فضائل القرآن (3) (قسط نمبر 14)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حفاظت قرآن کے ذرائع
پھر وہ ذریعہ جو اس کے محفوظ رکھنے کا ہے وہ بھی بتایا۔ سورۃ حجر میں جب فرمایا کہ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ وَقُرۡاٰنٍ مُّبِیۡنٍ (الحجر: 2)یہ کامل کتاب کی آیات ہیں ایسی کتاب کی جو مبین ہے یعنی تمام حقائق کو ظاہر کرنے والی ہے۔ تو چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کے متعلق یہ فرمایا تھا یہ کامل کتاب ہے اور اس سے یہ مفہوم نکلتا تھا کہ یہ محفوظ رہے گی اس لئے کفار نے اعتراض کیا کہ لَوۡ مَا تَاۡتِیۡنَا بِالۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (الحجر: 8)اگر یہ کتاب محفوظ رکھی جائے گی تو پھر اس کے محفوظ رکھنے کے ذرائع کیوں نہیں بتائے گئے۔ چاہئے تھا کہ فرشتے اس کے ساتھ اترتے۔ یہ ان کے نقطہ نگاہ سے معقول اعتراض تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا مَا نُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَمَا کَانُوۡۤا اِذًا مُّنۡظَرِیۡنَ (الحجر: 9)فرشتے تو پیغامبر ہوتے ہیں یا عذاب کی خبریں لاتے ہیں یا بشارت کی۔ فرشتوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے کلام کی حفاظت کر سکیں۔ فرشتوں کو تو کامل علم نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ مطالب کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ حفاظت تو سوائے ہماری ذات کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ سو ہم بتاتے ہیں کہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر: 10)ہم اس کی حفاظت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اب تم اور آئندہ کفار زور لگا کر دیکھ لو۔ تم کچھ نہیں کر سکتے۔ اور آئندہ بھی کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔
پھر فرمایا وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ شِیَعِ الۡاَوَّلِیۡنَ۔ وَمَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔ کَذٰلِکَ نَسۡلُکُہٗ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ۔ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَقَدۡ خَلَتۡ سُنَّۃُ الۡاَوَّلِیۡنَ (الحجر: 11 تا 14)یعنی ہنسی اور انکار تو پہلے انبیاء کا بھی ہوتا چلا آیا ہے۔ لیکن پہلے انبیاء تو اس کتاب کے متعلق جو ان پر نازل ہوتی تھی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی۔ پھر لوگ ان سے کیوں ہنسی کرتے رہے۔ ان لوگوں کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ اعتراض کریں۔ ورنہ جو کچھ یہ کہتے ہیں قطعاً معقول بات نہیں ہے۔ یہ تو صرف جرم کا نتیجہ ہے جو ہر زمانہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔
اب رہا اس کے محفوظ ہونے کا ثبوت۔ سو اس کے متعلق فرماتا ہے۔ وَلَوۡ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوۡا فِیۡہِ یَعۡرُجُوۡنَ۔ لَقَالُوۡۤا اِنَّمَا سُکِّرَتۡ اَبۡصَارُنَا بَلۡ نَحۡنُ قَوۡمٌ مَّسۡحُوۡرُوۡنَ۔ وَلَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ۔ وَحَفِظۡنٰہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ۔ اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیۡنٌ (الحجر: 15تا 19) فرمایا۔یہ بےوقوف لوگ اپنی ناواقفی سے کہتے ہیں کہ قرآن بھی لفظوں میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔ جب ایسی ہی اور کتابیں بگڑ گئیں تو یہ کیوں نہیں بگڑ سکتی۔ انہیں آسمانی سامان نظر نہیں آتے۔ اگر ہم آسمانی دروازوں میں سے ایک بھی ان کے لئے کھولتے اور یہ آسمان پر چڑھ جاتے۔ یعنی ان سامانوں سے آگاہ ہوتے جو اس کتاب کی حفاظت کے لئے کئے گئے ہیں تو یہ ایسی بے ہودہ بات نہ کرتے۔ ایک راہ بھی اگر انہیں نظر آتی تو حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ہماری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں اور ہم کچھ دیکھ نہیں سکتے جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ پس معلوم ہوا کہ ہم نابینا ہو گئے ہیں اور یہ خواب ہے یا ہم پر اس شخص نے کوئی جادو کر دیا ہے کہ اس کلام کی پشت پر اس قدر سامان ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک سامان کا ذکر بھی کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ ان سامانوں میں سے ایک یہ سامان ہے کہ وَلَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ۔ ہم نے اس کلام کے آسمان میں روشن ستارے بنائے ہیں۔ یا یہ کہ ہم نے آسمان میں کچھ ستارے مقدر کر چھوڑے ہیں جو اس کے محافظ ہیں۔ اور ہم نے اس کے آسمان کو ستاروں سے خوبصورت بنایا ہے۔ یعنی کثرت سے ستارے ہیں نہ کہ کوئی کوئی۔ وَحَفِظۡنٰہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان رجیم سے جو اسے بگاڑنا چاہتا ہے ان ستاروں کے ذریعہ سے محفوظ کر دیاہے۔ پس اب اس کلام کو کوئی شریر چھو نہیں سکتا۔ اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیۡنٌ۔ ہاں دور سے اس کی باتیں سن کر مطلب بگاڑنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ جیسے عیسائی کرتے ہیں۔ مگر جو دور سے سن کر باتیں بنانے والے ہوںگے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ ان کے لئے بھی ہم ایسا شہاب مقرر کر دیں گے جو ان کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا۔ یعنی ہم نے ایسے آدمی رکھے ہیں کہ جب کوئی قرآن کی کسی آیت کاغلط مفہوم بیان کرے گا تو وہ ایک شہاب بن کر اسے تباہ کر دیں گے۔
یہ وہ ذریعہ ہے جو قرآن کی حفاظت کےلئے اختیار کیا گیا ہے۔ زَیَّنّٰہَا میں بتایا ہے کہ ہم نے روشنی کا جو سامان بنایا ہے وہ ایک آدھ نہیں بلکہ کثرت سے ہے اور مُبِیۡنٌ۔ میں یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ شہاب سے مراد ٹوٹنے والے تارے نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی شہاب ہوگا جو قرآن کے مطالب کھول کر بیان کر دے گا۔
اس آیت میں بتایا کہ اس آسمان کو کوئی شیطان چھو نہیں سکتا۔ دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے کہ لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ(الواقعہ: 80) یعنی اس کو وہی لوگ چھو سکتے جو مطہر اور خادم دین ہوں۔ دوسرے لوگ جو گندے ارادوں سے اور بگاڑنے کی نیت سے اس کو چھونا چاہیں نہیں چھو سکتے۔ پس یہ قرآن ہی کے متعلق ہے۔ کہ شیطان اسے چھو نہیں سکتا۔ ورنہ آسمان کو اگر شیطان نہیں چھو سکتا۔ تو کیا مومن چھو سکتا ہے؟ مگر اس آسمان کو صرف شیطان نہیں چھو سکتا اور مومن چھو سکتا ہے۔ پس یہ قرآن ہی ہے جسے مومن چھو سکتا ہے۔
ایک اور جگہ بھی اس کی تشریح آئی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن سن کر جب کچھ جنات واپس گئے۔ تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّشُہُبًا۔ وَّاَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا (الجن: 9تا10)یعنی پہلے تو آسمان کو ہم چھو لیا کرتے تھے۔ لیکن اب جو گئے تو دیکھا کہ اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے پہرہ دار بیٹھے ہیں۔ اور آسمان کو ہم نے َشُہُبسے بھرا ہوا پایا پھر پہلے تو ہم آسمان میں بیٹھ بیٹھ کر باتیں سنا کرتے تھے۔ لیکن اب کوئی سننے کے لئے جاتا ہے تو اسے پتھر پڑتے ہیں۔
اس سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ تو جو ہے۔ اور ایسی چیز نہیں جس میں کوئی بیٹھ سکے۔ اور اگر فرض کر لو کہ کوئی بیٹھ سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تو شیطان آسمان پر بیٹھا کرتے تھے۔ مگر پھر نہ بیٹھے۔ حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ارواحِ کافرہ بھی آسمان پر نہیں جا سکتیں۔ پھر ہم کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جب شیطان اوپر بیٹھتا تھا تو اب کیوں نہیں بیٹھتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے غیب کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی۔ پھر وہ کون تھے جو خدا تعالیٰ کا غیب سن کر زمین پر آجایا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن صاف طور پر ان معنوں کو رد کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ نہ آسمان پر کوئی جا سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو غیب معلوم ہو سکتا ہے۔ پھر ان معنوں کے لحاظ سے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو بھی علم غیب نہیں تھا کیونکہ ایسی ہستیاں آسمان پر جا کر بیٹھتی تھیں جو غیب کی باتیں سن لیتی تھیں مگر خدا تعالیٰ کو ان کے بیٹھنے کا پتہ نہیں لگتا تھا۔ اب اس نے پتہ لگانے کے لئے پہرہ دار مقرر کر دیئے ہیں۔
