امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ نیوزی لینڈکی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 6؍فروری 2022ء کو نیشنل مجلس عاملہ نیوزی لینڈ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ ممبران نیشنل مجلس عاملہ، جن میں مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصار اللہ کے نمائندے بھی شامل تھے، نے اس آن لائن ملاقات میں مسجد بیت المقیت Auckland (نیوزی لینڈ) سے شرکت کی۔
80 منٹ پر مشتمل اس ملاقات میں جملہ حاضرین مجلس کو حضور انور سے گفتگو کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہر ممبر کو اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرکے حضور انور سے راہنمائی اور ہدایات حاصل کرنے کا موقع ملا۔
صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کو تعداد کم ہونے کی وجہ سے مثالی مجلس بننے کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی مجلس ایک ideal مجلس ہے، کیونکہ ہر ایک خادم تک آسانی سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
ایک دوست مکرم محمد یٰسین چودھری صاحب نے بتایا کہ انہیں بطور نیشنل سیکرٹری وقف نو، نیشنل سیکرٹری تربیت اور قائد تربیت اور نائب صدر انصار اللہ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے ہاں قحط الرجال ہے جو صرف ایک آدمی کو تین تین پوزیشنیں دے دیتے ہیں۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ نیوزی لینڈ میں وقف نو کتنے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وقف نو 140 ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ان کو encourageکریں تاکہ ان میں سے کچھ جامعہ میں جانے والے بھی ہوں اور ڈاکٹر بنیں۔ سیکرٹری صاحب وقف نو نے بتایا کہ ایک واقف نو میڈیکل لائن میں ہے اور ایک جامعہ احمدیہ کینیڈا میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ چلیں ہر سال ایک بچہ تو جامعہ میںبھیجا کریں ۔ نیز فرمایا کہ یہ جو مشنری بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے، انہوں نے ساری عمر تو نہیں رہنا آپ کے پاس بیٹھا۔ نیوزی لینڈ کو اپنے آپ کوخود سنبھالنا پڑے گا ۔
پھر نیشنل سیکرٹری امور عامہ اور معتمدمجلس خدام الاحمدیہ سے حضور انور نے استفسار فرمایا کہ سیکرٹری امورعامہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ ہیلتھ اور سیفٹی کا ایک پورٹ فولیو ہے۔ اس کے علاوہ dispute resolutionہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ نیوزی لینڈ میں تو ابھی چھوٹی سی جماعت ہے انہوں نے کیا لڑنا ہے ۔ آپس میں لڑ کے خود ہی صلح کر لیتے ہوں گے۔
سیکرٹری صاحب نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ تجنید کی تصدیق مرکز ارسال کرنا ہے، اسی طرح نوکریوں کے حوالہ سے جو نیوزی لینڈ میں مواقع ہیں ان کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اب آئے ہیں کام پہ۔ احمدیوں کو jobs تلاش کروا کے دینا اور جو نئے یہاں سیٹل ہونے کے لیے آئے ہیں، اسائلم سیکر آئے ہیں ان کو بھی گائیڈ کرنا اس کے لیے آپ کو ایک کونسلنگ(counselling) ڈیسک بنانا چاہیے جو نئے آنے والوں کو بتائیں کہ ان کی کوالیفکیشن کے مطابق ان کی تعلیم کے مطابق یا جو تعلیم نہیں رکھتے ان کو کہاں کہاں جاب مل سکتے ہیں، کیا کیا opportunitiesہیں جہاں وہ بہتر جاب کر سکتے ہیں اور پھر یہ ہے کہ جو کم پڑھے لکھے ہیں وہ کس طرح اپنے آپ کو یہاں کی تعلیم کے مطابق updateکریں جو جوان ہیں تا کہ ان کو بہتر جاب مل سکے اور پھر یہ ہے کہ کس قسم کی تجارت میں، بزنس میں تھوڑے پیسوں سے آپ ان کو لگا سکتے ہیں تا کہ وہ آہستہ آہستہ establish ہو جائیں اور پھر اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو جائیں۔ صرف مزدوریاں کرنے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ تو اس طرح establishکریں کہ جماعت ممبراپنے پاؤں پہ کھڑے ہوں اور یہ ساری informationکہ نیوزی لینڈ میں کس قسم کا بزنس چلتا ہے ،کس قسم کی فارمنگ ہے کس قسم کے دوسرے جاب opportunitiesہیں اور کہاں کہاں بہتر جاب مل کے بہتر کمائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ کس بزنس میں جائیں ۔ تھوڑے پیسے سے شروع کر کے کس طرح ہم زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔ اگر فارم لینڈ پہ جا کر کام کریں تو کہیں مل سکتی ہے کہ نہیں مل سکتی۔ تو یہ چیزیں، ساری انفارمیشن اکٹھا کرنا امور عامہ کا کام ہے۔
ایک دوست نے جو کافی عرصہ سے اپنے شعبہ میں خدمت بجا لا رہے ہیں دریافت کیا کہ وہ کس طرح motivated رہ سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ہمیشہ یہی سوچیں کہ آپ ابھی جوان ہیں۔
حضور انور نے مہتمم صاحب صحت جسمانی سے دریافت فرمایا کہ وہ کونسی گیم کھیلتے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ ہفتہ میں ایک دن کرکٹ اور والی بال کھیلتے ہیں ۔ نیز مہینے میں ایک یا دو بار آپس میں میچ ہوتا ہے۔حضور انور نے فرمایا کہ کیامہینے میں چار دن ورزش کرنے سےصحت اچھی ہو جائے گی؟ روزانہ exerciseکرنی چاہیے۔
مہتمم صاحب اطفال کو مخاطب ہو کر حضور انور نے فرمایا کہ لڑکے زیادہ شرارتیں تو نہیں کرتے؟ انہوں نے بتایا کہ نہیں حضور۔ کافی ٹھیک ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اچھا۔ چلو پھر، بچوں کا صحیح طرح خیال رکھاکریں ۔
سیکرٹری صاحب اشاعت کو حضور انور نے توجہ دلائی کہ مستقل میگزین اور کتب شائع کریں۔ حضور انور نے خاص طور پر ذکر فرمایا کہ Maori زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنےکے بعد اب انہیں اس زبان میں مزید لٹریچر بھی شائع کرنا چاہیے تاکہ اس کے ذریعہ زیادہ لوگ حقیقی اسلام کی تعلیمات سے آگاہ ہوسکیں ۔
حضور انور نے توجہ دلائی کہ جملہ ممبران عاملہ کو وقف عارضی کی سکیم میں حصہ لینا چاہیے اور دو ہفتے کا وقت قرآن کریم سکھانے اور دیگر دینی پروگرامزکے لئے وقف کرنا چاہیے۔
پریس اینڈ میڈیا ڈیپارٹمنٹ کو ہدایات سے نوازتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو لکھنے والوںکی ایک ٹیم بنانی چاہیے، جو اخباروں میں لکھ سکتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی۔ یہ ٹیم تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہو نی چاہیے۔ کوشش کرکے اس کے دینی علم کو بھی بڑھائیں۔ مربیا ن سے مددلے کر انہیں ٹریننگ دیں اور پھر وہ اپنا کردار صرف پریس اینڈ میڈیا ٹیم کے ممبر کے طور پر ہی نہیں بلکہ بطور مبلغ کے بھی ادا کریں۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے مکرم مربی صاحب کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ جماعت کا کوئی رسالہ جاری کروائیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور اصل میں ’’پیغام امن ‘‘ کے نام سے رسالہ چل رہا تھا اور newsletterبھی نکل رہا تھا لیکن گذشتہ سال ڈیڑھ سے بند ہے۔ محترم مربی صاحب نے یہ بھی عرض کیا کہ سیکرٹری صاحب گذشتہ کچھ سالوں کے دوران جماعت کے آن لائن چندے کا سسٹم ترتیب دینے میں کافی مصروف رہے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ کیوں؟ آپ لوگوں کی پچھلے سال سے بہت زیادہ تربیت ہو گئی ہے کہ ضرورت نہیں پڑی۔ فرمایا چندہ لے لینا تو کوئی کام نہیں ہے تربیت بھی کام ہے۔
ملاقات کے اختتام پر حضورانور نے فرمایا کہ چلو پھر اللہ حافظ ہو۔ بوڑھوں بیچاروں کو نیند بھی آ رہی ہو گی اور کھلایا بھی آپ نے سنیک ہیں بھوک بھی لگ گئی ہو گی بیٹھے بیٹھے۔
٭…٭…٭