کے مقابلے میں بہت بہتر حالات میں ہیں تو کہنا چاہیے انتہائی امیرانہ حالت میں رہ رہے ہیں۔ فرق بڑا واضح نظر آتا ہے۔ آپ لوگ آج شاید وہ معیار پیش نہ کر سکیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جو ان لوگوں نے کیے تھے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ دسمبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 19؍جنوری 2007ء صفحہ 5)
نیز ایک اَورموقع پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے فرمایا:’’اُس وقت احمدی عورتوں نے نقد رقمیں اور طلائی زیورات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کیے۔ پہلے دن ہی 8ہزار روپے نقد اور وعدوں کی صورت میں قادیان کی احمدی عورتوں نے یہ وعدہ پیش کیا اور یہ رقم ادا کی اور 2ماہ کے تھوڑے سے عرصہ میں 45ہزار روپے کے وعدے ہو گئے اور 20ہزار روپے کی رقم بھی وصول ہو گئی۔ پھر کیونکہ اخراجات کا زیادہ امکان پیدا ہو گیا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کی مدت بھی بڑھا دی اور ٹارگٹ بڑھا کے 70ہزار روپے کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورتوں نے اس وقت 72 ہزار 700کے قریب رقم جمع کی۔…‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍ اکتوبر 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍نومبر 2008ءصفحہ6)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یکم مارچ 1923ء کو الفضل میں ایک مضمون ’’مسجد برلن۔ مخلص بہنوں کے اخلاص کا نمونہ‘‘ میں احمدی خواتین کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے فرمایا:’’قادیان سے باہر چندوں میں سب سے اول نمبر پر کپتان عبدالکریم صاحب سابق کمانڈر انچیف ریاست خیرپور کی اہلیہ کا چندہ ہےجنہوں نے اپنا کل زیور اور اعلیٰ قیمتی کپڑےقیمتی ڈیڑھ ہزار روپیہ فی سبیل اللہ دےکے ایک نیک مثال قائم کی ، دوسری مثال اسی قسم کے اخلاص کی چودھری محمد حسین صاحب صدر قانون گو سیالکوٹ کے خاندان کی ہے۔ان کی بیوی، بھاوج، بہو نے اپنے زیورات قریباً سب کے سب اس چندہ میں دے دیے جن کی قیمت اندازاً دو ہزار روپیہ تک پہنچتی ہے۔‘‘(الفضل قادیان یکم مارچ 1923ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک نہایت غریب وضعیف بیوہ جو پٹھان مہاجر تھیں اور سوٹی سے بمشکل چل سکتی تھیں ، خود چل کر آئیں اور حضورؓ کی خدمت میں دو سو روپے پیش کر دیے۔یہ عورت بہت غریب تھی۔اس نے دوچار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھیں ،باقی دفتر کی امداد پر گزارا چلتا تھا۔اسی طرح ایک پنجابی بیوہ جس کی واحد پونجی صرف ایک زیور تھا وہی اُس نے مسجد کے لیے دےدیا۔ایک بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور یا نقدی کچھ بھی اُس کے پاس نہ تھا، اس نے استعمال کے برتن چندے میں دےدیے۔قربانی کا ایک جوش تھا، ایک جذبہ تھا جس کے تحت انہوں نے یہ مالی قربانی کی۔ایک بہاولپورکے دوست تھے۔اُن کی بیوی کے پاس دو بکریاں تھیں وہ بکریاں لے کر چندے میں دینے کے لیے آگئی۔(ماخوذ از الحکم 21؍فروری 1923ء صفحہ 7)
چندے کی وصولی کے لیے لجنہ اماء اللہ کی قلمی خدمات
اس مسجد کی تعمیرکے لیے رقم وصول کرنے کی خاطر لجنہ اماءاللہ کی بعض ممبرات نے مضامین بھی لکھے۔ چنانچہ اس کاذکر لجنہ اماءاللہ کی تاریخ میں اس طرح ملتاہے:’’مسجد برلن کی تحریک کو بہنوں میں وسیع تر کرنے کے لیے اس زمانہ کی بعض خواتین نے بھی قلم اٹھایا چنانچہ الفضل میں اہلیہ صاحبہ منشی کظیم الرحمٰن، مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور استانی سکینۃ النساء صاحبہ کے مضامین شائع ہوئے۔ یہ مضامین اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ گو یہ وہ زمانہ تھا جب کہ قادیان میں عورتوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی لڑکیوں کے مدرسے ابھی پرائمری تک ہی تھے پھر بھی اس زمانہ کی خواتین میں چند کا مضمون نگار بن جانا اس عظیم الشان انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے جس انقلاب کے برپا کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تھے۔‘‘(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 101تا102)
(جاری ہے)