دراصل ان آیات کے یہ معنے ہیں کہ آسمانِ روحانیت سے آنے والی پہلی کتابیں ایسی تھیں کہ جنہیں مخالف چھو سکتے یعنی انہیں بگاڑ دیتے تھے۔ اور ان میں تبدیلیاں کر لیا کرتے تھے لیکن اب جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے کوئی چھو نہیں سکتا۔ یعنی اسے کوئی بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی حفاظت کا خاص سامان کیا گیا ہے۔ اور پہلے تو ہم لوگ یعنی ہم میں سے بعض لوگ کلام کو سن کر جس طرح چاہتے تھے توڑ مروڑ کر بات سنا دیا کرتے تھے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے اور جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ کوئی بگاڑنے والا اسے چھو نہیں سکتا۔ بلکہ اگر کوئی بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو فوراً اس پر ایک شعلہ مارتا ہوا ستارہ آ گرے گا۔ گویا لَمَسْتو بالکل بند ہے لیکن سَمْعَ ہو سکتا ہے۔ مگر اس میں بھی یہ انتظام ہے کہ جو جھوٹ ملا کر بات کرے اور بدنیتی سے سنے اس کی فوراً تردید ہو جاتی ہے۔
غرض قرآن کریم کی ایسی کامل حفاظت کر دی گئی ہے کہ اسے لفظاً بھی کوئی شخص بگاڑ نہیں سکتا۔ اور مفہوم بگاڑنے والوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان رکھے ہیں کہ ان سے اس بگاڑ کی اصلاح ہوتی رہے گی۔
شاید کوئی خیال کرے کہ اس جگہ تو آسمان کا لفظ ہے۔ پس آسمان کو چھونا ہی مراد ہو سکتا ہے نہ کہ کسی اور چیز کو۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ
(1)وہ آسمان جس سے کلام نازل ہوتا ہے یہ مادی آسمان نہیں ہو سکتا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو مادی ماننا پڑے گا۔ پھر یہ آسمان تو مادہ لطیف ہے کوئی ٹھوس چیز تو نہیں جس کو چھونے اور بیٹھنے کا کچھ مطلب ہو۔ پس آسمان جس سے کلام اترا ہے اس کے معنے کچھ اور ہی کرنے پڑیں گے۔
(2)عربی زبان کے محاورہ کے رو سے سبب اور مقام کے لفظ کو استعارۃً سبب اور مقام سے نکلی ہوئی چیز کے لئے بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ چنانچہ یہی سماء کا لفظ بارش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بارش چونکہ اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اسے بھی سماء کہہ دیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَاَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ عَلَیۡہِمۡ مِّدۡرَارًا(الانعام: 7)ہم نے ان پر بادلوں کو موسلادھار بارش برساتے ہوئے بھیجا۔ اسی طرح سبزی ترکاری کو بھی سماء کہتے ہیں کیونکہ وہ پانی سے پیدا ہوتی ہے۔ کہتے ہیں۔ مَا زِلْنَا نَطَاُ السَّمَٓاءَ حَتّٰی اَتَیْنَاکُمْ ہم سماء یعنی سبزی کو کچلتے ہوئے تمہارے گھر تک آئے۔ پس اس جگہ سماءسے مراد آسمانی کتاب ہے۔ ورنہ یہ کہنا بے جا ہوگا کہ ہم پہلے وہاں بیٹھ کر سنا کرتے تھے اب ایسا نہیں کر سکتے۔ پہلے کیوں سنتے تھے اور اب کیوں نہیں سنتے۔ ہمیں کوئی ایسا سماء نکالنا پڑے گا جسے پہلے چھو لیا کرتے تھے اور اب نہیں چھو سکتے۔ سو اس کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماء آسمانی کتابوں کا ہے کہ پہلے لوگ ان کو بگاڑ لیتے تھے۔ چنانچہ سورۃ بینۃمیں آتا ہے۔ لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَالۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ الۡبَیِّنَۃُ۔ رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً۔ فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینة: 2تا4)فرمایا یہ اہل کتاب اور مشرکین اپنی جہالت کو کبھی چھوڑ نہ سکتے تھے جب تک کہ ان کے پاس ایک بینہ نہ آ جاتی۔ بینہ کیا ہے وہ خدا کا رسول ہے جو ان پر کئی پاکیزہ صحیفوں والی کتاب پڑھتا ہے۔ کئی ایسی تعلیمیں تھیں جو بگڑ گئی تھیں۔ قرآن کریم میں ان کو اصل حالت میں پیش کیا گیا ہے۔ پس چونکہ اب اس میں کتب قیمہ جمع ہو گئی ہیں اس لئے اب یہ کتاب نہیں بگڑ سکتی۔
قرآن کے متعلق فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کہہ کر بتایا کہ پہلی تعلیموں میں دو قسم کی خرابیاں تھیں۔ ایک وہ خرابی جس کی اصلاح کی ضرورت بوجہ نسخ نہ رہی تھی اسے چھوڑ دیا۔ دوسری وہ خرابی جو ایسی تعلیم میں تھی جو قائم رہنی تھی سو اسے دور کر کے اخذ کر لیا۔ غرض اگر تو کوئی ایسی تعلیم بگڑ گئی تھی جس کی دنیا کو اب ضرورت نہ تھی تو اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور اگر اس تعلیم میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جو قائم رہنی چاہئے تھی تو اس خرابی کو دور کر کے صحیح تعلیم کو اخذ کر لیا گیا ہے۔(جاری ہے)